پاکستان میں کثیر تعداد ایسے شعراء کی پائی جاتی ہے، جو اکثر و بیشتر یہ کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ ہم پر اشعار کا نزول ہوتا ہے ۔ اشعار کہیں سے آتے ہیں اور ہم تحریر کرتے ہیں۔ جب کہ ان کی شاعری میں کرافٹ صاف ظاہر ہوتا ہے۔ کوئی نزول وغیرہ نہیں ہوتا۔ اشعار کہیں سے بھی نہیں آتے۔ میں خود بھی ماضی میں بارہا یہ جھوٹ بولتا رہا ہوں۔ زمینی حقائق یہی تھے کہ سوچ سوچ کر قافیہ پیمائی کرتا تھا۔ بھاری بھرکم الفاظ سے غزلوں کو سجانے کے عذاب سے گزرنے والے کتنی آسانی سے کہہ جاتے ہیں کہ ہم پر نزول ہوتا ہےاورایک ہی نشست میں یکبارگی چند منٹوں میں غزل ہو جاتی ہے۔ او میرے بھائی! نزول نزول کا راگ الاپنا بند کرو ۔ ورنہ مجھے مجبوراً پوچھناپڑے گا کہ۔۔۔
شاعر نزولِ شعر سے بے حال تو نہیں؟
کیا یہ وبائے سرعتِ انزال تو نہیں؟
کوئی کسی کی دل دہی کے لیے شاعری کر رہا ہے اور کوئی لڑکیاں پھنسانے کے لیے شعر بنا رہا ہے۔ کسی کی ذات کے اندر کچھ بھی نہیں ، جسے وہ بیان کر رہا ہو۔ مشاعروں پر تقریباً تمام شعراء داد وصول کرنے اور لڑکیوں کے چکر میں جاتے ہیں۔ میں بھی لڑکیوں کو دیکھنے اور اپنے شعروں پر واہ واہ سننے جایا کرتا تھا۔ لیکن جب سے شعر کی تقدیس کا احساس ہوا ، کوئی مشاعرہ نہیں پڑھا، اور نہ ہی پڑھنے کا ارادہ ہے۔
دھڑا دھڑ شاعری کے نام پر فضول قافیہ پیمائی کی کتابیں منظرِ عام پر آ رہی ہیں۔ پاکستان کے وہ شعراء جو کل تک میری نظروں میں عزیز اور محترم تھے، وہ بے بحرے متشاعروں کی کتابوں کے فلیپ پر ان کی تعریفوں کے پل باندھتے نظر آئے ہیں۔ شاعروں کو صرف کتابیں چھاپنے اور مشہور ہونے کا شوق ہے۔ مجھے بھی ماضی میں کتاب چھاپنے اور مشہور ہونے کا شوق تھا، جو اب رفو چکر ہو چکا ہے۔ کوئی کتاب نہیں چھاپنی۔ کوئی شہرت حاصل نہیں کرنی۔ کسی مشاعرے میں شریک نہیں ہونا۔ اگر زندگی نے مہلت دی تو صرف ایک عدد منتخب کلام کا مجموعہ از خود پرنٹ کر کے صرف مرشد کے پاؤں میں جا کر رکھوں گا۔ اور بس۔۔۔
میرے پاس ایک عدد فیس بک اکاؤنٹ ہی کافی ہے، جس پر میں بغیر کسی کو ٹیگ کیے غزل پوسٹ کر دیتا ہوں اور میرے گنے چنے قارئین اسے پڑھ لیتے ہیں۔ اور یہ سب بھی صرف ان کی طرف سے مجبور کیے جانے پر کرتا ہوں۔ ورنہ دو ماہ پہلے تک میں نے سات ماہ تک فیس بک کو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔
2005 سے 2015 تک میں نے جتنے اشعار بھی بنائے تھے، وہ یہ سمجھ کر کتابی نوعیت کی پرنٹڈ فارم میں محفوظ کر لیے تھے کہ کہیں یہ اثاثہ ضائع ہی نہ ہو جائے۔ میں واقعی خوش فہمی میں اسے ایک اثاثہ سمجھ بیٹھا تھا۔ جب کہ آج اس پر نظر ڈالتا ہو تو بے اختیار ہنسی نکل پڑتی ہے۔ ہر ہر شعر زور زبردستی کی کاوش کا نتیجہ نکلا، جو اب میری نظر میں متروک ہے، اور وہ ترتیب دیا گیا کتابچہ عبرت کا نشان ہے۔
شاعرو! اگر تم سچے ہو تو بول اُٹھو کہ تم قافیہ پیما ہو۔ بول پڑو کہ تم لڑکیاں تاکنے اور ان کے ساتھ سیلفیاں بنانے کے لیے مشاعروں پر جاتے ہو۔ آخر ہرج ہی کیا ہے ۔سچ بولو یار! میں بھی تو بول رہا ہوں۔ خود احتسابی کی ہمت پیدا کرو۔ چلو بولو اب۔۔۔۔۔۔۔
محمد اکمل فخری کی مختصر کہانی، "استاد بمقابلہ ڈینگی" ایک طنزیہ اور مزاحیہ داستان کو سامنے لاتی ہے جو سماجی... پنجابی زبان کے معروف شاعر اور ایم اے او کالج لاہور کے شعبہ پنجابی کے ریٹائرڈ استاد پروفیسر یونس احقر... وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے وفات :...تازہ ترین خبریں
محمد اکمل فخری کا افسانہ استاد بمقابلہ ڈینگی کا فنی و فکری مطالعہ
ڈاکٹر یونس احقر۔۔۔۔ اُڈیا بھور، تھیا پردیسی، اگے راہ اگم دا
پاکستان کے معروف شاعر عزیز حامد مدنی کا یوم وفات