(Last Updated On: )
حافظہ عائشہ صدیقہ (لاہور)
شاعری جزو پیغمبری بھی ہے اور وجدانی کیفیت بھی ۔ شاعر صرف اپنے جذبات وخیالات ہی رقم نہیں کرتا بلکہ اپنی موزونی طبع سے داخلی وخارجی کیفیات کا بھی غماز ہوتا ہے ۔ حقیقی شاعری محدود مقصدیت کے لئے نہیں ہوتی بلکہ یہ اہل دنیا کی نگاہوں کا حجاب اٹھا کر انہیں منظر کے اس پار دکھانے کی اہلیت وطاقت رکھتی ہے ، جوان کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے ۔ انگریزی شاعر ٹینی سن کہتا ہے کہ جس شاعری سے ملت کا دل قوی ہواور ا س کی ہمتیں بلند ہوں ، اس کو اعلیٰ درجے کے اعمال حسنہ میں شمار کرنا چاہے ۔1؎
اقبال کی شاعری میں حقیقی شاعری کے تمام عناصر یوں مجتمع نظر آتے ہیں کہ اس میں زندگی کا عرفان جھلکتا ہے ۔ جس میں مقصد زیست کے ساتھ شعورزیست بھی نمایاں ہے ۔ اقبال کی شاعری میں جہاں بلند پرواز تخیل اور فکر کی گہرائی موجود ہے ، وہاں قوم کے لئے درد بھی موجود ہے ۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ملی وقومی مسائل کی نشاندہی اور ان کے ممکنہ حل کو پیش کرکے اسے اجتماعی مقاصد کاترجمان بنادیا ہے ۔
اقبال کے تمام افکار قرآنی تعلیمات کی تفسیر ہیں۔ ان کے کلام کو قرآن وحدیث نے مہمیز کیا ہوا ہے۔ اس لئے ان کی شاعری کا نصب العین واضح ہے ۔ ان کا ہر نظریہ قرآن وحدیث کی تعلیمات کے تابع ہے ۔ ان کا نظریہ ملت بھی نظریہ توحید کی اساس ہے ۔ وہ ملت کی تعریف ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
چیست ملت اے کہ گوئی لا الہ؟
باہزاراں چشم بودن یک نگہ 2؎
اسی نظریے کی بنیاد پر اقبال نے برصغیر میں بسنے والے دریائے توحید کے شناوران کے لئے ایسی سرزمین کا مطالبہ کیا جہاں وہ اپنی زندگی عشق محمد ؐ میں سر شار ہوکر شریعت محمدیؐ کے مطابق گزار سکیں۔ ان کے اس نظریے سے مسلمانانِ برصغیر نے متحدو متحرک ہوکر جستجوئے پیہم سے ، یہ ارض پاک حاصل کیا۔
یہ وطن اقبال کے پیغام ، یقین محکم اور عمل پیہم کی عملی تفسیر ہے ، جس میں توحید کے نور کے ساتھ مرکز ومحور سے جڑے رہنے کا شعور بھی موجود ہے ۔ جو اسلامی تجربہ گاہ بنانے کی عملی تفسیر بھی ہے اور حیات آفرینی کی تعبیر بھی ۔ جس کی بنیادوں میں احترام انسانیت بھی ہے اور اتباع شریعت کے ساتھ مقصدیت دوامیت بھی ہے ۔ جو سلطانانِ ہند کی حریت کا کرشمہ بھی ہے اور اخلاقی ، مذہبی تمدنی بنیادوں کا سر چشمہ بھی ہے ۔ ہم پر لازم ہے کہ اس کی زبوں حالی پر رنجیدہ ہوں ۔ اس کے لئے فکر اقبال کا بنظر غائر مطالعہ کرنا ضروری ہے ۔ کیونکہ یہ پاکستان کی اساس بھی ہے اور عصر حاضر کی اہم ضرورت بھی ۔ اقبال نے فکر ی عناصر کو اپنی نثر اور شاعری میں یوں سمو کر پیش کیا کہ یہ ہردور کی نمائندہ آواز بن گئی ہے ۔
عصر حاضر کے تناظر میں اقبال کی تعلیمات کی ضرورت واہمیت اور بھی مسلم ومستحکم ہوجاتی ہے کیونکہ اس کا سرچشمہ قرآن وحدیث ہے ۔ آج مشینی دور کا انسان جو ایام غوغائے حیات میں یوں گم ہوگیا ہے کہ خرد کی گتھیوں کو سلجھانے کی بجائے خود انتشار زمانہ میں اُلجھ کر رہ گیا ہے ۔ اقبال کی تعلیمات اس کے لئے رہبری ورہنمائی کا کام کرتی ہیں اور اس کو اسی راہ مستیم پر چلنے کے قابل بناتی ہیں، جس کے لئے عزم صمیم سے اس وطن کی شیر ازہ بندی کی گئی تھی ۔
فکر اقبال کے کئی گوشے ہیں ان کی افہام وتفہیم کے لئے ان کے افکار کا نہ صرف پر چار ضروری ہے بلکہ اس پر عمل پیرا ہونے میں ہی ملک وقوم کی بقا کا راز مضمر ہے ۔موجودہ دور کے حالات ایام ماضی کے رجحانات اور مستقبل کی تشکیک سے پنپ رہے ہیں ۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ملت جب تک دامن توحید سے وابستہ رہتی ہے، وہ تابندہ و پائندہ رہتی ہے ۔
ملتے چون می شود توحید مست
قوت وجبروت می آید بدست 3؎
جب ملت روشنی حق کی پیروی چھوڑدیتی ہے تو وہ زندہ درگور ہوجاتی ہے ۔
ملتے چوں مرد ، کم خیزد زقبر
چارۂ او چیست غیر ازقہر وصبر 4؎
ان کا نظریہ جماعت آپ ؐ کے اس فرمان کی تفسیر ہے کہ جماعت میں رحمت ہے اور متفرق ہونا عذاب ہے ۔ اسی لئے اقبال ملت کے اتحاد واتفا ق پر بھر پور زور دیتے ہیں کیونکہ متحد ہونے میں ہی قوم کی بقا اور سالمیت کا راز پوشیدہ ہے ۔
قوموں کے لئے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحب مرکز تو خودی کیا ہے خدائی 5؎
اقبال چاہتے تھے کہ افراد اللہ کی طرف سے ودیعت کردہ صلاحیتوں کو احیائے اسلام اور قوم کے لئے وقف کریں کیونکہ ان کے نزدیک خدمت اسلام ، خدمت رسول ؐکے مترادف تھی ۔ وہ کہتے ہیں:
’’اس وقت مسلمانوں کا فرض ہے کہ جو قوت خدا تعالیٰ نے اسے عطا کی ہے ، اسے اسلام کی
خدمت اور اقوام وملل اسلامیہ کے احیا و بیداری میں صرف کریں۔‘‘ 6؎
پیغام مصطفویؐ کو صحیح معنوں میں اپنانے اور اُسوۂ حسنہ ؐ کی پیروی کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی خودی سے آگاہ ہو اور اس کی نگہبانی کرکے اس جہانِ آب وگل کی تسخیر کرے ۔
انہوں نے ہمیشہ نمود ونمائش کی چکا چوند سے متاثر ہو کر اس کی تقلید کی مخالفت کی ۔ وہ چاہتے تھے کہ قوم اپنی حقیقت کو پہچانیں اور مغربی تہذیبی نظام کے چنگل سے بچیں ورنہ ان کو مخصوص سوچی سمجھی سازش کے ذریعے ان کے تہذیبی ، مذہبی ، ادبی اور ثقافتی ورثے سے محروم کردیا جائے گا ۔ آج کی سیاست اور معاشرت کے منظر نامے کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ بحیثیت قوم ہم اس ملک کی خوشحالی اور ترقی کے لئے اپنی مخفی قوتوں سے واقف ہوں ۔ اپنے اسلاف کی جرأت کردار اور جرات گفتار ، جسے ہم نے یکسر فراموش کردیا ہے ، اس کی یاد تازہ کریں۔
اقبال کی بتائی ہوئی راہ پر چلنے کے لئے سب سے زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ ہم اپنے نظام تعلیم کو اس طرح استوار کریں کہ مادی ، جسمانی راحتوںوضرورتوں کو پورا کرنے کے ساتھ ہماری روحانی اور نفسیاتی اطمینان کا سامان بھی کرے ۔ وہ اعلیٰ اور جدید تعلیم کے کبھی مخالف نہیں رہے لیکن ایسی تعلیم سے ہمیشہ بیزار رہے ہیں جس نے انسان کو درجہ ٔ انسانیت سے گرا دیا ۔ ان کی ژرف نگاہی نے آسمان کی وسعتوں اور زمین کی گہرائیوں اور پہنائیوں میں چھپے رازوں کو اس وقت جان لیا تھا ، جب قوم غفلت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹک رہی تھی۔ ان کے پیش نظر ہمیشہ سے جہانِ نو کی آرزو ہے لیکن یہ کبھی بھی تعلیم کے حصول کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی ۔ ان کے نزدیک تعلیم قوموں کی تعمیر وتشکیل کے لئے ایک ایسی اہم ضرورت ہے جس کے بغیر قوم کا وجود خطرے سے دوچار ہوسکتا ہے ۔ جہاں اقبال یورپ کی سائنسی ترقی سے خوش اور متاثر ہیں وہیں وہ اس کے ایسے تعلیمی نظام کے خلاف ہیں جس نے نوجوانوں کی خودی کی موت کا سامان پیدا کیا ہے ۔ آج کے زمانے میں سائنس کی روز افزوں ترقی اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم فکر ِ اقبال کی روشنی میں تعلیمی نظام کے لئے ایسا لائحہ عمل ترتیب دیں ، جس سے نوجوانوں کی ذہنی صلاحیتوں کی نشوونما ہو اور ان کی پوشیدہ قابلیتوں کو جلا ملے ۔
اقبال نے مغربی تہذیب کو نہ صرف قریب سے دیکھا بلکہ اس کا بنظر غائر مطالعہ بھی کیا تھا ۔ جہاں وہ اس کی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی سے متاثر ہوئے وہیں انہوں نے اس کے نظام تعلیم کو مجموعی طور پر انتہائی غیر انسانی اور مضرت رساں پایا۔ وہ بانگ درا میں مغربی نظام تعلیم کے بارے میں یوں اپنے افکار کا اظہار کرتے ہیں:
یورپ میں بہت روشنی علم وہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
رعنائی تعمیر میں ، رونق میں ، صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے ، حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لئے مرگ ِ مفاجات
یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات 7؎
ان کے نزدیک مغربی تعلیم صرف اس صورت میں قابل قبول ہے جب اسے مشرقی اقدار سے آہنگ کرلیا جائے ۔ اس کے لئے ضروری ہے ایسا نظام تعلیم ترتیب دیا جائے جس میں عظمت رفتہ سے پیوستہ رہنے کا بھی سبق ہو اور وسعت آسمان کو تسخیر کرنے کے ذوق و شوق سے آراستہ بھی ہو ۔ کیونکہ جو قومیں اپنے اسلاف کو فراموش کردیتی ہیں وہ کبھی انسانیت کے وقار کو بحال نہیں رکھ پاتیں ۔ پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں ایسے تعلیمی نظام کی ضرورت ہے ، جس کی جڑیں اپنی ثقافت ، تمدن ، تہذیب سے جڑی ہوں لیکن وہ عصری ، سماجی اور سائنسی شعور سے بھی ہم آہنگ ہو۔ جس کی نوعیت محض کتابی نہ ہو بلکہ عملی بھی ہو۔ جہاں اقبال ایسی تعلیم کی ضرورت واہمیت پر زور دیتے ہیں وہیں وہ چاہتے ہیں کہ معلم اخلاقی ومذہبی صفات اور سماجی اور معاشی انصا ف واصول سے متصف ہوں جو خود عملی طور پر قرآن وسنت کی تعلیمات پر کاربند ہوں اور آنے والی نسلوں کی مادی ، جسمانی ، روحانی طور پر ان کے اذہان وقلوب کی تطہیر وبالیدگی کا سامان کرسکیں تاکہ نوجوانان ملت نہ صرف اسلام کے نمائندہ بنیں بلکہ اس کی عملی تفسیر بھی ہوں جو اپنے زور بازو سے اس جہان کے سر بستہ رازوں سے پردہ اٹھا کر مہ وماہ پر کمندیں ڈالیں اور اسے تسخیر کریں ۔ اقبال ایسی تعلیم اور متعلم سے یکسر گریزاں ہیں ، جس کے قول وفعل میں تضاد پایا جائے ۔ کیونکہ اقبال کی نگاہیں اس بات کو بھانپ چکی تھیں کہ نوجوانوں کی تعلیم وتربیت کے لئے جس روح انسانی ، فقر بو ذر اور صدق سلمانی کی ضرورت ہے ، مدرسہ وخانقاہیں اس سے بیگانہ نظر آتی ہیں:
اٹھا میں مدرسہ وخانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی ، نہ محبت ، نہ معرفت ، نہ نگاہ 8؎
اسی لئے اقبال اپنے پیام میں اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ ان کے افکار کو اپنا نصب العین بنایا جائے تاکہ تعلیم کی اصل روح کو پاکر منزل مقصود پر پہنچا جائے کیونکہ خانقاہیں اور مدرسے اس فریضے کو اس طرح نبھانے سے قاصر نظر آتے ہیں ، جس طرح ان کا حق ہے ۔
مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادۂ ناب
نہ مدرسے میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے 9؎
وہ اسلام کے نظریہ مساوات کے علمبردار دکھائی دیتے ہیں جہاں ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر محمود وایاز برابر ہوجاتے ہیں ۔و ہ لسانی ، عصبی ، سماجی وسیاسی گروہوں اور تفرقوں سے بیزاریت کا رویہ اختیار کرتے ہوئے شکوہ کناں ہیں:
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں 10؎
اقبال تمام عصبیتوں اور تفرقوں سے باز رہنے کی تلقین کرتے ہیں اور متحد ہوکر حق کی تلاش میں سرگرداں رہنے کا سبق دیتے ہیں۔
اقبال ایسے سرمایہ دارانہ نظام کو قابل تقلید نہیں مانتے جو معاشرے میں عدم مساوات کی فضا پیدا کرتا ہے ۔ ایسا سرمایہ دارانہ نظام جس میں غریبوں کا استحصال کیا جائے وہ اقبال کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔
بریشم قبا خواجہ از محنت او
نصیب تنش جامہ تار تارے
نہ درویدۂ او فروغ نگاہے
نہ درسینۂ او دل بے قرارے
خواجہ نان بندۂ مزدور برد
آب روئے دخترِ مزدور برد
بے بجا ش بادہ نے در سبوست
کاخ ہا تعمیر کردہ خود بگوست
اقبال نے غریبوں اور محنت کشوں کے معاشی استحصال کے خلاف آواز بلند کی کیونکہ جب تک اس نظام کا خاتم نہیں کیا جائے گا ایک خوشحال فلاحی معاشرہ وجود میں نہیں آسکتا ۔ موجودہ بحرانی حالات میں جہاں امارت وغربت میں ناہموار توازن قائم ہوگیا ہے ۔ امیر ، امیر سے امیر تر اور غریب ، غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ ایسے بدحال اور انحطاطی دور میں جہاں ہر ذی روح ذہنی بے چینی اور کرب کا شکار ہے ، کچھ افلاس زدہ ان حالات میں ایسے قبیح گناہ سرزد کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جو مذہبی ، اخلاقی اور انسانی ہر لحاظ سے معیوب ہیں ۔ اس لئے جب تک عملی طور پر اس معاشی ناہمواری کو ختم کرنے کے لئے کوشش نہیں کریں گے ، تب تک ایسے فعل سرانجام ہوتے رہیں گے جو اخلاق سوز بھی ہیں اور ننگ ِ انسانیت بھی ۔ یہ تبھی ممکن ہیں جب ہم اسلام کے معاشرتی اصولوں کو سمجھیں اور ان پر عمل پیرا ہوں۔
اقبال ایسے جمہوری نظام سے متفرہیں جس کی اساس دین اسلام پر نہ ہو۔ ان کے نزدیک سیاست دین سے جدا ہوجائے تو ریاست قتل وغارت ، جبر واستبداد اور انتشار واضطراب کی تصویر پیش کرنے لگتی ہے ۔
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی 11؎
موجودہ حالات کے تناظر میں اس کی اہمیت واضح نظر آتی ہے جب ہر کوئی اپنے ذاتی مفادات وغرض کو ترجیح دیتا ہے ۔ عوام سے لے کر حکمران تک اسی ڈگر پر چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ خلوص ، بے غرضی ، بے لوث ایثار عنقا ہونے لگا ہے ۔ حکمران اپنے فریضے سے یکسر غافل نظر آتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن وسنت کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلا جائے ۔ جو لوگ اقبال کی فکر اور سوچ پر اعتراض کرتے ہیں کہ جس مثالی معاشرے کے خواہاں اقبال ہیں، اس کی عملی تعبیر ممکن نہیں ۔ دراصل وہ روح قرآنی اور جرأت ایمانی سے بے گانہ ہیں ۔ وہ یہ بھلا بیٹھے ہیں کہ انہیں اصولوں پر عمل پیرا ہو کر خلفائے راشدین نے ایسا مثالی معاشرہ قائم کیا جہاں کسی نہر کے کنارے ایک بکری کے بھوکا مرجانے پر بھی خود کو جوابدہ سمجھتے تھے ۔ جہاں عدالتیں امیر وغریب ، حاکم ورعایا کے امتیاز کو مٹا کر انصاف کی روشنی میں فیصلے صادر کرتی تھیں۔ جہاں حکمران احتساب کے لئے اپنے آپ کو خود عوام کے سامنے پیش کردیا کرتے تھے ۔
اقبال ایسے ہر نظام کو جو قرآن وسنت سے بے بہر ہ ہوکر جمہوریت ، قومیت ، اشتراکیت اور فسطائیت کے روپ میں ہو،مذمت سمجھتے ہیں ۔ اقبال کے معاشرے کی فلاح کے ساتھ افراد کی اصلاح پر بھی زور دیتے ہیں ۔و ہ قوم کو متحد رہنے کی تلقین کرتے ہیں کیونکہ جب قومیت کی اکائی حغرافیائی ، لسانی اور ہوس مال وزر میں تقسیم ہوجائے ، تو اس کا شیرازہ بکھر جاتا ہے ۔
اقبال افراد کو جرات وشجاعت کا عملی مجسمہ دیکھنے کے خواہاں ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہر بحیثیت قوم ہم ہمت ، حوصلے ، صبر ،تدبر وتفکر سے معاملات اور مشکلات کا سامنا کریں کیونکہ جو کانٹوں سے گھبرا جائے وہ پھول کی خوشبو نہیں پاسکتا۔ جو آج تکلیف کا سامنا کرنے سے گریزاں ہے وہ کل کی لذت ِ حیات سے ناواقف رہ جاتا ہے ۔
وہ کل کے غم وعیش پہ کچھ حق نہیں رکھتا
جو آج خود افروزو جگر سوز نہیں ہے
وہ قوم نہیں لائق ہنگامۂ فردا
جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے 12؎
اقبال ان تمام مسئلوں کا حل تعلیم کے حصول اور اس کے فروغ میں پوشیدہ سمجھتے ہیں ۔ لیکن ایسی تعلیم جو قرآن وسنت کے منافی نہ ہو ۔
اس دور میں تعلیم ہے امراض ملت کی دوا
ہے خون فاسد کے لئے تعلیم مثل نیشتر 13؎
اقبال پوری ملت اسلامیہ سے مخاطب ہوکر اسے یہ پیغام دیتے ہیں کہ خودیقینی وخود شناسی پیدا کرو۔ اپنی خود ی کو تسخیر کرکے اس جہانِ رنگ وبو کو مسخر کرلو کیونکہ آج کا انسان بے اطمینان و بے یقینی کا شکار ہے ۔ وہ اپنی اصل سے ناواقف ہے ۔ اسی لئے اقبال چاہتے ہیں کہ وہ اپنے پیکر خاکی میں یقیں پیدا کرکے منصب خلافت کا صحیح معنوں میں حقدار بن جائے ۔
خدائے لم یزل کا دست قدرت تو ، زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے 14؎
بحیثیت پاکستانی ہم پر لازم ہے کہ افکار اقبال کی روشنی میں اپنی خودی کو مستحکم کریں ۔ جس امید ورجائیت کی راہ اقبال شے دکھائی ہے ، اسی پر گامزن ہوں تاکہ ہم اغیار کے دست نگر نہ رہیں ۔ خصوصاً قوم کے جوانوں کو اپنی زندگی قرآن و سنت کے مطابق ڈھال کر جدید علوم وفنون سے آراستہ ہونے کی ضرورت ہے ۔ بے غرضی اور خلوص سے اس ملک کے لئے کام کرنے کی ضروررت ہے تاکہ شبانہ روز کی محنت اور لاکھوں قربانیوں کو دے کر حاصل کئے گئے ملک کو ہم وہ دنیا ئے عالم میں مقام دلواسکیں ، جس کے لئے اس کا خواب دیکھا گیا تھا ۔ مغربی ذہنیت اور نظام سے متاثر ہونے کی بجائے اپنے اسلاف اور ورثے پر فخر کریں اور انہیں عزیز از جان رکھتے ہوئے اسلاف کی قائم کردہ اعلیٰ مثالوں اور کارناموں کی روش پر چلیں ۔ اس وطن عزیز کے مفاد پر اپنے ذاتی مفاد قربان کردیں تاکہ اس ارض پاک کی تعمیر وتشکیل اعلیٰ وارفع مقاصد سے ہوسکے اور اس کی عظمت ہمدوش ثریا ہو۔
حوالہ جات:
1 عبدالحکیم ، خلیفہ ، فکر اقبال ، لاہور ، بزم اقبال ، طبع ہفتم ،1977ء، ص:26
2 علامہ اقبال ، ڈاکٹر ، جاوید نامہ ، لاہور ، مکتبہ دانیال ، س۔ ن، ص: 890
3 ایضاً، ص: 890
4 ایضاً، ص:888
5 علامہ اقبال ، ڈاکٹر ، ضرب کلیم ، مشمولہ کلیات اقبال ، لاہور ، علم و عرفان پبلشرز ، 2005ء ،
ص:637/175
6 رفیع الدین ہاشمی ، ڈاکٹر ، علامہ اقبال : شخصیت اور فکر وفن ، لاہور ، اقبال اکادمی پاکستان ،
طبع سوم ، 2014ء، ص:272
7 علامہ اقبال ، ڈاکٹر ، بال جبریل ، مشمولہ کلیات اقبال ، ص: 107/399
8 ایضاً، ص46/338:
9 ایضاً، ص69/361:
10 علامہ اقبال ، ڈاکٹر ، بانگ درا ، مشمولہ کلیات اقبال ، ص:202
11 علامہ اقبال ، ڈاکٹر ، بال جبریل ، مشمولہ کلیات اقبال ، ص:40/332
12 علامہ اقبال ، ڈاکٹر ، ضرب کلیم ، مشمولہ کلیات اقبال ، ص: 141/604
13 علامہ اقبال ، ڈاکٹر ، بانگ درا ، مشمولہ کلیات اقبال ، ص: 242
14 ایضاً، ص: 269
٭٭٭
*مضمون نگارگیریژن یونیورسٹی‘ لاہور سے ایم فل اُردو ہیں۔