پلوٹو کو 1930 میں 24 سالہ امریکی ماہرِ فلکیات کو کلائڈ ٹومبا (Clyde Tombaugh ) نے دریافت کیا۔ اس سیارے کے نام کے لئے دنیا بھر سے رائے مانگی گئی۔ جس پر کئی ہزار لوگوں نے نام تجویز کیے۔ مگر برطانیہ کی ایک گیارہ سالہ لڑکی وینیتا برنی( Venetia Burney) کا تجویز کردہ نام پلوٹو پسند کیا گیا اور یوں اس سیارے کا نام پلوٹو رکھ دیا گیا۔ اُس وقت اسے نظامِ شمسی کا نواں سیارہ قرار دیا گیا۔
اکیسویں صدی کے اوائل تک پلوٹو نظام شمسی کا سب سے چھوٹا سیارہ کہلایا جاتا تھا۔ مگر 2006 میں انٹرنیشنل آسٹرنومیکل یونین جو خلا میں نئے دریافت شدہ اجرامِ فلکی کو نام دیتی ہے، کی ایک میٹنگ ہوئی۔اس میٹنگ کامقصد بین الاقوامی طور پر سیارے کی تعریف واضح کرنا تھا کہ ایک سیارہ کسے تسلیم کیا جائے۔
اس میٹنگ میں طے پایا کہ نظامِ شسمی میں کسی بھی شے کو سیارے کہلانے کے لیے تین شرائط پر پورا اُترنا ضروری ہے۔
1. وہ سورج کے گرد گھومے۔
2. اُسکا ماس اتنا یو کہ وہ گریویٹی کے باعث تقریباً کروی شکل کا ہو۔
3. سورج کے گرد اُکا مدار کلیئر ہو یعنی اُس میں کوئی چھوٹے سیارچے یا سیارے نہ ہوں۔
پلوٹو پہلی دو شرائط پر تو ہورا اُترتا تھا مگر افسوس کہ تیسری شرط پر پورا نہ اُتر سکا۔ 🙁
دراصل پلوٹو کا سورج کے گرد مدار نیپچون کے مدار سے بھی گزرتا تھا اور اسکے علاوہ اسکا مدار نظام شمسی کے کئی چھوٹے سیارچوں کے مدار سے بھی ہو کر گزرتا تھا۔
لہذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ پلوٹو اب نظامِ شمسی کا نواں سیارہ نہیں بلکہ محض ایک “بونا سیارہ” ہے۔
یوں اب نظامِ شمسی کے کل آٹھ سیارے ہیں مگر رکئے پکچر ابھی باقی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ نظامِ شسمی کے اب بھی نو سیارے ہیں۔ اور ایک نواں سیارہ اب بھی موجود ہے جسے Planet X کہا جاتا ہے۔ یہ سیارہ اگر موجود ہے تو اسکا سائز نیپچون جتنا جبکہ ماس زمین سے دس گنا زیادہ ہو گا۔یہ زمین سے کئی ارب کلومیٹر دور ہو گا اور
سورج کے گرد ایک چکر دس سے بیس یزار سالوں میں مکمل کرتا ہو گا۔
تاہم یہ نواں سیارہ دریافت کرنا نہایت مشکل ہے۔
کیونکہ اول تو اسکی روشنی بے حد مدہم ہو گی اور دوم
یہ کہ زمین پر موجود حساس ٹیلی سکوپس جو اس سیارے کو ڈھونڈنے کے قابل ہوں مثلاً امریکی ریاست ہوائی میں Sabaru Telescope، کا وقت دیگر اہم فلکی مشاہدات کےلئے مختص ہوتا ہے۔
ہوتا دراصل یہ ہے کہ دنیا بھر کے سائنسدان اپنی تحقیق کے لیے سال بھر ریکیویسٹ کر کے ان قیمتی ٹیلسکوپس کا کچھ وقت حاصل کرتے ہیں۔ نواں سیارے کو ڈھونڈنے کے لیے جو سائنسدان مصروفِ عمل ہیں انہیں ایک سال میں محض تین راتوں کے لیے ہی ٹیلیسکوپ کا وقت دیا جاتا ہے جس میں وہ اسکی مدد سے یہ سیارہ ڈھونڈ سکیں جو کہ ناکافی ہے۔
اس لئے امید کی جا رہی ہے کہ مستقبل میں جدید زمینی ٹیلی ٹسکوپس میں اضافے سے اس نویں سیارے کو شاید ڈھونڈنے میں مدد مل سکے۔
تب تک یہ نواں سیارہ Planet X ایک معمہ ہے۔
مضمون کیسے لکھا جائے؟
مضمون کیسے لکھا جائے؟ بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ...