اس کی تین وجوہات ہیں:
1۔ سکیورٹی اور نظریاتی ریاست کا اسٹیٹس، جب تک یہ قائم ہے پاکستان کسی طور ترقی نہیں کرسکتا۔ پاکستان کی معیشت لنگڑی لولی رہے گی، وہ کبھی اس سطح پر نہیں پہنچ سکے گی، جہاں وہ اپنی آبادی کو خوشحال بنا سکے، ہمارے جنرلوں کی سوچ نہ کبھی اپنے دائرے سے نکلنی ہے۔ نہ انہوں نے نکلنے دینی ہے۔ پاکستانی ریاست، سماج اورسیاسی نظام میں جو بچی کھچی خوبصورتیاں تھی، وہ سب رفتہ رفتہ دم توڑچکی ہیں۔ ہمارے جنرل تو حالات کو اور بھی خوف ناک شکل دیتے چلے جارہے ہیں۔
2۔ کنزرویٹو، قدامت پرست، رجعت پسندی، مذہبیت کی جب تک سوچ پر غالب ہے، پاکستان ترقی نہیں کرسکتا۔ ترقی کو ہمیشہ لبرل ماحول چاہئے ہوتا ہے۔ جہاں قدغنیں ہی قدغنیں ہوں۔۔ اور سوچ کو مذہب کا کیڑا کھا چکا ہو۔ وہ مذہب کے علاوہ کچھ سوچ ہی نہ سکیں۔ وہاں کبھی ترقی نہیں ہوسکتی۔
3۔ ترقی کرنا ہماری ترجیح (priority) ہی نہیں ہے۔ ہم ترقی کرنا ہی نہیں چاہتے، بلکہ ہم ترقی دشمن قوم ہیں۔ ہمیں ترقی سے نفرت ہے۔ اسی لئے لوٹ مار سے محبت ہے۔ اور لوٹ مار ہی سکہ رائج الوقت ہے۔ دولت اور پاور کی Greed تمام بالائی طبقوں میں رچ بس چکی ہے۔ معاشی ترقی کے لئے ایک کوالٹی تعلیم کی ضرورت ہے۔ سرمایہ کاری، کاروبار کرنے کے کھلے مواقعوں کی ضرورت ہے۔ ترقی کے لئے علاقائی امن و دوستی کا ماحول ضروری ہے۔ ترقی کو ریاست کا ترجیح بنانے کی ضرورت ہے۔ اور ترقی کے آگے جو بھی دماغی، نظریاتی، مذہبی رکاوٹیں ہیں ان کو بلڈوز کرنے کی ضرورت ہے۔۔ ترقی پرانے سماج، پرانی زمین، پرانے ماحول ، پرانے خیالات کو توڑنے کا نام ہوتا ہے۔۔ کسی بلڈنگ کو تعمیر ہوتے دیکھ لیں۔۔۔ آپ کو ترقی کے سارے پراسس کی سمجھ آ جائے گی۔۔ اس پلاٹ کی پہلے ساری ہیئت بدل دی جاتی ہے۔ بلکہ کھدائی کردی جاتی ہے۔۔ اس کو تعمیر (ترقی) کے لئے پہلے conducive بنایا جاتا ہے۔۔ پرانے ڈھیر پر تعمیر یعنی ترقی نہیں ہوتی۔۔
باقی جو ہورہا ہے، وہ سب کارروائیاں ہیں، بکواس ہے۔ وقت کا ہی نہیں نسلوں کو ضیاع ہے۔ تاحد نگاہ مستقبل تک پاکستان قرضوں اور بھیک پرچلتا ملک رہے گا۔ خاکی اشرافیہ خود کو اورقوم کو بے وقوف بنائے ہوئے ہے۔ انہوں نے مڈل کلاس کے ایک حصے کو چور چور، کرپشن کرپشن کی افیون لگا دی، انشااللہ نتیجہ زیرو ہوگا۔ ملک کے مائکرو اور میکرو انڈی کیٹرز ویسے کے ویسے ہی زوال پذیر رہیں گے
“