اسلامی، فلاحی، نظریاتی، جمہوری اور آزاد و خود مختار ریاست پاکستان نے قیام کے بعد ابتدائی پچیس برس تو بنا غیر متفقہ آئین کے تحت ہی گزار دیئے لیکن ربع صدی گزر جانے کے بعد جب ایک بے مثال سیاسی قیادت اور حقیقی سیاسی و انقلابی لیڈر نے عوام کو عوام کے حقوق کا شعور بخشا اور اس مملکت خداداد کو پہلا متفقہ آئین دیا تو صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی۔ محسن دستور پاکستان اور ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پہلا متفقہ آئین دینے ، مسلم اُمّہ کی بات کرنے ، عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنے جیسے بے شمار جرائم کی پاداش میں بذریعہ عدالت قتل کردیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور اسے عرف عام میں عدالتی قتل کہا جاتا ہے۔
اسٹیبلشمینٹ کے غیر جانبدار رویے اور حکمت عملی تقویت کا باعث بنی تو عدالت عظمی کے متعدد فیصلوں پر سوال کھڑے ہونے لگے۔ کچھ ہی عرصہ قبل لاہور میں ممتاز قانون دان اور سماجی خدمت گار محترمہ عاصمہ جہانگیر کے حوالے سے منعقدہ سیمینار ، کانفرنس منعقد ہوئی تو اس کا ہر ہر سیشن ہی اہمیت کا حقدار قرار پایا۔ ماہرین قانون ، نامور قلم کاروں اور کم و بیش تمام شعبہ ہائے زبدگی سے تعلق رکھنے والوں کے خطبات نے تو سوشل میڈیا پر بہت مقبولیت حاصل کی۔ ممتاز اور سینئر قانون دان جناب احمد کرد صاحب کے خطاب نے تو سوشل میڈیا پر مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کر دیئے۔ ان کا نشانہ اسٹیبلشمینٹ کی دو نمایاں شخصیات تھیں۔ محبان علی احمد کرد نے تو موقع پر ہی ان کی تمام تر سفارشات یا گزارشات کی غیر مشروط حمایت کا اعلان بہت بھر پور اور جوشیلے انداز میں کیا۔ با الفاظ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ جنرل فیض سے لیں گے آزادی ، تیرے باپ سے لیں گے آزادی کی قرار داد غیر مشروط طور پر بنا کسی رکاوٹ اور مخالفت کے منظور کر لی گئی۔ جناب علی احمد کرد صاحب نے عدالت عظمی اور عدالت عالیہ کے فاضل جسٹس صاحبان کی موجودگی میں کون سی جوڈیشری کا سوال اٹھانے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر انصاف فراہم کرنے والے ایک سو تیس ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر غالبا ایک سو چھبیواں بتایا۔ علی احمد کرد صاحب کا یہ خطاب دراصل تحریک بحالئ انصاف کے آغاز کا اعلان تھا اور وہ تحریک انصاف کی حکومت میں۔
عدالت عظمی کے دوسرے نمبر پر آنے والے سینئر ترین جسٹس جناب جسٹس فائز عیسی نے حال ہی میں جو اپنا اردو میں تحریر کردہ چھ صفحات پر مشتمل نوٹ جاری کیا وہ سپریم کورٹ کی ویب سائیٹ سے بلا جواز ہٹا دیئے جانے کے باوجود ایک طرح کی چارج شیٹ بھی ہے ، ایک چیلنج بھی اور ایک تاریخی دستاویز بھی۔
اس سے قبل وزیر خارجہ جناب بلاول بھٹو زرداری نے بھی اسمبلی میں اپنے خطاب میں جو کچھ کہہ ڈالا وہ انہی کا استحقاق تھا اور وہی کرسکتے تھے۔
جمہوریت بہترین انتقام ہے کی اصطلاح کے داعی سابق صدر جناب آصف علی زرداری نے مثبت اقدامات کے ذریعے ثابت کیا کہ ان کی قیادت میں ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کی خاطر پاکستان پیپلز پارٹی کسی بھی بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔ کھپے کھپے پاکستان کھپے کے داعی آصف علی زرداری نے ثابت کیا کہ سیاسی بصیرت میں ان کا ثانی نہیں ۔ اور یہ کہ اقتدار کی ان کو حاجت نہیں بلکہ وہ ایک بصیرت افروز بادشاہ گر ہیں ۔ آج کا تاریخی دن 10 اپریل کہ جو یوم دستور پاکستان بھی ہے اور حسن اتفاق سے اسی تاریح کو دختر مشرق ۔ شہید رانی محترمہ بےنظیر بھٹو نے آمر اعظم ۔ جابر اعظم ابوالمنافقین ضیا ٕالحق جیسے بدترین آمر کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت کا آغاز کیا ۔ اسی تاریخی اور تاریخ ساز دن آج ضیا ٕ الحق کے روحانی مرید اور پیروکار کشکول خان اور ان کی آمرانہ حکومت کو تاریخی اور فقیدالمثال شکست فاش دی گئی ۔ 10 اپریل آج یوم دستور پاکستان کے طور پر بھی اور یوم نجات ابوالمنافقین کے طور پر بھی ۔ یوم فتح دستور کے طور پر بھی اور یوم بحالی ٕجمہوریت کے طور پر بھی ایک تاریخ ساز دن ثابت ہوا۔
لیکن کو خود ریاست مدینہ کا امیر کہنے والے نے اپنے پونے چار سال کے عہد آمریت میں حزب اختلاف سے جو ہتک آمیز ، توہین آمیز اور غیر جمہوری رویہ اختیار کیے رکھا وہ اس امر کا متقاضی ہے کہ حزب اقتدار کی جانب سے کسی قسم کے مزاکرات کا دروازہ نہ کھولا جائے۔ اس موقع پر ہمیں قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کا ایک شعر یاد آرہا ہے ملاحظہ فرمائیے۔
دل نہ ہوں جب صاف تو مِل بیٹھنے کا فائدہ
ہو چکے ہیں یوں تو ماضی میں بھی سمجھوتے کئی
سید فخرالدین بَلّے
جب آئین کی وضاحت کرنے والے اور آئین کے طے کردہ اصول و ضوابط کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنے کے پابند ہیں تو پھر وہی آئین کو تحفظ فراہم کرنے اور آئین کی دفعات کی پاسداری کرتے ہوئے اور انصاف کے تقاضوں کو آئین کے مطابق پورا کرتے ہوئے اور یہ جانتے ہوئے کہ ان فیصلے صادر کرنے کے لیے بھی حدود و اختیارات کا تعین کیا گیا ہے اور پھر بھی وہ جب اپنے فرائض منصبی پر پورا نہیں اترتے تو پھر تو آئین ساز اداروں سے ، پارلیمینٹ سے آوازیں اٹھیں گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہو تو چیف جسٹس کو ازخود نوٹس لینے سے فرصت ہی نہ ملے ، اگر پیپلز پارٹی کی حکومت ہو اور وہ عدالت سے رجوع کریں ، ریفرینس بھجوائیں کہ قائد عوام کا عدالتی قتل ہوا ، انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ جواب میں انصاف کے مندر سے سوائے خاموشی کے کوئی جواب نہ آئے تو گویا وہ عدالتی قتل کے شریک مجرم ہیں۔ صورت حال تشویشناک اس لیے ہے کہ جب لاڈلے قانون کی گرفت میں آنے لگتے ہیں تو ازخود نوٹس لینے والے انہیںُ تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ فارن فنڈنگ کیس ہو یا توشہ خانہ کیس ، ناجائز اولاد کا مقدمہ ہو یا پھر جائز اولاد کا ، کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص ایک ملک کی عدالت میں جسے اولاد تسلیم کرلے وہ شخص دوسرے ملک میں کاغذات نامزدگی جمع کروات وقت بھول جائے کہ اس کی ایک مستند اولاد بھی ہے۔ لیکن منصفین خاموشی اختیار کیے رکھیں۔ امیر المنافقین ضیاء الحق نے عدالتوں کو جس طرح سپنے ذاتی مفادات اور من پسند فیصلے حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا وہ ہماری تاریخ کا بد ترین نہیں بلکہ گھناؤنا ترین باب ہے۔ ہمارے ہاں انصاف فراہم کرنے والے ادارے آج بھی ہمیں بتانا چاہتے ہیں کہ عدالتی قتل ہو یا ، آمریت کو تحفظ فراہم کرنے کا معاملہ یا پھر لاڈلوں کے جرائم کو بے نقاب کرنے کا معاملہ ہم ، تو ہم ہیں۔
ایک صوبے تک محدود رہنے والے نے کسی نہ کسی طور ایک اور صوبے میں بھی حکومت قائم کرلی۔ اب دو صوبوں میں آپ کی حکمرانی قائم ہے تو ازخود نوٹس تو بنتا ہے کہ آپ نے بلا جواز اسمبلیاں کیوں تحلیل کیں۔ یہی نہیں بلکہ عدالت تو یہ بھی کہہ سکتی تھی کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کا کوئی قانونی جواز ثابت نہ ہونے کے باعث شواہد کی روشنی کی میں یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ انتخابات نوے روز میں ہی ہونگے لیکن ان دو نوں صوبوں کی اسمبلیوں کو کیونکہ ناجائز طور پر اور بلا جواز تحلیل کیا گیا ہے لہذا بطور جرمانہ تحریک انصاف کو پابند کیا ہے کہ الیکشن کے تمام تر اخراجات وہ ادا کرے۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دراصل بات یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی میں ووٹوں کی گنتی کا اختیار ہے اور بس کسی دوسری پارٹی سے وابستگی کی بنا پر یہ کام عدالت کا کام نہیں وہ شمار میں نہ لائے۔ لیکن دور جانے کی ضرورت نہیں گزشتہ برس دس اپریل کو قومی اسمبلی میں جس طرح اسپیکر نیشنل اسمبلی نے قانون کی دھجیاں اڑائیں ، اس غیر آئینی عمل پر سزا تو بنتی تھی لیکن لاڈلا گروپ اینڈ کو کو کسی قانون کے تحت سزا نہیں دی جاسکتی۔
جیل بھرو تحریک کا قائد خود گرفتاری سے گریزاں ہے اور عدالت ہے کہ ضمانت پر ضمانت حتی کہ دن کے رات کے جس پہر میں اور جہاں چاہیں وہاں ضمانت کی منظوری کا پروانہ پہنچانے کو تیار ۔ عدالتوں میں جسٹس مولوی مشتاق ، نسیم حسن شاہ ، افتخار چوہدری اور گلزار جیسوں نے انصاف کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے وہ بھی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔
لیکن جسٹس کارن ایلییس ،جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ سے جسٹس فائز عیسی جیسے آئین و قانون اور انصاف کے متوالے اور رکھوالے جب تک مایوس ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ ان کا اور ہمارا موقف ایک ہی ہے اور اس حوالے سے تمام محبان ملک و ملت اور انصاف فراہم کرنے وال اداروں میں موجود یہ قومی ہیرو ون پیج پر ہیں اور ہمارا موقف اور نظریہ ممتاز اسکالر و قادرالکلام شاعر جناب سید فخرالدین بلے کے الفاظ میں کہ جو سن کی نظم کا ایک مصرعہ ہے اور وہ یہ کہ
آنچ ہم آنے کبھی دیں گے نہ پاکستان پر
کائنات کیسے پھیل رہی ہے؟
انسان کی کہانی کائنات کی کہانی سے الگ نہیں۔ اگر آپ انسان کی تاریخ جاننا چاہتے ہیں تو آپکو کائنات...