(Last Updated On: )
اکمل شاہد کنگ ( صادق آباد )
فرمانِ الہٰی ہے کہ کائنات کی ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور کسی بھی وجہ سے موت سے انکار ممکن ہی نہیں۔جبکہ دوسری جانب ہمیں اپنے کسی پیارے کے کھو جانے پر بھی یہی آیت مبارکہ حوصلہ بھی دیتی ہے کہ کائنات کی فنا لازم ہے جب انبیا کرام، صالحین،بزرگان دین اور ہمارے والدین اس دنیا فانی سے رخصت ہو چلے ہیں تو اس حقیقت سے کون انکاری ہے۔لیکن جب کسی کا کوئی اپنا پیارا اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو موت کے برحق ہونے کے باوجود دل و دماغ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتا، میرے ساتھ بھی آجکل ایسی ہی صورت حال ہے۔13 جون 2020ء کے دن الصبح سوشل میڈیا کے ذریعے ایک ایسی خبر معلوم ہوئی جس نے نہ صرف مجھے غم زدہ کر دیا۔کیونکہ خبر ہی کچھ ایسی تھی برصغیر پاک و ہند کا ایک بہت بڑا نقصان ہوا، ہمارا معاشرہ پہلے ہی قحط الرجال کا شکار ہے اور ایسے میں صالحے نیک و کار، عالم دین،سچے عاشق رسول، مبلغ و مفکر، استاد العلما، محقق و مجدد،خدمت گار دین اسلام، مصنف و مترجم،حق گو، با عمل بزرگ، خانقاہ قادریہ شاہ آباد شریف کی معروف دینی شخصیت حضرت سید فاروق القادری ؒکا اس دارئے فانی سے کوچ کر جانا ایک عظیم سانحہ ہے۔
دنیا اسلام کے اس عظیم مصنف مبلغ، شیخ طریقت سید محمد فاروق القادری نے 1947 ء کے اواخر میں پیر سیف الدین مغفور القادری ؒکے گھر میں آنکھ کھولی۔ اپنے آبائی قصبے گڑھی اختیار خان سے مڈل کرنے کے بعد ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے علاقے میں عالم اسلام کے مایہ ناز عالم جامع المعقول و المعقول علامہ پیر محمد چشتی، سراج الفقہاء مولانا سراج مکھن بیلویؒ،استاد العلما ء مفتی عبدالواحدؒصاحب اور حضرت مولانا فیض احمد اویسی ؒ کے ہاں کیا۔ کچھ عرصے بعد حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی کے ہاں ملتان میں درس نظامی کا آغاز کیا اور ملتان سے ہی میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ جب غزالی زماں سید احمد سید کاظمی جامعہ اسلامیہ بہاول پور تشریف لائے تو آپ بھی ان کے ساتھ جامعہ آگئے۔ جہاں آپ کو عربی ادب کے مایہ ناز عالم، معقولات و منقولات کے ساتھ عربی جدید، قدیم شاعری، انگریزی، اردو اور فارسی زبانوں پر ماہرانہ عبور رکھنے والی عظیم شخصیت ڈاکٹر پیر محمد حسن صاحب، سابق شیخ الجامعہ مولانا عبید اللہ اور اپنے دور کے مشہور عالم محب اہل بیت علامہ عبدالرشید نعمانیؒ جیسے حضرات کی علمی سرپرستی اور صحبت میسر ہوئی۔ اسی دوران آپ نے بہاول پور کے گورنمنٹ صادق ایجرٹن کالج سے فیکلٹی آف آرٹس اور بیچلر آف آرٹس کے امتحانات بھی پاس کیے۔ 1966 ء میں آپ مزید تحصیل علم کے لیے علم و ادب کے مرکز لاہور چلے گئے جہاں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے عربی، ایم اے اسلامیات اور ایم اے اردو کے امتحان درجہ اول میں پس کیے اور یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن لے کر طلائی تمغہ حاصل کیا۔ یونیورسٹی میں اپنے عہد کی جن شمس و قمر شخصیات سے آپ نے اکتساب فیض کیا اُن میں علامہ علائالدین صدیقی، پروفیسر ڈاکٹر خالد علویؒ،پروفیسر حافظ احمد یارؒاور سید ابو بکر غزنویؒ ہیں۔ اسی دوران آپ کو حکیم الامت مولانا محمد موسی امرتسری ؒ،ایم ایم ابراہیم علی چشتی، مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی، مفکر اسلام مولانا سید ابو الا علیٰ مودودی، احسان دانش، نامور ادیب شورش کاشمیری، ڈاکٹر سید عبداللہ، سید مظفر علی شمسی اور دیگر عظیم شخصیات سے بھی استفادے کا موقع ملا۔ 1970 ء میں والد گرامی کے انتقال کے بعد آپ نے اپنے آبائی قصبے گڑھی اختیار خان میں ہی سکونت اختیار کر لی، اگرچہ آپ جیسے عالم، محقق، مقرر اور ادیب کو شہر کا رُخ کرنا چا ہیے لین آپ نے جاہ و زر اور شہرت کو با لائے طاق رکھ کر گوشئہ گمنامی میں رہ کر تحقیق و تصنیف، وعظ و نصیحت اور امر با لمعروف و نہی عن المنکر کو زیادہ تر جیح دی شاید بیدل نے انہی لوگوں کی تر جمانی کرتے ہوئے کہا تھا۔
نہ من شہرت پرستم نے زگردوں کام می خواہم
بہ گنج نا مرادی خویش را گمنام می خواہم
اُمید ِکامل ہے کہ سید فاروق القادریؒ کے علمی، ادبی، روحانی جانشین سیدصبغت اللہ سہروردی جن کی حضرت نے اپنی زندگی میں تربیت فرمائی وہ حضرت سید فاروق القادریؒ کے مشن کی تکمیل کے لیے کوشاں رہیں گے اور جو سلسلہ حضرت سید فاروق القادریؒ نے جہاں چھوڑا ہے اسے آگے لے کر چلیں گے۔
٭٭٭