مست توکلی کون تھا ؟ مجھے شاہ محمد مری کی کتاب ” مستیں توکلی ” سے پہلے صرف ایک اچٹتی سی واقفیت تھی اس کے حوالے سے۔ لیکن اس کتاب نے مست اور سمو کے لافانی عشق، اس عشق کی کسی وجود میں حشر سامانیاں، شا دمانیاں، بربادیاں اور ان سے نمو پانے والی شاعری نے کسی الگ اور انوکھے احساس سے متعارف کرایا۔ وہی احساس جس کے لیے شاہ محمد مری نے کہا ہے ،” میں ان پچیس سالوں میں مست پر لکھتے ہوئے ہر لمحہ تڑپا ہوں ، ہر صفحہ کو لکھتے وقت ڈوبتا رہا ہوں ، دل کا ڈوبنا جانتے ہیں نا آپ ؟”
اس کتاب کو پڑھتے ہوئے میرا بھی دل نہ جانے کتنی بار ڈوبا ۔ مستیں توکلی اور سمو کی محبت کے گیت گنگناتی بلوچستان کی فضا ئیں محبت کی روایات کی یوں پا سداری کررہی ہیں برسہا برس سے جیسے ان کا سب سے بڑا خزانہ یہی ہو۔چا ندنی راتوں میں مست توکلی گھروں کے بڑے بڑے سے چو باروں میں کہیں سے آنکلتا ہے جیسے اور اس کے کلا م کے جام پہ جام پئے جا تے ہیں، اتنے جام کہ جب تک اس کلا م کے نشہ سے دھت نہ ہو جا ئیں جی نہیں بھرتا محفل میں موجود افراد کا ۔سفید پگڑیوں کے ہر پیچ میں اسی محبت کے پیچ و خم ہیں جو مست توکلی انہیں تحفہ میں دے گیا ہے ۔ گھروں میں مست توکلی کے گیت بزرگ اک عالم جذب میں یوں گا تے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے بچے بغیر بتا ئے بھی محبت کے حقیقی روپ کو پہچا ن لیتے ہیں ۔
شاہ محمد مری کو بھی ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی مست توکلی نےڈ گریوں میں لپیٹ کے دیے جا نے والے ہوش و خرد سے بیگانہ کردیا ۔ یہ وہ نشہ تھا جو آج تک شا ہ کے وجود کا حصہ ہے اورآج تک اتر نہ پایا لہٰذا وہ اپنی کتاب “مستیں توکلی” میں اپنے بارے میں لکھتے ہیں “یہ بلوچستان کے مری قبا ئلی علا قہ میں بسا دور افتادہ گا ؤں ‘ما وند ‘ ہے ۔ اس کے موسم گرما کی چاندنی سے راتیں نہائی ہوتی ہیں ۔ اسی چاندنی راتوں میں اکثر ایک گھر کے آنگن میں توکلی مست کا نغمہ گونجا کرتا تھا ۔ ایک باپ تھا جو اپنے خوش قسمت بچوں کو اس دھرتی کے عظیم فلسفی شاعر توکلی کا کلام گاکر سناتا تھا ۔ کیا اس وقت وہ اس بات سے آشنا تھا کہ مست کا کلام ان بچوں کے لیے فقط ایک میٹھی لوری ہی نہیں رہے گا ؟ کیا وہ یہی چا ہتا تھا جو بعد میں ہوا ؟ ان میں سے ایک بچہ اپنے دل میں اس شا عری کا ایک ایک حرف ، ا س کی تمام تر گہرائیوں کے سا تھ رقم کرتا جا رہا تھا ۔ سو چتا ہوں کہ روایتی ڈگری والے تہذیبی شعور کے تعلق کو بہت بڑھا چڑھا کے پیش کیا جاتا رہا ہے۔” گویا مست کی شا عری سموکے ذریعہ فلسفہ محبت کی حقیقت بیان کرتی ہے ۔ محبت جسم کے طواف سے الگ طریقت ہے، آگہی ہے ، وجدان ہے ، عشق کا وہ وجدان جس کے لیے میر نے کہا،”عشق بن یہ ادب نہیں آتا” مست کی محبت ہر قسم کی تفریق اور ہر بندش سے آزاد ہے بس ایک “اس” کا خیال اس کی کل کا ئنا ت ہے ۔ مگر یہ دوسو سال پہلے کا مستیں توکلی کون تھا ؟ اس کی سموکون تھی؟ اس کی فکر کیا تھی ؟اس نے تہذیبی شعور کی کیسے آبیاری کی؟
میں نے بھی اکثر سوچا تھا ، اور شا ید آپ بھی سو چ رہے ہوں ۔ سمو مست کی محبوبہ تھی ، ایسی محبوبہ جس کے لیے وہ لکھتا ہے کہ تیری دیوانگی میں صحرا صحرا گھوم کے میرے تلوے اونٹ کے پیر جیسے ہو گئے ہیں ۔ اس کی تفصیلا ت تو شاہ محمد مری کی کتاب “مستیں توکلی” میں ملیں گیں لیکن میں مختصر اً مست اور سمو کے حوالے سے ایک متنی حوالہ پیش کرتی ہوں یہاں شا ہ محمد مری کے مطابق مست توکلی دوسو برس قبل کے بلوچ سماج کاوہ شاعر ، فلسفی اور دانش ور تھا جو دنیا وی لحاظ سے ان پڑھ تھا ۔ اس نے انسا ن کو، محبت کو ، زند گی کو ان سب سے وابستہ فلسفے کو کتابوں سے سیکھنے کے بجا ئے اپنے تجربات سے سیکھا اور اپنی محبت میں سمجھااور پڑھا ۔ مست اس وقت کے خستہ حال بلوچ سماج کا ایک فرد تھا ، بلوچ قبائل کھیتی باڑی اور مویشی بانی کرتے تھے جو خاندان کی کفالت کے لیے اکثر ناکا فی ہوتی لہٰذا بلوچ قبائل اکثر ایک دوسرے پر حملہ کرکے مال غنیمت سے اپنی ضروریات پوری کرتے ۔مست توکلی نے ہوش سنبھالا تو اس قبائلی وحشت کے درمیان گھر ا پایا خود کو۔ اس دکھ ، اس وحشت اس افرا تفری کو اس نے دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا ۔ مستیں جنگجو نہیں تھا۔ خون بہانا اور خوں بہا لینا اس کی فکری روایات کے
خلاف تھا۔ اس کے پا س تو صرف دو ہتھیار تھے ایک “محبت” اور دوسرا “شا عری”- لہٰذا اس نے اپنی شا عری کی تلوار پر سان دھر ی اور مصروف جنگ ہو گیا ان جنگوں کے خلاف۔
اس تلوار پر اس نے محبت کی سان دھری تھی ایسی سان کہ اس کا ہر وار کاری تھا -وہ نفرتوں کو کو کاٹتا اور زخموں کو محبت کے گز سے لپیٹ کے ان کو شفایاب کرنے میں عمر بھر مصروف رہا ۔مستیں کا پیغام محبت تھا اور اس محبت کے پرچم کو اس نے سمو کے نام سے آراستہ کیا ۔ سمو اس کی فکر کے پرچم کاچاند تھی وہ اس کاسبز رنگ تھی ، سمو محبت کا ، استقامت کا ، قربانی کا ، حق کا استعارہ تھی ۔ حق پر مجھے شاہ محمد مری کی زبانی سنی ہوئی ایک داستان یاد آئی، وہ سناتی چلوں ۔
مستیں کے تعلق سے میں کچھ سوالات کررہی تھی۔ ان سے تو انہوں نے بتا یا “مستیں توکلی کےگا ؤں سے سو میل کے فاصلے پر ایک بستی تھی جس کے افراد گو بلوچی زبان نہیں بولتے تھے لیکن مست کی کرامات کے قا ئل تھے انہوں نے مست سے اس فیصلہ میں شرکت کی درخواست کی جس پر دو بھائیوں میں نا اتفا قی چل رہی تھی کہ زمیں کس کے نام ہو اور قرعہ اندازی کے ذرِیعہ اس کا فیصلہ ہونا تھا ۔ مست نے یہ درخواست قبول کرلی ۔ جب قرعہ اندازی کے وقت دو پرچی ناموں کی ڈالی جانے لگی تو مست نے سوال کیا” دو پرچی کیوں ڈال رہے ہو ؟” وہ لوگ حیران ہوئے کہ فیصلہ دو بھائیوں کا ہونا ہے تو یہ کیسا سوال ہے ۔ تب مست نے کہا سمو کے نام کی پرچی کہاں ہے اس کا ونڈ ادا کرنا ضروری ہے ۔ دراصل ونڈ Wand کے معنی حق کے ہیں، بلوچی زبان میں اور مست ہر بٹوارے ، ہر زمین ، ہر جا گیر ، ہر فصل میں پہلے عورتوں کا حق نکالنے کا قا ئل تھا ۔ شاہ محمد مری کی قائم کردہ خواتیں کی بہبود کی تنظیم
“سمو راج ونڈ موومنٹ ” میں ونڈ کا لفظ مست کے خواب کی تعبیر ہے ۔
بات مست کی شا عری کے حوالے سے ہو رہی تھی۔ یہ چھوٹی سی مثال گو جملئہ معترضہ جیسی ہے لیکن اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مست کی فکری وسعت کو سمجھنے کے لیے ۔ اس نے دوسو برس قبل ایسی زندہ شا عری کی کہ آج بھی یہ شاعری عالمی ادب کا اہم خزانہ ہے ۔ اس شاعری کے حوالے سے یوں تو شا ہ محمد مری نے بہت کچھ لکھا ہے اور بہت خوب صورتی سے لکھا ہے لیکن اس ایک جملے میں اس حسن کو تقریبا سمیٹ لیا ہے،
“مست کی شا عری تو زرتشی بلوچوں کی مقدس دا ئمی آگ ہے جس میں وہ ساری زندگی اپنی روح ، اپنے دل اور اپنے وجود کی ہڈیاں توڑ کر پھینکتا رہا۔”
مست کا اپنا کوئی وجود نہیں تھا اس کا اصل ، اس کا وجود اس کی روح اس کی “سمو” ہے، سمو مست کے نظام شمسی کی سو رج ہے” ۔ یہاں سمو پر بات کرنے سے پہلے میں ایک اور بیان شا ہ محمد مری کا رقم کرنا چاہوں گی محبت کے حوالے سے، “لو گ محبت کو ایک کراہت بھرا نام دیتے ہیں؛”عشق مجا زی”، اور محض دامن مہر کے بد طینت کیڑے مکوڑے ہی ایسا نہیں کرتے بلکہ میں نے آ سمان شعر و ادب تک کو اس منحوس غلطی سے آلودہ دیکھا ہے، ارے بھئی! عشق بھی کبھی مجا زی ہوتا ہے ؟ سچ بھی کبھی مجازی ہوتا ہے؟ حسن بھی کبھی مجازی ہوتا ہے ؟ دل کرتا ہے ناقابل تقسیم محبت کی مجازی گیری اور حقیقی پن دونوں کو اکٹھا کرکے ان کبیر وصغیر دانشوروں کی عقل کے منہ پر شڑاپ سے دے ماروں ۔ بھئی یا تو لفظ محبت ، مہر ، عشق استعمال ہی نہ کرو ۔ اور اگر کرلیا تو جان لو کہ یہ لفظ خود کافی ہے، کامل ہے ۔ اسے مجازی حقیقی کے چمچوں ، بدرقوں اور باڈی گارڈ کی کوئی ضرورت نہیں”۔ ہو بہو یہی خیال مست کا رہا ہوگا محبت کے بارےمیں وہ محبت میں ہر تفریق ہر شناخت ہر سرحد اور تمام تر ریت رواج سے بیگانہ تھا ۔” کوئ فلسفہ نہیں عشق کا جہاں دل جھکے وہیں سر جھکا۔” مست بھی ایک شام مو سلا دھار بارش سے بچنے کے لیے سمو کے جھونپڑے میں پنا ہ گزیں ہوا اور پھر وہیں کا ہورہا ۔ مست ایک چرواہا تھا-پیشے کے لحا ظ سے ,مگر ذات کا فلسفی شا عر تھا ۔ آپ کہیں گے فلسفی شا عرکی کو ئی ذات کب ہوتی ہے ؟ مگر میرے خیال میں ہوتی ہے۔
سو یہ ذات کا شا عر موسلا دھار بارش سے بچنے کے لیے کو ئی جگہ تلا ش رہا تھا کہ ایک خیمہ نما گھر نظر آیا ۔ اور اس نے اس در پر دستک دے دی ۔ سمو نے ترس کھا کے مسافر کو ایک چٹائی اورجگہ فراہم کردی ۔ سمو کی اس وقت نئی نئی شادی ہوئی تھی اور اس کے بدن کی باس میں رنگیں لباس کی سترنگی اس کے حسن کو نشہ آور بنانے کے لیے کا فی تھی ۔ “شام کا دھندلکا تھا ۔ معطر جڑی بوٹیوں کی بھیگی خو شبوئیں تھیں ، پر کیف ہوا کے با غی جھونکے تھے، پھوار پڑرہی تھی ، اچانک تیز ہو ائیں سر سے پا ک دوپٹہ اڑا لے گئیں اور حسن وجوانی کی ملکہ کی زلفیں ہوا میں لہرانے لگیں ۔ اس دن اس نے بال کھول رکھے تھے ۔ لہراتے سیاہ بادلوں پہ بارش کے ننھے قطرے تھے اور اوپر سے بجلی کی چمک ۔ قطر ے قوس و قزح بن گئے تھے” اور توکلی پلک جھپکنا بھول گیا \باد بر زلف تو آمد شد جہاں برمن……۔ سیاہ ہواتمہاری زلفوں پہ آئی اور جہاں مجھ پر سیاہ ہوگیا ۔ اور یوں” بلو چستان میں محبت کا عالمگیر چاند آنا ً فا نا ً چودھویں کا ہوگیا ” ا س رات مست سویا نہیں پوری رات اس منظر کو نگاہوں میں بسا ئے بیٹھا رہا ۔مست کا ذہن اس کا دل اس کی روح ا س کی سوچ اس کی شا عری ایک نقطہ پر رک گئے ۔ ایک مرکز پر ٹہر گئے ۔ وہ خود کو وہیں چھوڑ کے اٹھ تو آیا اس در سے مگر پھر زندگی بھر سمو کے علا وہ اس نے نہ کچھ سوچا نہ دیکھا نہ جانا۔
مگر یہ وہ بے خبری ہے جو انسان کو کائنا ت کے تمام اسرار و رموز بتا اور سکھا جاتی ہے۔ یوں یہ عاشق فلسفے کی تمام پتھریلی وادیوں میں ننگے پیر گھومتا اور اپنے اشعار میں ان کو گھولنے میں مگن ہو گیا ۔ “پرسوں میں باغارکے ڈھلوانوں سے اتر منجھر ندی کو پا پیادہ پار کیا ،حاجی جائیں حج کو ، میں سمو کے دیدار کو جاتا ہوں ۔۔ نیکی اور تقویٰ کو رندی سے کیا تعلق کجا وعظ کاسننا ، کجا ستار کا نغمہ ” شا ہ محمد مری نے اپنی کتاب “مستیں توکلی” میں صرف مست توکلی اور اس کی محبت ، مست کی سمو اور اس کی شاعری اور شاعری کے تراجم ہی نہیں پیش کیے ہیں بلکہ اس ایک جذبہ کی گہرا ئی میں جاکےانسان اور سماج کے تعلق سے اپنے اس خواب کو بھی سطر سطر رقم کردیا ہے جس نے ڈاکٹر شا ہ محمد مری کو عمر بھر اسی بے چینی میں مبتلا رکھا ، اسی آگ میں جلایا ، وہی خون رلایا جو مستیں کا مقدر تھا ۔
ان کی کتاب “بلوچ سماج میں عورت کا مقام” میں ہم اسی طرح شاہ محمد کو عورت کی تذلیل ، اس کی بے وقعتی ، اس کی تکالیف پر تڑپتا دیکھتے ہیں جیسے مست اپنی سمو کے لیے تڑپتا تھا ۔ مست کہتا ہے ،” غلامانہ ذہنیت رکھنے والوں نے میری محبوبہ کو گھر سے بہت دور چراگاہوں پر روانہ کیا ہے وہ ننگے پیر ہے ، اور چٹانوں ، پہاڑوں اور میدانوں میں چلنے پر مجبور ہے”…۔۔ پھر ایک اور نظم میں کہتا ہے،” میری دوست جھلسا دینے والے سندھ گئی ہے اس نے دور دراز علا قوں کا رخ کیا پیدل گھسٹی ہے میری محبوبہ اپنی ہم عمروں کے ساتھ، بول نامی ناک کا زیور اس کی ستواں ناک میں تپ جاتا ہے، اس کے نا زک بدن کو گرم لو مار دیتی ہے۔”
اور شا ہ محمد مری کہتے ہیں “CEDAW دوسو برس کے بعد بھی وہ فقرہ نہ کہہ سکا جو ہمارا دوراندیش مست کہہ گیا ۔ “میری ماہ جبیں نازک محبوبہ بکریا ں چرانے کے لیے تو نہ تھی (اس سے تو معا شرے کو بڑے بڑے کام لینا چا ہیے تھا)انسان ہر دور میں مشقت کرتا ہے ۔ یہ اس کے انسان ہونے کی پہچان ہے ۔ پرابلم صرف اس جگہ آتی ہے جب اس کی مشقت کو تسلیم نہ کیا جائے ۔ مست نے محض ایک جگہ نہیں بلکہ بار بار سمو کے توسط سے بلوچ عورت کی مشقت کو تسلیم کیا ۔ اس مشقت کی شدت کو نا پا ، تولا ، اس سے نجات کی خواہش ۔اس سے نجات کے لیے متبادل بتا ئے ۔ایک بہت ابتدائی طبقاتی سما ج میں یہ بات کرنا بھی بہت باریک دا نشوری ہے ۔مست عورت کے حالا ت کار کی سختی کو بیان کرتا ہے ۔مست ، سمو کی تکلیف پر ہی نہیں کڑھتا بلکہ وہ تو ان قوتوں کی نشا ندہی بھی کرتا ہے جو سمو کا استحصال کرتی ہیں ، اسے مشقت کی بھٹی میں جھونکتی ہیں ۔جو سماج مست کی سمو کو ننگے پیر پہاڑوں ، ندی نالوں، چٹانوں پہ بھیڑ بکریوں کے لیے چرا گاہوں میں شب و روز بھٹکنے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ سماج و قوم اور وہ معاشرہ مست کی نظر میں بزدل ، کم زور ، محتاج اور غلام ہے ۔ بلا شبہ جب بھی بلو چستان میں عورتوں کی نجات کی تنظیم قا ئم ہوگی تو مست مقدس کانام سر خ روشنائی سے اس کے “با نی” کے طور لکھا جا ئے گا ۔
فکر مست کے ‘مست’ شاہ محمد مری جز میں کل دیکھنے والے مفکر ہیں ۔ مست کی سو چ کو، اس کی دیوانگی کو ، اس کے عشق کو ، اس کی فریاد کو انہوں نے وسیع معنو ں میں سمجھا اور سمجھایا ہے ۔
ہم اپنے اپنے ہیروکو تمام تر برائیوں سے پاک ، نیک ترین، متقی وپرہیزگاراور انسانیت کے اعلیٰ تریں مقام پر دکھاتے ہیں۔ یہی رویہ اپنے اپنے قبائل اور اپنے سما ج کے حوالے سے ہے ۔
لیکن ہم سب ان کی کتاب “بلوچ سما ج میں عورت کا مقام” جیسی کتاب کے مطالعہ کے بعد ان کی فکر سے واقف ہو چکے ہیں۔ وہ ہماری مروجہ روایات کی طرح اپنے ہر ناسور پر پٹی باندھ کے اس پر گلا ب چھڑک کر “ماشااللہ سب ٹھیک ہے” کا دھوکہ نہ خود کو دیتے ہیں نہ ہی دوسروں کو ۔جب تک کسی زخم کو کرید کرید کے صاف نہ کیا جا ئے وہ اچھا نہیں ہوتا ۔ اسی طرح جب تک کسی برائی کو سطح پر نہ لا یا جائے اس کی جانکاری نہ پیدا کی جائے اس کو ختم نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا شاہ محمد مری نے بغیر کیسی خوف کے بلوچ سما ج میں عورت کو اس کا مقا م دلانے کے لیے ان تما م قدیم روایا ت کو گنوایا اور دکھایاجو بلوچ عورتوں کا ہر طرح استحصال کرتی ہیں ۔ ان کے دکھ کو انہوں ویسے ہی محسوس کیا جیسے مست اپنی محبوبہ کے دکھ کو محسوس کرتا ہے ۔ نہ صرف یہ بلکہ شاہ محمد مری تو اپنے مرشد اپنے ہیرو مست توکلی کو بھی جیسا وہ تھا اس کی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ تاریخ وا دب کے اوراق میں اسے ویسا ہی دیکھنا چا ہتے ہیں ۔ ان کی جھنجھلاہٹ اس وقت عروج پر نظر آتی ہے جب مست کو صوفی بنا نے کو پیش کیے جانے کی کاوشیں اپنی خدمات انجام دینے کے زعم میں مست توکلی پر کانفرنسسز منعقد کرکے اسے ایک دیوتا بنا نے کے عزم میں پیش پیش نظر آئیں- انہیں “سرکاری سرداری دانشوروں نے ہر عا شق کو کھینچ تان کرایک مجسم ملا بنا دیا ۔مست کو بھی ملا بنا ڈالا تھا ۔”
فیوڈل اخلا قیات کی تھالی چاٹنے والے دانشوروں نے توکلی کے بجا ئے اسے ” طوق علی ” بنا ڈالا تھا ۔ اس وقت کے نظر یاتی اور زرخریددونوں دانش وروں نے اس پیر ومرشد مست کو بھی مولوی ثا بت کردیا جس نے اپنی شا عری میں بغیر کسی “جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ” کی تفتیش کے اپنے بھنگ پینے کا تذکرہ کیا تھا ۔ملا سا زی کے جذبہ سے سرشار دانش وروں نے مست کی وہ شا عری ہی حدف کردی جو اسے زکوٰۃ و عشر کی وصولی کا حق دار بنانے میں مانع ہوتی۔شاہ محمد مری جیسا جی دار لکھاری ، ان جیسا کالے کو کالا اور سفید کو سفید کہنے والا حق گو آج کے مصلحتون کے اسیر دور میں ملنا مشکل ہے ۔ ذکر اپنے ہیروکا ہو یا اپنی روایات کا یا اپنے سماج کی بے کس عورت کا ۔ جوسچ ہے، وہ ہے۔ بلوچ سماج میں عورت کی نجا ت کے علم بردار شا ہ محمد مری یہ پرواہ نہیں کرتے کہ جب وہ انگلی رکھ رکھ کے اپنے سما ج کی گھن کھائی روایات کی نشان دہی کریں گے تو ان کا اپنا معا شرہ اور اس کی روایات کیا انہیں معاف کردیں گی؟برسہا برس سے ناک کا ٹ لینے ، چہرہ جلا دینے ، کاروکا ری کے نام پر قتل کردیے جانے جیسی بربریت برداشت کرنے والی عورت کے لیے جو جملہ شاہ نے مست کے لیے لکھا ہے وہ دراصل میں ان کے لیے لکھنا چا ہوں گی کہ ان کی ہر تحریر میں یہ دکھ تبدیلی دیکھنے کی خوا ہش میں تڑپتا نظر آتا ہے ۔
” بلا شبہ جب بھی بلو چستان میں عورتوں کی نجات کی تنظیم قا ئم ہوگی تو شاہ محمد مری کانام سر خ روشنائی سے اس کے ‘بانی’ کے طور لکھا جا ئے گا۔”
تبدیلی کی تڑپ ، تمام انسانوں کو بلا جنس کی تفریق کے یکساں حقوق حقوق ملنے کی تڑپ۔ اپنے ہیروز کو اور مستیں توکلی کو جیسے وہ تھے انہیں انسان سمجھ کے تما م تر خوبیوں او رخا میوں سمیت چاہنے دیے جانے کی تڑپ اس جذبہ کی عمیق گہرا ئی کی گواہ کتاب کی سطر سطر ہے لیکن ان کے دل میں عورت کے لیے جو احترام ہے ، اس کے حالا ت میں تبدیلی کی جو شدید خواہش ہے اور اس کے لیے ان کے قلم نے جو جدو جہد کی ہے وہ ان کی کتاب “مستیں توکلی” میں بیشتر صفحات میں موجود ہے اور ہر دوسرا ورق اس کی پوری گواہی ہے ۔
وہ ایک جگہ لکھتے ہیں، ” اس سلسلہ میں سمو کی زبانی ایک مصرع سے ذیادہ بات کوئی بلو چ کرہی نہیں سکتا ۔ آپ عورت کے مسائل پر پوری کتاب لکھیے میں مست کا ایک مصرع لا تا ہوں،” عورت ہوں اس لیے اپنے کسی قول کو پورا کرنے کے قابل نہیں رہنے دی گئی!”
شا ہ محمد مری کی کتاب “مستیں توکلی” صرف حسن و عشق، شا عری یا عورت اور وحشی روایات تک محدود نہیں بلکہ تما م استحصالی قوتوں کے خلا ف فکری تحریک اور انسانوں کی خوش حالی ، ترقی اور امن کی اہم دستاویز ہے ۔ اس دستاویز میں مستیں توکلی کی حیران کن سرشا ری بخشنے والی نظموں کے تراجم بھی ہیں اور اس کی اوریجنل شا عری بھی ہے جوکہ یقینا ً نہایت قیمی اثاثہ ہے ہمارے ادب کا ۔
معنی کے کیا معنی ہیں؟
پشاور پختون خوا سے عثمان علی کا اصرار ہے کہ انھیں بتایا جائے: ’’معنی کے کیا معنی ہیں؟‘‘ سوال سن...