الھند کی قدیم ترین زبان سنسکرت ہے لیکن غیر محسوس طور پر یہ زبان عام بول چال میں بالکل استعمال نہیں ہوتی بلکہ صرف ویدوں اور ہندوازم کی مذہبی کتابوں تک محدود ہے. منتر، اشلوک اور پوجا پاٹ وغیرہ اسی زبان میں ہیں.
اس زبان پر صرف ایک خاص طبقے کو کمال حاصل ہے جسے برہمن طبقہ کہا جاتا ہے. پورا ہندو معاشرہ اپنی مذہبی رسومات کے لیے برہمن طبقے کا محتاج ہے. جب ہندو کے گھر بچہ پیدا ہوتا ہے تو پنڈت کو بلایا جاتا ہے. بچے کی پیدائش کی گھڑی کا حساب کتاب لگا کر اس کی کنڈلی نکالی جاتی ہے. بچے کا نام پنڈت کے مشورے سے رکھا جاتا ہے.
ہندو دھرم میں شادی پنڈت کے بغیر نہیں ہوسکتی. اگنی کے سات پھیرے "منگلم بھگوان وشنو منگلم گڑھورت دھئیم" جب تک پنڈت کی زبان سے ادا نہ ہوں عورت کے گلے میں منگل سوتر نہیں پہنایا جاتا. جب کوئی ہندو مرتا ہے تو اسکا انتم سنسکار کسی پنڈت کے بغیر نہیں ہوسکتا. پنڈت آخری رسومات کے منتر پڑھ کر مرنے والے کی آتما کو شانتی پراپت کرواتا ہے.
ہندو مذہب میں عبادت بھی پنڈت کے بغیر ممکن نہیں، پنڈت سنسکرت میں اشلوک پڑھتا ہے، بھجن سناتا ہے، آڑھتی پکڑتا ہے، ناریل پھوڑتا ہے اور جنتا پنڈت سے پرشاد وصول کرتی ہے.
یہ تو تھا ہندو دھرم میں سنسکرت زبان کے استعمال کا مختصر تعارف.
اب آئیے الھند کے مسلمانوں کی طرف.
جب عربوں نے الھند پر آکرمانڑ کیا اور کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا اور مسلمان حکمرانوں کی گرفت یہاں مضبوط ہوتی گئی تو دھیرے دھیرے عربوں کا مذہب بھی یہاں کے لوگوں میں پنپنے لگا.
چونکہ تمام ہندو برہمنوں کے محتاج تھے لہذا برہمن طبقہ سب سے زیادہ خوشحال طبقہ تھا. چنانچہ ہندو دھرم سے اسلام دھرم میں آنے والے مہاجنوں نے بھی خوشحالی اور آسودگی کا کچھ ایسا ہی جوگاڑ نکالا.
قرآنی عربی کی عرب بدوؤں میں وہی حیثیت تھی جو الہند میں سنسکرت کی تھی. یعنی عام بدو کو قرآنی عربی کے اسلوب، متن، مصادر و معانی اور اصطلاحات کو سمجھنے کے لئے کسی ماہرِ لغت یا کسی 'فقہیہ' سے رجوع کرنا پڑتا تھا. اسی طرح برصغیر میں عربی سیکھنے والے اولین نے مسلمان بننے والے بقیہ سادہ لوح عوام کو اسی طرح اپنا محتاج بنا لیا جسطرح برہمنوں نے ہندوؤں کو بنا رکھا تھا.
مسلمان بننے والوں میں اکثریت شودروں کی تھی، غلامی اور جی حضوری جن کے خون میں پیدائشی طور پر موجود تھی انہوں نے مذہبی زبان یعنی عربی سیکھنے والوں کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور حسبِ روایت نئے "پنڈتوں" کے محتاج ہو گئے. اب بچے کی پیدائش پر نئے "پنڈت جی" آکر بچے کے کان میں سنسکرت کے منتر پھونکنے کے بجائے عربی میں اذان پھونکنے لگے. عام لوگ جس طرح سنسکرت سے نابلد تھے اسی طرح وہ نئی مذہبی زبان عربی سے بھی نابلد تھے.
شادی کے موقع پر نئے پنڈت جی منگلم وغیرہ پڑھنے اور سات پھیرے لگوانے کے بجائے نکاح کی دعائیں پڑھنے لگے.
فوتگی کی صورت میں بھی پنڈت جی کو بلایا جاتا جو آ کر سنسکرت میں انتم سنسکار کے بجائے نماز جنازہ پڑھانے لگے. عربوں کے "بھگوان" کی عبادت کرنے کے لئے مندر کی جگہ مسجد بنائی جانے لگی اور پھر وہی پنڈت جی آ کر سنسکرت میں اشلوک سنانے کے بجائے عربی میں قرآن سنانے لگے، ناریل پھوڑنے کے بجائے اب حلوے وغیرہ پر ختم شریف پڑھنے لگے، پرساد کی جگہ تبرک دینے لگے، اور مرنے والوں کی آتماؤں کو شانتی دینے کے لئے سنسکرت کے منتر پڑھنے کی بجائے قرآنی آیات اور عربی میں دعائیں پڑھنے لگے. پرانا پجاری مندر کے بازو میں گھر بنا کر رہتا تھا اور آس پاس کے لوگوں سے دکشنا وغیرہ لیتا اور برہمنوں کے بچوں کو اپنی گپت زبان کی شکشا دیتا تھا. نیا پجاری مسجد کے بازو میں رہ کر صدقہ خیرات لینے لگا اور اسی طرح اپنی نئی گپت زبان میں بچوں کو سبق پڑھانے لگا اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے.
رہے نام اللہ کا.
"