آج – ١٢؍جون؍ ١٩٩٧
ہند کے مشترکہ تہذیبی، سماجی و لسانی ثقافت کی زندہ علامت، انجمن ترقی اردو ہند کے صدر اور ممتاز شاعر ” آنند نرائن ملاؔ صاحب “ کی برسی…
آنند نرائن ملاؔ ہندوستان کے مشترکہ تہذیبی ، سماجی اور لسانی کلچر کی ایک زندہ علامت تھے ۔ ان کا یہ جملہ کہ ’’ میں اپنا مذہب چھوڑ سکتا ہوں لیکن اردو کو نہیں چھوڑ سکتا ‘‘ ان کی شخصیت کی اسی روشن جہت کو سامنے لاتا ہے۔
ملا کشمیری الاصل تھے لیکن ان کے بزرگ پنڈت کالی داس ملاؔ لکھنؤ آکر بس گئے تھے اور یہیں پنڈت جگت نرائن ملاؔ کے یہاں ۲۴ اکتوبر ۱۹۰۱ کو آنند نرائن ملاؔ کی پیدائش ہوئی ۔ ملا کی ابتدائی تعلیم فرنگی محل لکھنؤ میں ہوئی ، ان کے استاد برکت اللہ رضا فرنگی محلی تھے ۔ اس کے بعد ملا نے انگریزی میں ایم، اے کیا اور قانون کی پڑھائی کی اور وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوگئے ۔ ۱۹۵۵ میں لکھنؤ ہائی کورٹ کے جج مقرر کئے گئے ۔ وکالت کے پیشے سے سبکدوش ہوکر ملا نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا ۔ ۱۹۶۷ میں لکھنؤ سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے پارلیمینٹ کے رکن منتخب کئے گئے ۔ ۱۹۷۲ میں راجیہ سبھا کے رکن منتخب کئے گئے ۔ ملا انجمن ترقی اردو ہند کے صدر بھی رہے ۔
ملا نے ابتدا میں انگریزی میں شاعری کی ، انگریزی ادب کا طالب ہونے کی وجہ سے ان کی نظر انگریزی ادبیات پر بہت گہری تھی لیکن وہ دھیرے دھیرے اردو کی طرف آگئے ، پھر لکھنؤ کے شعری وادبی ماحول نے بھی ان کی شاعرانہ شخصیت کو نکھارنے اور جلا بخشنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ شاعری میں ملا کا نظریہ بہت تعمیری اور اخلاقی تھا ۔ اقبالؔ سے اثر پزیزی نے اسے اور مستحکم کیا ۔ سماج کو بہتر بنانے کی اس جد وجہد میں ملا اپنی شاعری ، نثر اور عملی زندگی کے ساتھ شامل تھے ۔ جوئے شیر ، کچھ ذرے کچھ تارے ، میری حدیث، عمرِ گریزاں ، کربِ آگہی ، جادۂ ملاؔ ، ان کے شعری مجموعے ہیں ۔ انہوں نے نہرو کے مضامین کا ترجمہ بھی کیا ۔ ملا کو ان کی ادبی اور سماجی خدمات کے لئے کئی انعامات اور اعزازات سے بھی نوازا گیا ۔
۱۲ جون ۱۹۹۷ء کو دہلی میں ملاؔ کا انتقال ہوا۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
ممتاز شاعر آنند نرائن ملا ؔ کی یومِ برسی پر منتخب اشعار بطورِ خراج عقیدت…
چھپ کے دنیا سے سواد دل خاموش میں آ
آ یہاں تو مری ترسی ہوئی آغوش میں آ
—
دنیا ہے یہ کسی کا نہ اس میں قصور تھا
دو دوستوں کا مل کے بچھڑنا ضرور تھا
—
مرے سکوں کے لئے کیوں یہ کوششِ پیہم
قرار چھیننے والے تجھے قرار نہیں
—
نگاہ و دل کا افسانہ قریبِ اختتام آیا
ہمیں اب اس سے کیا آئی سحر یا وقت شام آیا
—
جان افسانہ یہی کچھ بھی ہو افسانے کا نام
زندگی ہے دل کی دھڑکن تیز ہو جانے کا نام
—
مانا مرے جلنے سے نہ آنچ آئے گی تم پر
لیکن مرے جلنے میں ضرر کچھ بھی نہیں کیا
—
بشر کو مشعلِ ایماں سے آگہی نہ ملی
دھواں وہ تھا کہ نگاہوں کو روشنی نہ ملی
—
جب دل میں ذرا بھی آس نہ ہو اظہار تمنا کون کرے
ارمان کیے دل ہی میں فنا ارمان کو رسوا کون کرے
—
مرے جگر کی تاب دیکھ رخ کی شکستگی نہ دیکھ
فطرتِ عاشقی سمجھ قسمتِ عاشقی نہ دیکھ
—
نظر جھوٹی شباب اندھا وہ حسن اک نقشِ فانی ہے
حقیقت ہے تو ہو لیکن ابھی مانی نہیں جاتی
—
دیں مرے ذوق پرستش کو دعائیں ملاؔ
ورنہ پتھر کے ان اصنام میں کیا رکھا ہے
—
سرِ محشر یہی پوچھوں گا خدا سے پہلے
تو نے روکا بھی تھا بندے کو خطا سے پہلے
—
فرق جو کچھ ہے وہ مطرب میں ہے اور ساز میں ہے
ورنہ نغمہ وہی ہر پردۂ آواز میں ہے
—
تری طرف پھر نظر کروں گا نشاطِ ہستیٔ جاودانی
خرید لوں لذتِ الم کچھ متاعِ عمر رواں سے پہلے
—
جو کرے فکرِ رہائی وہی دشمن ٹھہرے
انس ہو جائے نہ طائر کو کسی دام کے ساتھ
—
نگاہِ شوق نے دیکھا ہے اک حسین افق
مری جبیں کو ترا آستاں ملے نہ ملے
—
نہیں ملاؔ پہ اس فغاں کا اثر
جس میں آہ بشر نہیں ملتی
آنند نرائن ملاؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ