ہنگیرین افسانہ
( Profi Gyilkosok )
شیندوریسبیرینائے ( Sandor Jaszberenyi )
1
ہم صحن میں درختوں کے درمیان لیٹے تھے ۔ پھلوں کی میٹھی اور بھینی بھینی خوشبو ہرسو پھیلی ہوئی تھی ۔ شہد کی مکھیاں اور بھِڑیں ہمارے سروں پر منڈلا رہی تھیں ۔ سورج پتوں کے درمیان سے راستہ بناتا ہمارے کپڑوں کے اندر دھنس کر ہمیں گرمائش پہنچا رہا تھا ؛ یہ ایک خوشگوار احساس تھا ۔ ہمیں صحن کے اس باغ میں رہنا اچھا لگتا تھا جہاں ہمیں روکنے ٹوکنے والا ، کوئی نہ تھا ۔ اُس چڑھتی دوپہر، وہاں ، بس میرا چھوٹا بھائی اور میں ہی تھے ۔
ہم وہاں خاموشی سے لیٹے ، گھاس پر گری کھٹی چیریاں چُن چُن کر کھا رہے تھے ۔ ان کا گودا کھا کر ہم گٹھلیوں کو انگلیوں میں دبا کر نشانہ باری کا کھیل بھی کھیل رہے تھے ۔ تبھی میرے بھائی نے ایک پرندہ دیکھا ، میرا کندھا ہلایا اور چیری کے ایک درخت کی ایک شاخ کی طرف اشارہ کیا ۔ میں نے اس کی انگلی کی سیدھ میں درخت کی اس نچلی شاخ کی طرف دیکھا جہاں ایک کوا آ کر بیٹھا تھا ۔ یہ ایک بڑا کوا تھا اور اس کے وزن سے شاخ نیچے جھک گئی تھی ۔
ہم نے ایسے کوے ، اب تک ، اپنے گاﺅں کے گرد اُن کھیتوں میں ہی دیکھے تھے جن میں ہل چلا ہو ؛ یہ کبھی بھی اتتنا نزدیک نہیں آئے تھے کہ ہمارے ملکیتی درختوں کے درمیان آ کر بیٹھیں ۔ ہم نے انہیں پہلے بھی قریب سے دیکھنے کی کوشش کی تھی لیکن یہ چھوٹے پرندوں کے برعکس بہت زیادہ شاطر اور چالاک تھے ، ہمیں نزدیک دیکھتے ہی پُھر سے اڑ جاتے ۔
مجھے محسوس ہوا جیسے میری نبض تیز ہو گئی ہو ۔ میں نے بڑھ کر بندوق تھام لی جو ہم دونوں بھائیوں کی تھی ۔ یہ سلواک میں بنی ایک ’ ائیر گن ‘ تھی ۔ جب میں نے ، اسے اپنے قریب کیا تو اس کی تیل لگی سیاہ نالی سورج کی روشنی میں چمکی ۔ ہمارے والد نے اس میں ایک سخت سپرنگ ڈلوایا تھا تاکہ ہم اس سے شکار بھی کر سکیں ۔ ہم اس بندوق پر بہت نازاں تھے ۔ ۔ ۔ یہ ہمارا اپنا اسلحہ تھا ۔ ہمیں اس کی شراکت میں کوئی عذر نہ تھا کیونکہ ہم باقی سب اشیاء بھی مل جل کر استعمال کرتے تھے ۔
میں اٹھ کر بیٹھا اور دبا کر نالی کھولی ۔ میں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر چَھرے نکالتے ہوئے کوشش کی کہ ان میں سے کچھ نیچے نہ گرنے پائیں ۔ ہمارے پاس صرف 329 چھرے رہ گئے تھے جنہیں ہم نے ساری گرمیاں استعمال کرنا تھا ۔ ایک ڈبے میں غالباً ہزار ہوتے ہیں ۔ ہمارے والد نے یہ کہا تھا کہ وہ ہمیں اور چَھرے لے کر نہیں دیں گے چنانچہ اب ہمیں ہی اس بات کا خیال رکھنا تھا کہ ہم نے انہیں کیسے استعمال کرنا تھا ۔ ہم نے حساب لگایا اور یہ جانا کہ ہم ایک دن میں دس سے زیادہ نہیں استعمال کر سکتے ، لیکن جیسے ہی ہمارے والد نے ہم پر نظر رکھنا چھوڑی ، ہم اس پابندی کو جلد ہی بھول گئے ۔
میں نے بندوق کو ’ لوڈ ‘ کیا ۔ انگوٹھے کی مدد سے اس میں ، نرمی سے سکے کا چَھرا بھرا اور نالی کو پھر سے اپنی جگہ پرسیدھا کر دیا ۔ مجھے وقتی طور پرخطرہ محسوس ہوا کہ ایسا کرنے سے جو آواز پیدا ہوئی تھی ، اس نے کوے کو چونکا نہ دیا ہو ۔ میں کچھ دیر ساکت رہا لیکن کوے کو ہم سے کوئی غرض نہ تھی ۔ وہ درخت کی بیرونی شاخوں پر لگے پھلوں میں مگن تھا ۔ اس نے پر جھاڑے اور کاہلی سے اپنی چونچ سے قریبی چیریاں کھانے لگا ۔
میں نے احتیاط سے بندوق کو اپنے کندھے سے لگایا ، شِست باندھی اور اپنے سانس پر قابو پانے لگا ۔ میرا بھائی میرے قریب ہلے جا رہا تھا ۔
” کیا ہم ، واقعی میں ، اسے یہاں سے مار سکتے ہیں ؟ “، اس نے سرگوشی کی ۔
” ہاں “
” ہم نے آج پہلے ہی ایک چھرا استعمال کر لیا ہے ۔“
” خیر ہے ، یہ کم از کم دو نشانوں کے برابر تو ہے ہی ۔“
ہم ہر شکار کے بعد جیبی چاقو سے بندوق پر ایک نشان کھرچ دیتے تھے جیسے امریکی انڈین کرتے ہیں ، ہم نے ایسا ان کے بارے میں کتابوں میں پڑھا تھا ۔ ہم نے قسم کھائی تھی کہ ان گرمیوں میں کم از کم ایسے پچاس نشان ضرور کَندہ کریں گے ۔ گو ڈیڑھ مہینہ ہو گیا تھا اور ہم صرف اٹھارہ تک ہی پہنچے تھے ۔ میرے بھائی کا خیال تھا کہ ہم اپنا ہدف پورا نہیں کر پائیں گے ؛ جہاں تک میرے بھائی کا تعلق تھا ، وہ اتنا چھوٹا تھا کہ بندوق کو ٹھیک طرح سے پکڑ بھی نہ پاتا اور یوں بہت سے نشانے خطا جاتے ۔ جہاں تک میری بات تھی مجھے اس کی زیادہ پرواہ نہ تھی ؛ کیونکہ میں نے جب سے بندوق اٹھائی تھی تو میں تو ’ نیچرل بورن کِلر‘ بن ہی گیا تھا ۔
2
ہمارے والد نے جب سے ہمیں بندوق لے کر دی تھی تو اس نے ہمیں ہدایت دی تھی کہ ایسا نشانہ لگاﺅ کہ شکار بچ نہ پائے ۔ جلد یا کچھ دیر بعد ہی ہمیں یہ احساس ہو گیا کہ بندوق صرف نشانہ پکا کرنے کے لئے نہیں بنائی گئی ۔ اس نے ہمیں دلیلوں سے وہ سب سمجھایا جس کا جاننا ہمارے لئے ضروری تھا ۔
اس وقت ہم صحن میں کھڑے تھے اور’ پیپریکا سوس ‘ میں پکنے والے آلوﺅں کی خوشبو ہوا میں تیر رہی تھی ۔ اور پھر ہمارے والد نے ، ہماری آنکھوں کے سامنے ، اس چڑیا کو نشانہ بنایا جو اخروٹ کے درخت کی ایک ڈالی پر بیٹھی تھی ۔
” ایک گولی ، ایک شکار “، اس نے کہا ۔
ایک گولی ؛اس کا مطلب تھا کہ اس صفائی سے نشانہ لو کہ دوسری گولی کی ضرورت ہی پیش نہ آئے ۔ وہ بولتے چلے گئے کہ اگر ہم کسی کو ماریں ( اسے یقین تھا کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں ) تو بعد میں ہم مرے ہوئے کے جسم کے ساتھ مت کھیلیں۔ جب ہم ماریں تو پکے نشانے کے ساتھ اور فوراً ماریں ۔ ہمیں ہر اس جاندار کی عزت کرنی چاہیے جس میں ایک دل دھڑکتا ہو ۔
پہلے کچھ ہفتوں میں تو ہم اصل میں کچھ بھی نہ مار سکے لیکن جلد ہی ہمیں اس کی عادت ہو گئی اور ہمیں اس کی طاقت کا نشہ چڑھنے لگا ؛ جہاں پہلے زندہ اور متحرک پرندے تھے ، وہاں اب ان کے مردہ جسم زمین پر گرے نظر آتے ۔ ہم نے پہلے چیونٹیوں کو مارا ، پھردوسرے کیڑے مکوڑوں کو ، لیکن اس طرح کی جرأت گو نئی تھی لیکن یہ گمراہ کن تھی ۔ ہم ان چڑیوں کو پنجوں سے پکڑتے ، جن کو ہم نے مارا ہوتا ، اور انہیں ان قبروں میں لے جا کر دفنا دیتے ، جنہیں ہم نے پہلے سے کھودا ہوتا ۔ ہم میں سے جس نے بھی شکار کیا ہوتا وہ بندوق کے دستے پر ایک نشان کندہ کر دیتا ۔
” مجھے بھوک لگ رہی ہے ۔“ ، میرے بھائی نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا ۔
” کچھ چیریاں کھا لو “ ، میں نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا ۔
” میں چیریاں کھا کھا کے اُکتا گیا ہوں ۔“
” ہم اِس شکار کے بعد کھائیں گے ۔ ڈیڈی جلد ہی گھر آنے والے ہیں ۔“
میں نے خود کو زمین کے ساتھ چپکایا ۔ میں پرندے کو چوکنا نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ میں نے اپنی گھڑی میں وقت دیکھا ۔
ڈیڈی نے دوپہر کے کھانے کے لئے واقعی کچھ زیادہ دیر لگا دی تھی ۔ مجھے بھی بھوک لگ رہی تھی ۔ اصل میں ہماری ماں، گرمیوں کے شروع ہونے پر ہی ہسپتال چلی گئی تھی ۔ وہ اس وقت یقیناً اس کے پاس ہی ہو گا ۔ اس کے رحم میں کچھ گڑبڑ تھی جس کی وجہ سے وہ ہسپتال گئی تھی ، تب سے بظاہر یہی کچھ تھا کہ ڈیڈی اپنے کام ، گھر اورہسپتال میں ماں کے بستر کے درمیان ہی چکر کاٹتے رہتے ۔ میرے بھائی اور مجھے صحیح طور پر علم نہ تھا کہ میری ماں کو کیا بیماری تھی کیونکہ وہ آپس میں اس بارے میں تب ہی بات کرتے ، جب وہ ہمیں بستر میں سلا چکے ہوتے ۔
مجھے یاد ہے کہ ماں کے ہسپتال جانے سے ایک روز قبل ، میرا باپ باورچی خانے میں رو رہا تھا ۔ وہ کہہ رہا تھا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ پھر وہ ہسپتال چلے گئے اور ہمارا باپ کئی روز تک گھر نہ لوٹا ۔ دو ماہ ہو گئے تھے اور وہ اپنا زیادہ وقت وہیں گزارتا ۔ ہمارے لئے رات کو سوتے وقت رونا معمول بن گیا گو بعد میں ہم نے ایسا کرنا بند کر دیا تھا کیونکہ ہمارا دھیان آتی گرمیوں نے اپنی طرف کھینچ لیا تھا ۔
ڈیڈی ہمیں ماں سے ملانے کے لئے ساتھ لے کر نہیں جاتے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس کے لئے ابھی بہت چھوٹے تھے ۔ ہم اپنی ماں سے تصویروں اور خطوں کے ذریعے رابطے میں رہتے ۔ میں دوسری جماعت میں تھا اور ٹھیک طرح سے لکھ سکتا تھا ۔ میں سنجیدہ خط لکھتا جن میں ایسے جملے ہوتے ؛
” آج ہم نے جنگل میں شکار کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “
میرا بھائی اپنی طرف سے کریون سے آتش فشاں پہاڑوں ، ٹینکوں یا جو کچھ بھی ، اس دن اس کے دماغ میں ہوتا ، کی تصاویر بنا کر بھیجتا ۔
ماں کے جانے کے بعد سے گھر میں بہت سی تبدیلیاں آئیں ۔ جیسے کہ ڈیڈی اب ہمارے ساتھ نہیں کھیلتے ، وہ چڑچڑے ہو گئے ، ان کا وزن خاصا کم ہو گیا اور انہوں نے پھر سے سگریٹ پینا شروع کر دئیے تھے ۔
3
” کیا میں پرندے پر گولی چلا سکتا ہوں ؟ “، میرے بھائی نے پوچھا ۔
” نہیں “
” لیکن پچھلی بار تم نے گولی چلائی تھی ۔“
” ایسا اس لئے ہے کہ تم ابھی اچھی طرح گولی نہیں چلا سکتے “ ، میں نے بندوق نیچے کرتے ہوئے کہا ۔
” یہ بے ایمانی ہے ، تم ہر دفعہ ہی ایسا کرتے ہو ۔“
” تم ابھی تک ، میری مدد کے بغیر بندوق کو لوڈ بھی نہیں کرسکتے ۔“
” لیکن یہ بے ایمانی تو پھر بھی ہے کہ ہر بار تم ہی نشانہ لگاﺅ ! “
” اچھا ، اگلی بار تم نشانہ لگا لینا ، ٹھیک ہے ؟ “
میں نے آخری جملہ سرگوشی میں کہا کیونکہ میں نے دیکھا تھا کہ کوا اپنی جگہ پر ہل جل رہا تھا ۔ پھر اس نے اپنے پر کاہلی سے پھڑپھڑائے اور چیری کے درخت سے اڑ کر چیڑ کے اس درخت کی سب سے اونچی شاخ پر جا بیٹھا جو ہمارے مکان کے ساتھ ایستادہ تھا ۔ ہم اُچھلے اور مکان کی سمت دوڑ لگا دی اور اندازہ کرنے لگے کہ اس کو شکار کرنے کے لئے سب سے موزوں جگہ کونسی ہو گی ۔ اس کے بعد ہم آپس میں نہ لڑے ۔
میں نے سبز زنگ آلود باڑ کے پاس ایک جگہ چنی اور بندوق کو پھر سے کندھے سے لگایا ۔ میں نے اپنا نشانہ بائیں طرف کچھ سینٹی میڑ ہٹ کر باندھا اور چھرے کے راستے کا حساب لگایا ۔ مجھے اپنے چہرے پر ہلکی ہوا کا احساس ہوا ، گو یہ زیادہ تیز نہ تھی کہ چھرے کو اپنے راستے سے بھٹکا دے لیکن میں یہ یقین کرنا چاہتا تھا کہ چھرا اپنے نشانے پر بیٹھے ۔ میں نے چھرے کے خط ِ پرواز کا اندازہ بھی کیا ۔ میں نے بندوق کا دستہ کندھے میں زور سے دبایا اور اسے وہیں برقرار رکھتے ہوئے اپنی گرفت کو آرام دہ پوزیشن میں آنے دیا تاکہ میں گولی کو زیادہ آسانی سے چھوڑ سکوں ۔ ایسا میرے والد نے مجھے سکھایا تھا ۔
' نشانچی کو گھوڑا دبانے سے پہلے سانس کو باہر نکالنا چاہیے ورنہ بندے کا سانس کندھے میں حرکت پیدا کر سکتا ہے ۔ '
میں نے شِست میں کوے کو دیکھا اور اس کی گردن کا نشانہ لیا اور مناسب لمحے کا انتظار کرنے لگا ۔ جیسے ہی مجھے لگا کہ میں بندوق کے وزن کو محسوس نہیں کر رہا ، میں نے گھوڑا دبا دیا ۔
چھرے کی آواز کی باز گشت فضا میں گونجی ۔ پرندہ درخت سے نیچے گر گیا اور میں نے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ اپنے کندھے سے بندوق ہٹا لی ۔ ہم اس جگہ کی طرف دوڑے جہاں کوا گرا تھا ۔ وہ ابھی زندہ تھا گو میرا چھرا اسے گردن میں ہی لگا تھا ۔ وہ گھر کی راہداری پر پھڑپھڑا کر اڑنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ ہم کچھ دور کھڑے اسے موت کی اذیت میں تڑپتے دیکھتے رہے ۔ ہم نے ایسا پہلے کبھی نہ دیکھا تھا ۔
میں نے بندوق میں ایک اور چھرا بھرا ، کوے کی چھاتی کا نشانہ لیا اور گولی چلا دی ۔ چھرا جہاں جا کر لگا وہاں سے کچھ پر ہوا میں اڑے ۔ اس نے کھڑے ہونے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوا اس کے زخموں سے خون رِس کر سیمنٹ کی راہداری پر پھیل رہا تھا ۔
” یہ ابھی مرا نہیں “ ، میرا بھائی چلایا ۔ میں نے جیب سے ایک اور چھرا نکالا اور بندوق میں بھرا ۔
اس بار میں نے اس کے پروں کو نشانہ بنایا ۔ چھرا اس طاقت سے اسے لگا کہ وہ اپنے پنجوں پر کھڑا ہو گیا ۔ وہ کھڑا تو تھا لیکن اب وہ پرنہیں پھڑپھڑا پا رہا تھا ۔ اور پھر اس نے ہم پر دھیان کیا اور ہماری طرف لڑکھڑاتا ہوا بڑھا ۔ اس کی گردن کے زخم سے خون رِس کر اس کے سینے کے پروں کو تر کرر ہا تھا ۔ میں نے اسے ایک اور چھرا مارا ۔ یہ بھی اس کی چھاتی میں لگا لیکن وہ اسے روک نہ سکا ۔ میں نے پیچھے ہٹنا شروع کیا کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ اس کے خون کے چھینٹے مجھ پر گر سکتے ہیں ۔ کوا مجھ سے ایک گز کے فاصلے پر تھا ، اس نے سر اٹھایا اور مجھے دیکھا ، اس کی سیاہ آنکھیں بٹنوں جیسی تھیں ۔
اس نے ناقابل برداشت حد تک اونچی آواز میں لگاتار کائیں کائیں کرنا شروع کر دیا ۔ میں نے اسے ایک اور چھرا مارا لیکن اس کا بھی اس پر کوئی اثر نہ ہوا ۔
” یہ مرنا نہیں چاہتا “ ، میرا بھائی اب ہذیانی کیفیت میں چِلایا ۔ ” تم اسے نہیں مار سکتے “ ، وہ چیختے ہوئے وہاں سے بھاگ گیا ۔
کوا میری طرف بڑھتا رہا ؛ میں نے ایک اور چھرا بندوق میں بھرنا چاہا لیکن میرے پاس ایک اور نہ تھا ۔ اب میرے پاس بس خالی بندوق ہی تھی ۔
جب وہ میرے سامنے آ کھڑا ہوا تو وہ رکا اور اس نے پھر سے کانوں میں چبھنے والی آواز میں چِلانا شروع کر دیا ۔ وہ میرے ، اتنا ، نزدیک تھا کہ میں اس کی چونچ میں اس کی زبان کی حرکت بھی دیکھ سکتا تھا ۔ بندوق میرے ہاتھوں سے چھوٹ کر ، آواز پیدا کرتے ہوئے ، زمین پر جا گری ۔ میری کنپٹیوں میں خون ابھر آیا اور مجھے ٹھنڈے پسینے آنے لگے ۔ اور کہیں نہ جا سکنے کے کارن میں نے خود کو اس زور سے باڑ کے ساتھ لگایا کہ اس کے جال کے نشانات میری کمر پر بن گئے ۔ میں کوے کو نہ مار سکا ۔ میری آنکھیں ساکت ہو گئیں اور ہم ایک دوسرے کو گھورتے رہے ۔ جب میں اس کی کالی آنکھوں میں گھور رہا تھا تو میری اپنی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔
” خدا کے لئے تم یہ کیا کر رہے ہو؟ “
یہ میرے والد کی آواز تھی جو باڑ کے پاس سگریٹ تھامے کھڑے تھے ۔ ایک پھرتیلی حرکت نے انہیں میرے پاس لا کھڑا کیا ۔ انہوں نے پھرتی کے ساتھ اپنے پاﺅں سے کوے کو ایک زوردار ضرب لگائی ۔ مجھے کوے کی ہڈیوں کے چٹخنے کی آواز آئی ۔ اس ضرب نے اسے ہوا میں اچھال دیا تھا اور اس کے کالے پر ہوا میں بکھر کر نیچے گرنے لگے تھے ۔ وہ گھر کی دیوار سے جا ٹکرایا اور اس پر خون کے دھبے چھوڑتا ہوا نیچے گر گیا ۔
وہ ابھی بھی مرا نہ تھا ۔ وہ زمین پر پڑے پڑے خون اگلتے ہوئے ، اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے ، درد بھری آواز میں چِلا رہا تھا ۔ میرے والد نے ائیر گن اٹھائی ، کوے کے پاس گئے اور بندوق کے دستے کو پوری طاقت سے اس کے سر پر دے مارا ۔ وہ بار بار اس کے سر کو کچلتے رہے ۔ بالآخر اس کی کھوپڑی ٹوٹ گئی ۔ میں حرکت نہ کر سکا ؛ وہیں کھڑے کھڑے ، میں مرے ہوئے کوے کو ، اس کے ہوا میں اڑتے پروں کو دیکھتا رہا ۔ یہ سب چند لمحوں میں ختم ہو گیا جس کے بعد میرے والد نے کچھ گھاس توڑی اور بندوق پر لگے خون کو صاف کیا ۔
اس رات مجھے بخار نے آ لیا ۔ میں اپنے بستر میں بے چین رہا اور میں نے کمبل بھی اتار پھینکا ۔ میں آنکھیں بند کرتا تو کوا ، ایک ایسا پرندہ جسے مارا نہیں جا سکتا تھا ، سامنے آ جاتا ، وہ میری طرف بڑھتا دکھائی دیتا ۔ میں اتنی اونچی آواز میں رویا کہ میرے والد میرے کمرے میں آئے ۔ رات خاصی گزر چکی تھی لیکن وہ انہی کپڑوں میں تھے جن میں وہ بازار جاتے تھے ۔ وہ میرے سرہانے بیٹھے اور میرا سر سہلانے لگے ، پھر انہوں نے تھرمامیٹر میری بغل میں دبایا ۔ میں ان کی سانس میں بئیر اور سگریٹ کی باس سونگھ سکتا تھا ۔
” مجھے معلوم نہیں ، کہ میں کیوں ناکام رہا “ ، میں نے کہا ، میری آواز کانپ رہی تھی ، ” میں نے وہ سب کیا جو آپ نے مجھے سکھایا تھا لیکن میں کوے کو ایک ہی ’ شاٹ‘ میں ہلاک نہیں کر پایا ۔ “
” تم نے ایسا بھی برا نہیں کیا ۔ خدا بھی ہر بار ایسا کرنے میں ناکام رہتا ہے “ ، انہوں نے کہا ۔ انہوں نے اپنے کمرے میں جانے اور موسیقی لگانے سے پہلے میرے سر پر تھپکی دی اور مجھے دوبارہ کمبل اوڑھا دیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ افسانہ مصنف کی اجازت سے ترجمہ کیا گیا ہے ۔