شاعری کوزیادہ تر خواتین کے سراپا کا بیان سمجھا جاتا ہے۔ عاشق محبوب کے فراق میں آہیں بھرتا ہے اور پھر محبوب کی قامت، زلفیں تل یاد کر کے عموماً شعر کہتا رہا پھر خواتین شاعرات نے میدان کارزار میں قدم رکھا تو موضوعات کسی حد تک تبدیل ہوئے۔
اس لحاظ سے اگر مقامی شاعری کو پرکھا جائے تو برصغیر میں ماضی کے مقامی شعرا کے ہاں موضوعات کی وسعت بیش بہا ہے ایک طرف تو ہندوستان میں فارسی زبان اپنے عروج کو چھو رہی تھی تو دوسری طرف ایک نٸی زبان مقامی الفاظ کے مجموعہ کی شکل میں ریختہ کی صورت میں وقوع پزیر ہونے کو تھی مگر کچھ مقامی شاعر ایسے بھی تھے جو اپنی مادری زبان کے خزانے کو رہتی دنیا تک مالا مال کر رہے تھے انھی میں ایک نام شاہ عبد اللطیف بھٹائی کا ہےجو 1689ء میں پیدا ہوئے اور 1752ء میں وفات پاٸی .وہ راٸج فارسی زبان سے بغاوت کرتے ہوئے سندھی زبان کو اپناتے ہیں وہ کلہوڑا دور کے شاعر ہیں ان کے کلام میں موجود جمایاتی پہلو اور باریکیاں ایسی ہیں جو انھیں ادب کے ہر دور میں اعلٰی مقام عطا کرواتی ہیں وہ انسان ہمت اور حوصلہ کی عظیم داستانوں کو ایژے پیرائے میں بیان کر گئے ہیں کہ ترجمہ اصل کے مقابل نہیں آتاشاہ صاحب بھٹ شاہ میں ابدی نیند سو رہے ہیں .وہ ساری دنیا کو ہمیشہ آباد رہنے کی دعا دیتے ہیں۔
بھٹ شاہ راگ رنگ کی ایسی دنیا ہے جہاں موجودفقیر آج بھی شاہ ساٸیں کے کلام کو طنبورے کے آلاپ پر چھیڑ کر ایسا سماں باندھتے ہیں کہ دنیا بھر کےدکھی دل اس کلام سے سکون پاتے ہیں۔ طنبورہ ایسا ساز ہے جو پانچ تاروں کا مرکب ہےان تاروں پر فقیروں کی انگلیاں جب حرکت کرتی ہیں تو طنبورے کی تار من کے تاروں سے جا جڑتی ہے۔ ان پانچ تاروں کا الگ فلسفہ ہے پانچ میں سے دو کو”جاڑیوں“ یعنی جڑواں کہا جاتا ہے یعنی انسان کو جوڑے کی شکل میں تخلیق کیا گیا ایک تار جس کا نام ”زبان“کسی سے بات کرنا یا وعدہ کرنا ہے چوتھی تار کو” گھور“ جس کا مفہوم قربان ہونا ہے یعنی زبان دینے کے بعد عہد پر قاٸم رہنا جبکہ طنبورے کا آخری تار ”ٹیپ“کہلاتا ہے۔
ٹیپ سندھی میں سزاکو کہتے ہیں اگر وعدہ خلاف کرو قربانی نہیں دیتے تو پھر سزا کے مستحق ہو اور یہ لازم سزا ہے .دو آلاپ ” کڑی“اور ”جھونگار“ اہم ہیں ان کے کلام میں شاہ صاحب کےکلام کے لیے مخصوص پہر اور سر مقرر ہیں۔ رات کو پورب، یمن کلیان، کھمبکھات، اور دیگر سر مختص ہیں جبکہ صبح کے لیے مارٸی، بلاول، آسا، رپ، اور رام کلی گائے جاتے ہیں محرم الحرام میں صرف کیڈارو سر گایا جاتا ہے جو اہل بت پر ہونے والے مظالم کا بیان ہے۔ شاہ لطیف کا منظوم کلام تیس ابواب پر مشتمل ہے اور ہر باب عورت کی عزت وحرمت کا بیان ہے رسالہ میں شامل ابواب کو ”شاہ جوسر“ کہا جاتا ہے