” مجھے کوئی افسوس نہیں ۔ ۔ ۔ “
[ ناول و فلم ’ دی گریجویٹ ‘ ( The Graduate ) پر ایک نوٹ ]
قیصر نذیر خاورؔ
اے اندھیارے ، اے میرے درینہ رفیق ، کیسے ہو! میں ایک بار پھر تم سے باتیں کرنے آیا ہوں ۔ ۔ ۔ اک کشف دھیرے سے خزندہ ہے ۔ اس نے اپنے بیج اس سمے چھوڑے جب میں محو خواب تھا ۔ ۔ ۔ اور کشف میرے دماغ میں پھوٹا ۔ ۔ ۔ یہ اب تلک صدائے خاموشی میں رچا ہوا ہے ۔
میں مضطرب خوابوں میں اکیلا پھرتا ہوں ۔ ۔ ۔ گول پتھروں سے بنی تنگ گلیوں میں ۔ ۔ ۔ ان میں جلتے چراغوں کے ہالے تلے ۔ ۔ ۔ میں اپنی قمیض کا کالر کھڑا کرتا ہوں کہ ٹھنڈ اور نمی سے اپنی گردن بچا سکوں ۔ ۔ ۔ نیون سائنوں کی چمک میری آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے ۔ ۔ ۔ یہ رات کے اندھیرے کو چیر دیتی ہے اور صدائے خاموشی کو چُھو لیتی ہے ۔
اور اس ننگی روشنی میں ، میں ہزاروں بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ لوگوں کو دیکھتا ہوں ۔ ۔ ۔ لوگ جو بِنا بولے باتیں کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ لوگ جوبِنا سُنے سن رہے ہیں ۔ ۔ ۔ لوگ جو ایسے گیت لکھ رہے میں جنہیں کوئی نہ گائے گا ۔ ۔ ۔ کسی میں جرا
ٔت نہیں کہ وہ صدا ئے خاموشی کو توڑے ۔
” گھامڑ “ ، میں کہتا ہوں ، ” تمہیں پتہ ہی نہیں ہے کہ خاموشی کینسر کی طرح پھیلتی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ میرے الفاظ سنو ۔ ۔ ۔ میں ، شاید ، تمہیں کچھ سکھلا سکوں“ ۔ ۔ ۔ میرا بازو تھامو کہ کہ تم میری پہنچ میں آ سکو۔ ۔ ۔ پر کچھ ایسا ہے کہ میرے الفاظ بارش کی بے آواز بوندوں کی طرح خاموشی کے اتھاہ گہرے کنوﺅں میں گرتے رہتے ہیں اورمجھے ، بس ، ان کی باز گشت ہی سنائی دیتی ہے ۔
اور لوگ ہیں کہ جھکے ہوئے ، اپنے ہی بنائے ’ نیون ‘ کے صنموں کی پوجا اور حمد و ثنا کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ اور پھر نیون سائن چمک کر انتباہ کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ان کے لشکاروں سے الفاظ ترتیب پاتے ہیں اور وہ کہتے ہیں ؛ ” پیغمبروں کا کہا زیر زمین راستوں کی دیواروں اور بستی کے ایوانوں میں لکھا ہے“ ۔ ۔ ۔ ان کی یہ سرگوشی بھی خاموشی کی صدا میں دب جاتی ہے ۔
یہ اس گیت کا آزاد ترجمہ ہے جو فلم ’ گریجویٹ ‘ ( The Graduate ) کے آغاز اور اختتام پر بیک گراﺅنڈ میں بجتا ہے ۔ میں نے یہ فلم 1970 ء کی دہائی کے وسطی سالوں میں ایک سے زائد بار دیکھی اور اپنی ڈائری کے کسی صفحے پر اس کا ذکر بھی کیا تھا ۔ ہمارے جیسے بھکاری ملکوں میں اُس وقت کچھ ایسا تھا کہ فلمیں ہمارے سینماﺅں میں یوں آتی تھیں جیسے ولائیتی ’ اترن‘ برسوں بعد ہمارے لنڈا بازاروں میں پہنچتی تھی ۔ یہ فلم دسمبر 1967 ء میں امریکہ اور یورپ میں ریلیز ہوئی تھی جبکہ اس کی ’ اترن ‘ ہم تک آٹھ نو سال بعد ہی پہنچ پائی تھی ۔
1967 ء میں ، ہالی ووڈ میں بننے والی فلموں میں سے دو ایسی ہیں جن میں ’ لیڈ کاسٹ ‘ ( Lead Cast ) کا انتخاب ایک مشکل مرحلہ بن کر سامنے آیا تھا ۔ ان میں ایک فلم ’ گیس ہو اِز کمنگ ٹو ڈنر‘ ( Guess Who's Coming to Dinner) تھی ۔ یہ فلم بھی دسمبر1967 ء میں ہی ریلیز ہوئی تھی جبکہ دوسری فلم ’ گریجویٹ ‘ تھی ۔ ’ گیس ہو اِز کمنگ ٹو ڈنر‘ کا مسئلہ یہ تھا کہ اس فلم میں ایک کالے ہیرو ( سڈنی پوئیٹر) کے مد مقابل کسی سفید فام ہیروئن کو منتخب کیا جانا تھا ؛ اس وقت امریکہ کی کم و بیش بیس ریاستوں میں نسلی امتیاز کے حوالے سے گوروں اور کالوں کی آپسی شادیوں پر پابندی تھی ۔ اپنے وقت کی تمام نامی سفید فام جوان اداکارائیں سڈنی پوئیٹر کے مد مقابل کام کرنے کو تیار نہ تھیں ۔ ایسے میں کیتھرین ہیپبرن نے اپنی بھتیجی ’ کیتھرین ہوگٹن ‘ کو راضی کیا تھا کہ وہ ’ سٹینلے کریمر ‘ کی اس فلم میں کام کرے ۔ چار ملین ڈالر سے بننے والی اس فلم نے لگ بھگ ساٹھ ملین ڈالر کا بزنس کیا تھا اور دو آسکر بھی حاصل کئے تھے ۔
کچھ ایسا ہی مسئلہ ’ گریجویٹ ‘ کے ساتھ پیش آیا تھا ؛ یہ فلم ’ چارلس ویب ‘ کے اسی نام کے ناول پر مبنی ہے ، اسے سکرین پلے میں' بَک ہنری ' اور ' کیلڈرویلنگہم ' نے ڈھالا اور اس کا ہدایت کار ’ ? Who's Afraid of Virginia Woolf ‘ فیم ’ مائیک نکلوس ‘ تھا ۔
یہ ایک ایسے بیس سالہ نوجو ان بنجیمن ( ڈسٹن ہوفمین) کی کہانی ہے جو کالج کی تعلیم مکمل کرکے گھر واپس آتا ہے جہاں مسز روبنسن ( اینی بینکروفٹ ) اسے ’ سیڈیوس ‘ ( seduce ) کرتی ہے ۔ وہ بنجیمن سے دگنی عمر کی ہے ۔ ان کا یارانہ مہینوں چلتا ہے ۔ بعد ازاں بنجیمن اس کی بیٹی ’ اَلین ‘ (کیتھرین روس ) کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ مسز روبنسن نہیں چاہتی کہ وہ ’ اَلین ‘ سے شادی کرے ۔ وہ اَلین کی شادی اس کے ایک دوست سے طے کروا دیتی ہے ۔ فلم کا اختتام اس بات پر ہوتا ہے کہ بنجیمن ، اَلین کوعین شادی کے موقع پرچرچ سے اٹھا کر لے جاتا ہے ۔
جب ’مائیک نکلوس ‘ مسز روبنسن کے کردار کے لئے درمیانی عمر کی اداکارہ تلاش کر رہا تھا تو اس کا پہلا انتخاب فرانسیسی اداکارہ ’ جین موریو‘ تھی لیکن وہ اس کے ہاتھ نہ آئی ۔ ڈورس ڈے نے اس فلم میں یہ نیم عریاں کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا ۔ ’پیٹریشا نیل‘ نے بھی اس کردار کو قبول نہ کیا ۔ لگ بھگ بیس اداکارائیں جن میں صوفیہ لارین ، رٹیا ہیورڈ ، اینی بیکسٹر ، سوسن ہیورڈ اور لانا ٹرنر بھی شامل تھیں ، اس کردار کو ادا کرنے سے انکاری تھیں ۔ ایوا گارڈنر نے البتہ کچھ دلچسپی کا اظہار کیا لیکن وہ اس وقت 45 برس ٹاپ چکی تھی اور اس کا یہ بھی کہنا تھا ؛
” میں نے کبھی کسی ڈائریکٹر کے لئے کپڑے نہیں اتارے ۔ “
نیم عریانیت کے علاوہ ان سب اداکاراﺅں کو ایک شادی شدہ عورت اور ایک بیس سالہ نوجوان کے درمیان ’ ایکسٹرا میریٹل ‘ تعلق اور بعد ازاں اس نوجوان کا اسی کی بیٹی پر فدا ہو کر اسے بھگا لے جانے والا ’ پلاٹ ‘ بھی کچھ اچھا نہ لگا تھا ؛ ” یہ انتہائی انٹی۔ کرِسچینیٹی ہے ۔ ۔ ۔ “ ، کچھ اداکاراﺅں کا کہنا تھا ۔ یوں ، مائیک نکلوس نے 35 سالہ اینی بینکرافٹ کو مسز روبنسن کے کردار کے لئے منتخب کیا ۔
اَلین کے کردار کے لئے اداکارہ کے انتخاب میں بھی مائیک کو مشکل پیش آئی ۔ کئی جوان اداکاراﺅں نے ، جن میں پیٹی ڈیوک ، فئے ڈوناوے ، شرلے مکلین ، گولڈی ہا ن، جولی کرسٹی اور جین فونڈا بھی شامل تھیں ، اس کردار کے لئے ہاں نہ کی ۔ راقیل ویلیش اور جون کولنز البتہ یہ کردار کرنے کے لئے راضی تھیں ۔ مائیک نکلوس نے جب انہیں اینی بینکرافٹ کے ساتھ’ آڈیشن ‘ میں ٹیسٹ کیا تویہ دونوں، بوجوہ ، اسے اَلین کے کردار کے لئے موزوں نہ لگیں ۔ یوں27 سالہ ’ کیتھرین روس ‘ اَلین کے کردار کے لئے منتخب ہوئی ۔
بنجیمن کے کردار کے لئے بھی مائیک پہلے رابرٹ ریڈ فورڈ یا ویرن بیٹی کو لینا چاہتا تھا ؛ ویرن بیٹی نے انکار کر دیا جبکہ رابرٹ ریڈ فورڈ میں مائیک کو وہ بیچارگی وشش و پنج والی کیفیت نظر نہ آئی جو وہ بنجیمن کے کردار میں اس وقت تک دکھانا چاہتا تھا جب تک اس کا معاشقہ مسز روبنسن سے چلنا تھا ۔ یوں 29 سالہ ڈسٹن ہوفمین اس کردار کے لئے منتخب ہوا ۔
’ گریجویٹ‘ ، 3 ملین ڈالر کے بجٹ سے تیار ہوئی ۔ ریلیز ہونے پر اس نے لگ بھگ 110 ملین ڈالر کا بزنس کیا ۔ ’ مائیک نکلوس ‘ کی ہدایت کاری ، سینماٹوگرافر ’ رابرٹ سرٹیس ‘ ، تدوین کار ’ سیم او سٹین ’ اور میک اپ کرنے والی ٹیم کا یہ کمال تھا کہ فلم بین یہ نہ جان سکے کہ 39 سالہ مسز روبنسن اصل میں 35 سالہ اداکارہ ، 20 سالہ بنجیمن اصل میں 29 سالہ اداکار اور 19 سالہ اَلین اصل میں 27 سالہ اداکارہ ہے ۔ البتہ وہ اپنے میک اَپ کرنے والوں سے اینی بینکرافٹ کے ’ ٹو ٹون ‘ ( Two Tone ) جسم کو یک رنگی جلد میں نہ بدلوا سکا ( جن لوگوں نے یہ فلم دیکھی ہے انہوں نے یہ بات ضرور محسوس کی ہو گی کہ نیم عریاں اینی بینکرافٹ کی جلد انگیا اور چڈی کے علاوہ ’ ٹین ‘ ( Tan ) ہے جبکہ جہاں جہاں سے انگیا یا چڈی اپنی جگہ سے سِرکی ہوئی ہے وہاں وہاں میدے جیسی سفیدی ’ پھلبہری‘ کی طرح نظر آتی ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اس زمانے کا فیشن ہو ۔ ۔ ۔) ۔
اس فلم کے گیت اور موسیقی ’ پال سائمن ‘ اور’ ڈِیو گروسِن ‘ نے ترتیب دی تھی جو اپنے وقت کے عمدہ گیت اور موسیقی ثابت ہوئی ؛ یہ گیت فلم کی طرح آج بھی کلٹ (Cult ) ہیں ۔ فلم میں ’ ایکسٹرا میریٹل ‘ تعلق اور پھر بنجیمن کا مسز روبنسن کی بیٹی بھگا لے جانا ، مسحیت ( خصوصی طور پر کیتھولک عقیدے میں ) سمیت دیگر کئی مذاہب میں غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے ۔ اس مسئلے کو ’ مائیک نکلوس ‘ نے اس فلم کے گیتوں کے ذریعے سے ’ ٹون ڈاﺅن‘ ( Tone down ) کرنے کی کوشش کی ، جس میں وہ خاصا کامیاب بھی رہا ؛ اس کا ایک گیت تو براہ راست ہے ہی ’ مسز روبنسن ‘ کے نام سے ؛
اور یہ تم ہو، مسز روبنسن ۔ ۔ ۔ جتنا تم جانتی ہو ، مسیحا ، اس سے کہیں زیادہ تم سے پیار کرتا ہے ۔ ۔ ۔ واﺅ، واﺅ ، واﺅ ۔ ۔ ۔ خدا تم پر اپنی شفقت نچھاور کرے ، مسز روبنسن۔ ۔ ۔ جنت میں ان لوگوں کے لئے جگہ مخصوص ہے جو اس سے معافی کی دعا کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ہیے ، ہیے ، ہیے ۔ ۔ ۔ ہیے، ہیے ، ہیے ۔ ۔ ۔
اس فلم نے آسکرز کے لئے سات نامزدگیاں حاصل کیں لیکن ایک ہی جیت پائی ؛ مائیک نکلوس نے بہترین ہدایتکاری کے لئے یہ ایوارڈ جیتا تھا ۔
اس سپر ہِٹ فلم پر البتہ نقادوں کے تبصرے کچھ الگ تھے ؛ کچھ نے اسے مارڈن ہوتے امریکہ پر ایک طنز قرار دیا ، کچھ نے اسے امریکی نوجوان نسل کی جنسی بے راہ روی کے مترادف گردانا ۔ ان نقادوں نے اس کے گیتوں کو بھی روایتی ’ Norms ‘ پر طنز گردانا ۔ سب کا فوکس فلم ہی تھی ، ناول لکھنے والے پر کسی کا دھیان نہ گیا کہ وہ ایسی کہانی لکھ کر اور خود کچھ ایسی ہی زندگی گزار کر کس سے بغاوت اور کس کو چِڑا رہا تھا ۔
’ سن بلوغت ‘ اور ’ گریجویشن ‘ انسانوں کی زندگی میں دو ایسے موڑ ۔ ۔ ۔ دو ایسے سنگ میل ہوتے ہیں جو اُن کی زندگی کی راہ متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ؛ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ اس کلٹ ( Cult ) ناول اورفلم نے اس وقت کی جوان نسل کے قاری اور فلم بین پر کتنا گہرا اثر چھوڑا لیکن مجھے یہ ضرور معلوم ہے کہ ایسا ہی کچھ ناول ’ گریجویٹ‘ کے لکھنے والے’ چارلس ویب ‘ کے ساتھ ہوا تھا۔ یہ اس کا پہلا ناول تھا ؛ اس نے یہ ناول 1963 ء میں لکھا تھا ؛ ناول کو چھپنے پر کچھ زیادہ پذئرائی نہ ملی تھی لیکن فلم کی کامیابی یہ اسے بھی ' کلٹ ' ( cult ' بنا دیا ۔ جب ناول چھپا تو وہ اس وقت 23 برس کا تھا اور ولیم کالج ، برکلے ، کیلی فورنیا سے ’ گریجویشن ‘ کر چکا تھا ۔ اس نے اپنی مصورہ دوست ’ اِیو ‘ ( Eve ) کے ساتھ رہنا شروع کر دیا تھا ۔ انہوں نے دو بچے پیدا کئے لیکن دوستی / پارٹنرشپ کو کبھی بھی اس سماجی بندھن میں نہ جکڑا جسے ’ شادی ‘ کہا جاتا ہے ۔ اِیو نے بال منڈھا دئیے تھے اور خود کو ’ فریڈ ‘ کہلاتی ؛ یہ نام اس نے کیلی فورنیا کی ’ فریڈ ‘ نامی اس تنظیم سے یک جہتی کے اظہار کے طور پر اپنایا تھا جو ’ پست ذہنی نشو و نما ‘ والے بچوں کے لئے کام کرتی تھی ۔ چارلس اور اِیو نے اپنے بچوں کو سکول سے اٹھا لیا ؛ وہ معاشرے میں دی جانے والی اس روایتی تعلیم کے حق میں نہ تھے جو انہوں نے خود حاصل کی تھی ؛ وہ انہیں خود سے تعلیم دینا چاہتے تھے ۔ ریاست کیلیفورنیا میں یہ ایک غیر قانونی بات تھی ۔ وہ اس ریاست سے نکل بھاگے ، برہنہ رہنے والوں کی ایک گروہی بستی میں کچھ عرصہ رہے اورپھر نیو یارک شہر کے مضافات ، ہڈسن ۔ اون ۔ ہڈسن ، میں رہنا شروع کر دیا ۔ اِدھر صدی بدلی اُدھر چارلس اور اِیو نے امریکہ چھوڑا اور برطانیہ جا بسے ۔ چارلس نے اپنے دولت مند ڈاکٹر باپ کی دولت بھی ٹھکرا دی ۔ اپنے گھر اور اثاثے بھی بیچ ڈالے ۔ دوستوں کے دئیے تحفے تحائف بھی انہیں واپس کردئیے ۔ اِیو اور وہ لمبا عرصہ چھوٹی موٹی نوکریاں کر کے گزارا کرتے رہے ۔ بڑے گھر سے چھوٹے سے فلیٹ اور پھر برطانیہ کی سوشل سروس کے توسط سے ملے ’ ایسٹ بورن ‘ ، مشرقی سسیکس کی ایک سادہ سی سرائے کے کمرے میں ( میں یہ نہیں کہوں گا کہ کسمپری ) کی زندگی گزار رہے ہیں ؛ ایسا کرنا ان دونوں کا اپنا شعوری فیصلہ ہے ، جس کا احترام لازم ہے ۔
چارلس اب تک نو ناول لکھ چکا ہے جن میں سے اس کے تیسرے ناول ’ نوجوان سٹاک بروکر کی شادی‘ ( The Marriage of a Young Stockbroker ) جو اس نے 1970 ء میں لکھا تھا ، پر 1971ء میں فلم بنی ۔ اسے ’ گریجویٹ ‘ کے پروڈیوسر ’ لارنس ٹرومین ‘ نے ہی پروڈیوس کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ہدایتکاری بھی کی تھی ۔ یہ فلم فلاپ رہی ۔ 2005 ء میں جب فلم ’ افواہ گرم ہے ‘ ( In Rumour Has It ) سامنے آئی تو یہ سوال پھر سے اٹھے کہ بنجیمن ، مسز روبنسن اور اَلین کے کردار چارلس کے ہاتھوں کیونکر تخلیق ہوئے ؟ تب چارلس نے ایک انٹرویو میں یہ مانا ؛
” بنجیمن کا کردار میں نے خود کو سامنے رکھ کر تخلیق کیا تھا جبکہ اَلین کے کردار کے پیچھے ’ اِیو‘ یعنی ’ فریڈ ‘ ہے ۔ “
وہ البتہ مسز روبنسن کے کردار کے پیچھے اصل شخصیت کو پھر بھی چھپا گیا ۔ جب اس سے براہ راست سوال کیا گیا کہ اس کردار کے پیچھے ’ ایو‘ کی والدہ ’ جو رَڈ ( Jo Rudd ) تو نہیں ؟
چارلس نے اس بات کی سختی سے تردید کی اور کہا ؛
” ۔ ۔ ۔ یہ میرے اپنے ذہن کی اختراع تھی ؛ میں کالج سے گریجویشن کرکے گھر واپس آیا تھا ، گھر میں ایک پارٹی تھی ۔ اپنے والد کے ایک ساتھی ڈاکٹر کی بیوی کو دیکھ کر مجھے مسز روبنسن کا کردار کھڑا کرنے کا خیال آیا تھا ؛ وہ شراب کے نشے میں دھت تھی اور اس نے مجھ سے ایش ٹرے مانگا تھا ۔ ۔ ۔ “
چارلس نے اس کا نام بتانے سے پھر بھی گریز کیا ۔
چارلس نے اپنا نواں ناول ’ ہوم سکول ‘ ( Home School ) ’ گریجویٹ ‘ کے لگ بھگ 40 سال بعد لکھنا شروع کیا تھا جو 2007 ء میں شائع ہوا ۔ یہ ’ گریجویٹ ‘ کی کہانی کو آگے بڑھاتا ہے ؛ اس میں بھی مسز روبنسن ہے لیکن اب وہ شراب پینا چھوڑ چکی ہے اور ایک ادھیڑ عمر کی شائشتہ عورت ہے ۔ یہ ایک ایسے جوڑے کی کہانی بھی ہے جو روایات کے باغی ہیں اور اپنے بچوں کو روایتی سکول والی تعلیم سے دور رکھنا چاہتے ہیں جبکہ مقامی سکول کا ہیڈ ماسٹر درپے ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سکول میں داخل کرائیں ۔ یہ جوڑا مسز روبنسن کی مدد سے ہیڈ ماسٹر اور ' سسٹم ' کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ۔ ۔
چارلس اس وقت 79 برس کا ہے اور تاحال روایتی سماجی رویوں سے باغی ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ مزید کچھ نہیں لکھنا چاہتا ؛
’’ ہوم سکول ہی میری آخری تحریر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے اپنے ’ نان کنفورمسٹ ‘ ( Nonconformist ) ہونے پر کوئی افسوس نہیں ، کسی سے کوئی شکوہ بھی نہیں اور نہ ہی مجھے سماجی روایات ، دولت ، امارت اور شان و شوکت میں کوئی دلچسپی ہے ۔ “
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔