پاکستان میں روحانیت کا مذاق۔
پاکستان وہ دنیا کا خطہ ہے جس میں بہت سے ولی اللہ اور بزرگ ہستیاں آباد رہیں اور اپنی کرامات سے عام لوگوں کا بلا تفریق مزہب اور رنگ و نسل کے بھلا کرتی رہیں ۔ ان کو کبھی مزہب اسلام کے ساتھ جوڑا گیا کبھی معجزاتی ہستیاں قرار دیا گیا اور کبھی جادو جگانے والی قوتیں ۔ حقیقت میں وہ بلکل سیدھے سادھے عام انسان تھے ۔ انہوں نے جسم کی بجائے روح کی توانائ پر زیادہ توجہ دی لہٰزا اس مقام پر پہنچ گئے جہاں سے کائنات کے سارے راز ان پر آہستہ آہستہ افشاں ہونے شروع ہو گئے ۔ نہ انہوں نے وراثت میں کوئ گدی چھوڑی اور نہ ہی اس دنیا سے رخصتی پر کوئ کرامات ماسوائے کردار اور سنہرے فرمان ۔ میاں محمد بخش ، بلھے شاہ، خواجہ فرید ، داتا علی ہجویری ، شاہ لطیف ، مادھو لعل حسین اور باقی بزرگوں کا کلام پڑھیں اور اپنی زندگیاں اس کے مطابق ڈھال لیں ، آپ بھی ولی اللہ ۔
۲۰۱۱ میں ایک میرے دوست مجھے نارووال میں ایک پرچی والے بابے کے پاس لے گئے ۔ وہ ایک ہم سے پہلے فریادی کو گالیاں بک رہا تھا کہ کام کروانا ہے تو پیسے لاؤ ۔ مزید فرمایا عمران خان بھی میرا مرید ہے اس نے مجھےعمرہ کروایا ۔ ہزاروں اس طرح کے کرتبی لوگ پاکستان کے دیہاتوں میں پائے جاتے ہیں ۔ تماشہ اور میلہ لگاتے ہوئے ۔
۲۰۱۲ میں دو دفعہ میں کٹھمنڈو گیا پنڈتوں اور جوتشیوں سے ملنے ۔ وہاں پوری دنیا سے لوگ چلہ کاٹنے آتے ہیں ۔ مجھے سب سے زیادہ ایک ہندو ماتا جی نے متاثر کیا ۔ روس کی ایمبیسی کے پیچھے اس کا ایک چھوٹا سا گھر تھا اس کا خاوند جاپان میں مزدوری کرنے گیا ہوا تھا ۔ بہت خوبصورت اور جوان عورت ، آگ جلا کر دھوئیں سے مستقبل دیکھتی تھی ۔ اس نے کہا خواجہ نظام الدین کے مزار پر جائیں اور خواجہ صاحب کو ملیں ۔ میں نے کہا ان کو یہیں بلوا لیں ۔ ان کی روح تو کہیں مقید نہیں۔ بولیں میں پاک عورت نہیں تم پاک شخص ہو میں نے دیکھ لیا ۔ میں یہ کہ کر واپس چلا کہ مجھے جب ان کی روح سے ملنا ہوا جہاں دل کیا مل لوں گا ۔
امریکہ کوئ ڈیڑھ سال کے قیام میں روحانیت پر درجنوں کتابیں پڑھ لیں ۔ سارے معاملات کھل کر سامنے آ گئے ۔ اس کا تعلق روح کی پرورش سے ہے جس کہ بہت ہی آسان طریقے ہیں ۔ لیکن جس طرح لوگوں کو روحانیت کے چکر میں پاکستان میں لُوٹا جاتا ہے دنیا میں کہیں نہیں ۔ میری دعا ہے عمران کی بشری بی بی سے شادی ہو جائے اور عمران صاحب وزیر اعظم بھی بن جائیں ۔ تو پھر روحانیت کے جعلی فروغ پر کوئ قانون سازی بھی کریں ۔ بہت ہو گیا ۔ ظلم ہے کہ ہم جسموں کو تو بیچ ہی رہے تھے روحوں کے معاملات پربھی کاروبار شروع کر دیا ۔ روحانیت کو سمجھنا بہر کیف اتنا آسان ہے جتنا سانس لینا ۔ لگتا ہے پاکستان میں ماحول اتنا آلودہ ہو چکا ہے کہ سانس لینا بہت مشکل لہزا روحانیت کو سمجھنا اس سے بھی زیادہ ۔
خوش رہیں ۔
نزر محمد چوہان
نیوجرسی / امریکہ
جنوری ۷، ۲۰۱۸
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔