پرانے زمانے کی بات ہے۔ کسی جنگل کے پاس دو گاؤں آباد تھے۔ لیکن یہ گاؤں والے دوسرے گاؤں والوں کے جانی دشمن بنے ہوئے تھے۔ یہ نفرت کی آگ دونوں گاؤں کے سربراہان نے لگائی ہوئی تھی۔
ایک گاؤں کا نام "وزیر آباد" تھا۔ وہاں لوگ باشعور تھے کیونکہ وہاں تعلیم، صحت کی تمام سہولیات میسر تھیں۔ اسی بنا پر دوسرے گاؤں کا نام "راجہ پور" تھا۔ انہیں بھی اشتیاق ہوا اپنے لیے کچھ اچھا کرنے کا جس کی بنا پر "راجہ پور" والوں نے بھی دن رات ایک کرکے محنت کی۔ اب "راجہ پور" کی شہرت کے قصے دور دور تک جانے لگے۔
"وزیر آباد" والوں کو محسوس ہوا کہ اس طرح تو ان کا نام اور برسوں سے بنائی ہوئی شہرت مٹی میں مل جائےگی۔ جس رفتار سے "راجہ پور" والے محنت کر رہے ہیں۔ وہ کافی عرصہ سوچ بچار میں رہے آخر کار "وزیر آباد" کے سرپرست نے کہا ہم ایسا کرتے ہیں ہم کچھ شکاری کتے پالتے ہیں انہیں زہریلی نقصان دہ جانور اور سانپ سے ڈسوا کر "راجہ پور" کے علاقے میں رات کے اندھیرے میں چھوڑ دیتے ہیں۔ اس طرح ان کے علاقے میں ان کتوں کی وجہ سے خوف و ہراس پھیل جائے گا اور انکی ترقی رک جائے گی۔
جب "راجہ پور" والوں کے لیے امید کی کرن ختم ہونے لگے گی تو ہم باقی دور والے گاؤں کو بلا کر "راجہ پور" والوں سے صلح کرکے انکا علاج کریں گے۔ اس طرح ان پر ہمارا احسان ہوجائےگا۔ باقی گاؤں والوں کی نظر میں ہماری ترقی کی خبر پھیل جائے گی۔ اس سازش کے تحت "وزیر آباد" والے اپنے منصوبہ کے مطابق اپنا فعل انجام دیتے ہیں۔ مطلب پہلے شکاری کتوں کو زہریلے جانوروں اور سانپ سے ڈسوا کر بیمار کرتے ہیں۔ پھر ان کا علاج "راجہ پور" میں کرتے ہیں۔ جب علاج کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ پھر اپنی منصوبہ سازی پر عمل کرتے ہیں۔
ویسے رات کی تاریکی میں جنگل کے راستے کتے دوسرے گاؤں بھجوا دیتے ہیں۔ وہاں کتے "راجہ پور" میں پہنچ کر جانوروں کو کاٹتے ہیں۔ پھر پالتو جانور گھریلو مالکان کو کاٹنے لگتے ہیں۔ دوسرے گاؤں والے تو کتوں کو سازش نہیں سمجھتے ہیں۔ وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ کتے اسی گاؤں کے ہی ہیں۔
اچانک خوف و ہراس اتنا پھیل جاتا ہے کہ لوگ گھروں میں محصور ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں نہیں جا پاتے۔ یہ خبر سن کر قریبی گاؤں والے بھی قطع تعلق کر دیتے ہیں۔
گاؤں "راجہ پور" کا سردار بہت پریشان ہوتا ہے۔ ایک دن اعلان کرواتا ہے کہ اگر ایسے ڈر کر گھروں میں بیٹھے رہے تو ایک ایک کرکے ہم سب مر جائیں گے۔ہماری نسلیں تباہ ہوجائیں گی۔ ہمارا نام لینے والا کوئی نہ رہے گا۔ سب ہمت کرو اور مل کر اس مشکل وقت کا مقابلہ کرو۔ کیونکہ وہ ایک سمجھدار اور ذمہ دار انسان ہوتا ہے۔ جو سوچتا ہے کہ سب کچھ ممکن ہے۔ دشمن کی کوئی چال ہوتو ایسے موقع پر اگر ہم گھبرا گئے تو ہمیں خود کو اس مقام پر لانے کےلیے صدیاں لگ جائیں گی۔ اس طرح گاؤں کے لوگوں میں "سردار ہمت اور جزبہ جگانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ گاؤں کے جتنے بھی جوان ہوتے ہیں۔ وہ رضا کارانہ طور پر اپنی قوم کی حفاظت کی مہم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ سب اپنی اپنی ذمہ داری سنبھال لیتے ہیں۔ کوئی جنگل میں "جڑی بوٹی" تلاش کرتا ہے۔ کوئی کتوں کو علاقے سے دور نکالنے لگ جاتے ہیں۔ کوئی جانوروں کے علاج معالجے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
ادھر "وزیر آباد" کے گاؤں میں خبر پھیل جاتی ہے تو وہ اپنا سر اونچا کرنے کے لیے دوسرے گاؤں کے سرداروں کو بلا کر "راجہ پور" کے سردار کے پاس جاتے ہیں۔ انہیں احساس ہمدردی دیکھاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں ہمارے پاس اس کا علاج موجود ہے۔ ہم آپ کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن "راجہ پور" کے سردار کچھ وقت مانگتے ہیں۔ اپنے نوجوانوں سے اس معاملے میں بات کرتے ہیں۔ تو وہ سب کہتے ہیں ہم کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اور کافی لوگوں کی حالت بہتر ہورہی ہے۔ ہم اہنی جان پر کھیل کر اپنی قوم کو بچائیں گے۔ اس لیے سردار صاحب آپ "وزیر آباد" والوں کا احسان نہ لیں۔
اس طرح "راجہ پور" کے سردار شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے نوجوانوں کی تعریف کرتے ہوئے انہیں رخصت کرتے ہیں۔ اس "راجہ پور" کے جوانوں اور سردار کی ہمت دیکھ کر باقی گاؤں کے سردار داد دیتے ہیں۔
دشمن کے ارادے ناکام ہوجاتے ہیں۔ "راجہ پور" کے نوجوان دن رات ایک کرکے علاج ڈھونڈتے ہیں۔ اور مزید محنت کرکے خود کو مزید ترقی کی طرف گامزن کرلیتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ اگر قبیلے یا قوم کی رہنمائی کرنے والا مضبوط ہوتو قوم دشمن کے آگے نہیں جھکتی اور نہ ہی سربراہ۔