منزل ایک بلندی پر اور ہم بنا لیتے
عرش سے پرے ہوتا کاش کہ مکاں اپنا
غالب کے اس شعر کی حقیقت 1985 میں اس وقت کھل کر سامنے آئی جب میں پہلی بار نند کشور وکرم سے ملا۔ یہ وہی سال تھا جب میں وطن آرہ کی گلیاں چھوڑ کر اس شہر میں آیا تھا، جس کے بارے میں اکثر سننے کو ملتا تھاکہ ہنوز دلی دور است۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ شہر آرہ کی پر پیچ گلیوں اور میری خاموش تنہائی میں شہر دہلی میرے لیے صرف ایک مخصوص قسم کی فنتاشی کا حصہ تھا۔ ایک ایسا شہر ایک ایسا دارالسلطنت جو کبھی راجہ مہاراجاﺅں اور بادشاہوں کے دم سے آباد رہا تھا۔ ایک ایسی دہلی جو محمد بن قاسم، محمود غزنوی، محمد غوری، امیر تیمور، مغلیہ سلطنت کے شہزادے اور نادر شاہ تک کبھی لٹی، کبھی جنگ کے نقارے بجے، کبھی سڑکوں پر خوں آشام جنگوں کے نظارے سامنے آئے، اور کبھی فیاضی وسخاوت کی ایسی داستانیں سننے کو ملیں کہ دہلی کا تصور پیدا ہوا تو دونوں جہاں کی نعمتوں سے بڑھ کر ایک ایسی علامت یا فنتاسی کی صورت، جہاں خواب کی مخملی دھند میں اس شہر کو قریب سے دیکھنے کا تجسس بڑھتا جاتا تھا۔ میرا تعلق ادب سے تھا اور ظاہر ہے ادب کے ایسے بانکے شہزادے جو دلی میں تھے، مجھے طلسمی پر فریب کہانیوں کے کردار لگتے تھے۔ راجندر یادو، رفعت سروش، ڈاکٹر محمد حسن، ظفر پیامی، جوگندر پال، قمر رئیس، ڈاکٹر خلیق انجم۔ ہزاروں نام اور ان ناموں کے درمیان ایک نام اور بھی تھا، جس کی کشش مجھے اپنی طرف کھینچتی تھی۔ یہ نام نند کشور وکرم کا تھا۔ ان کے رسالہ عالمی اردو ادب نے کم وقت میں اپنی شناخت قائم کرلی تھی۔ دلی آنے کے کچھ مہینوں میں ہی نند کشور وکرم سے ملاقات کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ آج تک جاری ہے۔ پہلی ملاقات کرشنا نگر والے گھرمیں ہوئی۔ محبت کرنے والے ایک دوست کا چہرہ جس میں ذرا بھی تصنع اور نمائش کو کوئی دخل نہ تھا۔ اوروکرم صاحب کے ساتھ بھابھی کی دلنواز شخصیت نے میرا دل جیت لیا۔
دلی کے لمبے سفر میں، بھابھی کی دلکش، غیرمعمولی اور مقناطیسی شخصیت میں حقیقی طور پر اس جملے کی معنویت کو محسوس کیا تھا کہ ہرکامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے۔ بھابھی کا تعلق ادب سے نہیں تھا مگر ادب کے وسیع تر معنوں میں ان کے نزدیک وہ شخصیت محبوب تھی جس کا نام نند کشور وکرم تھا۔اور اسی لئے بھابھی وکرم صاحب اور ان سے ملنے والے دوستوں کے لئے ایسی مضبوط کڑی تھی، جس کے بغیر اند نوں اور آج بھی وکرم صاحب کی شخصیت کی مختلف پرتوں میں جھانکا نہیں جاسکتا۔ وہ وکرم صاحب کی شخصیت میں ایسے تحلیل ہوگئی تھیں جیسے حساس انسان اکثر ماضی کی یادوں میں یا اپنے ہی گمشدہ عکس میں ضم ہوجاتا ہے یا گم ہوجاتا ہے۔ دو تین برس کا عرصہ ہوا، میں لکھنو میں تھا، جب یہ خبر سننے کو ملی کہ بھابھی ہمارے درمیان نہیں رہیں۔ ایک دھماکہ ہوا— وکرم صاحب کی شخصیت ابھری تو انتظار حسین کی شہرہ آفاق کہانی نرناری کی یاد تازہ ہوگئی۔ نر اور نرناری ایک ہی جسم کا حصہ۔ تو کیا بھابھی نے جسم کو الوداع کہا اور اپنی پاک وشفاف روح کے عکس کووکرم صاحب کے قلب میں منتقل کرلیا—؟ ایک بڑی زندہ حویلی میں دو ہی زندہ کردار تھے، جن کی خاموشی بھی اس گھر کی رہگزر کو محبت کی رہگزر کا نام دیتی تھی…۔ایک چلا گیا تو اتنی بڑی حویلی میں محبت کا بزرگ بانکا سلطان کیسے جیئے گا—؟ دہلی واپس آیا، وکرم صاحب سے ملا تو مجھے اس کا جواب مل گیا۔ یہ بھابھی کے انتقال کے بعد ان سے پہلی ملاقات تھی۔ کرشنا نگر والا گھر وہ فروخت کرچکے تھے۔ دوسرا گھر بھی کرشنا نگر میں ہی لیا تھا۔ اس گھرمیں بھی بھابھی کی دلنواز مسکراہٹیں استقبال کیا کرتی تھیں اور گھر کے ہر نقوش میں وکرم صاحب سے کہیں زیادہ بھا بھی زندہ ہوا کرتی تھیں۔ ڈرائنگ روم میں بھابھی کی ایک بڑی سی تصویر تھی، جس پر تازہ پھولوں کی مالا پڑی ہوئی تھی۔ خاموش ماحول، گہرے سناٹے، اور نہ ختم ہونے والی ویرانی میں، اب بھی بھابھی کے آنے جانے کی آہٹیں محسوس کررہاتھا۔ وکرم صاحب نے میری طرف دیکھا اور غیر جذباتی لہجے میں گویا ہوئے۔
’میں نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ وہ میرے ساتھ نہیں ہیں۔‘
’کیوں؟‘
’وہ اکثر مندر جایا کرتی تھیں، یا پھر گھریلو شاپنگ کے لیے۔ مجھے بس یہی احساس ہوتا ہے کہ وہ مندر گئی ہیں۔ ابھی لوٹ آئیں گی۔‘
کہتے ہیں سلطان محمود نے اراکین سلطنت کی عقل وفہم کا امتحان لینے کے لیے خزانہ شاہی سے ایک موتی نکلوایا اور وزیروں سے دریافت کیا کہ اس کی قیمت کیا ہے—؟ اور یہ بھی کہا کہ اس موتی کو ریزہ ریزہ کردو۔ ہر وزیر نے ایک دوسرے کی تقلید کی اور شاہی خلعت کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملا دیے مگر موتی کو ریزہ ریزہ نہ کرسکے۔ آخر میں سلطان نے ایاز کو طلب کیا اور یہی سوال دہرایا۔ ایاز نے بیش بہا موتی کو بادشاہ کے حکم پر توڑ دیا اور فرمایا۔ ’آپ سب کی نظریں موتی پر تھیں جب کہ میری نظر بادشاہ پر۔ میں موتی کا رخ کیوں کروں گا۔؟‘
گوہر امر شاہ بود اے ناکساں
جملہ بشکستید گوہر رامیاں
اصلی موتی تو سلطان کا حکم تھا۔ وکرم صاحب کے لیے اصل حقیقت تو وہ روح تھی جو ان کے قلب سے کبھی اوجھل نہیں ہوئی— جسم ایک خیال تھا جو ٹوٹ کے الگ ہوگیا۔ روح ایک دائمی حقیقت جو قلب کے نور میں پیوست ہوگئی۔
ایاز کی طرح میری آنکھیں ابھی بھی نوے کی دہلیز پر قدم رکھنے والے اس بزرگ بادشاہ پر مرکوز ہیں جس کی تنہائی، دنیائے فانی سے الگ عشق حقیقی کے صحرا میں رقص کررہی ہے — بھابھی کے بعد وہ پہلے سے کہیں زیادہ مصروف ہوگئے ہیں— کبھی کبھی بچے ملنے آجاتے ہیں— کبھی کوئی دوست آگیا۔ حویلی کے کئی کمروںوالے مکان میں وہ اکیلے رہتے ہیں۔ لیکن تنہائی انہیں ڈستی نہیں۔ زندگی انہیں بوجھل نہیں کرتی۔ زندگی سے انہیں کوئی شکوہ نہیں۔ دن کی مصروفیت انہیں اپنے حصار میں لیے رہتی ہے اور شب تنہائی انہیں کسی طرح کی اذیت نہیں پہنچاتی۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو اپنی وسیع تردنیا اپنے اندر آباد کرخوش وخرم رہتے ہیں۔ کوئی ملنے والا آجائے تو خود ہی چائے بناتے ہیں۔ بار بار اٹھ کر کچن کی طرف جاتے ہیں۔ ناشتہ لگاتے ہیں۔ دوپہر کا وقت ہو تو لنچ حاضر ہے۔ مگر یہ بھی جان لیجئے کہ یہ سب وہ تن تنہا کرتے ہیں۔ وہ کسی کے محتاج نہیں۔ کسی کی بھی خدمت قبول نہیں کرتے۔ عام دنوں میں بھی ناشتہ، کھانا ہر طرح کی ضروریات کے لیے وہ کسی کو شریک اس لیے نہیں کرتے کہ اس عمرمیں بھی انہیں خود پر بھروسہ ہے۔ وہ نہ ختم ہونے والی کافر تنہائی کی شدت سے مایوس اس لیے نہیں ہیں کہ تنہائی ان کی بہترین دوست بن چکی ہے۔ خلوت وجلوت میں ان کا سب سے بڑا سہارا ادب ہے۔ نوے برس کی عمر میں بھی ان کے پاس ادبی کام کرنے کے لیے ہزاروں پلاننگس ہیں۔ ہزاروں خواب ہیں وہ مایوسی، محرومی، ناکامی اور تاریکی کو اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیتے۔ میں نے اپنی ۴۵ سالہ زندگی میں تنہائی کو شان سے جینے والا پہلا بادشاہ دیکھا ہے۔ ورنہ اس عمر میں آتے آتے بلکہ اب تو پچاس کی عمر کے بعد ہی موت کا احساس ساتھ ساتھ چلنا شروع کردیتا ہے۔ یہ احساس خوابوں کو روندتا ہوا محرومی اور مایوسی کی دھند بن کر مستقبل پر حاوی ہوجاتا ہے۔ مگر یہاں اس عمر میں ایک خوبصورت مستقبل کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔
بھابھی اب بھی ہر لمحہ ان کے ساتھ ہیں اور وہ چوبیس گھنٹے میں زیادہ تروقت ادب کے ساتھ گزارنا پسند کرتے ہیں۔ ایک اکیلا شخص ایک ادارے کے طور پر کام کررہا ہے۔ اب ذرا یہ منظر دیکھیے۔ میں کال بیل بجاتا ہوں— دروازہ کھلتا ہے۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے میں ان کے کمرے میں آجاتا ہوں —وہ کمپیوٹر پر کام کررہے ہیں۔ چائے ناشتہ کے بعد کچھ دیر گفتگو ہوتی ہے۔ وہ پرانے دوستوں کا تذکرہ کرتے ہیں—کبھی کبھی فاروق ارگلی اور خالد اشرف بھی آجاتے ہیں۔ یادوں کا ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے ان کے پاس۔ وقت نکال کر وہ بھولے بسرے دوستوں کو فون کرتے ہیں۔ دوست یار اگر اللہ کو پیارے ہوچکے تو وہ ان کے گھر کی خیر خبر دریافت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد وہ کمپیوٹر پر دو بارہ کام شروع کردیتے ہیں۔ ان پیج سافٹ ویئر کا عکس اسکرین پر ابھرتا ہے۔ انگلیاں ٹائپ کررہی ہیں۔ گھر میں کوئی دوسرا نہیں ہے۔ اپنی کتابیں وہ خود کمپوز کرتے ہیں۔ ٹائٹل بناتے ہیں— پرنٹر کے پاس لے کر جاتے ہیں۔ کبھی کار کبھی اسکوٹر کا استعمال کرتے ہیں اور کبھی کبھی شان سے گاڑی چلاتے ہوئے ریڈزون میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اس موقع پر ایک پیاری سی مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پر پیدا ہوتی ہے— سینئر سٹیزن ہوں۔ کوئی کچھ نہیں بولے گا۔ وہ سینئر سٹیزن ہونے کا فائدہ صرف کار چلاتے وقت ہی اٹھاتے ہیں ورنہ عام زندگی میں وہ کسی طرح کا کوئی بھی فائدہ اپنے لیے اٹھانا نہیں چاہتے۔
جب وکرم صاحب کمپوٹر پر ٹائپ کررہے ہوتے ہیں، میں رشک سے ان کی طرف دیکھتا ہوں۔ کئی بار آنکھوں میں ننھے منے قمقمے روشن ہوتے ہیں۔ کئی سوال ہونٹوں پر منڈراتے ہیں۔ کیا وکرم صاحب جیسا کوئی ایک شخص بھی اس دنیا میں ہے—؟ ایکلا چلو رے کی آواز ٹیگور نے اٹھائی تھی۔ لیکن اس ایک اکیلے شخص نے تنہائی کی عظیم اور وسیع کائنات سے اردو زبان کے فروغ کے لیے جو قیمتی موتی اردو ادب کوتحفے میں دیئے ہیں، کیا وکرم صاحب سے الگ کوئی ایک مثال بھی دی جاسکتی ہے۔؟ عالمی اردو ادب کے خصوصی شمارے دیکھ لیجئے۔ انتظار حسین، علی عباس حسینی جیسی عظیم ادبی شخصیتوں پربیسیوں نمبر۔ مذاہب نمبر۔ سینما نمبر۔ اردو سے ہندی میں ترجمہ کی تیس سے زائد کتابیں۔ منٹو اور تقسیم ملک پر کتابیں— مصور تذکرے— آج کا تذکرہ کیجئے تو وہ غالب پر تحریر کی گئی کچھ پرانی کتابوں کو زندہ کرنا چاہتے ہیں— اس حویلی کے ایک کمرے میں سمٹا ہوا ایک شخص اپنے آپ میں ایک بڑے ادارے کی طرح اردو کی خدمات انجام دے رہا ہے۔ اور اس تنہا کمرے میں اسے چائے پلانے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ ٹائپنگ سے پیج سٹینگ تک کا سارا دار ومدار اس شخص پر ہے، جس نے کبھی خود کو نوے برس کا بزرگ سمجھ کر مایوسیوں کے حوالے نہیں کیا۔
مجھے کسی بھی زبان کی تاریخ میں، ایسے کسی ایک شخص کا نام بتا دیجئے؟ حقیقت یہ ہے کہ نند کشور وکرم کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا۔ خدا سب کو وکرم نہیں بنا سکتا۔ ایک بات اور کہتا ہوں۔ غور کیجئے گا۔ اس دنیا میں کون ہے جو ناشکرا نہیں—؟ پریشانیاں، الجھنیں زندگی میں راستہ بناتی ہیں تو ہم ناشکرے ہوجاتے ہیں۔ لیکن برسوں کی رفاقت میں شکر کا کلمہ پڑھنے والا پہلا شخص دیکھا، جہاں ناشکری کی لہریں، اس کے قریب آتے آتے خوفزدہ ہوکر لوٹ جاتی ہیں۔
کچھ مکالمے دیکھئے، وکرم صاحب کا فون آتا ہے۔
ذوقی صاحب۔ عینی آپا گزر گئیں۔ آپ چلیں گے—؟
’ہاں ضرور۔‘
انور عظیم نہیں رہے۔ آپ چلیں گے۔‘
’جی ہاں۔‘
ڈاکٹر محمد حسن نہیں رہے۔ پروفیسر شکیل الرحمن گزر گئے۔ جان پہچان کی شخصیت ہو یا کوئی غیر معروف ادیب۔ وکرم صاحب کا فون ضرور آتا ہے۔ ایسے کئی مواقع آئے جب میں ان کے ساتھ شامل ہوا۔ شامل نہیں بھی ہوا۔ ابھی ایک برس قبل کی بات ہے۔ میں وکرم صاحب کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک میں نے ایک سوال داغ دیا۔
’ایک بات پوچھوں وکرم صاحب۔‘
’ضرور پوچھیے۔‘
’سوچ کر بتائیے گا۔ اپنی پوری زندگی میں، کیا کبھی آپ کے ساتھ ایسا ہوا ہے کہ آپ نے کسی کے مرنے کی خبر سنی ہو اور نظر انداز کیا ہو۔؟‘
وکرم صاحب کے لیے سوچنے کا موقع تھا ہی نہیں— جواب ان کے ہونٹوں پر تھا— ’ایسا کبھی نہیں ہوا۔ میں خوشی کے لمحات کو بھلے نظر انداز کردوں— لیکن سوگ کے لمحات میں جانا نہیں بھولتا۔‘
دوستو، یہ ہیں وکرم صاحب— اب ایسا کوئی ایک نام آپ پھر سے سوچ لیجئے—؟ جواب نہیں میں ملے گا۔ دکھ سکھ کے موقع تو دور کے ہوئے، ایسے بھی وکرم صاحب سارا سارا دن جاننے والوں کی خبریں فون پر لیتے رہتے ہیں— کسی کے مرنے کی اطلاع مل جائے تو وکرم صاحب نہ جائیں، ایسا ممکن نہیں ہے۔ ان کی مقناطیسی شخصیت کے ہزار پہلو ہیں اور شخصیت کے ہر فریم میں سب سے روشن تصویر انسانیت اور انسان نوازی کی ہے۔ دیویند اسر سے گہری دوستی تھی۔ ایک جان دو قالب۔ یہ اردو کی زندہ تاریخ کا شرمسار کرنے والاواقعہ ہے کہ اتنا بڑا ادیب خاموشی سے چلا گیا اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی— وکرم صاحب ان کی خیریت لیتے رہتے تھے۔ جب فون پر بھی رابطے کی صورت پیدا نہیں ہوئی تو اسر صاحب سے ملنے ان کے گھر چلے گئے۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ ادھر ادھر دیکھا۔ آواز لگائی لیکن سب بے سود۔ اسر صاحب ایک چھوٹے سے کمرے میں قیدی کی حیثیت سے رہتے تھے۔ پورا گھر بیوی اور بچوں کے نام تھا۔ اب وکرم صاحب نے ہمت کی۔ بیل بجائی۔ شاید اسر صاحب کا کوئی عزیز باہر آیا۔ اس نے بتایا کہ اسر صاحب کو گزرے کئی دن ہوگئے— دروازہ بند ہوگیا۔ دوست کے چلے جانے سے زیادہ بڑا غم یہ تھا کہ اردو نواز حلقوں میں اور اسر صاحب کے جاننے والوں میں یہ خبر کسی کو نہیں معلوم تھی۔ وکرم صاحب مسلسل رابطے میں نہ ہوتے یہ تو خبر بھی اردو دنیا تک پہنچنے سے محروم رہتی۔
وکرم صاحب کی شخصیت کا سب سے اہم پہلو ہے، ان کی بے نیاز طبیعت۔ جو بھی ان سے ایک بار ملا۔ وہ ان کا ہو کر رہ گیا۔ وہ تعلقات میں بال آنے کے قائل نہیں۔ وہ اپنی کتابوں کی پبلی سیٹی بھی نہیں کرتے۔ لیکن انہیں اچھی کتابوں کو ترتیب دینے اور اردو ہندی دونوں زبانوںمیں لانے کا ایک جنون سوار ہے۔ ہنس راج رہبر، کشمیری لال ذاکر ، علی عباس حسینی، بلونت سنگھ، مقبول ترین مصنفین پر ان کی کتابیں اس لائق ہیں کہ انہیں محفوظ کیا جائے۔ مجھے اس بات کا احساس ہے کہ اکیلے وکرم صاحب نے عظیم ادبی شخصیات پرجو کتابیں ترتیب دی ہیں، ان میں کئی نام ایسے ہیں کہ ان کتابوں کو اگروکرم صاحب ترتیب نہیں دیتے تو یہ کتابیں بھولے بسرے وقت کا قصہ بن کر رہ جاتیں۔ کیا ہنس راج رہبرکوکوئی یاد کرتا؟ کیا کشمیری لعل ذاکر کو اتنی محبت سے یاد کیا جاتا؟ کیا تیرتھ رام فیروز پوری، اکرم الہ آبادی، مظہر الحق علوی جیسے سینکڑوں ناموں پر کسی کی نگاہ جاتی—؟ اردو کے غروب ہوتے سورج نے ہم سے کیا کچھ نہیں چھین لیا۔ سراج انور، نیاز حیدر، ادبی قصے، فلمی قصے—، آپ وکرم صاحب کی ادبی صحبت میں گفتگو سے دو چار ہیں تو پرانی داستانیں عمرو عیار کی ذنبیل سے نکل نکل کر آپ کے حافظے کے دسترخوان پر سج جاتی ہیں۔ ادب کے گمشدہ کردار زندہ ہوکر سامنے آجاتے ہیں۔ ہرملاقات میں وہ اردو کے گمشدہ بانکے شہزادوں کا ذکر خیر لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اب سوچتا ہوں، ان قصوں داستانوں کو کون زندہ رکھے گا—؟ ہمارے ہرنقاد نے اپنی ڈھائی انچ کی مسجد آباد کررکھی ہے لیکن ادب کے گمشدہ تہہ خانے سے ادبی خزانے برآمد کرنے والا شخص اس اردو دنیا میں ایک ہی ہے۔ وہ ایک سچے اور ایمانداری ترقی پسند ہیں۔ ایک پوری زندگی انہوں نے ترقی پسند آئیڈیالوجی کا طواف کرتے ہوئے بسر کی ہے اور اب بھی، زندگی کے اس موڑ پر بھی وہ مضبوطی کے ساتھ ترقی پسندی کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔
ہزاروں واقعات ہیں جو اس وقت آنکھوں کے پردے پر کسی یادگار کتاب یا نہ بھولنے والی فلم کی طرح روشن ہیں۔ میں اس روشنی سے ایک صفحہ برامد کرتا ہوں۔ ابھی کچھ روز پہلے میں نے ایک بار پھر جب ان سے تنہائی اور ویرانی کا رونا رویا، تو انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’ذوقی صاحب۔ میں اپنی شرطوں پر جیتا ہوں۔ زندگی جینا بہت آسان ہے۔ جو جی میں آیا کھایا۔ جو جی میں آیا پڑھ لیا۔ جو جی میں آیا، لکھ لیا۔ رات ہوئی تو کوئی فلم دیکھنے بیٹھ گیا۔ غزلیں سننے کی خواہش ہوئی تو کوئی اچھا سا کیسٹ لگا لیا۔ نیند آنے لگی تو سو گئے۔‘
کیا زندگی اتنی آسان ہے؟ یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان وکرم— اتنی مشکل زندگی کہ الجھنوں اور مسائل سے گھبرا کر ایک زندگی میں ہم کتنی بار مر جاتے ہیں— اتنی مشکل زندگی کہ کبھی دعاﺅں کا آسرا کبھی مندر کا چکر، اورکبھی آشرم اور خانقاہوں میں جا کر سکون کی تلاش— اتنی مشکل زندگی کہ کبھی یوگ، سادھنا اورروحانیات کی تلاش— لیکن وکرم صاحب نے اس مشکل زندگی کوصرف اپنے دم سے آسان اور گلزار بنارکھا ہے۔ صد ہزار اندر ہزاراں یک تن اند۔ ہزاروں لاکھوں کی بھیڑ میں کہیں ایک ایسا صاحب نصیب پیدا ہوتا ہے۔ اور یہ صاحب نصیب خدا کے بھروسہ نہیں، اپنا نصیب خود لکھتا ہے۔ اور اسی لیے اس عمر میں بھی وکرم صاحب نے بے تکان لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ عرش سے پرے، بلندی پر جو ایک منزل ہے، وہاں ہونے کا حق صرف وکرم صاحب کو ہے۔ زندگی میں یہ بلندیاں عام انسانوں کے نصیب میں نہیں ہوتیں۔
ظفر اقبال کی شاعری میں فنی اور لسانی خامیاں
ظفر اقبال کی شاعری اردو ادب میں جدیدیت اور انفرادیت کی مثال سمجھی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں جدید...