خواجہ گیسو درازؒ کی دیو مالائی داستان جن سے منسوب چار افغانی قبائل ان کے صلبی اولاد کے دعویدار ہیں ملاحظہ کی ہے ۔ اب آپ کی زندگی کے بارے میں مستند حقائق جو کہ مسند کتابوں میں درج ہیں ملاحظہ کیجیے ۔
اخبار اولیا اور خزینۃ اولیا میں ہے کہ آپؒ کا اسم گرامی سیّد محمد ، کنیت ابولفتح ، القاب صدرالدین ولی الااکبر الصادق ہے ۔ عام طور پر خواجہ بندہ نواز اور خواجہ گیسو دراز کہلاتے ہیں ۔ خواجہ گیسو دراز کی وجہ یہ بتائی ہے کہ ایک دفعہ حضرت شیخ نصرالدین چراغ دہلی کی پالکی اور مریدوں کے ساتھ اٹھائی ۔ آپؒ کے بال بڑے تھے اور یہ پالکی کے پایہ سے الجھ گئے اور آپ انہیں نکال نہیں سکے اور مرشد کی محبت میں خاموش رہے ۔ جب حضرت شیخ نصرالدین چراغ دہلی کو خبر ہوئی تو آپ گیسو دراز کی عقدیت و محبت سے بہت خوش ہوئے اور یہ شعر پڑھا ۔
ہرکہ مرید سیّد گیسو دراز شد واللہ خلافت نیست او بارشد
آپؒ کا خاندانی شجرہ یہ ہے ولی الااکبر الصادق ابوالفٹح محمد بن یوسف بن علی بن محمد بن یوسف بن حسن بن محمد بن علی بن حمزہ بن داؤد بن زید بن ابوالحسن الجنیدی بن حسین بن ابی عبدللہ بن محمد بن یحیٰ بن حسین بن زید المظلوم بن علی اصغر زین العابدین بن امام حسینؓ ابن سیدنا علیؓ بن ابوطالب ہے ۔ آپؒ کے مورث اعلیٰ ہرات سے دہلی آئے تھے ۔ آپؒ کے والد بزرگوار سیّد یوسف عرف سیّد راجہ کو حضرت نظام الدین اولیاؒ سے ارادت تھی ۔ آپؒ اپنے ملفوظات ’ جوامع الکلم ‘ میں فرماتے ہیں ’ پدر من زیاران خدمت شیخ نظام الدین ؒ بود ‘ ۔ آپؒ کے نانا بھی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کے مرید تھے ۔
آپؒ ۱۳۲۱ء میں بمقام دہلی میں پیدا ہوئے اور چار پانچ سال کے بعد اپنے والد مخدوم سیّد محمد یوسف المعروف شاہ راجو قتال کے ساتھ جن کا مزار دولت آباد کے قریب خلدآباد میں ہے ، سلطان محمد تغلق کے حکم کے مطابق دولت آباد تشریف لائے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی اور دس سال کے تھے کہ والد ماجد کا انتقال ہوگیا ۔ آپؒ کی عمر پندرہ برس کی تھی کے آپؒ کی والدہ ماجدہ آپؒ کو دہلی لے گئیں ۔ یہاں آپؒ نے مشہور اساتذہ سے کسب علم حاصل کیا ۔ اور چھوٹی عمر میں حضرت شیخ نصرالدینؒ چراغ دہلی کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اس مقصد کے لئے آپؒ نے بڑی ریاضت و مشقت کی اور صاحب نظر مرشد نے آپؒ کو بڑی محبت سے تعلیم دی ۔
حضرت چراغ دہلی قدس سرہ نے ۷۵۷ ھ میں وفات پائی ۔ اس سے تین دن پہلے حضرت گیسو درازؒ کو خلافت عطا کی ۔ آپؒ اس کے بعد میں دیر تک دہلی میں رہے اور ۸۰۱ھ میں اسی کی عمر میں حادثہ امیر تیمور کی بناء پر دہلی سے دکن روانہ ہوئے اور گوالیار ، جاندیر ، ایراچہ ، چندیری ، بروڈھ سے ہوتے ہوئے اور گجرات میں کچھ عرصہ قیام کے بعد دولت آباد میں تشریف لائے ۔ اس کے بعد گلبرگہ کا رخ کیا ۔ جو اس وقت شاہان بہمی کا دارلخلافہ تھا ۔ بادشاہ وقت نے بڑی عقیدت سے آپ کا خیر مقدم کیا اور آپ گلبرگہ میں ہی بس گئے ۔ چند سال کے بعد ۱۴۲۲ء میں عالم فانی سے عالم جاوانی کی طرف انتقال فرمایا ۔
آپؒ کا عالی شان مقبرہ اور خانقاہ سلطان احمد شاہ بہمی نے بنوایا جو آپ کا مرید و متعقد تھا ۔ آپ کی تصانیف کی تعداد ۱۰۵ بیان کی جاتی ہیں ۔ مشہور تصانیف میں بعض جو مستند ہیں حیدرآباد دکن میں چھپ چکی ہیں اور ان کے نام معارف اسلامیہ میں درج ہیں ۔
آپؒ نے چالیس برس کی عمر میں سیّد احمد بن مولانا جمال الدین مغربی کی صاحبزادی بی بی رضیہ خاتون سے نکاح کیا ۔ ان کے بطن سے دو صاحبزادے حضرت سیّد حسین عرف سیّد محمد اکبر حسینی اور حضرت سیّد یوسف عرف سیّد محمد اصغر حسینی اور تین صاحبزادیاں تھیں ۔ دونوں صاحبزادے جید عالم تھے ۔ سیّد حضرت گیسو درازؒ اپنے بڑے صاحبزادے کے ظاہری و روحانی کمالات سے متاثر تھے ۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ اگر محمد اکبر میرا لڑکا نہیں ہوتا تو میں اس کے لوٹے میں پانی بھر کر لاتا ۔ حضرت سیّد محمداکبر نے بہت سی کتابیں عربی و فارسی میں لکھیں ۔ ۸۱۱ھ میں اپنے والد سے خلافت پائی لیکن سات مہینے کے بعد انتقال فرمایا ۔ حضرت گیسو درازؒ نے اپنے ہاتھ سے اپنے محبوب فرزند کی میت کو غسل دیا ۔ آپ کا مزار گلبرگہ میں ہے ۔ آپ کے دوسرے صاحبزادے سیّد حضرت یوسف کو خلافت دی وہ اپنے والد کے جانشین ہوکر سجادہ ارشاد پر متکمن ہوئے اور بعد وفات کے بعد اپنے والد کے مزار شریف کے پائیں جانب دفن ہوئے ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پختونوں نے ان خاندانوں کو خواجہ گیسو نواز سے کیوں منسوب کیا ہے
یہاں افغانوں کی بالاالذکر روایات اور حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز ؒ کی سوانعمری مختصر تحریر کی گئی ہے ۔ ان دونوں اس قدر تضاد ہے کہ نام کے علاوہ تمام جزویات مختلف ہیں ۔ افغانوں کا علاقہ اس زمانے میں بھی علم و فنون سے دور اور جاہلیت کا دور تھا ۔ لہذا اس داستان پر جو محض روائیتوں پر مبنی ہے ، کس طرح بھی حقائق پر مبنیٰ نہیں ہوسکتی ہیں ؟ جب کہ برصغیر میں لکھی گئیں زیادہ مستند ہیں کیوں کہ یہ ان لوگوں کی لکھی ہوئی ہیں جو نہ صرف آپؒ کی صحبت میں رہے ہیں بلکہ اور مستفید بھی ہوئے ہیں ۔ ان سوانح عمریوں میں مستند ترین کتاب ’ سیر محمدی ‘ ہے جس کے مصنف مولانا شاہ محمد علی سامانی مرید حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ ہیں ۔ اس کے علاوہ آپؒ کے صاحبزادے کی کتب اور ملفحات ہیں ۔ ان میں سے کوئی سے اکثر شائع ہوچکی ہیں ۔ لہذا ان کے غلط ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے ۔ ۔ اس سلسلے میں کل تفصیلی بحث کی جائے گی ۔
حیات افغانی کے مصنف نے یہ سوال اٹھایا کہ بہلول لودھی کے دور میں ستوانی ، مشوانی ، وردگ اور ہنی کثیر تعداد میں تھے ۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ اس قلیل عرصہ میں ان کی تعداد ہزاروں تک ہنچ جائے ۔ یہاں بہت سے سوال اٹھائے جاسکتے ہیں ۔ کیوں کہ یہ داستان تاریخ اور عقل کی کسوٹی پر نہیں اترتی ہے اور ہم بالاالذکر ثابت کرچکے ہیں کہ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ کی سوانح عمری اور افغانوں کی روایات میں بہت تضاد ہے ۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان روایات کی حقیقت کیا ہے ؟ کیا یہ من گھڑت ہے یا ان کے پس منظر میں کوئی حیقت پوشیدہ ہے ۔ ؟ لہذا اس کے لئے بحث کی ضرورت ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بالاالذکر روایات کے پس منظر میں کوئی حقیقت پوشیدہ ہے ، جس نے اپنا چولا بدل لیا ہے اور بالاالذکر خاندان مسلمان ہونے سے پہلے یقیناًمذہبی تقدس رکھتے تھے اور مسلمان ہونے کے بعد بھی انہیں بدستور مذہبی تقدس حاصل رہا ۔ اسی تقدس کے پیش نظر جاہلی ذہن نے انہیں سیّد کا لبادہ پہنا دیا ۔ لہذا اس کے پیچھے جو بھی حقیقت پوشیدہ ہے اس پربحث کی ضرورت ہے ۔
طبقات ناصری میں کلمہ غزگاؤ کا املا مختلف شکلوں میں ملتا ہے ۔ مثلاً غژغاؤ ، غژگاؤ ۔ اس کلمہ کا پہلا حصہ غژگؤش سے مربوط ہے ، جو کہ چوپایوں کا نگہبان فرشتہ ہے ۔ یہ کلمہ اوستا میں گؤش اور پہلوی میں گوش ہے ۔ اس کلمہ کا دوسرا حصہ غاؤ اوستا میں گؤ ، فارسی میں گاؤ اور پشتو میں غوا ہے ۔ پس غژغاؤ یا غژگاؤ کے معنی مقدس گائے کے ہیں ۔
یہ ایک قسم کی گائے ہے جو پہاڑی جانور ہے ۔ یہ بدخشاں ، داخان اور پامیر کے پہاڑوں میں پایا جاتا ہے ۔ یہ سرد سیر کا قوی ہیکل اور طاقت ور جانور ہے اور کوہسار کے لوگوں کی زندگی کا دارومدار اس پر ہے ۔ اس لئے وہ اسے دوست رکھتے ہیں ، وہ اس کا دودھ استعمال کرتے ہیں اس کاگوشت کھاتے ہیں اور اس پر بوجھ دھوتے ہیں ۔ یہ پہاڑوں میں خوب اترتا چڑھتا ہے ۔ کہتے ہیں قدیم ترک اس کی پوجا کرتے تھے اور اس کی سینگوں کو قبروں پر لگاتے تھے ۔
غالب امکان یہی ہے کہ یہاں قدیم زمانے میں غژگاؤ کی پوجا کرتے تھے اور گؤش جو کہ فرشتہ تھا اور اس کے پجاری بھی تقدس کے حامل تھے ۔ بالاالذکر خاندان جو کہ گؤش کے پچاری تھے اور اس حثیت سے مذہبی تقدس کے حامل تھے اور مسلمان ہونے کے بعد بھی انہیں بدستور تقدس کے حامل ہے ، جو کہ ایک جاہلی مذہب کی خصوصیت ہے ۔ جب مذہب کی تبدیلی واقع ہوئی تو روایات نے بھی رنگ بدلا اور گؤش گیسو دراز میں بدل گئے اور بالاالذکر خاندان کو ان کے تقدس آمیز ماضی کی بدولت انہیں باآسانی سیّد تسلیم کرلیا گیا اور اسے سچ ثابت کرنے کے لئے داستانیں تخلیق کی گئیں جو کہ سچائی سے بہت دور تھیں ۔ مگر چوں کہ ان کے کوتا ذہنی نے اسے قبول کرلیا تھا اس لئے ان کا اس کی سچائی پر اصرار رہا ۔
اس کی تصدیق اس طرح بھی ہوتی ہے ان کی روایات کے مطابق گیسودراز نے اپنی اولادوں کے نام مظاہر فطرت اور دوسری اشیاء پر رکھے جو کہ جو کہ قدیم آریاؤں اور ترکوں کی خصوصیات ہیں اور افغانوں میں اب بھی زندہ ہیں ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ زرتشتی مذہب کا ایک توحید پرست فرقہ گؤمرثیان تھا اور یہ بالاالذکر خاندان اس کے پجاری ہوں ۔ مگر اس کا امکان بعید ہے ۔ (جاری)
علامہ اقبال يا اکبر علی ايم اے اصل رہبر کون؟
کسی بھی قوم کا اصل رہبر کون ہوتا ہے خواب بیچنے والا شاعر يا حقیقت کو سامنے رکھ کر عملیت...