بہتر ذرائع ، بہتر روزگار یا پھر شاید ' لالچ ، طمع یا عدم قناعت پسندی ' نے بنی نوع انسانی کو روز اول سے خوار کیا ہے اور وہ اپنی جنم بھومی کو چھوڑ انجانے دیسوں میں بھٹکتی آ رہی ہے ۔ برصغیر کی تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے ۔ آریا کہاں سے آئے تھے ؟ کیسے اس علاقے پر براجمان ہوئے ؟ مسلمان کیسے ، کیسے اور کیونکر اس خطے میں داخل ہوئے اور اس خطے میں حکمران بن بیٹھے ؟ ایسے جملے بھی کَسے کہ کیا لوگ ہیں؛ جنس کے ساتھ جنس کھاتے ہیں لیکن حاکمیت تھی کہ جاری ہی رکھی ۔ وقت بدلا اور انگریز آیا اور اس نے اپنے مختصر قیام ( آریا اور مسلمانوں کے مقابلے میں ) میں اس چھوٹے براعظم وہ کچھ بدل ڈالا جو نہ تو آریاوٗں کے بس میں تھا اور نہ ہی مسلمانوں کے اختیار میں ۔
برصغر کے بٹوارے تک آتے آتے بہت سے دیسی بدیس میں جا بسنے کی موہ لئے یورپ اور امریکہ و کینیڈا جا کر بسنے لگے تھے ۔ برصغیر کے وسائل کچھ کم نہ تھے لیکن انگریزوں کی لوٹ کھسوٹ اس خطے کو کنگال کر چکی تھی ۔ یورپ میں افرادی قوت کی کمی بھی تھی ۔ یہ ایک ایسا مسئلہ تھا کہ یورپی ملکوں کے حاکموں نے نہ صرف برصغیر بلکہ ہر اس خطے جہاں انہوں نے نوآبادیاں بنا رکھیں تھیں ، سے افرادی قوت کو بھی اپنے ہاں استعمال کرنے کے لئے کبھی جبراً اور کبھی بہتر روزگار کے جھانسے دے کر اپنے ہاں لے جا کر بسایا ۔
اب ہر کوئی تو اکبر نہیں ہوتا کہ وہ پورپی چھاپہ خانہ یہ کہہ کر رد کر دے کہ اس کے ' کاتبوں ' کا روزگار چھن جائے گا ۔ اپنی دھرتی سے جڑت بھی اس خطے میں ہزاروں سال پہلے ہجرت کرکے آئے آریاوٗں کے خمیر میں اس طرح نہ اٹھ پائی تھی جس طرح آٹا خمیر سے پھولتا ہے لہٰذا حاکم ملکوں کا جادو ایسا چلا کہ اس خطے کے لوگ اس کے سحر میں ایسے گرفتار ہونا شروع ہوئے کہ یہ چکرویو دن بدن اپنے گھیرے کو وسیع کرتا چلا گیا ، ہاں یہ فرق ضرور پڑا کہ اب اپنے وطن کی مٹی چھوڑ کر بدیس بسنے والے حاکم نہیں بنتے تھے بلکہ ان دیسوں میں دوسرے درجے کے شہری ہی بن کر رہتے ، Alien کہلواتے ، شہریت مل بھی جاتی تو بھی پاکی ، انڈین ، فلپینو یا افریفی ہی کہلاتے ۔ ' نژاد ' کا لفظ ایسا ساتھ جڑتا کہ نسلوں تک چھٹکارا نہ ملے ۔
یوں تو بدیس جا کر بسنے کا سلسلہ تو کبھی تھما ہی نہیں تھا لیکن وہ علاقے جو اب پاکستان میں ہیں ان میں بدیس جانے کی سب سے بڑی مثال جو Diaspora کی تاریخ میں موجود ہے وہ پوٹھوہار کے علاقے سے اس وقت سامنے آئی تھی جب میونخ میں 1936ء کے اولمپکس معنقد ہونا تھے ۔ آپ آج بھی اگر کھاریاں اور اس کے گرد وپیش کے علاقوں میں جا کر لوگوں سے بات چیت کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ان کے آباوٗ اجداد ابتدائی طور پر میونخ اولمپکس سٹی بنانے کے لئے جرمنی گئے تھے اور پھر بعد میں یورپ کے سکینڈینیوین ممالک میں پھیلے تھے ۔ پاکستان بننے کے بعد دوسری بڑی مثال اس وقت کھڑی ہوئی جب 1961ء میں منگلا ڈیم کا منصوبہ شروع ہوا تھا اور اس کی جھیل لگ بھگ تین سو دیہاتوں کے علاوہ میرپور اور ڈھڈیال کو کھا گئی تھی ۔ چونکہ اس منصوبے کو امریکہ کی آٹھ تعمیراتی کمپنیوں کا کنشورشیم تعمیر کر رہا تھا اور اس کی نگرانی لندن کی کمپنی ' Binnie & Partners ' کر رہی تھی تو یہ ان دونوں ملکوں کے مفاد میں تھا کہ وہ ان آبادیوں اور شہروں میں بسے مکینوں کو کوئی ایسا لالچ دے جس سے ان کا منصوبہ کھٹائی میں نہ پڑے لہٰذا برطانوی حکومت نے اس وقت کی پاکستانی حکومت جس کا سربراہ ایوب خان تھا ، کو اجازت دی کہ وہ برطانیہ جا کر بسنے کے لئے پرمٹ جاری کرے ۔ یہ لالچ کارگر ثابت ہوا اور اس وقت برطانیہ میں پاکستانیوں کی لگ بھگ 75 فیصد تعداد انہی علاقوں سے گئے لوگوں کی ہے جو زیادہ تر پریڈ فورڈ اور شمال مغربی برطانیہ کے صنعتی شہروں میں آباد ہے ۔ ( یہ الگ قصہ ہے کہ امریکی تعمیراتی کمپنیوں نے منگلا ڈیم بنا کر ہی خود کو اس قابل کیا تھا کہ وہ ' Oroville ' ڈیم کو مکمل کر سکیں جس کا پشتہ 230 فٹ کا بننا تھا ۔ یاد رہے کہ منگلا کنکریٹ کا بنا پہلا 147 فٹ اونچا پشتہ رکھنے والا اور اپنے وقت کا سب سے اونچا پشتہ رکھنے والا ڈیم تھا ۔)
روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر ملک کے سنگاسن پر بیٹھنے والے ذوالفقار بھٹو کو برآمد کرنے کو کچھ اور تو شاید نہ ملا اور اس نے بھی افرادی قوت کو برآمد کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ یوں پاکستانی ہنر منر ، نیم ہنر مند اور محنت کش دھڑا دھڑ مشرق وسطٰی کے ممالک میں بھیجے جانے لگے اور چند ہی سالوں میں بے روزگار تو بدیس گئے ہی ، پاکستان بھر کی فیکڑیوں اور دیگر میدانوں میں کام کرنے والی عمدہ افرادی قوت زیادہ کمانے کے لالچ میں بدیس جا بسی ۔ ڈاکٹر ، انجیئنر اور دیگر پیشوں کے لوگ بھی پیچھے نہ رہے ۔ وہ مشرق وسطٰی کے علاوہ یورپ ، امریکہ ، کیننڈا اور آسٹریلیا کا بھی رخ کرنے لگے ۔ بھٹو چالاک تھا اسے معلوم تھا کہ ایک تیر سے دو کیا کئی شکار کر رہا ہے ۔ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے پر پاکستان کے زرِ مبادلہ میں جو کمی آئی تھی ، افرادی قوت کی یہ برآمد اس کمی پورا کرنے میں معاون ثابت ہونا تھی ۔ جن مزدوروں ، کسانوں اور طلباء کے کندھوں پر سوار ہو کر وہ برسراقتدار آیا تھا ان کی مضبوط یونینز اور محاذ اسے اپنے لئے ایک خطرہ نظر آ رہی تھیں وہ تو واپس اپنے طبقے سے جڑنا چاہتا تھا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے کراچی ، لاہور ، لائل پور اور دیگر صنعتی شہروں میں موجود مضبوط ٹریڈ یونینز کے سرگرم کارکن ' زیادہ کماوٗ ' کے لالچ میں آ کر بدیس جانے لگے ۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں سے فارغ ہونے والے طلباء بجائے ملک میں نوکری کرنے کے باہر کی طرف دیکھنے لگے ۔ کسانوں کی تحریکیں بھی دم توڑ گئیں ۔ چند ہی سالوں میں بھٹو کے لئے یہ سب ریت کی طرح بھربھری ہو گئیں اور وہ اپنی پاکلٹ یونینز بنانے اور صادق حسین قریشی جیسے جاگیرداروں کو اپنے ساتھ جوڑنے میں کامیاب ہو گیا ۔ ( یہ ایک پہلو ہے ، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے عوامل کار فرما تھے لیکن ان کا ذکر اس تحریر میں اہم نہیں ہے ۔ )
اس کے بعد افرادی قوت کی برآمد اور ' برین ڈرین ' (Brain Drain) کا یہ سلسلہ ہر حکومت کے لئے ایک کارگر وسیلہ ثابت ہوا اور انہوں نے اسے اپنے اپنے تئیں جاری و ساری رکھا ہوا ہے ۔ ضیاءالحق نے تو آتے ہی افرادی قوت کی برآمد کو بڑھوتی دینے کے لئے نہ صرف امیگریشن آرڈینینس مجریہ 1979ء جاری کیا بلکہ پروٹیکٹر آف امیگرنیٹس ، اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن اور اوورسیز ورکرز ( بعد میں اسے پاکستانیز کا نام دے دیا گیا تھا ) فاوٗنڈیشن جیسے محکمے بھی کھڑے کرکے ملک بھر میں ریکروٹنگ ایجنسیوں / ایجنٹوں کا جال بچھا دیا تھا تاکہ ملک سے باہر جانے سے پہلے ہی ان سے ٹیکس وصول کرکے سرکاری خزانے کی آمدن میں اضافہ کیا جا سکے ۔ اس آرڈینینس کے تحت سرکاری انشورنش کمپنی (سٹیٹ لائف انشورنس کمپنی ) بھی فیض یاب ہوئی تھی ۔
آج ملک سے باہر روزگار کے لئے جانے والا ہر شخص زر مبادلہ تو بعد میں بھیج پاتا بھی ہے یا نہیں لیکن سرکار کے خزانے میں پروٹیکشن فیس ، ویلفیئر فنڈ ، انشورنس اور نادرا کے ' نائیکوپ ' کارڈ کے نام پر بھتہ پہلے دے کر جاتا ہے ۔ ( ریکروٹنگ ایجنسی/ ایجنٹ سے ویزے کی خریداری ایک الگ کہانی ہے ۔)
بیرون ملک جا کر کام کرنے والے ، ان کے خاندان اور ان کی اگلی نسلیں کن سماجی ، ثقافتی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتی ہیں یہ بھی ایک جدا قصہ ہے جس پر اگر گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو ہر اس شخص کی کہانی دوسرے سے منفرد نکلے گی جو بدیس میں جا کربسا یا بستا ہے ۔
اپنا وطن چھوڑ کر بدیس جا کر بسنا ایک ایسا چکرویو ہے جس میں بدیسی حکومتیں ، وہاں کے آجر ، دیسی حکومتیں ، ان کے قائم کردہ محکمے ، بنک اور گلوبلائزیشن کی پشت پناہی کرنے والے سرمایہ دار ملک سبھی شامل ہیں جبکہ اس میں پھنسا ہمارے جیسے ملکوں کا عام شہری اسی بات میں خوش ہے کہ اس کے ملک کی مقامی کرنسی کے مقابلے میں اس کا کمایا ڈالر ، پاوٗنڈ یا درہم کتنا مضبوط ہے ۔
اپنی مٹی سے جڑت کا خیال کچھ تو بے روزگاری ، انفرادی لالچ اور ہمارے جیسے ملکوں کی حکومتوں کی افرادی قوت کی برآمد سے متعلقہ حوصلہ افزاء پالیسیاں کھا گئی ہیں اور رہی سہی کسر اس گلوبلائزیشن نے پوری کر دی ہے جسے امریکہ اور اس کے حواری ملکوں نے ہم جیسے ملکوں کی معیشیوں کو ہڑپ کرنے اور ان کی افرادی قوت کو اپنے تصرف میں لانے کے لئے ، وقت کی ایک ایسی ضرورت بنا کر کھڑا کر رکھا ہے جس سے بقول ان کے مفر ممکن نہیں ہے ۔