پراجیکٹ عمران خان جس کے بارے کہا جاتا تھا کہ یہ دس سالہ پراجیکٹ ہے اور یہ پراجیکٹ دو ہزار اٹھائیس تک چلے گا لیکن یہ پراجیکٹ اس بُری طرح سے ناکامی سے دوچار ہوا کہ ساڑھے تین سال میں ہی اپنے منطقی انجام تک پہنچ گیا لیکن جاتے جاتے ریاستی اداروں اور پارلیمانی اقدار کو بہت بڑا نقصان پہنچا گیا۔ جس طرح سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے کھلم کھلا آئین کی خلاف ورزی کی اور تحریک عدم اعتماد کے آئینی مرحلے کو مکمل کرنے سے انکار کیا اور ڈپٹی سپیکر کی ایک غیر آئینی رولنگ کے ذریعے تحریک عدم اعتماد کو سبوتاژ کرنے کے بعد اسمبلی برخواست کروا دی گئی یہ ہماری مختصر سی جمہوری تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ آئین کی اس کھلم کھلا خلاف ورزی پر سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا پڑا جبکہ پیپلزپارٹی اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی اپنی پٹیشنز اُسی روز سپریم کورٹ میں جمع کروا دیں۔ تقریباً پانچ روز تک ازخود نوٹس کی سماعت کے بعد پانچ رُکنی لارجر بینچ نے متفقہ طور پر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ اس کےساتھ ہی اسمبلی کو بھی بحال کردیا گیا اور سپیکر کو پابند کیا گیا کہ نو اپریل کو اسمبلی کا اجلاس بلا کر تحریک عدم اعتماد پر کاروائی مکمل کی جائے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق نو اپریل کو اسمبلی کا اجلاس تو بلایا گیا لیکن سپیکر تمام دن اجلاس میں لمبی لمبی تقریریں کرواتے رہے جبکہ جو اصل ایجنڈا تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا تھا اس پر عمل کرنے میں بالکل ناکام رہے۔ یہاں سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ دیکھنے میں آئی کہ سپیکر جسے کسٹوڈین آف دی ہاوس سمجھا جاتا ہے اور جس نے آئین سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہوتا ہے وہ سپیکر اسد قیصر اپنے حلف کا پاس رکھنے میں بری طرح ناکام رہا اور سابق وزیراعظم عمران خان کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتا رہا۔ رات بارہ بجنے سے چند منٹ قبل سپیکر ایوان میں تشریف لائے اور اپنے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے اختیارات پینل آف سپیکر کے رکن سردار ایاز صادق کو سونپ کر تاریخ میں اپنا نام ایک ایسے سپیکر کے طور پر لکھوا کر رخصت ہو گئے جس نے سپریم کورٹ کا حکم ماننے سے انکار کیا اور جو آئین کے تحت اٹھائے گیے اپنے حلف سے وفاداری کی بجائے اپنے لیڈر عمران خان کا ذاتی ملازم ثابت ہوا۔ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں بالاآخر عمران خان کو رُخصت تو ہونا پڑا لیکن جس طرح کا فاؤل پلے عمران خان کی طرف سے دیکھنے میں آیا اس نے عمران خان کی جمہوریت پسندی، آئین کی پاسداری اور شائد حب الوطنی پر بھی بہت بڑے سوال کھڑے کر دئیے ہیں اور عمران خان نے ثابت کردیا ہے کہ اقتدار سے چمٹے رہنے کے لیے عمران خان کچھ بھی کر سکتے ہیں حتی کہ آئین بھی توڑ سکتے ہیں۔
پراجیکٹ عمران خان کے نتیجے میں عمران خان کو جیسے بھی لایا گیا، کیسے عمران خان کے خالی غبارے میں ہوا بھری گئی، کیسے پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے ہاتھ پاوں باندھ کر عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کو انتخابی میدان میں اتارا گیا۔ اس کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے تو آر ٹی ایس بٹھا کر عمران خان کو سیٹیں دلائی گئیں اس کے باوجود سادہ اکثریت بھی حاصل نہ ہو سکی تو اتحادیوں اور آزاد اراکین کا بندوبست کرکے چند ووٹوں کی اکثریت سے حکومت بنوا دی گئی۔ اس کے بعد میڈیا کو کہلوایا گیا کہ ایک سال تک حکومت کے بارے مثبت رپورٹنگ کی جائے۔ اس مثبت رپورٹنگ کی آڑ میں میڈیا پر غیر اعلانیہ سنسرشپ نافذ کردی گئی۔ تمام اداروں کی جانب سے پراجیکٹ عمران خان کے تحت قائم شدہ عمران حکومت کو جس طرح کا تعاون فراہم کیا گیا ویسا تعاون پہلے والی کسی حکومت کو کبھی حاصل نہیں رہا تھا۔ ان تمام تر انتظامات اور تعاون کے باوجود آج حقیقت یہ ہے کہ عمران حکومت ہر شعبے میں نہایت بری طرح ناکام ہو کر اور پراجیکٹ عمران خان کے معماروں کی امیدوں پر پانی پھیر کر دس سالہ پراجیکٹ کو ساڑھے تین سال میں ہی سمیٹ کر گھر جا چکی ہے۔ عمران حکومت کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ساڑھے تین سال بھرپور اقتدار کے مزے لینے کے بعد بھی عمران خان کے پاس اپنی کارکردگی کے نام پر بتانے کے لیے کوئی ایک بھی کام نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان آج بھی اپنے مخالفین کو وہی چور ڈاکو کہنے پر مجبور ہے اور عوام کو امریکی سازش اور خودداری کی ایک اور لال بتی کے پیچھے لگایا جا رہا ہے۔
اقتدار میں آنے کے بعد پہلے روز سے عمران خان نے بجائے اپنے وعدوں اور منشور پر عمل کرنے کے سیاسی انتقام کو اپنی پہلی ترجیح بنائے رکھا۔ چُن چُن کر سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالا گیا لیکن کچھ ثابت نہ کر سکے۔ نیب، ایف آئی اے اور دوسرے اداروں کو کھل کر سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا۔ عمران خان کے مشیر احتساب شہزاد اکبر نے احتساب کے نام پر بے دریغ پیسہ ضائع کیا، گھنٹوں پر محیط پریس کانفرنسز کرکے اپوزیشن رہنماوں کی کردار کشی کی گئی۔ چیرمین نیب کو ایک ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کرکے اپوزیشن رہنماوں کے خلاف بے بنیاد کیسسز بنائے گیے جن کا کبھی کوئی نتیجہ نہ نکل سکا البتہ اپنے انتقام کی آگ ضرور بجھائی گئی۔ احتساب کے عمل میں بدترین ناکامی پر مشیر احتساب کو استعفی بھی دینا پڑا۔ ساڑھے تین سال احتساب کے نام پر ہونے والے ڈرامے کی بری طرح ناکامی کے باوجود آج بھی عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کو چور ڈاکو کہے تو سوال اب عمران خان سے بنتا ہے کہ تمام تر طاقت، اختیار اور اقتدار کے باوجود کچھ ثابت نہ کر سکے تو اب تمہارے الزامات پر اعتبار کیوں کیا جائے؟ عوام اب یقینی طور پر یہ چورن نہیں خریدیں گے اور عمران خان کے انہی گھسے پٹے الزامات کے جواب میں عمران خان سے اس کی کارکردگی پوچھیں گے کہ اس نے ساڑھے تین سال میں کیا کام کیا ہے۔
پراجیکٹ عمران خان خارجی محاذ پر بھی بُری طرح ناکام رہا۔ مودی حکومت نے پاکستان کی شہہ رگ پر وار کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان کا حصہ بنا لیا جبکہ ہم ہندوستان کی اس حرکت پر سلامتی کونسل میں ایک قرارداد تک نہ لا سکے۔ امریکی دورے سےواپسی پر عمران خان امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات پر اتنے نازاں تھے کہ واپسی پر اپنا ایک بڑا استقبال کروایا اور کہا کہ میں ایک اور ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ ورلڈ کپ دراصل کشمیر پر سمجھوتے کا ورلڈ کپ تھا جس میں ہمیں زبان بند رکھنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہمارا احتجاج جمعہ والے دن آدھا گھنٹہ کھڑا رہنے تک محدود رہا جبکہ ہمارے برادر اسلامی ملک مودی کو اپنے ملکوں میں دعوت دے کر بلاتے رہے اور اعزازات سے نوازتے رہے۔ ہماری ناکام خارجہ پالیسی کے نتیجےمیں ہمارے تمام دوست ممالک نے ایک ایک کرکے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا۔ سعودی عرب اور چین اس کی ایک بہت بڑی مثال ہیں۔ اسلامی اُمّہ کا لیڈر بننے کا دعوی کرنے والے عمران خان نے ہر مشکل وقت میں کام آنے والے سعودی عرب کو بھی ناراض کردیا۔ وہی سعودی عرب جس نے امریکہ جانے کے لیے عمران خان کو اپنا شاہی طیارہ فراہم کیا اُسی سعودی عرب نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ سے واپسی پر محو پرواز طیارے کو واپس بُلا کر اپنا طیارہ واپس لے کر ہمارے مسلم اُمّہ کے لیڈر کو کمرشل طیارے کی ٹکٹیں لے کر واپس آنے پر مجبور کردیا۔ ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری دوستی والے ملک چین کو ہم نے سی پیک جیسا پراجیکٹ بند کر کے ناراض کردیا۔ ہمارے وزیرخارجہ کا زیادہ تر وقت بجائے خارجہ امور پر توجہ دینے کے ملتان میں گزرتا رہا۔ پاکستان اس وقت جس شدید قسم کی عالمی تنہائی کا شکار ہے ایسا ماضی میں کبھی بُرے سے بُرے حالات میں بھی نہیں ہوا۔
پراجیکٹ عمران خان کی معاشی پالیسیوں کا جائزہ لیں تو عمران حکومت کے وزیر خزانہ شوکت ترین کے اپنے الفاظ ہیں کہ ہمارے پاس شروع سے ہی کوئی معاشی پالیسی موجود ہی نہیں تھی۔ حکومت کے خاتمے پر اگرچہ حکومتی ترجمان یہ دعوی کرتے نظر آئے کہ حکومت کے خاتمے پر بائیس ارب ڈالر کے ذخائر موجود ہیں لیکن اس دعوی کی قلعی بھی خود عمران حکومت کے ہی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کھول دی کہ زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم بائیس ارب ڈالر نہیں بلکہ ساڑھے گیارہ ارب ڈالر ہے اور اس میں سے بھی اگر چین، قطر اور دوسرے ممالک کے رکھے گیے پیسے نکال دئیے جائیں تو خزانہ خالی نظر آئے گا۔ عمران خان کے شو بوائے اسد عمر وزارت خزانہ میں صرف چھ ماہ ہی نکال سکے۔ ساڑھے تین سالوں میں چار وزیر خزانہ بدلے گیے جن میں سے حفیظ شیخ اور شوکت ترین پیپلزپارٹی کے دور میں بھی وزیرخزانہ رہ چکے ہیں۔ ان تمام تبدیلیوں کے باوجود ساڑھے تین سالوں میں ملکی معیشت کومے سےباہر نہیں آ سکی۔ حکومت کے خاتمے کے وقت ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح 191 پر پہنچ چکا تھا۔ گروتھ ریٹ کرونا کی وبا شروع ہونے سے پہلے ہی تاریخ میں پہلی مرتبہ منفی میں جا چکا تھا۰ ساڑھے تین سالوں میں بیرونی قرضوں کا حجم پچیس ہزار ارب روپے سے بڑھ کر پینتالیس ہزار ارب روپے ہو چکا ہے جبکہ اس کے بدلے میں کسی پراجیکٹ پر ایک اینٹ بھی لگی نظر نہیں آتی۔ صنعت کا پہیہ رک چکا ہے۔ لوڈ شیڈنگ عروج پر ہے۔ سارے معاشی اعشاریے بدحالی کی نوید سنا رہے ہیں، عوام مہنگائی کے بوجھ تلے پس کر رہ گئے ہیں لیکن عمران خان کا اپنی حکومت ختم ہونے پر کیا جانے والا واویلا ہے کہ رکنے میں نہیں آ رہا۔
پراجیکٹ عمران خان کو لانچ کرنے سے پہلے اس کو ہر لحاظ سے سجا بنا کر عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔ ایک طرف جہاں سیاسی مخالفین کو بغیر کسی ثبوت کے مسلسل چور ڈاکو کہا گیا تو وہیں سپریم کورٹ سے عمران خان کو صادق اور امین قرار دلوایا گیا۔ عمران خان کو ایک ایسی شخصیت بنا کر پیش کیا گیا کہ موصوف سے بڑا ایماندار اور دیانت دار شخص پاکستان میں کبھی پیدا ہی نہیں ہوا۔ یہ جھوٹا پروپیگنڈہ اس قدر کامیاب اور مکمل تھا کہ عوام خاص طور پر نوجوان طبقے کو ایسا گمراہ کردیا گیا کہ وہ عمران خان کے جوئے کے اعتراف، ثابت شدہ آف شور کمپنی اور علیمہ خان کی ثابت شدہ ناجائز جائیدادوں کو بھی عمران خان کی ایمانداری کا ہی کرشمہ قرار دینے لگے۔ یہ تو پراجیکٹ عمران خان کے حکومت سنبھالنے کے بعد معلوم ہوا کہ صاف چلی شفاف چلی اور کرپشن فری حکومت بنانے کی دعوے دار عمران حکومت کا کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جس میں کرپشن کا کوئی نیا سکینڈل سامنے نہ آیا ہو۔ دو ہزار اکیس میں ریلیز ہونے والی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے صادق اور امین پراجیکٹ عمران خان کی امانت اور دیانت کے ڈھول کا پول کھول کر رکھ دیا۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کی رینکنگ چار درجہ تنزلی کے ساتھ 120 سے124 ہو گئی۔ ہر طرح کا مافیا صادق اور امین عمران خان کے دائیں بائیں بیٹھا نظر آتا تھا۔ ہوشربا کرپشن سکینڈلز کا کھرا عمران خان اور ان کے انہی نور تنوں کی طرف جاتا ہے۔ میگا کرپشن سکینڈلز جن میں فارن فنڈنگ کرپشن کیس، مالم جبہ کرپشن کیس، بلین ٹری کرپشن سکینڈل، بی آر ٹی پشاور کرپشن سکینڈل، راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل، شوگر آٹا کرپشن سکینڈل، ادویات کرپشن سکینڈل اور بے شمار دوسرے کرپشن کیسسز جن میں پراجیکٹ عمران خان بری طرح لتھڑا نظر آتا ہے۔ ان میں سے بہت سارے کرپشن کیسسز کی تحقیقات یا تو مکمل ہو چکی ہیں یا آخری مرحلے میں ہیں لیکن نیب نے ساڑھے تین سال ہواؤں کا رخ بدلنے کے انتظار میں ان پر مسلسل چپ سادھے رکھی۔
ان میگا کرپشن کیسسز میں سے اکیلا فارن فنڈنگ کیس ہی پراجیکٹ عمران خان کے صادق اور امین سابق وزیراعظم عمران خان اوران کی جماعت تحریک انصاف کو مکمل ختم کرکے تاریخ کا حصہ بنانے کی لیے کافی ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے غیر ملکی ذرائع سے رقوم وصول کرنا جرم ہے۔ اگر کسی سیاسی جماعت پر بیرونی ذرائع سے رقوم وصول کرنا ثابت ہوجائے تو اس سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دے کر اس کے تمام اراکین پارلیمنٹ کی رکنیت ختم کی جا سکتی ہے۔ تحریک انصاف پر غیر ملکی ذرائع سے رقوم وصول کرنا نہ صرف ثابت ہو چکا ہے بلکہ سٹیٹ بینک کی تحقیقات کے مطابق تحریک انصاف کے بہت سارے ایسے بینک اکاؤنٹس بھی سامنے آئے ہیں جو الیکشن کمیشن میں ڈیکلئیر نہیں کیے گیے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے آٹھ سالوں میں سات مرتبہ تحریک انصاف نے ہائیکورٹ سے اس کیس کو روکنے اور ان کیمرہ سماعت کی درخواست کی ہے۔ اب اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو حکم جاری کیا ہے کہ ایک ماہ کے اندر فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنایا جائے اس لیے امید ہو چلی ہے کہ آٹھ سالوں سے سرد خانے میں پڑے فارن فنڈنگ کا فیصلہ جلد سامنے آ جائے گا۔
مالم جبہ اراضی کیس ایک اور ایسا میگا کرپشن کیس ہے جس کی تحقیقات تقریباً مکمل ہو چکی ہیں لیکن نیب اس پر کوئی کاروائی کرنے یا ریفرنس دائر سے گریزاں رہا ہے۔ سوات کے علاقے مالم جبہ میں 275 ایکڑ سرکاری اراضی سال دو ہزار چودہ میں قواعد وضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے من پسند افراد کو تفریحی مقامات کے لیے لیز پر دی گئی۔ مالم جبہ اراضی کی لیز کے لیے دئیے گیے اشتہار کے مطابق لیز کی مدت پندرہ سال بتائی گئی جبکہ معاہدہ ہونے کے بعد لیز کی مدت بتیس سال کر دی گئی جو قواعد وضوابط کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ جس کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا گیا اس کمپنی کے پاس نہ تو متعلقہ تجربہ تھا نہ اہلیت۔ خیبر پختونخواہ نیب مالم جبہ اراضی کے ٹھیکے کو غیر شفاف، بدنیتی پر مبنی اور محکمہ جنگلات کی قیمتی اراضی ہتھیانے کا میگا کرپشن سکیبڈل اور فراڈ کیس قرار دیتے ہوئے اپنی تحقیقات مکمل کرکے مزید کاروائی کے لیے نیب ہیڈکوارٹر کو بھجوا چکا ہے۔ اس کرپشن کیس میں خیبر پختونخواہ کے سابق وزیراعلی پرویز خٹک، موجودہ وزیراعلی محمود خان، سابق صوبائی وزیر عاطف خان اور عمران خان کے وزارت عظمی دور کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ملوث قرار دئیے گئے لیکن نیب نے اس کیس پر مزید کوئی کاروائی کرنے کی بجائے کیس بند کرنے کا اعلان کردیا۔ امید ہے کہ اب مالم جبہ کرپشن کیس کو بھی جلد منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔
ساری دنیا کے لیے کرونا کی وبا زخمت بن کر آئی لیکن پراجیکٹ عمران خان کے نااہل اور کرپٹ حکمرانوں کے لیے کرونا کی وبا رحمت بن کر آئی۔ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی اداروں کی جانب سے ملنے والی کروڑوں ڈالر کی امداد پر دونوں ہاتھوں سے ہاتھ صاف کیا گیا۔ نااہل سلیکٹڈ حکومت کے مشیر صحت ظفر مرزا کرونا کے عروج کے دنوں میں امداد میں ملنے والے ماسک کی فروخت میں ملوث پائے گئے اور پھر استعفی دے کر وہیں واپس شریف لے گئے جہاں سے امپورٹ کیے گئے تھے۔ سلیکٹڈ حکومت کے وزیر صحت طارق کیانی ادویات کے بہت بڑے سکینڈل میں ملوث پائے گئے تو انہیں بجائے کوئی سزا دینے کے وزارت سے ہٹا کر پارٹی کے ایک اعلی عہدے پر فائز کردیا گیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ادویات پانچ سو فیصد مہنگی ہو چکی ہیں لیکن کسی ذمہ دار کے خلاف نہ کوئی ریفرنس بنا نہ کسی کو سزا ملٗ سکی اور دوائی لینا غریب آدمی کے لیے عیاشی بن گیا۔ اسی طرح شوگر سکیبڈل کے سامنے آنے پر ایف آئی اے سے اس کی تحقیقات کروائی گئیں لیکن وعدے کے مطابق کسی ذمہ دار کے خلاف کبھی کوئی کاروائی نہ ہو سکی الٹا شوگر سکینڈل کے ایک مرکزی کردار خسرو بختیار سے فوڈ سیکیورٹی جیسی غیر اہم وزارت لے کر اقتصادی امور جیسی اہم ترین وزارت دے دی گئی۔ اس تحریر کے لکھے جانے کے دوران ہی خبر سامنے آئی ہے کہ سابق وفاقی وزیر خسرو بختیار پشاور ائرپورٹ سے بیرون ملک روانہ ہو گیے ہیں تاکہ نئی حکومت آنے کے بعد اپنے خلاف ہونے والی متوقع کاروائی سے بچ سکیں۔
راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ ایک اور بڑا کرپشن سکیبڈل ہے جو اس دور تبدیلی میں سامنے آیا۔ اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور پراپرٹی ڈویلپرز کو فائدہ پہنچانے کے لیے راولپنڈی رنگ روڈ کے نقشے میں من پسند تبدیلیاں کی گئیں۔ اس منصوبے میں کرپشن کی خبریں باہر آنے کے بعد سابق وزیراعظم کے چہیتے مشیر زلفی بخاری کو استعفی دینا پڑا لیکن چند بڑے افسروں پر ساری ذمہ داری ڈالنےکے بعد ایک دفعہ پھر بات صرف ایک استعفی تک ہی محدود رہی نہ کوئی ریفرنس نہ تحقیقات نہ سزا اور سارے معاملے پر مٹی ڈال دی گئی۔
سلیکٹڈ حکومت کی امانت اور دیانت پاکستان کے ایک بڑے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کو لندن کی نیشنل کرائم ایجنسی کے جانب سےعائد کیے جانے والے ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کے جرمانے کی مد میں موصول ہونے والی رقم کے معاملے میں بھی بے بس نظر آئی۔ نیشنل کرائم ایجنسی لندن نے ملک ریاض سے وصول شدہ رقم ایک سو نوے ملین پاؤنڈ پاکستان کے حوالے کر دی لیکن صادق اور امین عمران حکومت نے ایک سو نوے ملین پاونڈ کی خطیر رقم برطانیہ سے وصول ہونے کے بعد قومی خزانے میں جمع کروانے کی بجائے سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے بحریہ ٹاون کراچی کیس میں ریاض ملک کو ہونے والے جرمانے کی وصولی کے لیے کھولے گیےبینک اکاونٹ میں جمع کروا دی۔ دوسرے لفظوں میں ملک ریاض نے برطانیہ میں ہونے والا جرمانہ برطانیہ میں ادا کیا جو صادق اورامین عمران خان نے پاکستان میں ملک ریاض کو واپس کردیا۔ صداقت اور امانت کی ایسی مثال بھی پراجیکٹ عمران خان میں ہی مل سکتی ہے۔
خاتون اوّل کی فرنٹ لیڈی فرخ گجر کی کرپشن کی داستانیں بھی زبان زدِعام ہیں۔ عمران حکومت ختم ہونے سے چند روز پہلے فرخ گجر کو پورے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ بیرون ملک فرار کروا دیا گیا بلکہ دروغ بر گردنِ راوی مبینہ طور پر اس فرار کے لیے وزیراعلی پنجاب کا سرکاری طیارہ استعمال کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ڈپٹی کمشنر سے لے کر تھانیدار تک ہر ٹرانسفر اور پوسٹنگ کا ریٹ مقررتھا اور خاتون اوّل کو باقاعدہ طور پر اس میں ملوث قرار دیا جا رہا ہے۔ وزیراعلی پنجاب کے بھائی اور رشتہ دار بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے اور کھلم کھلا لمبی چوڑی دیہاڑیاں لگاتے رہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ اس لیے کسی کو ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر کوئی حیرانگی نہیں ہونی چاہیے۔
پراجیکٹ عمران خان کے صادق اور امین وزیراعظم عمران خان کی بہن علیمہ خان جو شوکت خانم ہسپتال کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی بھی رُکن ہیں ان کی دوبئی اور امریکہ میں اربوں کی پوشیدہ جائیدادیں سامنے آئیں۔ ایسی جائیدادیں جو ایف بی آر سے چھپائی گئی تھیں۔ اب سوال تو بنتا ہے کہ اگر یہ جائیدادیں حلال کے پیسے سے بنائی گئی تھیں تو پھر چھپائی کیوں گئیں اور ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے ذریعے انہیں ریگولرائز کیوں کروایا گیا اور جرمانہ کس بات کا ادا کیا گیا؟ صادق اور امین عمران خان کا ہی قول ہے کہ وہ ٹیکس ایمنسٹی سکیموں کے خلاف ہیں کیونکہ چور اور ڈاکو ان سکیموں کے ذریعے اپنے کالے دھن کو سفید کرتے ہیں۔ یہاں ایک بار پھر صادق اور امین عمران خان سے سوال بنتا ہے چونکہ ان کی اپنی بہن علیمہ خان نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھا کر اپنی پوشیدہ جائیدادوں کو ریگولرائز کروایا ہے تو کیا علیمہ خان کو بھی چور اور ڈاکو ہی کہا جائے گا؟ شوکت خانم ہسپتال جیسا پراجیکٹ جس کے لیے سارے پاکستان کے عوام نے دل کھول کر عطیات دئیے تھے لیکن عمران خان اور علیمہ خان کی بدعنوانیوں نے بہت سے لوگوں کا دل شوکت خانم ہسپتال کی طرف سے میلا کر دیا ہے۔
صاف شفاف اور امانت اور دیانت پر مبنی حکومت کا دعوی کرنے والے اور اپنے سوا باقی سب کو چور اور ڈاکو کہنے والے عمران خان کا اپنا حال یہ ہے کہ توشہ خانے کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ سعودی ولی عہد کی جانب سے تحفہ میں دی جانے والی کروڑوں روپے کی گھڑی توشہ خانے سے اونے پونے خرید کر کروڑوں روپے میں بیچے جانے کا اعتراف تو سابق وزیراطلاعات فواد چوہدری کی جانب سےبھی کیا جا چکا ہے۔ فروخت ہونے والی یہ گھڑی اب واپس سعودی ولی عہد کے پاس پہنچ چکی ہے لیکن اس کے بعد نہ تو ہمارے سعودی عرب سے ویسے تعلقات باقی رہے اور نہ پھر سعودی ولی عہد نے اس کے بعد صادق اور امین عمران خان سے کبھی ملاقات کی۔ اس سارے قصے میں پراجیکٹ عمران خان کا تو کچھ نہیں گیا البتہ دوست ملک کا تحفہ بیچنے پر ملک کا وقار مٹی میں مل گیا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ جو خبریں سامنے آئی ہیں ان کے مطابق صادق اور امین کی وزارت عظمی کے دوران جتنے بھی تحائف وصول ہوئے ان سب پر ہاتھ صاف کیا گیا ہے۔ اس سب کے باوجود ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ کرپشن میں گوڈے گوڈے دھنسے ہونے کے باوجود آج بھی موصوف عمران خان اپنے آپ کو واحد ایماندار، صادق اور امین بنا کر پیش کررہے ہیں اور اپنے سیاسی مخالفین کو آج بھی چور اور ڈاکو کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں جبکہ صورتحال یہ ہے کہ ایک سرکاری افسر کا کہنا ہے کہ ساڑھے تین سالہ پراجیکٹ عمران خان کے دور میں اس لیول کی کرپشن کی گئی ہے اور کرپشن کی ایسی ایسی داستانیں سامنے آ رہی ہیں کہ جن کی مثال ماضی کی کسی حکومت میں نہیں ملتی۔
پراجیکٹ عمران خان کا ساڑھے تین سالہ دور زراعت اور کسانوں پر بھی بہت بھاری گزرا۔ قومی پیداوار میں چوبیس فیصد کما کر دینے والا شعبہ زراعت کبھی بھی پراجیکٹ عمران خان کی توجہ حاصل نہ کر سکا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گندم کی پیداوار میں خود کفیل پاکستان جو پوری دنیا میں گندم پیدا کرنے والے ملکوں میں آٹھویں نمبر پر آتا ہے اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے گندم امپورٹ کرنے پر مجبور ہو گیا۔ پراجیکٹ عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور میں کبھی بھی گندم کا پیداواری ہدف حاصل نہ ہو سکا۔ کسان گندم کی امدادی قیمت میں اضافے، ڈی اے پی اور یوریا کی فراہمی کے لیے احتجاج کرتے نظر آئے لیکن نہ تو کبھی کسان کو گندم کی مناسب قیمت مل سکی اور نہ ہی وقت پر ڈی اے پی اور یوریا کھاد فراہم ہو سکی۔ پچھلے سال لاہور میں کسانوں کے مظاہرے پر ہونے والے پولیس تشدد سے دو کسان اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے لیکن حکومت کے کان پر جوں بھی نہ رینگ سکی۔ زراعت کے بارے پراجیکٹ عمران خان کی مسلسل عدم توجہی کے باعث تکلیف دہ امر یہ ہے کہ عالمی منڈیوں میں زرِ کثیر کمانے والی ہماری اجناس کپاس، گندم اور چاول کی پیداوار میں مسلسل کمی کا رحجان رہا جس کے نتیجے میں ہمارا کسان دن بدن معاشی بدحالی کا شکار ہوتا چلا گیا۔
پولیس ریفارمز ایک اور ایسا سبز باغ تھا جو پراجیکٹ عمران خان کے بہت سارے دوسرے وعدوں میں سے ایک تھا لیکن پراجیکٹ عمران خان کے ایک کروڑ نوکریوں، پچاس لاکھ گھروں کی طرح پولیس ریفارمز کا وعدہ بھی محض ایک سبز باغ ہی رہا۔ پاکستان کے عوام یقیننا یہ سوچتے تو ہوں گے کہ وہ کون سی عالمی سازش تھی جس نے سابق وزیراعظم عمران خان کو پولیس ریفارمز کے وعدے کی تکمیل سے بھی روکے رکھا حالانکہ اس وعدے کی تکمیل کے لیے نہ کسی بہت بڑے بجٹ کی ضرورت تھی نہ اپوزیشن اس کام میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کر سکتی تھی۔ اگر ضرورت تھی تو صرف نیت اور ارادے کی، لیکن شائد نیت اور ارادے کی ہی کمی تھی کہ یہ کام بھی نہ ہو سکا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ آئی جی وغیرہ کی تعیناتی تین سال کے لیے ہونی چاہئیے تاکہ وہ آرام سے بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے فرائض سرانجام دے سکیں لیکن اسی عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور میں صوبہ پنجاب میں چھ سات آئی جی تبدیل کیے گیے۔ محکمہ پولیس کے تقرر و تبادلوں میں سیاسی مداخلت عروج پر رہی۔ پنجاب کے سنئیر وزیر عبدالعلیم خان کے مطابق ہر پوسٹنگ کا ریٹ مقرر تھا جس میں خاتون اوّل کی فرنٹ لیڈی فرخ شہزادی کا نام زبان زدِ عام ہے۔ پراجیکٹ عمران خان کے شروع کے دنوں میں ہی جس طرح خاتون اول کی بیٹی اور سابقہ خاوند کے پولیس ناکے پر نہ رکنے پر ہونے والی پولیس کاروائی جس کے نتیجے میں ڈی پی او پاکپتن کو وزیراعلی ہاؤس بلوا کر گالیاں دی گئیں اور معطل کر دیا گیا یہ پولیس کے فرائض میں مداخلت کا نقطعہ آغاز تھا، اس کے بعد ایک دو اور ایسے واقعات ہوئے جن میں پولیس کو فرائض کی آزادانہ انجام دہی سے روکا گیا جس کے نتیجے میں خیبرپختونخواہ کے سابق آئی جی ناصر درانی جنہیں پولیس ریفارمز کی ذمہ داری دی گئی تھی یہ کہہ کر استعفی دے گیے کہ پولیس کے کام میں جس طرح کی سیاسی مداخلت کی جا رہی ہے نہ تو پولیس ریفارمز ممکن ہیں اور نہ ہی میرے لیے اس پراجیکٹ پر مزید کام جاری رکھنا ممکن ہے۔ ناصر درانی کے استعفی کے ساتھ ہی پولیس ریفارمز کے پراجیکٹ کو لپیٹ کر سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔
صحت کے شعبے میں پراجیکٹ عمران خان کی جانب سے صحت کارڈ کا بہت چرچا کیا جاتا ہے لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ صحت کارڈ عمران حکومت کا سب سے بڑا سکینڈل ثابت ہو گا۔ بجائے سرکاری ہسپتال بنانے کے چار سو ارب روپیہ صحت کارڈ میں جھونک دیا گیا۔ چار سو ارب روپے کی اس خطیر رقم سے پبلک سیکٹر میں صحت کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جا سکتا تھا لیکن ذاتی پبلسٹی اور پرائیویٹ ہسپتالوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے اتنی بڑی رقم ڈبو دی گئی۔ صحت کارڈ کے حوالے سے بہت سی شکایتیں بھی سننے میں آئیں کیونکہ بہت سارے ہسپتال تو پینل پر نہ ہونے کی وجہ سے صحت کارڈ کو تسلیم ہی نہیں کرتے تھے۔ اس کے علاوہ سب سے بڑی شکایت اوور چارجنگ کی رہی کیونکہ چھوٹے موٹے آپریشن یا پروسیجر کے لیے بھی دگنے تگنے اخراجات صحت کارڈ سے کاٹے جاتے رہے۔ صحت کارڈ کا پروپیگنڈہ البتہ بہت کیا جاتا رہا۔ پراجیکٹ عمران خان کے دور میں دوائیوں کی قیمتوں میں پانچ گنا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پراجیکٹ عمران خان کے پہلے وزیر صحت طارق کیانی پر فارماسوٹیکل کمپنیوں کے ساتھ مل کر اربوں روپے کی کرپشن کرنے کا سکینڈل سامنے آیا لیکن اس کی کوئی تحقیقات کی گئیں نہ نیب حرکت میں آیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی کرپشن نہیں کی گئی تو دوائیوں کی قیمتوں میں پانچ گنا اضافے کا جواز کیا تھا؟ اور ایک پراپرٹی ڈیلر کو وزیر صحت لگانے میں عمران خان کی کیا حکمت تھی؟
پراجیکٹ عمران خان کا ایک اور بڑا دعوی سٹیٹس کو توڑنے کا بھی تھا اور کہا جاتا تھا کہ ہم پروٹوکول نہیں لیں گے لیکن ہالینڈ کےوزیراعظم کے سائکل پر دفتر جانے کی مثالیں دینا والا پراجیکٹ عمران خان کا وزیراعظم دفتر آنے جانے کے لیے بھی ہیلی کاپٹر استعمال کرتا رہا جس کے لیے روزانہ تقریباً چار لاکھ کا اضافی خرچہ قومی خزانے کو برداشت کرنا پڑا جبکہ پروٹوکول نہ لینے کا دعوی کرنے والوں کے کتے بھی قیمتی سرکاری گاڑیوں اور ہیلی کاپٹروں میں سفر کرتے رہے۔ پرائم منسٹر ہاؤس، گورنر ہاؤس اور دوسرے بڑے بڑے گھر بھی پراجیکٹ عمران خان کے وعدوں کے مطابق یونیورسٹیاں نہ بن سکے۔
ڈکٹیٹرشپ کے دور میں تو میڈیا کو بدترین حالات سے گزرنا پڑتا رہا ہے لیکن نام نہاد جمہوری پراجیکٹ عمران خان کا دور بھی ہر قسم کے میڈیا کے لیے کسی آمرانہ دور سے کم ثابت نہیں ہوا حالانکہ پراجیکٹ عمران خان کے خالی غبارے میں ہوا بھرنے میں میڈیا کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔ اپوزیشن کے دنوں میں عمران خان کے جلسوں اور دھرنوں کی جس طرح لمحہ بہ لمحہ کوریج اور میراتھن ٹرانسمیشنز چلائی جاتی رہیں ایسی سہولت کسی دوسری سیاسی جماعت کو میسر نہہں رہی۔ کئی اینکر حضرات اب تسلیم کرتے ہیں کہ کیسے دھرنے کے دنوں میں انہیں ہدایات دی جاتی تھیں کہ خالی کرسیاں نہ دکھائی جائیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد عمران حکومت کی جانب سے اسی میڈیا کو بدترین سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑا۔ اپوزیشن رہنماؤں کے چلتے ہوئے انٹرویوز رکوائے گیے، کئی اینکرز کو آف ائیر کروایا گیا اور بہت سے صحافیوں اور اینکرز کو زبردستی ان کے اداروں سے نکلوا دیا گیا۔ یہیں پر بس نہیں بلکہ کئی صحافیوں کو اپنی ماتحت ایجنسیوں کے ذریعے اٹھوا کر راہ راست پر لانے کی کوشش بھی کی گئی۔ میڈیا کی آزادی کے حوالے سے پراجیکٹ عمران خان کا ساڑھے تین سالہ دور کسی آمرانہ دور ہی کی طرح سیاہ دور تصور کیا جائے گا۔
تحریک انصاف جس کے بنانے کا مقصد قانون اور انصاف کی حکمرانی بتائی جاتی تھی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد پراجیکٹ عمران خان نے یہ قلعی بھی پوری طرح کھول کر رکھ دی کہ پراجیکٹ عمران خان کا قانون اور انصاف سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ پراجیکٹ عمران خان کی حکومت کی بنیاد ہی دھاندلی پر رکھی گئی تھی شائد یہی وجہ تھی کہ ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں جہاں ان کا بس چلا ضمنی انتخابات، ڈسکہ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں دھاندلی کی نئی داستانیں رقم کی گئی۔ دھونس دھاندلی زدہ ان انتخابات کی تفصیل میں جائے بغیر قانون و انصاف کی پاسداری کے دعویدار عمران خان نے اس وقت قانون کو کھلم کھلا چیلنج کیا جب الیکشن کمیشن نے سابق وفاقی وزیر امور کشمیر علی امین گنڈہ پور کو کشمیر بدر کرنے کے احکامات جاری کر دئیے لیکن عمران خان نے بطور وزیراعظم قانون کو کھلم کھلا چیلنج کرتے ہوئے علی امین گنڈہ پور کو اپنے ساتھ سٹیج پر بٹھا کر تقریر فرمائی۔ خیر آئین اور قانون عمران خان کی نظر میں کیا حیثیت رکھتے ہیں اس کا اندازہ تو عمران خان کے حکومت سے نکلنے کے بعد کے اقدامات سے سب کو بخوبی ہو گیا ہو گا کہ اپنے مفاد اور اقتدار کے لیے عمران خان نہ تو آئین کی پرواہ کرتا ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ کے حکم کی اور ستم یہ ہے کہ ایسا شخص ساڑھے تین سال پاکستان کا حکمران بھی رہ چکا ہے۔
پراجیکٹ عمران خان نے ساڑھے سال تین میں صرف ایک کام کیا ہے اور وہ ہے جھوٹا پروپیگنڈہ۔ عمران خان اس فن میں طاق ہے جھوٹ بولنے اور جھوٹ پھیلانے کا کام عمران خان اور اس کی جماعت سے بہتر کوئی اور نہیں کرسکتا۔ اس کام کے لیے درجنوں ترجمان، یو ٹیوبرز اور سرکار کے کھاتے سے بڑی بڑی تنخواہوں پر سوشل میڈیا ایکسپرٹ بھرتی کیے گئے جن کا کام ہی یہ تھا کہ ایسا ماحول بنا کر رکھا جائے کہ عام عوام کو یہی محسوس ہو کہ نہ تو عمران خان سے بڑا لیڈر کوئی پیدا ہوا ہے نہ ہو گا۔ ابھی یہ ہی دیکھ لیں کہ ایک نام نہاد مراسلے کا سہارا لے کر بڑی کامیابی سے پراجیکٹ عمران خان کی ساڑھے تین سالہ بدترین کارکردگی کو چھپا کر عوام کو تبدیلی کے سبز باغ سے نکال کر غلامی سے آزادی کی ایک نئی لال بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔
پراجیکٹ عمران خان تو ساڑھے تین سال میں ہی اپنی نالائقی اور نااہلی کے سبب اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا ہے لیکن عمران خان کی جانب سے جس نفرت اور شدت پسندی کا مسلسل پرچار کیا جا رہا ہے اس نفرت اور شدت پسندی نے قوم میں جو تقسیم پیدا کردی ہے اس لکیر کو پاٹنے میں بہت عرصہ لگے گا۔ عمران خان کے گمراہ کردہ یہ لوگ عقل اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بالکل عاری ہو چکے ہیں۔ یہ لوگ پروپیگنڈے کے اتنے زیر اثر ہیں اور شخصی غلامی کے اتنے بلند ترین درجے پر پہنچ چکے ہیں کہ جہاں اپنے عزیز رشتہ داروں اور دوستوں سے لے کر آئین اور پاکستان سے بھی بڑھ کر عمران خان کے وفادار ہیں۔ عمران خان کی ایک آئینی طریقے سے اقتدار سے بے دخلی کے بعد جس طرح قومی اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا، قومی پاسپورٹ اور جھنڈے جلائے گیے ایسی مثال کسی دوسرے وزیراعظم اور سیاسی جماعت کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد دیکھنے میں نہیں آئی۔ یہ ہے اصل چہرہ اس شخص اور سیاسی جماعت کا جو اپنے سوا باقی سب کو غدار سمجھتے ہیں جبکہ دوسری طرف جب پیپلزپارٹی کی قائد محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تو انتہائی غم و غصے اور سوگواری کے باوجود بھی وہاں سے جو نعرہ بلند کیا گیا وہ نعرہ تھا “پاکستان کھپے”۔ ان تمام حقائق کو جان لینے کے بعد اب یہ فیصلہ عوام کو کرنا ہے کہ کون محب وطن ہے اور کون غدار۔
تاریخی ارتقا کے اصولوں سے ماورا سولون کون تھا؟
کچھ حکمران ایسے بھی ہیں جو ارتقا اور ترقی کے تمام اصولوں کی نفی کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ایسا...