پروین شاکر جدید غزل کے حوالے سے ایک ایسا نام ہے جس نے جدید غزل کے تمام تر تقاضوں کو نبھاتے ہوئے نسائی جذبات و احساسات کو نہایت خوبصورت انداز میں اپنی شاعری میں پیش کیا۔ان کے یہاں رومانیت کے ساتھ ساتھ ان کے عہد کی سیاسی و سماجی سرگرمیاں بھی نظر آتی ہیں۔وہ استعارات و تشبیہات کے ساتھ ساتھ اپنی بات کہنے کا بھرپور ہنر جانتی ہیں۔خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے شاعری میں خوبصورت الفاظ کے ساتھ ساتھ نئی تراکیب کا بھی اختراع کیا۔ان کی لفظیات میں مخصوص قسم کا لوچ اور جاذبیت نمودار ہے۔وہ ایک مشرقی خاتون ہیں لہٰذا ان کی شاعری میں مشرقی تہذیب اور اس کے اقدار واضح طور پر نمایاں ہیں۔
وہ اسلامی معاشرے اور ماحول کی پروردہ ہیں چنانچہ ان کا مزاج بھی اسلامی ہے۔ان کی شاعری میں ایک علمی لہجہ اور پاک و شفاف فکر نمودار ہے جو اسلامی تقاضوں پر کھری اترتی ہے۔وہ قدم قدم پر اپنی شاعری میں استعارات و علائم کے توسل سے اسلامی نقطہئ نگاہ کو واضح کرتے ہوئے اپنے عہد کے شعراء میں امتیاز حاصل کرتی ہیں۔
اسلام میں قرآن مجید کی جو اہمیت و عظمت ہے اس سے ہر مسلمان واقف ہے یہ وہ کتاب ہے جو انسان کے لیے ایک سلیقہئ حیات فراہم کرتی ہے۔اس میں قدم قدم پر دعا کرنے کی تاکید کی گئی ہے تاکہ انسان کے یقین میں اضافہ ہو سکے اور وہ معبودِ حقیقی کی عظمت سے واقف ہونے کی کوشش میں سرگرداں رہے۔پروین شاکر بھی دعا کی عظمت و اہمیت کو خوب سمجھتی ہیں۔وہ اپنے معبود پر یقین رکھتی ہیں اور انھیں معلوم ہے کہ دعا کبھی رد نہیں جاتی۔دعا مانگنے کی اسلامی روایت یہ ہے کہ دعا مانگتے وقت ہاتھوں کو بلند کرتے ہیں۔لیکن پروین شاکر کا ہنر یہ ہے کہ انھوں نے اس طریقے کو شاعری کی زینت بناتے ہوئے تشبیہات و استعارات کی صورت میں ایک نیا رخ عطا کیا مثلاً:
آندھی میں دعا کو بھی نہ اٹھا
یوں دستِ گلاب جل رہا ہے
دستِ گلاب یعنی گلاب کی پنکھڑی کا رنگ سرخ ہوتا ہے اور سرخی آتش سے مشابہ ہوتی ہے۔اسی طرح تیز ہوا چلنا یعنی آندھی آنا مصیبتوں کی علامت ہے اور مصیبت میں دعا مانگی جاتی ہے تاکہ راحت و سکون حاصل ہو سکے اب اگر کوئی بندہ تکالیف برداشت کرتا رہے اور دعا نہ کرے یعنی مایوس ہو جائے تو اس کو مزید مصیبتیں گھیر لیتی ہیں۔یعنی بندے کی مصیبت اس کی بے یقینی کا نتیجہ ہوتی ہے اس بات کو پروین شاکرنے مندرجہ بالا شعر میں جدید شاعری کے تقاضے کے تحت نہایت خوبصورت انداز میں کہا ہے۔اسی طرح ایک جگہ کہتی ہیں:
کس قدر بد نصیب بادل ہیں
جن کو دستِ دعا نہیں ملتا
دعا کا طریقہ یہ بھی ہے کہ آنکھیں نم ہونی چاہئے لیکن بعض مرتبہ یہ بھی ہوتا ہے کہ آنکھیں تو نم ہوتی ہیں یعنی انسان مصیبت کا احساس تو رکھتا ہے لیکن اس کی مایوسی اور بے یقینی اسے دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے نہیں دیتی اور وہ بادل کی مانند دربدر بھٹکتارہتا ہے۔
پروین شاکر چونکہ نسائی لب و لہجے کی شاعرہ ہیں اور ان کی زندگی جس کرب سے گذری اس کا ذکر ان کی شاعری میں قدم قدم پردکھائی دیتا ہے۔ان کی شاعری میں عورت کا دکھ اور درد نمایاں ہے۔ایک مشرقی خاتون کے جو جذبات ہوتے ہیں ان کی شاعری اس کی مکمل تصویر پیش کرتی ہے۔ وہ اپنے مافی الضمیر کو دعا کے فلسفے کے تحت اس طرح بیا ن کرتی ہیں کہ ان کی داستانِ غم زمانے کی کہانی معلوم ہوتی ہے۔مثلاً انسان کبھی کبھی جو دعا طلب کرتا ہے اس کی قبولیت کے باوجود وہ اس سے وہ فیض حاصل نہیں کر پاتا جس کے تحت اس نے دعا مانگی تھی:
پیڑ کو دعا دے کرکٹ گئی بہاروں سے
پھول اتنے بڑھ آئے،کھڑکیاں نہیں کھلتیں
دعا کی قبولیت کے کچھ اوقات بھی ہوتے ہیں جس میں دونوں وقت ملتے ہوئے یعنی مغرب کا وقت نہایت اہم ہے لیکن پروین شاکر اس وقت دعا مانگ کر بھی حصولِ مقصد تک نہیں پہنچتیں:
دعا کبھی میں نے مانگی تھی دونوں وقت ملتے
یہ زندگی بھر کا جھٹپٹا کب دھیان میں تھا
وہ دعا کے توسل سے ہجر و فراق کی کہانی بھی بیان کرتی ہیں:
میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا،بھول گیا سوال بھی
وہ کبھی کبھی دعا قبول نہ ہونے پر افسردہ تو ہوتی ہیں لیکن یہ افسردگی انھیں مایوس نہیں ہونے دیتی بلکہ ان کو فراق میں ہی وصال کا احساس ہونے لگتا ہے:
ابر کی طرح ہے وہ یوں نہ چھو سکوں لیکن
ہاتھ جب بھی پھیلائے آگیا دعاؤں میں
یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے محبوب کو خیرو عافیت کے ساتھ دیکھنا چاہتی ہیں:
کہیں رہے وہ،مگر خیریت کے ساتھ رہے
اٹھائے ہاتھ تو یاد ایک ہی دعا آئی
قرآن مجید میں قیامت،جہنم اور عذاب سے قدم قدم پر ڈرایا گیا ہے۔شعراء نے ان تمام وعید کو اپنی شاعری میں مختلف پیرائے میں جگہ دی ہے۔مثلاً ان کے یہاں کبھی محبوب کو عذاب یا قیامت کہا گیا تو کبھی اس کی فرقت کو جہنم سے تعبیر کیا گیا لیکن اس میدان میں پروین شاکر نے ہمیشہ اپنے مخصوص اسلوب کو پیشِ نگاہ رکھتے ہوئے اپنے حالات اور اپنے دور کا کرب بیان کیاہے:
وقت ایسا ہے کہ اب حشر ہے کچھ دیر کی بات
مطمئن اہلِ سکوں بھی نہیں رہنے والے
ان کا خیال ہے قیامت کی آمد میں زیادہ وقت باقی نہیں رہا ہے اس لیے جو اس کے عذاب سے غافل ہیں اور دنیا کے عیش و نشاط میں ڈوبے ہوئے ہیں ا ن کو مضطرب و بیقرار ہونے میں اب وقت نہیں لگے گا۔دراصل حشر کے پیرائے میں زمانے کے بدلتے ہوئے اقدار اور متغیر ہوتی دنیا کی تصاویرکا بیان ہے۔ان کا ماننا ہے کہ بعض لوگ دنیا میں انجام سے غافل ہیں لیکن اگران کا شعور بیدار ہوجائے تو ان کی غفلت معدوم ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
ایسا نہیں کہ پروین شاکر صرف زمین کے حوالے سے مضطرب ہیں اور اس کے ہی بدلتے ہوئے حالات کا ذکر کرتی ہیں بلکہ وہ آسمان کے نیلے رنگ پر بھی نگاہ رکھتی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا خیال ہے کہ آسمان انسانوں کا دشمن ہے اور وہ ان کے لیے اپنے دل میں نفرت کا زہر رکھتا ہے:
ہے ازل سے رخِ فلک نیلا
کس قیامت کا زہردل میں ہے
زمانے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ذاتی زندگی کا کرب بھی بیان کرتی ہیں۔ محبوب کو رخصت کرتے ہوئے انھیں قیامت کی تکلیف ہوتی ہے لیکن وہ چاہتی ہیں کہ ان کا محبوب انھیں مسکراتے ہوئے رخصت کرے:
دل پہ اک طرفہ قیامت کرنا
مسکراتے ہوئے رخصت کرنا
وہ فراق کی مصیبت سے بخوبی واقف ہیں۔ان کی نگاہ میں شبِ فراق کی مدت قیامت سے کم نہیں:
ٹھہر کے دیکھے تو رک جائے نبض ساعت کی
شبِ فراق کی قامت ہے کس قیامت کی
یہی وجہ ہے کہ وہ نہیں چاہتیں کہ ان سے بچھڑنے والا بھی کسی کے فراق میں مبتلا ہو:
تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گذرے نہ قیامت شبِ تنہائی کی
وہ یہ بھی جانتی ہیں کہ جب انسان کا دل ٹوٹ جاتا ہے تو اس کا دل کسی طرح تسکین حاصل نہیں کرتا بلکہ ہر مقام اسے عذاب کی صورت نظر آتا ہے:
جو دھوپ میں رہا نہ روانہ سفر پہ تھا
اس کے لیے عذاب کوئی اور گھر پہ تھا
لیکن عذاب کی صورت بھی انھیں مایوس نہیں ہونے دیتی وہ خود کو مطمئن رکھنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ ڈھونڈھ لیتی ہیں۔کیونکہ انھیں اپنی محبت پر یقین ہے:
عذاب دے گا تو پھر مجھ کو خواب بھی دے گا
میں مطمئن ہوں،مرا دل تری پناہ میں ہے
وہ جانتی ہیں کہ ضروری نہیں کہ زمانے میں ہر شخص ان کے پیمانے پر کھرا اترے۔وہ اپنے شناسا سے تکلیف بھی سہتی ہیں لیکن پھر بھی اس سے بدظن نہیں ہوتیں:
جو خواب دینے پہ قادر تھا میری نظروں میں
عذاب دیتے ہوئے بھی مجھے خدا ہی لگا
پروین شاکر کے یہاں انبیاء کا ذکر بھی خوبصورت پیرائے میں ملتا ہے۔وہ ان کی تلمیحات کے توسل سے زمانے کی بدلتی ہوئی صورت پر طنز کے ساتھ افسوس بھی کرتی ہیں اور لوگوں کو حوصلہ بھی بخشتی ہیں۔ساتھ ہی اس پیرائے میں ان کا مخصوص رنگ بھی عیاں ہوتا ہے یہ رنگ افسردگی کے ساتھ ساتھ احساسِ جدائی سے مختص ہے جو ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کا بھی حصہ ہے۔وہ احساسِ محرومی کا شکار ہوکر آدم کے واقعے کو یاد کرتی ہیں اور کہتی ہیں:
چکھوں ممنوعہ ذائقے بھی
دل! سانپ سے دوستی بڑھا دے
وہ جانتی ہیں کہ کس طرح شیطان آدم کو شجرِ ممنوعہ تک پہنچانے میں کامیاب ہوااوراس کے نتیجے میں کس طرح انھیں زمین پر آنا پڑا لیکن یہ شجرِ ممنوعہ دنیا کے لیے ترقی کی ضمانت بھی بنا۔ پروین شاکرکا یہی خیال ہے کہ شجرِ ممنوعہ کی وجہ سے محبوب خفا ہو سکتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں بہت سے ارمان نکالے جا سکتے ہیں۔
انھیں اپنے محبوب میں یوسف نظر آتا ہے وہ اس کے فراق میں زندگی تمام کر چکی ہیں او ر جب ان کی زندگی لبِ بام آچکی تو ان کے یوسفِ گمگشتہ کا سراغ ملتا ہے لیکن وہ اس سراغ کو اپنے لیے بے سود جانتی ہیں کیونکہ اب ان کے یہاں جذبات کی وہ تپش نہیں جو ابتدائے فرقت میں تھی:
بجھ گئی آنکھ تو پیراہنِ تر کیا لائے
چاہ سے اب مرے یوسف کی خبر کیا لائے
لیکن جب وہ تصور میں محبوب کو سوچتی ہیں تو انھیں وصال کے لمحے یاد آتے ہیں اور ان لمحات کے احساس کو وہ واقعہئ سلیمان سے تشبیہ دے کر اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہیں:
اک تخت اور میرے برابر وہ شاہ زاد
لگتا ہے آج رات میں شہرِ سبا میں ہوں
وہ اپنی زندگی کو مشکلات کا شکار دیکھتی ہیں تو برجستہ اسے دریائے نیل سے تشبیہ دیتی ہیں لیکن کل موسیٰ کے عصا اور رب کی رضا سے دریائے نیل میں راستہ ہوگیا تھا جو آج ممکن نہیں:
ہر دل پہ ہزار نیل نکلے
دنیا کسے پھولوں کی چھڑی تھی
وہ رنج و ملال میں علیل ہوتی ہیں تومخصوص انداز میں حضرت عیسیٰ مسیح کے واقعہ کو یاد کرتے ہوئے اپنے مسیحا یعنی اپنے محبوب کو یاد کرتی ہیں:
کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا
زخم ہی یہ مجھے لگتا نہیں بھرنے والا
ان کا زخم فراق کا زخم تھا جس کو بھرنا آسان نہیں یہ اس کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے جس کی طلب ہوتی ہے:
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی
اردو شاعری میں ہر دور میں ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفےٰ ؐکا بھی ذکر نظر آتا ہے یہ محض نعت کے حوالے سے ہی نہیں کیا گیا بلکہ غزل میں بھی رسول اور آلِ رسول اور ان کے واقعات کا بیان ملتا ہے۔پروین شاکر نے بھی اس سلسلے سے خال خال اشعار کہیں ہیں لیکن یہاں بھی ان کامخصوص اسلوب نمودار ہے۔
رسولؐ نے نماز کی دعوت کے سلسلے سے اذان کہلوائی اور یہ سلسلہ آج تک بستی بستی قریہ قریہ جاری و ساری ہے لیکن کسی سنسان علاقے میں جب اذان کی آواز گونجتی ہے تو دور تک سنائی دیتی ہے۔پروین شاکر کہتی ہیں:
پرندوں کو دعا سکھلا رہی ہوں
میں بستی چھوڑ،جنگل کی اذاں ہوں
اذان کی فضیلت یہ ہے کہ اس کے سننے کے بعد دعا بابِ اجابت تک پہنچتی ہے ان کا خیال ہے کہ انسان اس کی اس فضیلت سے غافل ہو سکتے ہیں لیکن پرندے اس سے غافل نہیں رہ سکتے یہی وجہ ہے کہ وہ پرندوں کو دعا کے سلیقے سے آشنا کر رہی ہیں۔
رسولؐ کے خانوادے اور ان کی اولاد کو سادات کہا جاتا ہے جن کی عظمت سے کسی کو انکار نہیں۔پروین شاکر لفظ سادات سے فائدہ اٹھانے کا خوب ہنر جانتی ہیں ان کا خیال ہے کہ جسے عشق سے نسبت ہے اس کا اکرام و احترام بھی واجب ہے:
ہمیں بہت ہے،یہ ساداتِ عشق کی نسبت
کہ یہ قبیلہ کوئی ایسا کم نسب بھی نہیں
وہ عشق کی تکالیف کا بھی بخوبی احساس رکھتی ہیں انھیں معلوم ہے کہ اس میں اذیت تو بہت ہے لیکن جو عشق میں فنا ہو جاتا ہے اسے دین و دنیا میں کامیابی و کامرانی ملتی ہے۔ان کا خیال ہے کہ اب حقیقی عشق کرنے والے نہیں رہے یہی وجہ ہے کہ کوئی عشق کی راہ میں شہادت کے درجے تک نہیں پہنچتا اور اسی وجہ سے اس کی کامرانی کی ضمانت نہ اہلِ قم و نجف اور نہ امام ضامن یعنی امام علیؑ رضاہی لیتے ہیں:
مشہدِ عشق کے قریب صبح کوئی نہیں ملا
وہ بھی کہ جن کے ضامنی اہلِ قم و نجف ہوئے
پروین شاکر واقعاتِ کربلا کو بھی بہترین انداز میں اپنی شاعری کی زینت بناتی ہیں اس سلسلے سے ان کاکرب ان کی تکلیف اور احساسِ فرقت اور زندگی کے نشیب و فراز پوری توانائی اور شدتِ احساس کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں۔واقعہئ کربلا ایک ایسا عظیم الشان واقعہ ہے جو حق و باطل میں ہمیشہ امتیاز قائم رکھے گا۔حق کی راہ میں آنے والے مصائب میں کربلا مسافرانِ حق کو حوصلہ بخشتی ہے۔اس سلسلے سے پروین شاکر کہتی ہیں:
پہروں کی تشنگی پہ بھی ثابت قدم رہوں
دشتِ بلا میں روح مجھے کربلائی دے
خاص بات یہ ہے کہ واقعہئ کربلا کے بیان میں وہ اپنے جذبات و احساسات کا بھرپور مظاہرہ کرتی ہیں۔ یہاں ان کا نسائی انداز عروج پر پہنچ جاتا ہے۔انھیں اپنی تکالیف کا جوں ہی احساس ہوتا ہے وہ کربلا کے واقعہ سے تقویت حاصل کرتی ہیں اور جناب زینبؑ کی چھنی ہوئی ردا انھیں یاد آجاتی ہے:
ردا چھنی مرے سر سے مگر میں کیا کہتی
کٹا ہوا تو نہ تھا ہاتھ میرے بھائی کا
انھیں ان کے ٹوٹے ہوئے خواب بھی وہ منظر یاد دلاتے ہیں جب کربلا میں شہداء کی شہادت کے بعد اور خیامِ اہل بیت جلنے کے بعد مخدراتِ عصمت نے خیمے کی جلی ہوئی راکھ پر قیام کیااور شامِ غریباں کے مناظر دیکھے:
راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے
جل چکے ہیں مرے خیمے،مرے خوابوں کی طرح
پروین شاکر کو زندگی کا سفر طے کرنا ہے یہ ایسا سفر ہے جو اسیرانِ کربلا کے کوفہ و شام کے سفر کی یاد دلاتا ہے:
چلوں مقتل سے اپنے شام لیکن
میں پہلے اپنے پیاروں کو تو رولوں
وہ زندگی جینے میں جن تکالیف کا سامنا کرتی ہیں اس سے انھیں شہادتِ امام حسینؑ کے بعد کا منظر یاد آجاتا ہے:
زندگی پھر تجھے درپیش ہے زندانِ دمشق
اشقیاء پھر ترے کانوں سے گہر چھینتے ہیں
انھیں جب مصائبِ زمانہ زیادہ تکلیف پہنچاتے ہیں تو وہ اسیرِ کربلا یعنی امام زین العابدین کویاد کرکے حوصلہ حاصل کرتی ہیں:
اسیرِ کربلا جب یاد آئیں
کہاں لگتی ہے پھر زنجیر بھاری
ان کو زندگی سے جو رنج ملے ہیں وہ اس کا سبب معلوم کرنا چاہتی ہیں اوراستفہامیہ انداز میں کہتی ہیں:
سوادِ شام اسیروں میں کون شامل ہے
بلا سبب کوئی نیزے پہ سر نہیں لاتا
یعنی دس محرم کے بعد جس طرح امام حسینؑ کے سر کو نیزے پہ بلند کیا گیا اور ان کے خانوادے کو اسیر کرکے کوفہ و شام لے جایا گیا اس کا کوئی سبب تھا اسی طرح دنیا میں ہر ہونے والے ظلم کا سبب ہونا لازم ہے۔خاص بات یہ ہے کہ اس شعر کے پیرائے میں جہاں پروین شاکر نے اپنے مصائب کی طرف اشارہ کیا ہے وہیں یہ شعر زمان و مکان کی قیود سے بھی ماوریٰ ہوگیا ہے جہاں جہاں مظلوم ہوں گے وہاں وہاں یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ آخر ظلم کا سبب کیا ہے۔
اسی مفہوم کو وہ اس طرح بھی بیان کرتی ہیں کہ جو لوگ حق کے راہی ہوتے ہیں اور شہادت جن کی میراث ہوتی ہے وہ ہر مرحلے میں بے خوف و خطر حق پر جان نثار کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں:
جب بنامِ دل گواہی سر کی مانگی جائے گی
خون میں ڈوبا ہوا پرچم ہمارا دیکھنا
اسیرانِ کربلا قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کرتے ہوئے کوفہ و شام کی دربار میں پہنچے۔ ان کے ساتھ ظلم و جبر سے کام لیا گیا اور کسی نے پانی کا ایک جرعہ تک پیش نہیں کیاجبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان کی بات سنی جاتی اوران کے ساتھ انصاف کیا جاتا۔اس بے انصافی کو یاد کرتے ہوئے پروین شاکر کہتی ہیں:
دربار مرے سامنے تھا لیکن
میں پیاس سے جاں بلب کھڑی تھی
شہادتِ امام حسینؑ کے بعد عزاداری کی بنیاد پڑی امام عالی مقام پر گریہ و زاری جہاں ایک طرف باطل سے بیذاری کا اعلان ہے وہیں حق کی پیروی کا بھی نام ہے لیکن پروین شاکر جب عصرِ حاضر پر غور کرتی ہیں تو انھیں عزاداری نظر نہیں آتی کیونکہ اب ایک دوسرے سے بچھڑنے والوں کی تعداد شمار کرنا دشوار ہے جس کے سبب ہر شخص میں ایک دوسرے سے احساسِ بیذاری دکھائی دیتا ہے:
بچھڑنے والے اتنے ہوگئے ہیں شہر در شہر
کہ باقی اب کسی گھر میں عزاداری نہیں ہے
فارسی شاعری کی طرح تصوف اردو شاعری کی بھی زینت رہا ہے۔یہ الگ بات کہ شعر کہنے والا باقاعدہ صوفی ہو یا نہ ہو لیکن تصوف کے پیرائے میں اپنی بات کہنے کا وہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔پروین شاکر کوئی صوفی شاعرہ نہیں ہیں لیکن تصوف کے مزاج سے بخوبی واقف ہیں وہ اس کے توسل سے اپنے دلی جذبات کے بیان میں گریزنہیں کرتیں۔انھیں اہلِ تصوف کی قناعت بہت پسند ہے کہتی ہیں:
کاسہ زیست میں بس ایک جھلک کا سکہ
ہم فقیروں کی قناعت سے تجھے دیکھتے ہیں
وہ بزرگ صوفی حضرات کی عظمت کا بھی اعتراف کرتی ہیں جن میں منصور و سرمد پیش پیش ہیں۔لیکن انھیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ اب ہر شئے میں ریاکاری شامل ہو چکی ہے:
جو صبح سرمد و منصور تھے،انھیں سرِ شام
حضورِ شاہ سراپا سپاس بھی دیکھا
یعنی وہ اس بات کے سخت خلاف ہیں کہ انسان اپنی بات سے مکر جائے یا کچھ مصائب کا سامنا کرنے پر اپنے موقف سے ہٹ جائے ان کا خیال ہے کہ اصل صوفی یعنی اہلِ دین وہی ہے جو حق پر ہزار مصیبت کے باوجود قائم رہے۔
تصوف میں ریاضت نہایت ضروری ہے اسی کے سبب قربِ الٰہی حاصل کیا جاتا ہے۔پروین کی نگاہ میں راتوں کو جاگنا اور کسی عزیزسے گفتگو کرنا کسی ریاضت سے کم نہیں:
وہ رت جگے،وہ گئی رات تک سخن کاری
شبیں گذاری ہیں ہم نے بھی کچھ ریاضت کی
تصوف میں فقر و فاقہ تک پہنچنا آسان نہیں جو اس کی اہمیت کو سمجھتا ہے وہی حقیقت میں فقیر ہوتا ہے او ر جو فقیر ہوتا ہے اس کا دل دنیا سے سیر ہو جاتا ہے اور وہ اہلِ دنیا کی طرف نگاہ نہیں کرتا لیکن جو اس کی ایک نگاہِ التفات کا منتظر ہوتا ہے وہ اس محرومی کے کرب کو خوب محسوس کرتا ہے:
پس اک نگاہ مجھے دیکھتا،چلاجاتا
اس آدمی کی محبت فقیر ایسی تھی
تصوف کی کیفیت میں وجد طاری ہوتا ہے تو انسان رقص کرنے لگتا ہے۔پروین شاکر اس کیفیت کو ایک نئے رخ اور بہترین علائم کے جامے میں پیش کرتی ہیں۔ان کا خیال ہے کہ زندگی ایک میلا ہے اور اس میں دکھوں کی چلتی ہوئی تیز ہوا دف کی مانند ہے جس کی آواز سے کلی یعنی انسان وجد میں آکر رقص کناں ہو رہا ہے:
بج اٹھے ہوائے دف وجد میں کلی آئی
زندگی کے میلے میں رقص کی گھڑی آئی
یہاں رقص سے مراد اس جانب بھی ہے کہ صوفی منش انسان رنج و غم کو خاطر میں نہیں لاتا بلکہ رضائے الٰہی سمجھ کر اس میں لطف محسوس کرتا ہے۔
تصوف کا مقصدبندے کو خدا تک پہنچانا ہوتا ہے اور یہ درجہ فنا فی اللہ کہلاتاہے جب صوفی فنا فی اللہ ہو جاتا ہے تو اسے کائنات کے ذرے ذرے میں اللہ کی قدرت کا احساس ہوتا ہے جسے فلسفہ تصوف میں وحدۃ الوجود سے جانا جاتا ہے۔یوں تو اس فلسفہ کا زیادہ تر بیان روایتی شاعری کی زینت رہا ہے لیکن پروین شاکر اپنے جدید لب و لہجے میں اس کو نہایت خوبی کے ساتھ بیا ن کرتی ہیں:
جنگلوں میں شام اتری،خون میں ذاتِ قدیم
دل نے اس کے بعد انہونی کا ڈر رکھا نہیں
غرض کہ پروین شاکر ایک ایسی مشرقی خاتون ہیں جن کا مطالعہ وسیع ہے جنھوں نے کائنات اور اپنے آس پاس کے ماحول و معاشرے سے جو کچھ سیکھا اس کو اپنی شاعری میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی۔وہ اس سلسلے سے کہیں خود کلام بھی ہوتی ہیں کہیں نئی تراکیب تراشتی ہیں تو کہیں رومانی کیفیتوں کا ذکر کرتی ہیں تو کہیں اپنی زندگی میں گذرے ہوئے دکھ بھرے حالات کا ذکر کرتی ہیں۔ان کے یہاں جو کرب یا جس اذیت کا احساس ہے اس سے ان کی افسردگی تو نمایاں ہے لیکن وہ خدا کی ذات سے مایوس نہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی شاعری میں ایک باعقیدہ مسلمان نظر آتی ہیں اور اسلامی واقعات کی روشنی میں اپنی زندگی کی مشکلات کو آسان کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
اردو زبان میں اسم کی تعریف
۱۔ اسم اسم وہ لفظ ہے جو کسی کا نام ہو۔ اس کی دو قسمین ہین ۱۔ خاص ۲۔ عام...