"مثل برگ آوارہ" کا چھٹا در
ایسے بہت سے ملک ہیں جنہیں نیم ترقی یافتہ، کم ترقی یافتہ، غیر ترقی یافتہ کہا جاتا ہے اور بہت ہی بڑا درجہ دینا مقصود ہو تو ترقی پذیر کہہ دیا جاتا ہے۔ دراصل دنیا کے ملک تین ہی طرح کے ہیں یعنی ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ۔ ذیلی اصطلاحات کی خوش فہمی یا غلط فہمی تو اسی قسم کی ہے جیسے درمیانے طبقے کو آمدنی کی بنیاد پر مزید تقسیم کرتے ہوئے نچلا درمیانہ طبقہ، اوسط درمیانہ طبقہ اوربالائی درمیانہ طبقہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ کسی ملک کی ترقی کا پیمانہ اس کی معیشت اور اس میں بسنے والوں کے تمدن کا معیار ہوتا ہے۔ روس سوویت یونین سے علیحدہ ہونے کے بعد بھی ترقی پذیر ملک رہا تھا اس لیے یہاں غیرترقی یافتہ ملکوں کی طرح جس کا جیسے دل چاہا، جہاں چاہا اور جیسا چاہا کاروبار شروع نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہاں کسی طرح کا بھی کاروبارکرنے کے لیے تب بھی کمپنی رجسٹر کرانی پڑتی تھی اور کمپنی کا بینک اکاؤنٹ کھلوانا پڑتا تھا تاکہ حکومت کے لیے ٹیکس وصول کرنے کی خاطر کاروبار کا حساب کتاب رکھنا سہل ہو۔
بہرحال سوویت یونین کو غیر ترقی یافتہ اوربہت سے ترقی پذیر ملک ترقی یافتہ ملک سمجھتے تھے جبکہ سرمایہ دار ملک اسے ترقی پذیر ملک ہی کہتے رہے۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد بہت سی چھوٹی بڑی ریاستوں کے علیحدہ ہونے سے روس باقی بچ رہا تھا جسے وفاق روس کہا جانے لگا کیونکہ اس میں کئی خودمختار خطے، دسیوں خود مختار ری پبلکیں اورکئی وفاقی خطے شامل ہیں۔ خود روس ان سمیت ان کے علاوہ بھی ہے جو رقبے کے حوالے سے بہت بڑا ملک ہے۔ جس میں پورے نوٹائم زون ہیں اور جہاں ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہوائی جہاز کا سفر بارہ گھنٹے سے زیادہ وقت لیتا ہے۔ تاہم بہت سے لوگ آج بھی کہتے کہ "روس ٹوٹ گیا تھا"۔ روس پوری تاریخ میں کبھی نہیں ٹوٹا۔ اس کے برعکس چھوٹے چھوٹے راجواڑوں میں بٹے ہوئے روس کوجوڑجوڑ کرروس بنایا گیا تھا۔ پھر اس میں روسیوں کی روایتی توسیع پسندانہ روش کے طفیل قفقاز اورسائیبیریا کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد بچ رہنے والے روس کا تقریبا" ایک تہائی علاقہ براعظم یورپ میں ہے اوردو تہائی براعظم ایشیا میں۔
طغرل اور عاصم روس کے یورپی حصے میں تھے جہاں 1991 میں سوویت یونین تحلیل ہونے کے بعد آزاد تجارت کا چلن ہوا تھا مگر کوئی تجارت کی ابجد تک سے واقف نہیں تھا۔ وجہ سادہ تھی کہ یہاں منڈی نام کی کوئی شے نہیں ہوا کرتی تھی اور نہ ہی تجارتی مسابقت کا کوئی تصور تھا۔ اب جب تجارت آزاد کر دی گئی تھی تو کسی بھی طرح کا کاروبار کرنے کی غرض سے کسی وکیل کے توسط سے کمبنی رجسٹر کرانا ضروری تھا۔ حسام نے جس وکیل سے بات کی تھی اس کا دفتر اسی یونیورسٹی کی عمارت کے اندر تھا جس میں حسام پڑھتا تھا۔
گھر سے نکل کرجوٹیکسی ملی تھی، عاصم کے کہنے پر حسام نے اس کے ڈرائیور سے طے کر لیا تھا کہ وہ ہر روز صبح نو بجے سے شام چھ بجے تک اپنی ٹیکسی کی خدمات ان کے لیے مخصوص کر دے گا۔ ڈرائیور رضامند ہو گیا تھا یوں آنے جانے میں سہولت ہو گئی تھی۔
وکیل کا دفتر یونیورسٹی کی عمارت کے اندر ہونے کا یہ مطلب نہیں لیا جانا چاہیے کہ وہ یونیورسٹی کا وکیل تھا۔ ہوا یہ تھا کہ جب پیری ستروئیکا یعنی معیشت کی تعمیرنوکا عمل شروع ہوا تھا تو کارخانوں، اداروں اوربڑے بڑے دفاتر کو جو سارے ہی پبلک سیکٹر میں تھے ، خود کفیل ہونے کی خاطر بہت سی پابندیوں سے آزاد کردیا گیا تھا یوں ایک عجیب تماشا شروع ہو گیا تھا کہ کارخانوں میں دکانیں کھلنے لگی تھیں، جی ہاں دوکان کھولنے کے لیے بھی کمپنی رجسٹر ہونا لازمی تھا اورہے۔ اداروں میں پرائیویٹ دفاتر بننے لگے تھے جیسے اس وکیل کا دفتر تھا اور دفاتر میں کیفے اور چھوٹے چھوٹے بوتیک تاحتٰی کیوسک یعنی کھوکھے کھلنے لگے تھے۔ یہاں تک ہوتا تھا کہ کسی بڑے اخبار کے دفتر کے کمروں میں کھیل کا سامان بیچنے والوں یا اسی قبیل کا کاروبار کرنے والوں کے دفاتر بن گئے تھے۔
وکیل کا نام غالبا" ولیری تھا جو پینیس چھتیس سال کا فارغ البال یعنی گنجا اور معنک شخص تھا۔ انگریزی بول سکتا تھا اور اپنی گفتگو سے لگتا تھا جیسے اپنے کام میں طاق ہے۔ اس نے چند روزمیں کمپنی رجسٹر کرانے کی حامی بھر لی تھی۔ پھر کچھ دستاویزات ٹائپ کی تھیں جنہیں حسام نے پڑھ کر تسلی کرلی تھی اورعاصم کوان پردستخط کرنے کوکہا تھا۔ عاصم نے کچھ سوالات کیے تھے جن کے کچھ جوابات سے وہ مطمئن ہوا تھا اور کچھ سے نہیں لیکن وکیل اور حسام نے یہ کہہ کر کہ یہاں ایسا ہی ہے، اسے چپ کرا دیا تھا۔
کمپنی رجسٹر کرانے کے بعد اگلا مرحلہ کمپنی کا اکاؤنٹ کھلوانا تھا۔ ان دنوں حکومتی بینکوں کے علاوہ چند ایک ہی بینک تھے اور ان کی شاخیں بھی پورے شہر میں ایک یا دو سے زیادہ نہیں ہوتی تھیں ۔ عام دنیا میں تو یہ ہوتا ہے کہ آپ کسی ملک میں مناسب کیش لے کر گئے ہیں۔ آپ اسے محفوظ رکھنے کی خاطر کسی بینک میں جاتے ہیں، اپنا پاسپورٹ دکھاتے ہیں، فارم بھرتے ہیں اورآپ کا اکاؤنٹ کھول کر آپ کا کیش جمع کر لیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ ہوتی ہے کہ آپ کا کیش بینک اپنے کام لا سکتا ہے اور آپ سے خدمات کا معاوضہ بھی وصول کر لیتا ہے لیکن یہاں تو باوا آدم نرالا تھا، آپ بینک کو کہتے تھے یہ لیں مجھ سے ڈالر لے لیں مگر بینک کہتا تھا نہیں لیتے ۔ عاصم اس رویے پر بہت چین بچیں تھا۔ کمپنی کا اکاؤنٹ کھولنے کے لیے وکیل کے کسی شناسا نے ایک بینک ماسکو کے مرکز میں ڈھونڈا تھا جہاں عاصم کے نام کی کمپنی "کلاس پاکستان" کا اکاؤنٹ کھل گیا تھا۔ کمپنی کا بنیادی سرمایہ تین ہزار ڈالر طے کیا تھا جو جمع کروا دیا گیا تھا۔ بینک کا مینیجرجوایک ادھیڑعمر وجیہہ اورسمجھداردکھائی دینے والا شخص تھا ، سے حسام کے توسط سے جو بھی سوال پوچھا گیا اس کا جواب اس نے "نیت" یعنی "نہیں" میں ہی دیا تھا چنانچہ عاصم نے اس کا نام "مسٹر نیت" رکھ دیا تھا۔
تین چار روز کی اس "کاروباری مشقت" سے جب کسی حد تک فارغ ہوئے تو طغرل کو خیال آیا کہ وہ نینا کے لیے کچھ تحفے لے کر آیا تھا۔ اس نے عاصم سے کہا تھا، گھر بیٹھنے سے اچھا ہے کہ میرے ساتھ چلو، تمہیں اپنی شناسا خاتون سے ملوا لاتا ہوں۔ طغرل نے جانے سے پہلے نینا کو فون کیا تھا اور اسے اپنے ٹوٹے پھوٹے فقروں میں یاد دلایا تھا کہ وہ کون ہے اور یہ کہ وہ اس سے ملنے آنا چاہتا ہے۔ طغرل کو لگا تھا جیسے وہ اس کی آواز سن کرخوش ہوئی ہو مگراس نے اپنی خوش فہمی کو یہ سوچ کر جھٹک ڈالا تھا کہ نینا ویسے ہی خوش مزاج خاتون ہے۔
جب وہ دونوں اس کے ہاں پہنچے تھے تب واقعی محسوس ہوا تھا کہ وہ طغرل کے پھر سے ملنے پر خوش تھی۔ طغرل نے چند معمولی تحائف اس کے حوالے کیے تھے جنہیں پا کر اس نے بے حد ممنونیت کا اظہار کیا تھا ۔ نینا نے کچن کی میز پر چائے اور وائن دونوں ہی کا اہتمام کیا ہوا تھا مگر ان دونوں نے بس چائے پی تھی۔ عاصم اس خاتون کی شخصیت سے خاصا متاثر ہوا تھا۔ اس نے طغرل سے کہا تھا خاتون سے پوچھو جہاں پر کام کرتی ہے وہاں اس کو کتنی تنخواہ ملتی ہے۔ طغرل واقف تھا کہ اس ملک میں لوگوں کی ذاتی زندگیوں میں مخل ہونا اوران کے نجی معاملات بارے پوچھنا معیوب تصور ہوتا ہے اوریہ بھی کہ ان لوگوں کوسرکاری ملازمتیں کس قدرعزیزہیں اس لیے جتنی اسے زبان آتی تھی اس میں محتاط ہو کر پوچھا تھا کہ جتنا مشاہرہ آپ پاتی ہیں کیا آپ اس سے خوش ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس نے اس کا جواب نفی میں دیا تھا کیونکہ ان دنوں لوگوں کی جتنی تنخواہیں تھیں ان سے مطمئن ہونا ممکن نہیں تھا۔ خاتون نے بتایا تھا کہ وہ 24 گھنٹے کام کرتی ہے پھردوروزآرام۔ عاصم نے کہا تھا کہ اس سے پوچھو کہ کیا یہ ہمارے ساتھ جزوقتی کام کرے گی؟ طغرل کو حیرت ہوئی تھی کہ اسے تو کام کرنے کے لیے کسی ایسی لڑکی کی ضرورت تھیں جو انگریزی جانتی ہو تاکہ اس کا مدعا بہتر طور پر سمجھ کر اس کی ترجمانی کر سکے۔ ٹھیک ہے یہ خاتون بہت شائستہ اور نیک دل تھی مگر یہ کونسا کام کرے گی؟ یہی سوال جب اس نے عاصم سے کیا تھا تو وہ بولا تھا،"میں چلنے سے پہلے یہاں کے لیے چمڑے کی دو سو کے قریب جیکٹیں بائی ایربک کروا چکا ہوں جو چند روز بعد پہنچ جائیں گی۔ جیکٹوں یں بعض اوقات کچھ نقص ہوتے ہیں جیسےبٹن ادھڑا ہوا ہے یا اس طرح کا کوئی اورمعمولی نقص۔ یہ خاتون گھر دار عورت ہے، ایسا کام اچھی طرح کرے گی اور معاوضہ بھی معمولی دینا ہوگا چنانچہ طغرل نے اسے عاصم کی پیشکش بتا دی تھی۔ وہ شکرگذارہوئی تھی۔
چند روزبعد جیکٹوں کی اسائنمنٹ پہنچ گئی تھی۔ اسائنمنٹ عاصم کے نام تھی چنانچہ حسام اور طغرل اس کے ہمراہ گئے تھے۔ پروسیجرخاصا پیچیدہ تھا مگرکوئی اتنا دشوارنہیں تھا۔ بہرحال انہیں اسی روز جیکٹس کا کسٹمزکروانے کا موقع مل گیا تھا۔ کچھ کارٹنوں میں سے جیکٹیں چوری ہو چکی تھیں۔ کسٹمز انسپکٹر کچھ کارٹن کھلوا کراوران میں سے جیکٹیں نکلوا کر دیکھ رہا تھا اوراس کی نگاہیں جیکٹوں کی پڑتال کم اور پسند زیادہ کر رہی تھیں۔ عاصم کا کراچی میں کسٹمز والوں سے پرانا ربط تھا، اس نے بھانپ لیا تھا کہ کسٹم اہلکار کو مال پسند آ رہا ہے لیکن وہ خاموش ہے۔ اس نے حسام سے کہا تھا کہ ایک جیکٹ اسے دے دو۔ جب حسام نے ایک اچھی اوراس اہلکار کے سائز کی جیکٹ اسے تھمانا چاہی تو اس نے ایسے ڈرکر ہاتھ پیچھے کھینچا تھا جیسے حسام اس کے ہاتھ کے ساتھ کالا زہریلا ناگ چھوا رہا ہو۔ پھر اس نے حسام کے قریب ہو کر اسے سرگوشی میں کچھ کہا تھا۔ عاصم کے استفسار پر حسام نے بتایا تھا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ رات کو فلاں مقام پرآ کراگر ممکن ہوتومجھے جیکٹ دے جانا اور یہ کہ حسام نے اس سے وعدہ کر لیا ہے۔ کوئی چار برس گذرجانے کے بعد طغرل نے دیکھا تھا کہ یہی جھینپتے ہوئے کسٹمز والے کسقدر بیباک ہو کرسرعام نہ صرف کرنسی نوٹ رشوت میں لینے لگے تھے بلکہ بے دھڑک ہو کر انہیں گن کر اپنی جیبوں میں ڈالنے لگے تھے۔
جیکٹوں سے بھرے کارٹن لے کر گھر آ گئے تھے اور ٹرک میں سے ان تینوں نے خود ہی نکال کر گھر کے ایک کمرے میں منتقل کر دیے تھے۔ سانس لینے کے بعد انہوں نے جیکٹیں دیکھی تھیں۔ واقعی کچھ کے ایک یا دو بٹن ادھڑے ہوئے تھے اور کسی کی کہیں سے تھوڑی سی سلائی بھی۔ عاصم نے طغرل سے کہا تھا کہ اس خاتون کو فون کرکے کل آنے کو کہہ دے۔ فون کرنے پر نینا نے ایک روز بعد آنے کا وعدہ کیا تھا۔
شام کو جب وہ تینوں شغل مے نوشی کر رہے تھے تو حسام نے کہا تھا کہ کارٹن اٹھا کر تھک گئے ہیں کیا ہی اچھا ہوتا اگر لڑکیاں بھی ہوتیں، دل لگ جاتا اورتھکاوٹ دورہوجاتی۔ طغرل چونکہ پہلے تین پیک پینے میں ہمیشہ ہی جلدی کیا کرتا تھا چنانچہ اسے کچھ چڑھ گئی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ میں ابھی گیا اور مہ وشوں کو لے کر یوں سمجھو کہ ابھی آیا۔
طغرل کیونکہ حامد کے ہمراہ کسینو جاتا رہا تھا، اسے معلوم تھا کہ وہاں ایک گوشہ رات رنگین کرنے والی لڑکیوں کے لیے مخصوص ہے۔ بلکہ ایک بار تو اس نے وہاں یہ بھی دیکھا تھا کہ جو لڑکی جوئے کی میز پر بطورمنصف بیٹھا کرتی تھی، وہ بھی اس گوشے میں بیٹھنے والیوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی، طغرل حیران ہوا تھا کہ اس نے مناسب پیشے کو تج کر بدنام پیشہ کیوں اختیار کر لیا تھا؟ اس سے رہا نہیں گیا تھا چنانچہ اس لڑکی سے ایسا کرنے کا سبب پوچھ لیا تھا۔ لڑکی نے کوئی قباحت محسوس کیے بغیر جواب دیا تھا کہ "بطور"کروپیے" (منصف) کے مجھے چارسو ڈالرماہوارملتے تھے، اس طرح میں دواڑھائی ہزارڈالر ماہوارکما رہی ہوں۔ مجھے اپنی یونیورسٹی کی تعلیم کی تکمیل کے لیے وسائل درکار ہیں۔ دو سال بعد پیشہ ترک کرکے اپنی تعلیم سے ہم آہنگ کام کرنے لگ جاؤں گی"۔ طغرل اسی مخصوص گوشے میں گیا تھا اور تین لڑکیوں کو بازووں کے نرغے میں گھیر کر"لیٹس گو، لیٹس گو" کہتا ہوا باہر لے آیا تھا اور ٹیکسی میں بٹھا کر اپنے ہمراہ لے گیا تھا۔ گھرمیں داخل ہونے سے پہلے انہوں نے اپنی تینوں کی فیس چھ سو ڈالر بتائی تھی۔ طغرل انہیں گھر میں لے گیا تھا اور بتایا تھا کہ معاملہ مہنگا ہے۔ عاصم چپ رہا تھا، طغرل نے پوچھا تھا کہ کیا انہیں واپس بھیج دوں؟ مگر حسام نے کہا تھا، "نہیں، نہیں، میں ان سے طے کر لوں گا کم لیں گی" سب سے خوبصورت لڑکی عاصم کو دے دی گئی تھی، وہ اسے لے کر بڑے کمرے میں چلا گیا تھا۔ باقی دو میں سے ایک طغرل کے ساتھ اس کے کمرے میں اوردوسری حسام کے ہمراہ جس کمرے میں کارٹن دھرے تھے، اس میں چلی گئیں تھی۔ ایک گھنٹے بعد جب وہ سستانے کی غرض سے کچن میں اکٹھے ہوئے تو حسام نے کہا تھا، انہیں ڈیڑھ سو ڈالر دے کر بھجوا دیتے ہیں۔ وہ حسام سے بہت بحث کرتی رہی تھیں۔ طغرل کو اتنی زبان نہیں اتی تھی، بہر حال وہ سمجھ رہا تھا کہ وہ ناخوش ہیں۔ خیر وہ چلی گئی تھیں۔
اگلے روز شام جب طغرل اور حسام گھر میں اکبلے تھے تو کسی نے گھر کی بیل بجائی تھی۔ طغرل دروازے تک گیا تھا اور پوچھا تھا "کتو؟" یعنی کون ہے۔ کسی خاتون نے کہا تھا کہ میں۔ طغرل نے سمجھا تھا کہ سامنے والی ہمسائی ہوگی کیونکہ وہ ایک دوسرے سے کبھی کبھار کچھ مانگ لیا کرتے تھے۔ طغرل نے دروازہ کھول دیا تھا۔ سگریٹ ہولڈرمیں لگا سگریٹ پیتے ہوئے ایک لڑکی اٹھلاتی ہوئی اندرداخل ہوگئی تھی۔ اس کے پیچھے یک لخت دو مشٹنڈے نمودار ہوئے تھے۔ طغرل چوکھٹ میں انہیں روکنے لگا تو ایک غنڈے نے طغرل کے پیٹ میں مکہ دے مارا تھا۔ طغرل درد سے کراہتے ہوئے چیخا تھا "ہیلپ، ہیلپ" عاصم کچن سے اٹھ کرآ گیا تھا اورغنڈے نے "چیہا، چیہا" یعنی خاموش، خاموش کہتے ہوئے طغرل کو کھینچ کر اندر کیا تھا اوردروازہ بند کردیا تھا۔
اب انہوں نے اپنا مدعا کہنا شروع کیا تھا۔ طغرل کوزیادہ توسمجھ نہیں آتی تھی مگر اتنا ضرور سمجھ گیا تھا کہ یہ غنڈے باقی ساڑھے چارسو ڈالرلینے آئے تھے۔ چنانچہ اس نے صاف انکار کر دیا تھا کہ یہاں لڑکیاں نہیں آئی تھیں۔ وہ پرسوں ہی پہنچے ہیں، ممکن ہے ان سے پہلے رہنے والے ان لڑکیوں کو لائے ہوں۔ بہرحال عاصم کی جیب میں سے ایک سو ڈالر نکلے تھے وہ اس نے غنڈوں کو دیتے ہوئے کہا تھا، "چاچا، ان سے جان چھڑاؤ"۔ طغرل نے ان سے کہا تھا ہمارے پاس بس یہی ہیں۔ وہ جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے مگر جاتے جاتے میز پر جو چند سو روبل رکھے تھے وہ بھی سمیٹ کر گھر سے نکل گئے تھے۔ عاصم کراچی سے آتے ہوئے دس ہزار ڈالر ساتھ لایا تھا۔ تین ہزار کمپنی کے بنیادی سرمائے کے طور پر بینک میں جمع کروا دیے گئے تھے۔ چند سو وکیل کی فیس اوردیگر کاموں میں خرچ ہو گئے تھے باقی اس کے بریف کیس میں پڑے تھے۔ شکر ہے کہ غنڈوں کی نگاہ بریف کیس پر نہیں پڑی تھی۔ بحرحال وہ ڈاکو نہیں تھے، غنڈے تھے جواپنی لڑکیوں کا باقی ماندہ معاوضہ لینے آئے تھے۔
اس واقعے کے دوسرے روز طغرل اورعاصم، حسام کے ہمراہ اس کی یونیورسٹی گئے تھے۔ طغرل کو یاد نہیں رہا کہ کس سلسلے میں البتہ یہ ضروریاد ہے کہ اس کا دیوانہ دوست دمتری "بیگ مین" بھی ان کے ہمراہ تھا۔ ایک مقام پرجو غالبا" کسی ہوسٹل میں کوئی کینٹین نما جگہ تھی یہ چاروں آمنے سامنے مگردوردوررکھی پلاسٹک سے بنی کرسیوں پر بیٹھ گئے تھے۔ پھر پتہ نہیں کیا بات ہوئی تھی کہ عاصم اپنی کرسی سے اٹھ کر دو چار قدم پر بیٹھے طغرل کے نزدیک پہنچا تھا اور اس کے چہرے پر مکا جڑنے کی کوشش کی تھی۔ اٹھا ہوا مکا دیکھ کر مارے حیرت کے طغرل نے اٹھنا چاہا تھا کہ کرسی اس سمیت پیچھے کو جا گری تھی یوں مکا لگا تو تھا مگر اس کی شدت زائل ہو گئی تھی۔ عاصم واپس جا کر اپنی کرسی پر ایسے بیٹھ گیا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ دمتری طغرل کے نزدیک بیٹھا تھا جس نے اسے زمین سے اٹھنے میں مدد دی تھی۔ طغرل نے بس دو چارفقروں میں ہی عاصم کی اس جارحیت کا جواب دے دیا تھا اور عاصم خاموش بیٹھا رہا تھا۔
دراصل عاصم کے دل میں ایک کینہ پل رہا تھا۔ عاصم کی شادی کے موقع پرکچھ ایسے افسوسناک واقعات رونما ہوئے تھے جن کا ذمہ داروہ طغرل کوخیال کرتا تھا۔ بلکہ اس کی شادی کے بعد طغرل کے خاندان کے تمام افراد نے طغرل سے منہ پھیر لیا تھا اورعاصم اورطغرل کی بول چال ایک عرصہ بند رہی تھی۔ شاید عاصم کو لگتا تھا کہ طغرل نے تب اس کے والد کی توہین کی تھی جبکہ درحقیقت اس کا باپ طغرل کا سگا بڑا بھائی تھا چنانچہ یہ معاملہ دو بھائیوں یا طغرل کے باپ کے کنبے کے بیچ تھا۔ عاصم کا حق نہیں بنتا تھا کہ وہ اپنے چچا پرہاتھ اٹھاتا چاہے وہ اس کا ہم پیالہ و ہم نوالہ دوست اور تقریبا" ہم عمرہی کیوں نہ تھا۔
اس واقعے کے بعد ظاہر ہے وہ ایک دو روز تک ایک دوسرے سے کھنچے کھنچے رہے تھے پھر اصم نے بولنے کی ابتدا یہ کہتے ہوئے کی تھی، "چاچا، ایسے کرتے ہیں کہ ایک گاڑی خرید لیتے ہیں، تمہیں آمدورفت میں آسانی رہے گی۔ ظاہر ہے شروع میں ڈرائیوررکھنا ہوگا۔ کہیں سے اگر بااعتماد ڈرائیورکا انتظام ہوجائے توکوئی اچھی سی سیکنڈ ہینڈ گاڑی خرید لیتے ہیں"۔
زاہد کادیروو کے علاوہ آندرے پانن نام کا ایک روسی النسل شخص بھی طغرل کا شناسا بنا تھا جو ایک کاروباری دفترمیں ملازمت سے پیشتر، جہاں گذشتہ بار طغرل دمتری کے ہمراہ اپنے مال کے سیمپل دکھانے گیا تھا، ماسکو سٹیٹ یونیورسٹی میں ریاضیات کا لیکچرر تھا اوربہت اچھی انگریزی بولتا تھا۔ طغرل نے اسے فون کیا تھا۔ اس نے حامی بھری تھی کہ ایک بااعتماد شخص جوشہرکی سڑکوں سے شناسا اچھا ڈرائیور ہے، کل آپ کے پاس بھیج دیتا ہوں، اس کا نام ولیری ہے۔
اگلے روز ولیری پہنچ گیا تھا جو طویل قامت، چھریرے جسم، فلموں میں دکھائے جانے والے پیغمبرعیسٰی کی سی بھوری داڑھی اورلمبے پٹوں والے بالوں والا کم گو اوردھیمے لہجے میں بات کرنے والا شخص تھا۔ اس نے کہا تھا کہ آج تو شاید دیر ہو چکی ہے لیکن کل وہ ان کو لے کرسیکنڈ ہینڈ کاروں کی منڈی میں جائے گا جہاں مناسب قیمت پراچھی حالت میں گاڑی خریدی جا سکے گی۔ اس نے ایک اور تجویز بھی دی تھیں کہ وہ خود جا کر بالٹک ریاستوں یا جرمنی سے بہت اچھی گاڑی لا سکتا ہے۔ اس کا زیادہ زور"بے ایم وے" یعنی بی ایم ڈبلیو گاڑی پر تھا۔ مگر یہ طریقہ وقت طلب تھا اس لیے اسے کل بروقت پہنچنے کا کہہ کر رخصت کر دیا گیا تھا۔
اگلے روز جا کرتین چارہزارڈالرمیں سفید رنگ کی ایک فورڈ کارخرید لی گئی تھی۔ ولیری کو ڈرائیور رکھ لیا گیا تھا۔ وہ کار میں کسی کام سے شہرکے مرکز میں گئے تھے۔ شاید عاصم کو ٹیلیکس دینے سنٹرل ٹیلیگراف کی عمارت کے اندر جانا تھا۔ جہاں ڈرائیورنے گاڑی کھڑی کی تھی اس کے سامنے ماسکو اکیڈمی آف آرٹ تھیٹر تھی۔ طغرل نے سوچا تھا کہ اس اکیڈمی میں زیرتعلیم ایک سہیلی کو کارکی سیر کرا دی جائے۔ وہ وہاں اتفاق سے مل گئی تھی۔ سیر کے لیے تو وہ فارغ نہیں تھی البتہ اس کے ساتھ سڑک پار کرکے کار دیکھنے ضرورآ گئی تھی۔ کار میں بیٹھ کر دیکھا تھا۔ عاصم پہلے ہی آ کر ولیری کے ساتھ والی نشست پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے بس اس لڑکی پر ایک نگاہ غلط اندازڈالی تھی۔ طغرل نے اس لڑکی سے پوچھا تھا، "کار کیسی لگی؟" لڑکی نے جواب دیا تھا،" اچھی ہے، پر چھوٹی ہے"۔ اس زمانے میں ماسکومیں غیرملکی کاریں بہت کم تھیں اور بڑی کاراگرتھی توروس ساختہ والگا کارہی تھی، جس کا کسی کے پاس ہونا مرتبے کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ ٹیکسیاں بھی والگا ہی ہوتی تھیں۔ لڑکی کا گاڑی بارے تبصرہ خالص روسی نفسیات کا اظہار تھا کہ چاہے ان کے پاس کار خریدنے کی استطاعت نہ ہو مگر ان کی آرزو ہوگی کہ کار یا کچھ بھی خریدیں وہ بڑی اور نمایاں ہو۔
جب لوٹے تھے تو گھرجس کا ایک کمرہ بطوردفتر کے استعمال ہوتا تھا اور ایک کمرے کے آدھے حصے میں مال تجارت یعنی جیکٹوں کے کارٹن رکھے ہوئے تھے یعنی گودام تھا وہاں نینا موجود تھی جسے وہ صبح جاتے ہوئے "دفتر" میں چھوڑ گئے تھے۔ عاصم کو ایک روز بعد کراچی لوٹ جانا تھا۔ نینا نے عادت کے مطابق بے حد شرماتے ہوئے طغرل سے کہا تھا کہ چارروزبعد اس کی بیٹی کو زچہ خانے سے چھٹی ملے گی، اگر تمہارا "باس" برا نہ منائے تو میری بیٹی کو ہسپتال سے گھرلانے کے لیے گاڑی چاہیے۔ عاصم نے پوچھا تھا کہ "لیڈی" ( وہ نینا کو لیڈی ہی کہتا تھا) کیا کہتی ہے تو طغرل نے بتایا تھا،"باس، یہ تمہاری اجازت سے کارمانگ رہی ہے"۔ عاصم نے ماتھے میں تیوڑی ڈال کر پوچھا تھا،"چاچا یہ باس کا دم چھلا کیوں لگایا ہے تم نے ؟" طغرل نے اسے بتایا تھا کہ بھائی یہ لقب تمہیں تمہاری "لیڈی" نے دیا ہے۔ عاصم نے کہا تھا کہ کار اسے ضروردے دینا۔ طغرل نے کہا تھا،"حضرت کاردوں گا بلکہ اس کی بیٹی کو لینے جاؤں گا، ویسے بھی یہ دنیا کی کم عمر ترین نانی ہے جس کی عمر اڑتیس برس ہے یعنی مجھ سے دو برس چھوٹی"۔
سیکرٹری کی ضرورت کا اشتہار دیا جا چکا تھا۔ عاصم کے جانے سے ایک روز پہلے ایک لڑکی ملازمت کے لیے آ گئی تھی۔ اسے غالبا" 200 ڈالر ماہوار پر ملازم رکھ لیا گیا تھا جس کا کام صرف یہ تھا کہ فون سنے اورفون کرے۔ لڑکی خوبصورت اورجوان تھی۔ عاصم نے طغرل سے کہا تھا،"چاچا یہ نہ بھولنا کہ یہ بس ملازم ہے"۔ عاصم یہ کہتے ہوئے خود بھول گیا تھا کہ اس کی دوسری بیوی جو اب اس کے دو عدد بچوں کی ماں تھی اس کی بیوی بننے سے پہلے اس کی سیکرٹری رہی تھی۔ مگر طغرل کو تو جوان نانی اچھی لگتی تھی۔
عاصم کے جانے سے دو روزپہلے ڈرائیور ولیری طغرل اورعاصم کو اتارکرچلا گیا تھا۔ گھر کا دروازہ حسام نے کھولا تھا، دروازہ کھلتے ہی دائیں جانب طغرل کا کمرہ تھا جس میں وہ کچھ رکھنے کے لیے داخل ہو گیا تھا۔ تھوڑی دیرمیں جب وہ کمرے سے نکلا تھا تو برآمدے میں موجود عاصم نے دونوں بازووں سے موٹاپے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا جاؤ تمہاری (موٹی) آئی بیٹھی ہے۔ طغرل کو تعجب ہوا تھا کہ کون ہے یہ فربہ خاتون؟ اس نے عاصم سے پوچھا تھا کہ کون ہے، جس نے جواب میں کہا تھا ،"مجھے کیا معلوم، جاؤ جا کر مل لو"، طغرل کچن سے ملحق اس کمرے میں گیا تھا جہاں "مال" پڑا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک فربہی مائل خوش شکل خاتون بیٹھی ہے جس کا جثہ پنجاب کی کسی "جٹی رن" سے ملتا جلتا تھا۔ اس نے مسکرتے ہوئے بتایا تھا کہ اس کا نام مارگاریتا ہے جسے اختصار سے ریتا کہا جاتا ہے۔ وہ رئیس کے کسی ساتھی راجہ شاہجہان کی تلاش میں آئی تھی جو شاید طغرل کی غیر موجودگی میں "لیلوں" کے ساتھ وہاں رہتا رہا تھا۔ خیر وہ اپنا نمبر چھوڑ کر چلی گئی تھی کہ اگر شاہجہان کے بارے میں علم ہو تو برائے مہربانی مجھے مطلع کر دینا۔ طغرل کو کیا پڑی تھی کہ کسی انجان کے بارے میں معلوم کرتا پھرتا۔ ان دنوں پتہ نہیں کون کون کس کس کو سبزباغ دکھا کر ایک ڈالی سے دوسری ڈالی پر منتقل ہو جاتا تھا۔
عاصم چلا گیا تھا۔ صبح کو سیکرٹری آ جاتی تھی اوردرمیان والے کمرے میں فون رکھ کر بیٹھ جایا کرتی تھی۔ طغرل ولیری کو لے کرنکل جایا کرتا تھا۔ سیکرٹری دوچارروزبعد ہی بورہوکرکام چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ طغرل کو احساس تھا کہ فی الحال سیکرٹری کی ضرورت نہیں۔
ایک شام اسے خیال آیا تھا کہ اس ریتا نام کی خاتون کو فون کیوں نہ کرے۔ تھی تووہ بھی 25 چھبیس سال کی لڑکی لیکن اپنے قد کاٹھ کی وجہ سے خاتون لگتی تھی۔ طغرل نے اس کو فون کیا تھا اور اس نے کہا تھا کہ اگر چاہو تو آج رات میری طرف آ جاؤ۔ ولیری نے ایڈریس پوچھ لیا تھا۔ وہ شہر کے دوسرے سرے پررہتی تھی۔ جب ڈرائیورولیری نے طغرل کو اس کے گھر کے سامنے اتارا تھا تو طغرل نے ڈرائیورسے کہا تھا کہ تم چلے جاؤ اگر مجھے ضرورت پڑی تو میں تمہیں فون کر لوں گا تم مجھے لینے آ جانا۔ ولیری گاڑی عموما" لے جایا کرتا تھا۔
ریتا پیشے سے انجنیر تھی لیکن کوئی دوسرا جاب کررہی تھی۔ اس کا اپارٹمنٹ اپنا تھا۔ خوش اخلاق مگر بظاہر طنز کے سے انداز میں گفتگو کرنے والی خاتون تھی۔ گھراگرچہ صاف تھا لیکن جس طرح اس نے روسیوں کے برعکس مہمان کے لیے کوئی اہتمام نہیں کیا تھا اس سے لگتا تھا کہ وہ سست ہے۔ تاہم اس نے طغرل کو کچھ نہ کچھ بنا کر کھلا دیا تھا۔ طغرل کو اتنی زبان تو آتی نہیں تھی بس اس کی سنتا رہا تھا۔ پھر وہ بستر پر لیٹ کر باتیں کرتے ہوئے ٹی وی دیکھنے لگی تھی جو ایک طرح کا اشارہ تھا کہ چھوڑو بیکار کی انٹ شنٹ سننا، بستر میں آ گھسو۔ طغرل کو اپنا آپ اس کے آگے منحنی سا لگ رہا تھا۔ وہ شش و پنج میں تھا کہ کیا کرے۔ ریتا لاکھ فربہ سہی لیکن دلکش تھی۔ بالآخرطغرل کو اکھاڑے میں کودنا ہی پڑا تھا۔ اکھاڑا کیا تھا نرم و گداز جھولا تھا جس پر طغرل چند بار جھولا تھا اور پھر ساکت ہو کر پیٹھ پھیرسوتا بنا تھا۔ طغرل کو کسی کے ساتھ لیٹے ہوئے نیند نہیں آتی، اگر آ بھی جاتی ہے تو کچی ہوتی ہے چنانچہ وہ پو پھٹتے ہی ریتا کو جگا کر معذرت کرکے نکلا تھا اور ٹیکسی لے کر گھر پہنچ گیا تھا۔
وہ دن آ گیا تھا جب نینا کی بیٹی کو جس کا اس نے آلا نام بتایا تھا، نومولود بچے کے ساتھ "زچہ بچہ گھر" سے لینے جانا تھا۔ طغرل نینا اوراس کے بیٹے ساشا کے ہمراہ گیا تھا مگر اس کا داماد پہلے ہی اپنے کسی دوست سے کار لے کر وہاں پہنچا ہوا تھا۔ جب آلا نوزائیدہ بچے کے ہمراہ باہر نکلی تھی تو سبھی نے یعنی شوہر، ماں، بھائی نے اس کے ہونٹوں پرچوما تھا،۔ طغرل پریشان تھا کہ اسے ریت رواج کے مطابق کیا کرنا چاہیے۔ خیر اس نے ہاتھ آگے بڑھا دیا تھا اور آلا نے مسکراتے ہوئے اس کے ساتھ مصافحہ کرلیا تھا۔ آلا اپنے نومولود بچے کے ساتھ اپنے شوہر لیونیا کے ہمراہ گاڑی میں سوار ہو گئی تھی۔ طغرل نینا کو ان کی گاڑی کے تعاقب میں آلا کے گھر کے سامنے اتار آیا تھا۔
نینا ایسی عورت نہیں تھی جس کو شیشے میں اتارنے کی کوشش کی جاتی۔ بہت کھلے معاشروں میں بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کا چلن باقی معاشرے والوں سے کسی حد تک مختلف ہوتا ہے۔ باوجود اس کے کہ نینا طغرل کو اچھی لگتی تھی، اس نے اس سے کوئی ایسی بات نہیں کہی تھی جس سے اسے اس کی جانب طغرل کی رغبت کا اندازہ ہو سکتا۔ بیٹی کے گھرچھوڑتے ہوئے طغرل نے اسے کہا تھا کہ کل شام ہم تمہاری خوشی سیلیبریٹ کریں گے۔ اگرچہ اس روز وہ اپنے چوبیس گھنٹے والے سرکاری کام پرتھی مگروہ ایک آدھ گھنٹے کے لیے شام کو طغرل کے ہاں پہنچ گئی تھی۔ وہ دونوں درمیان والے کمرے میں جو پانچ بجے تک دفتر ہوتا تھا اور پانچ بجے کے بعد ڈرائنگ روم بن جاتا تھا، آمنے سامنے بیٹھ گئے تھے اورخوشی کے جام لنڈھانے لگے تھے۔ دوسرے تیسرے جام کے بعد جب الکحل نے اپنا اثر دکھا دیا اورجو وہ ظالم کرتی ہے یعنی اس کے اثرنے دماغ کے اگلے حصے سے معاشرتی قدغنوں کو کھرچ دیا توطغرل نے نینا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ نینا نے ہاتھ نہیں چھڑایا تھا البتہ دھیرج کے ساتھ اتنا ضرور کہا تھا،" میرا مرد ہے"۔ یہاں خاوند کو "موش" اورخاوند نہ ہوتے ہوئے خاوند کو "میرا مرد" کہا جاتا ہے۔ طغرل نے جھینپ کرہاتھ کھینچ لیا تھا اوراپنی اس حرکت پر معذرت کرلی تھی۔ وہ اپنے دفتر لوٹ گئی تھی۔
رات کے کہیں بارہ ساڑھے بارہ بجے اسے نینا کا فون آیا تھا۔ وہ بڑے خوشگوارموڈ میں تھی، لگتا تھا کہ وہ اپنی رفقائے کار کے ساتھ بھی اپنی خوشی منا رہی تھی۔ اس دوران طغرل اس کی چند ہمکار عورتوں سے شناسا ہو چکا تھا جن میں سے ایک کو اس کے طویل قد اور سمارٹ ہونے کی بنا پر وہ "ایروفلوٹ" کہا کرتا تھا یعنی جیسے وہ ایرہوسٹس ہو۔ نینا نے پوچھا تھا، "کیسی گذر رہی ہے؟"۔ طغرل بھی ترنگ میں تھا، بولا تھا، "اگر ایروفلوٹ کو بھجوا دوتواچھی گذرجائے گی"۔ "اور اگرمیں خود آ جاؤں تو؟" طغرل کو اس کا یہ کہنا مذاق لگا تھا تاہم اس نے کہا تھا،"تم آ جاؤ پھربھی ٹھیک ہے"۔ نینا نے "اچھا" کہہ کر فون رکھ دیا تھا۔
طغرل کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ نینا آ سکتی تھی۔ ویسے بھی اس نے چند گھنٹوں پہلے کہا تھا کہ "اس کا مرد ہے" البتہ طغرل کو اس دعوے کی سچائی کے بارے میں علم نہیں تھا۔ طغرل کتاب پڑھنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا کہ اسے باہر کسی گاڑی کے رکنے کی آواز سنائی دی تھی۔ اس نے ویسے ہی کھڑکی کا پردہ سرکا کر دیکھا تھا تو پولیس کی گاڑی تھی جس میں سے نینا اترکرعمارت کے دروازے کی جانب بڑھ رہی تھی۔ نینا پولیس کے ایک ذیلی شعبے میں بطورعام شہری کے کام کرتی تھی۔ تھوڑی دیرمیں بیل بجی تھی۔ طغرل نے دروازہ کھولا تھا اورنینا کوبانہوں میں بھرلیا تھا۔ طغرل کی وہ رات بہت خوشگوار کٹی تھی۔ اب تک اس کی تمام مہمات میں اسے پہلی بارفاتح کی بجائے مفتوح ہونے کا احساس ہوا تھا۔ مفتوح بھی ایسا جس کو مفتوح ہو جانے پرتسکین ہو۔
دو تین روزتک نینا نے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔ دو ایک بارطغرل نے فون کیا تھا ایک دفعہ تو کسی نے اٹھایا ہی نہیں تھا اورایک دفعہ اسے لگا تھا جیسے اٹھا کررکھ دیا ہو۔ البتہ آخری بارنینا نے فون اٹھایا تھا، اس کی آوازبہت دبی دبی سی تھی۔ وہ کوئی بات کرنا نہیں چاہ رہی تھی۔ فون بند کرتے ہی طغرل اس کو ملنے کے لیے چل پڑا تھا۔ بیل بجانے پر اس کی ساتھی عورت نے دروازہ کھولا تھا، مسکرائی تھی اوربتایا تھا کہ ہاں نینا گھرپرہی ہے۔ طغرل جب نینا کے کمرے میں داخل ہوا تھا تو اس نے دیکھا تھا کہ وہ لیٹی ہوئی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں جیسے بہت روئی ہو۔ طغرل کے استفسار پر پہلے تواس نے ٹالنے کی کوشش کی تھی۔ پھراس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے تھے۔ اس نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تھا،" میں نے زندگی میں ایسا کبھی نہیں کیا، جیسے اس روز کیا۔ میں نے تو ویسے ہی کہا تھا کہ اگر میں آ جاؤں تو؟ رفیق کار لڑکیوں نے چیلنج کر دیا تھا کہ تم نہیں جا سکتیں۔ میں بھی پیے ہوئے تھی اورمیں نے ان کا چیلنج قبول کر لیا تھا۔ بعد میں بہت پشیمانی ہوئی تھی کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟"۔ طغرل نے اس کے سر پر جیسے شفقت سے ہاتھ رکھا تھا۔ وہ دراصل اس کی تشقی کروانا چاہتا تھا۔ اس نے کہا تھا،"نینا تم نے کوئی انہونی نہیں کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کرنا تمہارے مزاج کے خلاف تھا لیکن بہرحال ہو گیا۔ مجھے تم اچھی لگتی ہو اسی لیے تمہاری خیریت پوچھنے چلا آیا ہوں۔ بے فکر رہو، میں تمہیں مایوس نہیں کروں گا البتہ آج سے تم ملازم نہیں ہو کیونکہ ہمارے تعلقات قائم ہو چکے ہیں"۔
اس اثناء میں طغرل کے دفتر یا گھر، اس تین کمروں کے مکان کوجو چاہے کہہ لیں، میں آنے والے بیشتر افراد کو معلوم ہو چکا تھا کہ نینا کام کی دھنی ہے۔ وہ چاہے ملنے کے لیے ہی کیوں نہ آتی، گھر کی دیکھ بھال ، برتن دھونا سمیٹنا، چیزوں کو درست طریقے سے رکھنا یہ سب اپنے ذمہ لے لیتی تھی، پہلے پہل تو طغرل نے اسے اس سارے تردد سے بازرکھنے کی کوشش کی تھی لیکن یہ جان لینے کے بعد کہ نچلا بیٹھنا اس خاتون کے لیے ممکن نہیں اور نہ ہی وہ بے ترتیبی اور صفائی کے فقدان کو برداشت کر سکتی ہے، اس نے اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔
جہاں تک تعلق تھا کسی کے ساتھ شب بسری کا طغرل اس معاملے میں کسی کا پابند نہیں تھا۔ جی چاہتا تو کئی کئی روزتین کمروں والے بھاڑ سے گھرمیں رات بھردروازے بند کرتا پھرتا، پھر سو جاتا۔ صبح اٹھ کر پھر سے وہی غیر مصروف مصروفیت۔ جیکٹیں تھیں کہ بک ہی نہیں رہی تھیں۔ مارکیٹنگ کا کام حسام کرتا تھا مگر اسے کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہو پارہی تھی تاہم وہ دن چڑھے آ ضرور جاتا تھا اور شام کو طغرل کے ساتھ پی کر چلا جاتا تھا ، دل چاہتا تو وہیں رہ جاتا تھا۔ کبھی طغرل ریتا کے ہاں رات بسر کر لیتا تھا، چاہتا تو اپنے ہاں بلا لیتا تھا۔ کبھی نینا کے ہاں رات گذار لیتا توکبھی نینا آ جایا کرتی تھی۔ اس نے دو بارمعاوضہ دے کرایک طناز نوجوان حسینہ کو بھی گھنٹے گھنٹے بھر کے لیے منگوایا مگراسے لگا تھا جیسے وہ بھی اس پیشہ ور لڑکی کے ساتھ روبوٹ بن جاتا تھا کہ وقت تمام ہوا تو تعلق تمام۔ بہت غیر انسانی سا لگتا تھا ایسا کرنا اور ایک خلا باقی رہ جاتا تھا چنانچہ اس جانب اس کی طبیعت مائل نہ ہو سکی تھی۔
نینا اور ریتا کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھیں۔ طغرل کے بیٹے کی سالگرہ کا دن نزدیک آ رہا تھا، اس نے نینا سے کہہ دیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے سلجوق کی بارہویں سالگرہ زورشورسے منانا چاہتا تھا اس لیے وہ اپنی تمام ہمکارخواتین کو مدعو کر لے۔ اس بارے میں طغرل نے رئیس کو بھی مطلع کردیا تھا۔ ویسے بھی اسے رئیس کے دو ایک لڑکے چاہییں تھے جو پاکستانی کھانا پکا لیتے۔ ریتا کوبھی مدعو کر لیا تھا۔ سالگرہ منانا تو بہانہ تھا، مقصد اچھی شام گذارنا تھا۔ کھانے پینے کا سارا کام تقریبا" نینا نے ہی کیا تھا البتہ رئیس کے "لیلوں" نے پاکستانی سالن اور چپاتی بنا نے کا کام سنبھالا تھا۔ رئیس نے دوستی نبھائی تھی۔ وسکی کی بوتل کے علاوہ آٹھ کیک لے کرآیا تھا یعنی ہرمہمان کو جاتے ہوئے دینے کے لیے ایک کیک۔
محفل سج گئی تھی۔ لذت کام و دہن کی تسکین کا ساسلہ شروع تھا کہ دروازے کی بیل بجی تھی، رئیس کے لڑکے نے جا کر دروازہ کھولا تھا۔ دروازے سے ریتا داخل ہوئی تھی۔ نینا نے بتایا تھا کہ کوئی ریتا آئی ہے تو وہ اس کے سامنے "مایا ریتا" "مایا ریتا" یعنی میری ریتا، میری ریتا کہتے ہوئے اس کا خیر مقدم کرنے کو دوڑا تھا۔ اس فقرے کو نینا بعد میں طعنے کے طور پر بہت عرصے تک استعمال کرتی رہی تھی۔ یہ تو طغرل پرعرصے بعد کھلا تھا کہ نینا میں حسد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بلکہ مرض کی حد تک بھرا ہوا تھا۔
طغرل کو دکھ پالنے کا شوق ہے یعنی ایک طرح سے وہ اذیت پسند ہے۔ لا محالہ کسی حوالے سے انس میں اذیت پرستی کا کوئی عنصر ہوگا کیونکہ نفسیاتی اعمال کی ضدین لازم وملزوم ہوا کرتی ہیں۔ چونکہ نینا سے ہرطرح کی باتیں ہوتی تھیں۔ نینا کے بچوں کا باپ یاکاو (یعقوب) ایک یہودی مگردہریہ میجرتھا۔ بہت گھنا۔ چھپ کرتعیش سے لطف لینے کا عادی۔ نینا کے ماں باپ انتقال کر گئے تھے۔ وہ پندرہ برس کی تھی۔ پہلے اسے ایک بہن کے ہاں اور پھردوسری بہن کے پاس رہنا پڑا تھا۔ وہ ان پر بوجھ نہیں بننا چاہتی تھی۔ یاکاو فوج میں افسرتھا چنانچہ ملاقات کے تھوڑے عرصے بعد ان کے تعلقات بنے تھے اورپھرجلد ہی شادی۔ نینا کہتی تھی کہ اگر اسے پہلے معلوم ہوتا کہ وہ یہودی ہے تو وہ ہرگز اس سے بیاہ نہ کرتی۔ نینا کو اس نے جنسی عمل کے تلذذ سے دنیا کی کروڑوں بلکہ اربوں عورتوں کی طرح ناآشنا رکھا تھا۔ نینا نے محنت مشقت کرکے اس زمانے میں اپنے شوہر کو کارخرید کر دی تھی۔ خود بس کے ذریعے کام پرجاتی تھی۔ ایک روز اس نے بس میں سے دیکھا تھا کہ اس کا شوہر کسی اورخاتون کو کارمیں بٹھائے لیے جا رہا ہے۔ اس نے بس سے اتر کرٹیکسی پکڑی تھی اورکار کا پیچھا کیا تھا۔ وہ دونوں کار سے نکل کر ایک دکان میں داخل ہو گئے تھے اور نینا ثبوت کے طور پر اس کی کارکا اشارہ توڑ آئی تھی۔ کام سے واپس آ کراس نے شوہر سے پوچھا تھا کہ لائٹ کیسے ٹوٹی؟ ظاہر ہے اس نے کوئی کہانی سنائی تھی۔ اس نے اسے جب بتایا تھا کہ یہ شیشہ اس نے توڑا تھا تووہ ڈٹ گیا تھا کہ وہ کوئی اورہوگا پرمیں نہیں تھا۔ دلیل یہ تھی کہ نجانے ایک روز میں اس شہر میں کتنی کاروں کی لائٹیں ٹوٹی ہونگی، اس کا یہ تو مطلب نہیں کہ سب تم نے ہی توڑی ہیں۔ بہر حال ان کے رشتے میں دراڑ پڑ گئی تھی۔ پھر ایک روز وہ بخارآ جانے کی وجہ سے جلد گھر آ گئی تھی۔ اس نے اپنے اپارٹمنٹ کا دروازہ کھولا تھا۔ یاکاو کو پتہ نہیں چلا تھا کہ وہ گھر میں داخل ہو گئی ہے۔ وہ نینا کے بستر پر ہمسائی کے ساتھ ملوث تھا۔ نینا نے کچن میں جا کر ایک چینی مٹی کی تھالی زمین پرمار کر توڑی تھی تب انہوں نے ہڑبڑا کر کپڑے پہنے تھے۔ معاملہ خراب ہو چکا تھا جو بالآخر طلاق پر منتج ہوا تھا۔
اس وقت اس کا خاوند بالٹک ریاست استونیا کے شہر تالن میں تعینات تھا۔ ویسے اس کے شوہر کے والدین ولنیوس میں رہتے تھے۔ اب نینا کے پاس کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ یاکاو کہنے کوتودہریہ تھا لیکن رویوں میں یکسر یہودی تھا۔ اس نے کتابیں تک بانٹی تھیں۔ اس تقسیم میں بھی ڈنڈی ماری تھی۔ اچھی کتابیں خود رکھ لی تھیں اوربیکارنینا کو دی تھیں۔ نینا میں صبرخاصا تھا۔ وہ کچھ عرصہ توایک ہی چھت تلے علیحدہ علیحدہ کمروں میں رہے تھے۔ پھر نینا بچوں کو لے کرایک "فیمیلی فرینڈ" نکولائی کے ہاں ماسکو چلی آئی تھی جو اس سے عمر میں بیس سال بڑا تھا۔ نکولائی کی بیوی فوت ہو چکی تھی وہ اپنی جوان تقریبا" نینا کی ہم عمر بیٹی کے ہمراہ رہتا تھا۔ پھر ایک روز جیسے مرد کرتا ہے، اس نے اس کو بستر پر کھینچ لیا تھا اور نینا نے بہترجانا تھا کہ اس سے بیاہ رجسٹر کرا لے تاکہ بچوں کو ٹھکانہ میسررہے اورسرکاری سہولیات جیسے تعلیم صحت وٍغیرہ بھی میسرآ جائیں۔ نکولائی دل کا مریض تھا اوراس نے نینا کو یہ بات نہیں بتائی تھی۔ ایک روز جب وہ داچے (دیہاتی گھر) میں تھے تو نکولائی سائیکل پر سیر کے لیے نکلا تھا، گھنٹے بھربعد کسی نے بتایا تھا کہ کچھ فاصلے پرایک آدمی مرا پڑا ہے، لگتا ہے کہ وہ آپ کا خاوند ہے۔ نینا دو سال بعد ہی طلاق یافتہ سے بیوہ بن چکی تھی۔ اب اس کی صعوبتوں کا آغاز ہوا تھا۔ اسے بچوں کی پرورش کے لیے دو دو ملازمتیں کرنی پڑی تھیں۔ دوسرے خاوند کی بیٹی اور اس کے تاتار خاوند رستم سے، جو اپنی بیوی کے والد کے انتقال کے بعد ان کے گھرمیں منتقل ہو چکا تھا لڑائیاں مول لینا پڑی تھیں۔ پھر اس کی ولودیا نام کے ایک باڈی گارڈ سے دوستی ہو گئی تھی جسے اس نے اپنا "مرد" کہا تھا۔ کچھ ہی عرصے بعد اسے معلوم ہوا تھا کہ وہ بھی ہرجائی ہے چنانچہ اس نے اس سے تعلق توڑ لیا تھا مگر دوستی برقرار رہی تھی۔
مختصرا" یہ کہ نینا کی داستان جان لینے کے بعد طغرل نے چاہا تھا کہ نینا کی اپنے بچوں کے باپ کے ساتھ پھرسے صلح ہوجائے تو اچھا ہوگا۔ یاکاو کبھی کبھار اپنی بیٹی اور بیٹے سے ملنے ماسکو آ جایا کرتا تھا۔ طغرل نے نینا سے کہا تھا کہ اچھی بات ہے تم دونوں کی صلح ہو جائے۔ نینا نے اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا تھا طغرل نے خاموشی کو نیم رضا جانا تھا اوراس سے کہا تھا کہ جب بھی یاکاوماسکو آئے تو ایک شام اسے میرے ہاں مدعو کرلینا۔
نینا نے ایک شام یاکاوکواس کی ماسکو میں موجودگی کے دوران بالآخر طغرل کے ہاں مدعو کر لیا تھا۔ یاکاو طغرل سے عمر میں کوئی پانچ سال بڑا تھا۔ تیکھے نقوش، درمیانہ قد، کسی مستعد یا خائف بے ضررجاندار کی مانند آنکھیں تیزی سے گھما کر ادھرادھردیکھنے والا یہ خاصی حد تک گنجا ہوتا ہوا شخص اپنے چہرے کے نقوش سے لگتا تھا کہ جوانی میں برطانیہ کے پرنس چارلس کی جوانی کا عکس رہا ہوگا۔ نینا تو اب بھی بہت حد تک پاکستان کی اداکارہ صبیحہ سے مماثل تھی۔ طغرل نے نینا کے سابق خاوند کی مدارت کے لیے خاص اہتمام کیا ہوا تھا۔ پونے تین لٹرکی جانی واکرکی بوتل بند پڑی تھی۔ اتنے ہی سائز کی دوسری بوتل میں کوئی تین چوتھائی لٹر وہسکی بچی ہوئی تھی۔ پہلے اسی بوتل کو خالی کرنے کا سوچا گیا تھا۔
یاکاوانگریزی زبان اچھی بول لیتا تھا۔ نینا اس بارے میں طغرل کو بتا چکی تھی۔ گفتگو کے چند منٹ بعد ہی یاکاو نے کہا تھا بلکہ ایک طرح سے طغرل کو متنبہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ نینا سے تعلق بناتے والا شخص جلد دوسرے جہان سدھار جاتا ہے۔ یہ کہہ کروہ نینا کے دوسرے شوہرانجہانی نکولائی کی موت پرطنز کررہا تھا اورطغرل کو اپنی سابق بیوی سے دور رہنے کا خفی مشورہ دے رہا تھا۔ طغرل کو اس کا یہ انداز اچھا نہیں لگا تھا، وہ کہنا تو چاہتا تھا کہ جناب آپ تواب تک زندہ ہیں باوجود اس کے کہ آب اپنی اہلیہ کے ساتھ تقریبا" سولہ سترہ برس رہے ہیں، مگر یاکاو طغرل کا مہمان تھا۔ البتہ یہی بات نینا نے اسے ضرور کہی