دالت میں حاضری کا طلبی نامہ مل جائے گا۔ اب دفع ہو جاؤ یہاں سے!‘‘
لیکن محمد زمین پر پڑا رہا کیوں کہ دُوسرا افسر اُسے ٹھڈّوں پر رکھے ہوے تھا۔
راہ گیر تماشا دیکھنے کے لیے رُک گئے۔ اُن میں سے کچھ نے احتجاج کیا۔ شُرطوں نے اُنھیں دھمکایا۔ ایک جیپ نمودار ہوئی اور اُس سے ایک افسر اُترا۔ جب شُرطوں نے اُسے صُورتِ حال بتائی تو وہ واپس جیپ میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔
پھر پولیس کی ایک اَور گاڑی آئی۔ جس سے دو اَور شُرطے اُترے اور ٹھیلے سے گِرے ہوے پھل سمیٹنے لگے۔ اُن میں سے ایک اُٹھایا ہؤا سیب کھانے لگا۔
بے بس و بے کس محمد کچھ نہیں بولا۔ وہ سڑکوں پر آوارہ گردی کرنے لگا۔ وہ بدحواس تھا کہ یہ کیا ہو گیا اور کچھ بھی سوچنے سمجھنے سے لاچار۔ بِلا سوچے سمجھے ہی اُس کے قدموں نے اُسے بلدیہ ہال پہنچا دیا۔ اُس نے میئر سے ملاقات کے لیے کہا۔ اسقبالیہ پر بیٹھے شخص نے اپنی شہادت کی اُنگلی سے اپنی کنپٹی کے گِرد دَائرے بنائے کہ محمد ہِلا ہؤا ہے۔
’’تمھارا خیال ہے کہ تم محض اِس طرح میئر سے مل سکتے ہو؟‘‘
’’کیوں نہیں مل سکتا؟ مجھے اُن سے بات کرنی ہے۔‘‘
’’تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو؟ کیا تم امیر کبیر ہو؟ کیا تم کوئی اہم شخصیت ہو؟ اب نکلو یہاں سے اور مجھے سکون سے چائے پینے دو۔‘‘
محمد نے اصرار کیا۔ ’’شاید نائب میئر۔۔۔‘‘
’’سب باہر گئے ہوے ہیں۔ گورنر ایک نئی مسجد کا افتتاح کر رہا ہے۔‘‘
’’اور کل؟‘‘
’’میں تمھیں ایک مشورہ دیتا ہوں: یہ خیال چھوڑ دو۔‘‘
’’ٹھیک ہے، لیکن جانے سے پہلے میں تمھیں بتا دوں کہ میں میئر سے کیوں ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’پولیس نے میری وہ چیز ضبط کر لی ہے جس سے میں اپنی روزی کماتا تھا۔ وہ ٹھیلا جس پر میں پھل بیچتا تھا۔ وہی میری روزی کا واحد وسیلہ تھا۔‘‘
’’اور تمھارا خیال ہے کہ تمھاری خُوب صُورت آنکھوں کی خاطر میئر پولیس کو حکم دے گا۔‘‘
’’انصاف کی خاطر۔‘‘
’’خُوب، تم خاص نہیں ہو! تمھارا تعلّق کہاں سے ہے؟‘‘ اُس شخص نے اپنی آواز مدہم کرتے ہوے پُوچھا۔ ’’تم نے اِس ملک میں انصاف کہاں دیکھا ہے؟‘‘ پھر وہ ایک لمحے کے لیے باہر گیا اور موٹے سِرے والے ڈنڈے سے لیس واپس آیا۔ ’’اب دفع ہو جاؤ۔ ورنہ میں تمھارا حسین مُنھ توڑ ڈالوں گا۔‘‘
محمد نے مزید اصرار نہیں کیا۔
اُس شام وہ زینب سے ملا جس نے مشورہ دیا کہ وہ بھی اُس کے ہم راہ بلدیہ ہال چلے گی۔ اُس نے ایک اَور تجویز بھی دی۔
’’کیوں نہ ہم سیدھے پولیس ہی کے پاس چلے جائیں؟‘‘
’’کیوں نہیں۔‘‘
وہ پولیس ہیڈ کوارٹر چلے گئے۔
وہاں موجود افسروں میں سے کوئی بھی محمد کے حالات سے آگاہ نہیں تھا۔ زینب نے بات چیت کا آغاز کیا۔ 
’’خُوب، اِس صُورت میں ہم چوری کا الزام عاید کرتے ہیں!‘‘
’’تم پولیس کے خلاف مقدمہ درج کروا رہے ہو؟ تمھارے خیال میں تم کہاں ہو؟ سویڈن میں؟ افسر نے شیطانی مُسکراہٹ سے دریافت کیا۔
’’ہمیں صرف اپنا ٹھیلا واپس چاہیے۔‘‘
’’سمجھ گیا۔ مجھے اپنے شناختی کارڈ دے دو تاکہ میں فوٹو کاپیاں کروا لوں اور جیسے ہی مجھے کچھ پتا چلا میں تم لوگوں سے رابطہ کر لوں گا۔‘‘
زینب کو اُس پر اعتبار نہ آیا۔ اُس نے انکار کر دیا۔ محمد کو بازو سے پکڑ کر کھینچا اور وہ وہاں سے چلے گئے۔
وہ ہاتھ تھامے یا ایک دُوسرے کی کمر میں بازو ڈالے دیر تک گلیوں میں مٹر گشت کرتے رہے۔ ایک کار اُن کے پاس آکر رُکی۔ سادہ لباس والے دو شُرطے اُترے۔
’’تمھارے کاغذات۔۔۔ لیکن تم دونوں شادی شدہ نہیں ہو۔ رات کے اِس پہر سنسان گلیوں میں پِھرنا غیر قانونی ہے۔‘‘
زینب نے اپنے حسن کے تِیر چلائے اور افسر سے استدعا کی کہ وہ رپورٹ نہ کرے۔
’’میرے باپ بہت غصّے والا ہے۔ براہِ مہربانی، ہمیں جانے دو! ہم گھر جائیں گے۔ ہم کوئی غلط کام نہیں کر رہے تھے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، جاؤ۔ اِس بار تمھیں چھوڑ رہا ہوں۔‘‘
وہ دونوں سیدھے گھر گئے۔
محمد کی وہ رات بہت بے قراری میں گُزری۔ اُس نے اپنی ماں کو بھی نہیں بتایا کہ کیا ہؤا ہے۔ اُس کے باپ نے بتایا تھا کہ پریشانی اور دباؤ سے اُس کی ماں کے خُون کی شکر بڑھ جاتی ہے۔
اگلے روز صبح سویرے محمد نے غسل کیا اور پھر اُس نے اپنے باپ کے مرنے کے بعد پہلی مرتبہ نماز ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُس نے سر تا پا سفید لباس پہنا۔ اُس کی ماں سو رہی تھی۔ اُس کی نیند خراب کیے بغیر اُس نے اُس کی پیشانی کا بوسہ لیا۔ اپنے سوئے ہوے بھائی اور بہنوں کو دیکھا۔ پھر دوڑتے ہوے گھر سے باہر نکل گیا۔ اپنے بھائی کی پُرانی موٹر بائیک لی، گیس سٹیشن پر رُکا اور پلاسٹک کی پانی والی بوتل گیسولین سے بھروائی۔ بوتل کو ایک چھوٹے تھیلے میں رکھا اور بلدیہ ہال کا رُخ کیا۔ 
وہاں اُس نے کسی اہلکار سے ملنے کا مطالبہ کیا۔
کوئی بھی اُسے ملنا نہیں چاہتا تھا۔
وہ اُس مقام پر لوٹا جہاں پولیس نے اُس کا ٹھیلا ضبط کیا تھا۔
وہ دوبارہ وہاں موجود تھے۔ پاس ہی ٹھیلا بھی موجود تھا لیکن خالی۔
محمد اُن کے پاس گیا اور اُس نے اُن سے اپنی شے کی واپسی کا مطالبہ کیا۔
مرد شُرطے نے اُسے زوردار تھپڑ رسید کیا اور چِلّایا۔ ’’دیکھو، غلیظ چُوہے، اِس سے پہلے کہ میں مار مار کر تمھارا بھرکس نکال دوں یہاں سے دفعان ہو جاؤ۔‘‘
محمد نے اپنے دفاع کی کوشش کی۔ اِس مرتبہ خاتون شُرطے نے اپنی باری نبھاتے ہوے تھپڑ مارتے ہوے اُس کے مُنھ پر تُھوک دیا۔ ’’کِیڑے، تم ہمارا ناشتہ حرام کر رہے ہو! تمھیں تمیز تک نہیں۔ تمھاری اوقات کیا ہے!‘‘
محمد جھک گیا۔ وہ بولا نہ اُس نے حرکت کی۔ اُس کا چہر سپاٹ، آنکھیں سُرخ اور مُنھ سختی سے بِھنچا ہؤا تھا۔ اُس کے اندر کچھ پھٹنے کو تیار تھا۔ وہ اِس حالت میں دو تین مِنّٹ تک رہا– لیں اُسے لگا جیسے وہ ہمیشہ سے اِسی حالت میں ہے۔
مرد افسر بولا۔’’چلو، اب دفع ہو جاؤ۔ تمھارا ٹھیلا– تمھیں دوبارہ کبھی دِکھائی نہیں دے گا۔ اب تو معاملہ ہی ختم ہو گیا۔ تم نے ہماری عزت نہیں کی۔ اور ہمارے اِس وطنِ عزیز میں تمھیں اِس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔‘‘
محمد کا حلق خشک ہو رہا تھا اور تُھوک زہریلا۔ اُسے سانس تک لینا دشوار ہو رہا تھا۔ اُس نے سوچا: اگر میرے پاس بندوق ہوتی تو میں اِن حرامیوں پر خالی کر دیتا۔ میرے پاس بندوق تو نہیں ہے لیکن میرا جسم، میری زندگی تو ہے۔ میری بے کار زندگی جو میرا ہتھیار ہے۔‘‘
محمد اُٹھا اور اُن سے پرے ہٹ گیا۔ اُس نے موٹر بائیک سٹارٹ کی اور بلدیہ ہال کی سمت روانہ ہو گیا۔
اُس نے بائیک کو ایک کھمبے کے قریب کھڑا کر کے اُسے تالا لگایا اور دوبارہ میئر یا اُس کے کسی نائب سے ملنے کا مطالبہ کیا۔ استقبالیے پر بیٹھا شخص گزشتہ روز سے زیادہ مشتعل ہو گیا۔ واپس باہر نکل کر محمد کو تھیلے میں پڑی گیسولین سے بھری بوتل کا خیال آیا۔ اُس نے اپنے سفید لباس کو درست کیا اور چوراہے پر ٹہلنے لگا۔ کسی نے اُس پر دھیان نہیں دیا۔
وہ دسمبر کی ایک دھوپیلی صبح تھی۔ دسمبر کی ۱۷ تاریخ۔ اُس کے ذہن میں دُھندلے چہرے اُبھر آئے۔ بستر پر لیٹی ماں، تابوت میں پڑا باپ، خُود شعبۂِ فن و ادبیات میں، مُسکراتی ہوئی زینب، غصّے ہوتی ہوئی زینب، اُس سے کچھ نہ کرنے کی التجا کرتی ہوئی زینب؛ بستر سے نکل کر اُسے پُکارتی ہوئی ماں؛ اُس عورت کا چہرہ جس نے اُسے پہلے بھی اور پھر دوبارہ تھپڑ رسید کیا تھا؛ اُس کا جھکا ہؤا بدن جیسے وہ سزا کے لیے اپنے آپ کو جلاد کے حوالے کر رہا ہو؛ نیلا آسمان؛ اُس پر ایک دیو ہیکل درخت کا سایہ؛ درخت کے سائے تلے وہ زینب کے بازوؤں میں؛ وہ بچّے کے رُوپ میں دوڑتا ہؤا کہ سکول سے دیر نہ ہو؛ فرانسیسی اُستاذ کی اُسے شاباشی؛ کالج کا امتحان دیتے ہوے، ماں باپ کو اپنا ڈپلوما دِکھاتے ہوے، ڈپلومے کے ایک طرف ’’بے روزگار‘‘ کے نتھی کیے ہوے الفاظ؛ سنک میں جلتا ہؤا ڈپلوما؛ باپ کی دوبارہ تدفین؛ رونا پیٹنا؛ پرندے؛ صدر اور اُس کی اہلیہ دھوپ کی بڑی بڑی سیاہ عینکیں لگائے ہوے؛ عورت جس نے اُسے تھپڑ رسید کیا تھا؛ اُس کا ساتھی جس نے اُس کی اہانت کی تھی؛ آسمان پر چڑیوں کا اُڑتا ہؤا غول؛ ’’سپارٹاکس‘‘؛ عوام کے لیے لگا نل؛ اُس کی ماں اور دونوں بہنیں پانی بھرنے کے لیے قطار میں لگی ہوئیں؛ ایک بار پھر شُرطے اُسے وحشیانہ مارتے ہوے؛ گالیاں، گھونسے؛ گالیاں، گھونسے۔۔۔۔
محمد نے میئر سے ملاقات کروانے کے لیے آخری بار کہا۔ انکار اور تذلیل۔ استقبالیہ والے شخص نے اُسے موٹے سِرے والے ڈنڈے سے دھکا دیا تو زمین پر گِر گیا۔ چُپ چاپ اُٹھا اور بلدیہ ہال کے مرکزی داخلے کے سامنے بنے سٹینڈ میں چلا گیا۔ اُس نے تھیلے سے گیسولین کی بوتل نکالی۔ اُسے اپنے اُوپر اُنڈیلا۔ چوٹی سے سر تک بوتل خالی کی۔ پھر لائٹر روشن کیا، ایک لمحے کے لیے اُس کے شعلے کو گُھورا اَور اُسے اپنے لباس کے قریب لے آیا۔
چشمِ زدن میں آگ بھڑک اُٹھی۔ بِلا تاخیر لوگوں کا انبوہ اُس کی طرف دوڑا۔ استقبالیے والا شخص چیخنے چِلّانے لگا۔ اُس نے اپنی جیکٹ سے آگ بجھانے کی سعی کی لیکن محمد الاؤ بن چکا تھا۔ تب تک ایک ایمبولینس بھی آپہنچی۔ آگ بجھا دی گئی لیکن محمد تمام تر انسانی شباہت کھو چکا تھا۔ وہ تیز آگ پر کھال سمیت بُھنی ہوئی بھیڑ کی مانند سیاہ پڑ گیا تھا۔
اسقبالیے والا شخص چِلّا رہا تھا۔ ’’یہ سب میرا قصور ہے۔ مجھے اِس کی مدد کرنا چاہیے تھی۔‘‘
محمد ہسپتال میں ہے۔ اُس کا سارا جسم ممیوں کی مانند پٹیوں سے ڈھنپا ہؤا ہے۔ وہ بے ہوشی میں ہے۔ راہداری میں افراتفری برپا ہو جاتی ہے۔ سفید کوٹوں میں ملبوس ڈاکٹر اور نرسیں راہداری میں محمد کے کمرے کی سمت رہنمائی کرتی ہیں۔ صدر آگیا ہے۔ صدر نے محمد کی حالت کے بارے میں دریافت کیاہے۔ صدر برہم ہے۔ اُسے میئر کے بارے میں پتا چلتا ہے کہ اُس نے محمد سے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ اُسے گولی مارنے کا حکم دے دیتا ہے۔ صدر برہم ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ عالمی پریس اُس کی کہانی نشر کررہا ہے۔
ڈاکٹروں کا ایک ہجوم ہسپتال کے کمرے میں صدر کے پیچھے پیچھے رہتا ہے۔
فحش اور بے ہودہ نعروں والے کارڈ اور بینر۔
سارا ملک بغاوت کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ زینب اپنے بالوں کو سختی سے پیچھے باندھے ایک احتجاجی جلوس کی قیادت کرتی ہے۔ اُس کا مُکّا بلند ہے۔ وہ چِلّا رہی ہے۔
محمد ۴ جنوری ۲۰۱۱ء کو چل بستا ہے۔
ہر طرف احتجاج ہی احتجاج ہے۔ ایک ہی پُکار ہے: ’’ہم سب محمد ہیں!‘‘
صدر چوروں کی طرح ملک چھوڑ کا بھاگ نکلتا ہے۔ اُس کا جہاز ستاروں بھری رات میں غائب ہو جاتا ہے۔
احتجاج ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔
جگہ جگہ محمد کی تصاویر لگی ہیں: ستم رسیدہ اور علامت۔ عالمی میڈیا اُس خاندان کے انٹرویو لینے کے لیے اُس ملک کی طرف دوڑ اُٹھتا ہے۔
حد یہ کہ فلموں کا ایک ہدایت کار بھی اُنھیں ملنے آتا ہے۔ وہ آنسوؤں سے بھری آنکھوں والی ماں کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھماتا اور کہتا ہے۔ ’’براہِ کرم، اِس مدد کو قبول کریں۔ یہ زیادہ تو نہیں ہے۔ تقدیر ایسی ہی چیز ہے، ظالم اور ناانصاف۔‘‘
وہ جھکتا ہے اور رَوتی ہوئی عورت کے کان میں سرگوشی کرتا ہے۔ ’’یہ اچھی بات ہے کہ آپ کسی سے بات نہیں کرتیں۔ صحافیوں کو کوئی انٹرویو مت دینا۔ میں آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ میں محمد کی کہانی سامنے لاؤں گا۔ ساری دُنیا کو پتا چلنا چاہیے کہ کیا ہؤا ہے۔ محمد ہیرو، ستم رسیدہ اور شہید ہے۔ آپ اتفاق کرتی ہیں؟ آپ میرے علاوہ کسی کو نہیں بتائیں گی۔ میں اب چلوں گا لیکن آپ کو کسی بھی شے کی ضرورت ہو تو یہ رہا میرا کارڈ اور میرا سیل فون نمبر، مجھے کال کر لینا۔‘‘
ماں اُس شخص کی بات ذرا برابر بھی نہیں سمجھ پائی۔ لیکن اُس کی بیٹیاں اچھی طرح سمجھ گئی تھیں۔ ’’یہ شخص ہمارے بھائی کی موت خریدنا اور اُس سے منافع کمانا چاہتا ہے! کیسا عِفرِیت ہے ! کتنا بڑا عِفرِیت! محمد کی کہانی کسی کی مِلک نہیں ہے۔ اُس کی کہانی دُوسرے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی طرح ایک عام آدمی کی کہانی ہے جنھیں کچلا گیا، جن کی اہانت کی گئی اور جنھیں زندگی میں ردّ کر دیا گیا اور جو یہ تمام ظلم وستم سہنے کے بعد دُنیا بھر کے لیے روشنی بنے۔ کوئی کبھی اُس کی موت چُرا نہیں سکے گا۔‘‘
English title: By Fire (Original language: French)
Written by: Tahar Ben Jellon (Born:1 December 1944)
– a French language Moroccan writer.
– Two times short-listed for the Nobel Prize in Literature.

 

عازمین حج کے نام۔ تُم انوارِ مزارِ سَیّدِ لولاک ﷺ لے آنا
سید عارف امام۔ اردو زبان و ادب کے عالمی سفیر
تنویر بخاری دی نذر ۔۔۔۔ گروآ تینوں سدا سلام 
تنویر بخاری۔۔۔ پنجابی دا مینارہ نور
تنویر بخاری پنجابی دا اک دبستان تے اک خانقاہی نظام دے نمائندہ نیں
ہندوستان میں فارسی زبان و ادب کا مستقبل تابناک بھی ہے اور محفوظ بھی
تنویر بخاری۔۔۔ پاکستان وچ سب توں پہلاں چھپن والے پنجابی غزل پراگے دے شاعر
وجودیت، اسلام اور وحدت الوجود
پنجابی زبان کے مایہ ناز قلمکار اور عہد حاضر کے وارث شاہ ثانی سید تنویر بخاری
پنجابی زبان کے مایہ ناز قلمکار اور عہد حاضر کے وارث شاہ ثانی سید تنویر بخاری
تار بار بلّے نارا ہورے پالار نار انتخابی نشان سائیکل سب پانی دا بلبلہ
Dr Qamar Siddiqi