پاکستان کی عالمی ساکھ بحال کرنے کا معاملہ ہے ۔
کل میرے سے کچھ نیویارک میں مقیم پاکستانیوں نے رابطہ کیا اور پاکستانی سفارتکاروں کا یہاں میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ سے گٹھ جوڑ پر بات کی کہ کس طرح امریکہ میں مقتدر حلقوں میں باور کروایا جا رہا ہے کہ شہباز شریف نئے وزیر اعظم ہوں گہ نہ کہ انقلابی عمران خان ۔
دراصل پاکستان کے حکمرانوں نے جو پچھلے ۴۰ سال میں ۱۰۰۰ بلین ڈالر کا ٹیکہ لگایا ہے اس کی پوری دنیا میں مثال نہیں ملتی ، وہ اب بول رہا ہے ۔ میڈیا خرید لیا ، ادارے خرید لیے ۔ پاکستان کا عالمی نارکوٹکس مارکیٹ میں ہی شیئر ۱۰۰بلین ڈالر سالانہ ہو گیا ہے ۔ حنیف پاؤڈری کا معاملہ تو ایک tip of the iceberg والا ہے ۔ موسی گیلانی ہزاروں کلوگرام ایفڈرین باہر بھیجنے کہ دھندے میں رہا ۔ طالبان نے ہیلمند میں قبضہ کر کے افغانستان میں دوبارہ پاؤں جمائے کیونکہ وہی دنیا میں poppy کی فصل کا بڑا علاقہ ہے ۔ پاکستان اسی لیے گرے لسٹ میں ہے اور رہے گا ۔ کل عباسی کو پھانسی لگنی چاہیے تھی ۔
ہم کیا چاہتے ہیں ؟ ہمیں ۲۵ جولائ کو فیصلہ کرنا ہو گا ۔ ان درندوں کہ ہاتھوں موت یا عمران خان کہ سنگ انقلاب ؟ کل میں نے ٹائمز آف لندن کا لنک اپنی فیس بک پر دیا جس نے کمال کا مضمون کپتان پر لکھا ۔ مثالیں دیں کہ کیسے اس نے ماجد خان کو نہیں بخشا ، میانداد کو پاکستان کی خاطر ٹر پل سینچری نہیں بنانے دی ۔ اور شارجہ میں میچ فکس کی افواہوں پر کھلاڑیوں پر قیامت برپا کر دی ۔ ابھی بھی اس کی اپنی بہنیں ، ان کہ خاوند ، اس کی جان لینے کو پڑے ہوئے ہیں ۔
کل جج شوکت صدیقی کی مکاری پر میں نے ٹویٹ کیا تھا کہ ان کو جج بھرتی کرتے وقت دیکھنا چاہیے تھا جو مولوی عزیز اور کئ دہشرتگردوں کا وکیل رہا وہ جج بنانے کہ کیسے لائق ہو گیا ۔ فرخ عرفان کا جج بنائے جانے کا جب میں نے ٹی وی پر ۲۰۱۰ میں ٹکر دیکھا میں نے چیف جسٹس ، گورنر اور آئ ایس آئ کو لکھا ، کہ ثاقب نثار اسے جج بنا رہا ہے روکیں کسی نے نہیں سنی ۔ میں نے وہ نوٹ بار کونسل میں تقسیم کیا ۔ جب ۲۰۱۶ میں پناما میں اس کانام آیا اس کہ خلاف میں نے ہی سپریم کورٹ میں پیٹیشن کی سپریم جیوڈیشل کونسل میں ۔ نواز شریف اندر جیل چلا گیا ، فرخ دندناتا پھر رہا ہے ۔ ابھی بھی جج ہے لاہور ہائیکورٹ کا اسی ثاقب نثار کو تڑیاں لگاتا ہے شاہد کی طرح کہ زرا نکال کہ دکھاؤ ؟ ظلم ہے ماں دھرتی کہ ساتھ ۔ کل میرا بیٹا بتا رہا تھا کہ جس جج کی امریکی سپریم کورٹ میں نامزدگی کی آپ تعریف کر رہے تھے کل ٹرمپ کو اس کا نام واپس لینا پڑا کیونکہ جب وہ بیس سال کا تھا تو کالج میں ایک مضمون لکھا جو racial سوچ کو پروان چڑھاتا تھا ۔ کمال ہے ، لندن سے میرے دوست معید اور میں بینظیر اور نواز کہ لُوٹنے کہ عالمی اخباروں کہ لنک دے رہے ہیں پھر بھی ان کو الیکشن لڑنے دیا جا رہا ہے کیونکہ چیف جسٹس ڈیم بنانے میں مصروف ہے اور کل سے جسٹس شاہد کی shit صاف کرنے پر لگ جائیں گے ۔
۲۰۰۷ کی بات ہے ، کراچی میں دو اسٹروک رکشا پر پابندی لگی ۔ ہزاروں مالکان / ڈرائیور ، روزی روٹی سے گئے ۔ میں ایک ٹی وی پروگرام دیکھ رہا تھا ۔ اینکر نے ایک ڈرائیور کو کہا کہ آپ یہ غلط کر رہے ہیں ، اور اوپر سے احتجاج ؟ فضا کو آلودہ کر رہے ہیں ، آنے والے وقتوں میں سانس لینا مشکل ہو گا ۔ اس نے جواب دیا ہمارا صرف یہ مطالبہ ہے کہ یا ہمیں کوئ روزگار دیا جائے یا قتل کر دیا جائے ۔ اتنا سادہ مطالبہ ہے حکومت کیوں نہیں مانتی ، اینکر لاجواب ہو گئ ۔
آج دس سال بعد بھی ۲۲ کروڑ پاکستانی عوام کا حکمرانوں سے یہی مطالبہ ہے ، کہ یا عزت کی روٹی کمانے کہ زرائع پیدا کریں وگرنہ ہمیں قتل کر دیں ؟ اس دفعہ قدرت کو شاید اشرافیہ ۲% کا قتل منظور ہے ۔ جی ہاں ۔ ایسا ہونے جا رہا ہے ۔ یہ حکمران اور ان کہ فواد جیسے پٹھو قتل ہوں گے ۔ دو دن رہ گئے ہیں ان قتلوں کی شروعات میں ۔ دعا کریں عمران خان اور پاکستان جیت جائے ۔ پاکستان رہے گا انشاء اللہ ، یہ غلاظتیں نیست و نابود ہو جائیں گیں ۔
پاکستان پائیندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔