بچے جنت کے پھول ہیں اور جس آنگن میں یہ پھول کھلتا ہے اس کے لیے خوش نصیبی کی بات ہوتی ہے۔ بچے کی پیدائش پر اللہ پاک کا بے انتہا شکر گزار ہونا چاہیے اور اس کے نیک ہونے کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔ والدین کی یہ دلی تمنا ہوتی ہے کہ ان کے بچے صحت وعافیت کے ساتھ پلے بڑھیں، مطیع و فرمانبردار ہوں اور بڑھاپے کی زندگی کا سہارا بنیں۔ صالح اولاد کتنی بڑی نعمت ہوتی ہے ، اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کے ایک برگزیدہ پیغمبرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے بار باراس کی فریاد کی تھی اور رب کریم سےان الفاظ میں صالح اولاد کی دعا مانگی تھی” رب ھب لی من الصالحین“ ( اے میرے پروردگار! تو مجھے نیک اور فرمانبرد اولاد عطا کر)۔ کتبِ احادیث میں ایسے واقعات مذکور ہیں جس میں صحابہ اور صحابیات اپنے ننھے بچوں کو لے کر نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتیں اور کہتیں کہ” اے اللہ کے رسول! میرے بچے کے لئے خیر وبرکت کی دعا کر دیجئے“۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کے لیے روانہ ہوئیں تو امید سے تھیں اور ولادت کا وقت قریب آگیا۔ مدینہ طیبہ پہنچ کر میں نے قباء میں رہائش اختیار کی۔ پھر قباء میں ہی عبداللہ بن زبیر دنیا میں تشریف لائے ۔ میں اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اسے آپ کی گود میں رکھ دیا۔ آپ نے کھجور طلب فرمائی، اسے چبایا اور بچے کے منہ میں لعابِ مبارک ڈال دیا، چنانچہ پہلی چیز جو بچے کے پیٹ میں گئی وہ رسول اللہ ﷺ کا لعابِ مبارک تھا۔ پھر آپ نے اسے کھجور سے گھٹی دی اور اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ یہ سب سے پہلا بچہ تھا جو (ہجرت کے بعد) دورِ اسلام میں پیدا ہوا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس سے بہت خوش ہوئے کیونکہ ان کے ہاں یہ افواہ پھیلائی گئی تھی کہ یہودیوں نے تم پر جادو کردیا ہے لہذا تمہارے ہاں اب کوئی بچہ پیدا نہیں ہوگا۔اس حدیث مبارکہ سے پیدا چلتا ہے کہ بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کی تربیت کی فکر شروع کر دینی چاہیے اور اس تعلق سے حد درجہ احتیاط برتنا چاہیے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیںکہ ” میرے یہاں لڑکے کی ولادت ہوئی تو میں اسے لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور کھجور کو چبا کر اس کی گھٹی دی نیز اس کے لیے خیر وبرکت کی دعا فرمائی پھر وہ مجھے دے دیا۔ یہ سیدنا ابو موسیٰ ؓ کے سب سے بڑے لڑکے تھے۔ حدیث پاک کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں کہ یہ تاثیر میں اضافے کا سبب ہوتا ہے:” عَنْ أَبِی مُوسَی رَضِيَ اللَّہ عَنْہ، قَالَ: وُلِدَ لِي غُلاَمٌ، فَأَتَيْتُ بِہِ النّبیَّ صَلَّ اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ فَسَمَّاہ ُ إِبْرَاہِيمَ، فَحَنَّکہُ بِتَمْرَۃٍ، وَدَعَا لَہُ بِالْبَرَکۃِ، وَدَفَعَہُ إِلَيَّ، وَکَانَ أَکْبَرَ وَلَدِ أَبِی مُوسَی(صحيح البخاري:5510) ۔ اسی طرح ایک حدیث میں حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس چھوٹے بچوں کو لایا جاتا تھا تو آپ ﷺ ان کے لیے برکت کی دعا فرمایا کرتے: عَنْ عَائِشَۃَ رَضِيَ اللَّہ عَنْہَا، قَالَتْ : اَنَ رَسُولُ اللَّہ ِ صَلَّی اللَّہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ يُؤْتَی بِالصِّبْيَانِ فَيَدْعُو لَھُمْ بِالْبَرَکۃِ(صحيح أبی داود: 5127)
حضرت ابو موسی اور حضرت عائشہ سے مروی احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ بچوں کی پیدائش پر خوشی کا اظہار اور اس کی صالحیت کے لیے دعاگو ہونا ایک مطلوب عمل ہے۔کیونکہ اولاد کا نیک اور صالح ہونا اللہ کی جانب سے تو ایک بڑی نعمت ہے ہی، اسی کے ساتھ اس لیے بھی ضروری ہے کہ بچے اگر صالح ہوں تو وہ والدین کے لئے یوم آخرت میں کامیابی کا ذریعہ اور دنیا میںبڑھاپے کا سہارا بھی ہوں گے۔ اس لیے نوزائیدہ بچے کے لیے عمدہ نام کا انتخاب کرنا، وسعت ہو تو عقیقےکی ادائیگی کرنا، بہترین تعلیم وتربیت کانظم کرنااور بلوغت کے بعد نکاح کے پاکیزہ بندھن میں باندھنا،والدین کی ذمے داریوں میں شامل ہیں۔ بچوں کےیہ وہ حقوق ہیں جو والدین پر ادا کرنا ازحد ضروری ہے۔ اگر کسی مسلمان نے ان ذمہ داریوں کو ایمانداری کے ساتھ نبھایا تو اس کے لئے نبی کریمؐ نے جنت کی بشارت دی ہے اور اگر اس کی ادائیگی میں کوتاہی ہو تو اس پر وعید بھی سخت ہے۔
بچوں کی ذہنی وجسمانی تربیت کی بھی فکر کرنی چاہیے۔ اس کے تعلق سے ماہرینِ طب نے جو رہنما اصول بتائےہیں۔ ان اصولوں کی پابندی کی جانی چاہیے۔ اگر ایسا کیا جا ئے تو بچے نہ صرف صحت مند رہیں گے بلکہ بیماری سے محفوظ بھی رہیں گے۔ انسانی زندگی کا انحصار صاف ستھری آب و ہو، متوازن غذا، مناسب ورزش اور اچھی نیند پرہوتی ہے جس علاقے کی آب و ہوا اچھی ہوتی ہے، وہاں اچھی صحت پائی جاتی ہے۔ اس لیے بچوں کی پرورش ایسی آب وہوا میں ہونی چاہیے جو حرارت اور برودت کے لحاظ سے معتدل اور زہریلے اشیاء سے پاک ہو چونکہ رحم مادر میں بچہ ایک معتدل حرارت میں نشوونما پاتا ہے اور ہر طرح کی آلودگی سے بچا رہتا ہے اور جب وہی بچہ اس دنیا میں آنکھیں کھولتاہے تو ایک نئے ماحول سے اس کاسابقہ پڑتا ہے جو کبھی ٹھنڈ ہوتاہے تو کبھی گرم اوربساوقات مختلف قسم کی آلودگیوں کی وجہ سے مسموم بھی ہوجاتا ہے، جس کی بنا پر نومولود کا مختلف امراض سے دوچار ہونے کاخطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے یہ کوشش کی جانی چاہئے کہ بچے کو عمدہ آب و ہوا اور خوشگوار فضا میں رکھا جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم سے کم فضائی آلودگی کم کرنے کے لیے لوبان کی دھونی دی جائے۔ خوشبودارعرقیات اور جراثیم کش ادویہ کا چھڑکاؤ کیا جائے اور صاف صفائی کے خاص اہتمام کے ذریعے آب و ہوا کوصحت بخش بنانے کی کوشش کی جائے۔ چونکہ اچھی آب و ہوا میں رہنے والے لوگ متعدی امراض میں کم سے کم مبتلا ہو تے ہیں۔ اسی لیے اہلِ عرب قدیم زمانے میں نو زائدہ بچوں کو پرورش کے لیے شہر سے دور دیہی علاقوں میں بھیج دیا کرتے تھے جہاں کی آب وہوا اچھی اور صحت بخش ہوا کرتی تھی۔
بچوں کی صحت کا دار و مدار جس طرح اچھی آب و ہوا پرہوتی ہے ٹھیک ویسے ہی عمدہ اورمتوازن غذا بھی جسم کی نشوونما کے لیے بے حد ضروری تسلیم کیا گیاہے۔ متوازن غذا کا استعمال جسم کی مطلوبہ ضروریات کو پوری کرتا ہے اور بدن کو عمر کے تناسب سے مناسب جسامت عطا کرتا ہے۔ طبی ماہرین کی غذائی ہدایات میں مقدار ِخوراک ، غذا کی کیفیت اور اوقاتِ غذا کو کافی اہمیت دی گئی ہے۔ ان پرعمل کر کے غذائی بے اعتدالی سے پیدا ہونےوالے امراض سے بچا جا سکتا ہے۔ نوزائیدہ کے لیے سب سے عمدہ اور بہترین غذا اس کی ماں کا دودھ قرار دیا گیا ہے ۔ بچے کی پیدائش کے فوری بعد ماں کو سینے سے لگاکر دودھ پلانا بےحد ضروری ہے۔ تاکہ بچے کو حرارت اور غذا دونوں مل سکے بشرطیکہ ماں تندرست ہو اور کسی بیماری میں مبتلا نہ ہو ۔ اگر ماں کا دودھ میسر نہ ہو تو کسی دوسری عورت جس کی عمر درمیانی ہو اور صحت مند ہو، اس کا دودھ پلانا چاہیے اور اگر وہ بھی نہ ہو تو تندرست اور جوان بکری یا دوسرےکسی صحتمندجانور کا دودھ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ مارکیٹ میں مختلف ناموں سے دودھ کا پاؤڈر دستیاب ہے ، اسے بھی بقدر ضرورت استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ لیکن بچے کی پیدائش سے لیکر چھ مہینے تک بچے کی بہترین غذا صرف اورصرف اس کی ماں کے دودھ کو ہی تسلیم کیا گیا ہے۔ چھ ماہ کے بعد دھیرے دھیرے بچے کو دال کا پانی، گیلا چاول، کھچڑی، ابلا ہوا انڈا اور کیلا غذا کے طور پر کھلا نا چاہیے، جومناسب موقع پر بھوک لگنے پر دیا جانا چاہئے۔
بہترین غذا اور اچھی آب وہوا کے بعد ہلکی ورزش اور گہری نیند بھی صحت کے لیے ضروری ہے تاکہ استعمال کی گئی غذا اچھی طرح سے ہضم ہو سکے اور فضلاتِ بدن آسانی کے ساتھ جسم سے خارج ہوسکے۔بچوں کی جسمانی تربیت کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی تربیت بھی توجہ کا طالب ہوتا ہے۔بچوں کو نفسیاتی امراض سے بچانے اور انھیں اخلاق محمودہ سے آراستہ کر کے لیے ضروری امور کی جانب توجہ دینا چاہیے تاکہ نونہالوں کو نفسیاتی امراض جیسے ڈر، خوف، غم، غصہ اور بزدلی سے محفوظ رکھا جا سکے اور اخلاقی طور پرکشادہ ظرف ، خوش مزاج اور اخلاق حسنہ سے متصف کیا جا سکے۔ جو بچہ خوشی و مسرت کے ساتھ پروان چڑھتا ہے، اس کی خواہشات پوری کی جاتی ہیں، لوریاں سنائی جاتی ہیں، اس کی خوشیوں کا سامان فراہم کیا جاتا ہے اور تکلیف دہ چیزوں کواس سے دور رکھا جاتا ہے تو وہ بچے ذہنی اور جسمانی دونوں اعتبار سے صحت مند رہتے ہیں ۔ لیکن جن بچوں کی پرورش ڈر وخوف کے سائے میں ہوتی ہے، پیار ومحبت کے بجائے غم وغصہ کو اس کا مقدر کیا جاتا ہے، اس کی مرضی کا کوئی لحاظ نہیں کیا جاتا اور ہمیشہ ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی ہےتو عموما ایسے بچے بزدل، تنگ دست ا ور کند ذہن واقع ہوتے ہیںاوراس کا اثر پوری زندگی باقی رہتا ہے۔کیونکہ یہ ساری باتیں انسانی مزاج کوبنانے اوربگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ ان چیزوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ جب کسی گھر میں بچے کی پیدائش ہو تو خوشیاں بانٹیں اورنبوی طریقے کے مطابق اپنے آس پاس کے بزرگ سے ان کےلیے خیر و برکت اور حلم و بردباری کی دعا کرائیں۔ بزرگ اور متقی لوگوں کی دعا اولاد کے لیے سب سے قیمتی تحفہ ہے لیکن افسوس! موجودہ وقت میں بچوں کے اہل خانہ کی نگاہیں مادی تحفے پر ٹکی رہتی ہے اور یہ د یکھا جاتا ہے کہ کس رشتے دار نے کون سا جوڑا دیااور اس کی قیمت کتنی ہوگی یا پھر کس نے نہیں دیا ۔ یہ رسم ورواج معاشرے کا وہ بندھن ہے جس میں تقریباً ہر گھر بندھا ہوا ہے۔ ہمیں اپنی وسعت کے مطابق غیر شرعی رسوم ورواج سے بچنا چاہیے اور اپنی اولاد کے تعلق سے حساس رہنا چاہیےکہ ان کی تعلیم وتر بیت اور حسن تادیب میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔
٭٭٭
نظم نزول ِقرآن
نظم : ۔۔۔۔ ۔ نزول ِقرآن ۔۔۔۔۔۔۔ نظم نگار : سید فخرالدین بَلّے چار سو جلوۂ لَولَاکَ لَما رقص میں...