باب کے آخر میں پورا ایک صفحہ ’’بابری مسجد‘‘ پر ہے۔ پیرا گراف شروع ہوتا ہے اس جملے سے: ’’عام اردو پڑھنے والے محمود غزنوی کے موید ہیں۔‘‘ (ص: ۵۱۲) بابری مسجد کا ذکر جین صاحب نے اس لئے کیا کہ ان کے عقیدے کے مطابق جب ۹۴۹۱ میں اس مسجد میں رام چندر جی کی مورتی رکھ دی گئی تھی تو جو ’’عمارت‘‘ توڑی گئی وہ مسجد تھی ہی نہیں، ’’وہ تو مندر میں تبدیل ہوچکی تھی۔‘‘ لیکن ’’بابری مسجد ٹوٹنے کے انتقام کے طور پر بنگلہ دیش میں ہزاروں مندر توڑے گئے۔‘‘ جین صاحب نے یہ واقعہ کہیں پڑھا ہوگا کہ ۹۴۹۱ میں بابری مسجد کا دروازہ کھول کر اندر مورت رکھ دی گئی۔ پھر انہوں نے ۲۹۹۱ میں مسجد کے انہدام کے بارے میں پڑھا ہوگا۔ اس انہدام کے ساتھ ساتھ اور فوراً بعد جو کثیر تعداد میں مسلمانوں کا  جان  ومال ضائع ہوا، اس کا ذکر شاید انہوں نے کہیں پڑھا نہ سنا۔ بنگلہ دیش میں مندر توڑے جانے کا واقعہ انہوں نے بے شک پڑھا یا پھر سنا ہوگا لیکن وہ کسی قسم کا حوالہ دینے سے گریز کرتے ہیں۔ ان کا راوی ستیہ پال آنند، بنگلہ دیش نہیں، پاکستان میں توڑے گئے مندروں کی تعداد ’’سینکڑوں‘‘ بیان کرتا ہے، لیکن یہاں بھی ستیہ پال آنند کی کسی تحریر کا حوالہ نہیں۔ جین صاحب ثانوی حوالے دینے کے ماہر ہیں (ان کی یہ کتاب بیشتر ثانوی حوالوں کی مرہون منت ہے اور کسی بھی ثانوی حوالے کی انہوں نے بچشم خود تصدیق نہیں کی)، لیکن یہاں وہ ثانوی حوالہ دینے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ بابری مسجد اگر ۹۴۹۱ میں مندر میں تبدیل ہوچکی تھی تو جین صاحب کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہندوئوں نے اپنا ہی مندر توڑا۔ سومناتھ کے مندر کا بھی جین صاحب کو نہایت غم ہے۔ اس کا ذکر وہ بار بار کرتے ہیں۔ کاش وہ رومیلا تھاپر کی کتاب اس موضوع پر پڑھ لیتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ سومناتھ کے مندر کی محمود غزنوی یا کسی بھی مسلمان کے ہاتھوں انہدام کی کوئی معاصر یا قریبی شہادت نہیں ہے۔

پروفیسر گیان چند ہم طالب علموں کو قدم قدم پر ہدایت کرتے ہیں کہ حق بات کے سوا کچھ نہ کہو، تعصب سے کام نہ لو، سچائی کو مت چھپائو۔ لیکن خود وہ جگہ جگہ ان باتوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور کتمان حق کی یہ ادا انہوں نے آغاز کتاب ہی سے اختیار کرلی ہے۔ ملاحظہ ہو، اپنی ’’تمہید‘‘ میں فرماتے ہیں:

میں نے ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی ’’تاریخ زبان و ادب اردو‘‘ پر ایک مضمون لکھا۔ ہندوستان کے کسی بھی اردو رسالے نے یہ مضمون نہیں چھاپا لیکن اتنا احترام کیا کہ تحریر میں انکار لکھ بھیجنے کو بھی تیار نہ ہوئے۔ کچھ عرصے کے بعد ڈاکٹر گوپی چند نارنگ امریکہ آئے۔ میں نے ان سے کہا کہ ہندوستان کا کوئی رسالہ میرا مضمون نہیں چھاپ رہا۔ انہوں نے کہا کہ وہ مضمون دیکھ کر بتائیں گے۔ وہ مضمون دیکھنے کے لئے لے گئے۔ کچھ دن بعد انہوں نے فون کیا کہ مضمون چھپ جائے گا۔ یہ قومی اردو کونسل کے رسالے میں چھپا۔ اس کی وجہ سے مملکت پاکستان میں آسمان ٹوٹا نہ ہندوستان میں کوئی جوالا مکھی پھوٹا، ہاں ہندوستان کے اردو پریس کی آزادی ضرور بے نقاب ہوگئی۔ (ص: ۳۳)

ابواللیث صدیقی کی تاریخ کے بارے میں گیان چند صاحب کا کوئی ’’مضمون‘‘ نہیں ہے۔ ہاں ان کی کتاب ’’اردو کی ادبی تاریخیں‘‘ کا ایک باب ضرور ابواللیث صدیقی کی تاریخ کے بارے میں ہے۔ اس باب (یا مضمون ہی کہہ لیجئے) کے بارے میں جین صاحب کا یہ ارشاد بالکل غلط ہے کہ ’’ہندوستان کا کوئی رسالہ میرا مضمون نہیں چھاپ رہا۔‘‘ کم از کم ’’شب خون‘‘ میں اشاعت کے لئے یہ مضمون کبھی نہیں آیا۔ اگر اس تحریر کی عدم اشاعت کا سبب ’’مسلمانی تعصب‘‘ ہوتا، یا گیان چند جین صاحب کے ’’اردو والے مسلمان دوستوں‘‘ کی ’’علیحدگی پسندی‘‘ ہوتا تو اس بات کی کیا وجہ ہے کہ جین صاحب کا یہ ’’مضمون‘‘ ہی نہیں، بلکہ پوری کتاب ہی پاکستان میں انجمن ترقی اردو نے 2000ء میں شائع کردی ہے۔ تعجب اور سخت تعجب ہے کہ جین صاحب اس حقیقت کو پردہ پوش رکھتے ہیں اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ وہی انجمن ترقی اردو ہے جسے وہ زیر تبصرہ کتاب کے صفحہ ۹۱ پر ’’غداری‘‘ کا مرتکب قرار دے چکے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی واضح کردوں کہ یہ کتاب ہندوستان میں بھی زیر اشاعت ہے اور اس کے پاکستانی ایڈیشن میں ابواللیث صدیقی کے بارے میں حسب ذیل الفاظ گیان چند جین صاحب نے استعمال کئے ہیں:

(ابواللیث صدیقی) جب تک چند صفحات میں ہندوئوں پر سب وشتم نہ کرلیں انہیں چین نہیں آتا۔ (ص: ۲۵۷) افسوس کہ وہ ہندوئوں کی محترم ترین ہستیوں اور ہادیوں کا ذکر کرتے ہیں تو کمال بے حرمتی کے ساتھ۔ (ص: ۲۶۷) کتاب کا انداز تحقیقی نہیں۔۔۔ خود اشتہاری کثرت سے ہے۔ (ص: ۳۵۷) (مصنف میں) ہندو کشی ( کا رجحان ہے) (ص: ۳۵۷)۔ (مصنف کی) کس غضب کی ناواقفیت ہے۔ وہ نہ یہ جانتے ہیں کہ شدر کسے کہتے ہیں، نہ ہندوستان کی قدیم تاریخ جانتے ہیں (ص: ۴۵۷) (مصنف کو) آریوں اور سنسکرت سے بغض ہے۔ (ص: ۷۵۷) (مصنف) کی طبیعت میں موزونیت نہیں تھی (ص: ۵۷۷) وغیرہ۔

یہ باتیں بالکل صحیح ہے، بلکہ میرے خیال میں تو ابواللیث صدیقی اور بھی زیادہ سخت الفاظ میں مطعون کئے جانے کے مستحق ہیں۔ جب پاکستانیوں کو ایسی تحریر چھاپنے پر اعتراض نہیں تو ہندوستانیوں کو کیوں ہوگا۔ پھر ’’ہندوستان کے اردو پریس کی آزادی ضرور بے نقاب ہوگئی‘‘ (یعنی یہ ثابت ہوگیا کہ ہندوستان کا اردو پریس پاکستان کا غلام ہے)، کہنے سے جین صاحب کا کیا مطلب ہے؟

تین سو سے کچھ اوپر صفحات پر مشتمل اس کتاب کا چودھواں (آخری) باب ’’اردو ہندی اور رومن رسم الخط پر ایک طائرانہ نظر‘‘ صرف دس صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ ہندو مسلم تنازع کے موضوع سے پاک ہے اور اپنے عنوان کے مطابق ہے، لیکن اس میں اردو کے رسم الخط کی ’’برائیاں‘‘ اور نا گری رسم الخط کی ’’خوبیاں‘‘ بیان کرنے میں خاصے جوش سے کام لیا گیا ہے۔ ’’اردو رسم الخط کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ صرف اسی کے کام کا ہے جو اس زبان کو جانتا ہو۔‘‘ (ص: ۱۵۲) سبحان اللہ، پھر تو یہ ’’سب سے بڑی خرابی‘‘ دنیا کی اکثر زبانوں میں ہے۔ بھلا جین صاحب ان زبانوں کو جانے بغیر صرف حروفوں کو پہچان کر تامل یا تیلگو  یا ملیالم کا ایک فقرہ پڑھ کر دکھادیں، روسی اور چینی کی تو بات ہی نہ کیجئے۔ رومن رسم الخط جاننے والا تو ڈچ یا جرمن کو بھی بمشکل ہی پڑھ سکتا ہے۔ ’’پاکستانی علاقے کے۔۔۔ ایک مولوی صاحب پنڈت پنت کو پنڈت نپت (ن پ ت nipat) پڑھتے تھے۔‘‘ (ص: ۱۵۲/۲۵۲) درست، ہمارے ایک استاد انگریزی میں Gokhale کو مدتوں ’’گو کھیل‘‘ پڑھتے رہے۔ ایک اور استاد نے مجھے silhouette کا تلفظ ’’سلوٹی‘‘ بتایا، نہ کہ ’’سلوئٹ‘‘ جو صحیح تلفظ ہے۔ جین صاحب کے ملاقاتی ایک دوہائی کورٹ کے جج ضرور ہوں گے۔ ذرا وہ ان سے پوچھ دیکھیں کہ ہائی کورٹ کے عام جج کو Puisne جج جو کہا جاتا ہے تو اس کا تلفظ ’’پیونی‘‘ کیونکر ہوا؟ یقینا یہ رسم الخط ہی نہیں، پوری انگریزی زبان کی ’’خرابی‘‘ ہے۔ تو کیا جین صاحب قبلہ اپنے نئے ہم وطنوں کو مشورہ دیں گے کہ وہ انگریزی زبان نہ سہی، رومن رسم الخط ہی ترک کردیں؟

اس کتاب کا طرز بیان اور طریق کار غیر علمی اور مناظرانہ ہے۔ اس کی توقع گیان چند جین جیسے استاد توکیا کسی معمولی درجہ کے سیاسی اکھاڑے کے دائوں پیچ بیان کرنے والے سے بھی نہیں کی جاسکتی۔ لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ مصنف علام کی تمام گہر افشانیوں سے ہمیں کیا حاصل ہوتا ہے؟ یہ نتیجہ لابدی ہوجاتا ہے کہ اردو بولنے والوں اور اردو کے مصنفین کی برائی کے پردے میں مسلمانوں کی برائی کی گئی ہے کہ لوگوں کے دل میں مسلمانوں اور اردو زبان کے خلاف بدگمانیاں اور غلط فہمیاں پیدا ہوں۔اردو کا تو محض بہانہ ہے، مصنف اردو سے در اصل مسلمان مراد لیتے ہیں، فرماتے ہیں:

یہ حقیقت ہے کہ تہذیبی اعتبار سے مسلمانوں کے تشخص کا جو اظہار اردو زبان و ادب میں ہوتا ہے، وہ ہندی میں نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہندوئوں کے تہذیبی تشخص کا اظہار جو ہندی ادب میں ہوتا ہے، اس قدر اردو میں میں نہیں ہوتا۔ اردو زبان و ادب کا لسانی و تہذیبی پس منظر عربی فارسی اور اسلام سے نزدیک ہے، ہندی زبان وادب کا سنسکرت اور ہندو دھرم سے۔ (ص: ۹۷۲)

پوری کتاب میں پروفیسر صاحب نے دو باتوں کی تکرار کی ہے:

(۱) لسانیاتی اعتبار سے اردو اور ہندی ایک ہی زبان ہیں۔

(۲) اردو کو مسلمان اپنے ساتھ نہیں لائے تھے۔ اردو کے بنیاد گزار اور اولین معمار ہندو ہیں۔

اس بات سے قطع نظر کہ ’’ہندوئوں‘‘ نہیں، ’’ہندوستانیوں‘‘ کو اردو کا بنیاد گزار اور اولین معمار قرار دینا چاہئے، جین صاحب کی دونوں باتیں بالکل صحیح ہیں۔ لیکن یہ نئی دریافتیں نہیں ہے۔ شاید ہی کوئی صاحب ہوش اردو والا ہوگا جسے ان باتوں سے انکار ہو۔ خود پروفیسر جین نے ان باتوں کی تائید میں اردو کے متعدد معتبر بزرگوں کے اقوال پیش کئے ہیں جن میں آل احمد سرور، احتشام  حسین، ابو محمد سحر، مسعود حسین خاں، سہیل بخاری اور گوپی چند نارنگ کے نام نمایاں ہیں۔ میرا بھی ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ اردو اور جدید کھڑی بولی ہندی صرف سیاسی اور بعض تاریخی وجوہ سے دو الگ زبانیں قرار پائی ہیں ورنہ لسانیات کے اصول سے دونوں میں کوئی فرق نہیں اور اردو کسی غیر ملک سے نہیں آئی، یہیں پیدا ہوئی اور یہیں پلی بڑھی۔

میری سمجھ میں یہ بات نہیں آسکی کہ ان دو بدیہی باتوں کو بیان کرنے کے لئے جین صاحب کو یہ کتاب لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔  ایسی کتاب جس میں از اول تا آخر مسلمانوں اور اردو کے خلاف زہرا گلا گیا ہے۔ جین صاحب کے کچھ ارشادات ہم اوپر دیکھ چکے ہیں۔ اب مزید عبرت کے لئے یہ چند مزید ملاحظہ ہوں:

(۱) [عربی زبان کے] اس لے پالک (اردو زبان) کا فرضی جد عربی، اس کے صلبی جد سنسکرت سے علیحدگی اور آویزش پر عمل کرتا رہا ہے۔ (ص: ۷۵) – (۲) ہندی کا مزاج مرکز گریز وسعت کا ہے، اردو کا مزاج تنگ نظری کا۔ (ص: ۹۸) (۳) اردو کا مزاج تنگ نظری کا ہے۔ (ص: ۴۲۱) – (۴) ہندی اپنا دائرہ زیادہ سے زیادہ بڑھانا چاہتی ہے، اردو اپنا دائرہ تنگ سے تنگ تر کرنا چاہتی ہے، عوام سے ہٹ کر والیان ملک اور رئوسا کی جاگیر بنا (کذا) کر۔ (ص: ۵۲۱) – (۵) سات سو سال مسلم حکومت نے۔۔۔ ہندو تہذیب کو دبا کر تیسرے درجے کی چیز بنادیا تھا۔ (ص: ۶۷۱) – (۶) اس صدی میں اردو تحریک کے سالار علیحدگی پسند یا مسلم لیگی مسلمان رہے ہیں۔ (ص: ۲۴۲)- (۷) اگر آپ سرسید کی طرح اردو کے محافظ ہیں تو یہ بھی جان رکھئے کہ اردو کے تمام یا بیشتر ہندو ادیب اپنے سینے میں ایک راجہ شوپر شاد لئے ہوئے ہیں۔ (ص: ۸۷۲)

یہ کتاب ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی نے شائع کی ہے۔ یہ ادارہ اردو اشاعت کا ایک معتبر ادارہ ہے۔ اس کے مالک جمیل جالبی کے بھائی ہیں، وہی مشہور محقق اور ادبی مورخ جمیل جالبی جن کے معتقد ہمارے فاضل مصنف بھی ہیں اور جن کو انہوں نے اپنی کتاب ’’اردو کی ادبی تاریخیں‘‘ یہ لکھ کر معنون کی ہے کہ جمیل جالبی ’’ادبی تاریخ کے سب سے اچھے اہل قلم‘‘ ہیں۔ حیرت ہے کہ اردو کے صریحاً خلاف جھوٹ اور اغلاط و تعصب سے بھری ہوئی یہ کتاب ایک اردو ادارہ سے کیسے اور کیوں شائع ہوئی؟  qq

ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب         گیان چند جین  قیمت: 275/- روپے    صفحات: 311

ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، کوچہ پنڈت، لال کنواں، دہلی 110006-

 

(بشکریہ اردو بک ریویو نئی دہلی،شمارہ مارچ تا مئی ۲۰۰۶ء)

عازمین حج کے نام۔ تُم انوارِ مزارِ سَیّدِ لولاک ﷺ لے آنا
سید عارف امام۔ اردو زبان و ادب کے عالمی سفیر
تنویر بخاری دی نذر ۔۔۔۔ گروآ تینوں سدا سلام 
تنویر بخاری۔۔۔ پنجابی دا مینارہ نور
تنویر بخاری پنجابی دا اک دبستان تے اک خانقاہی نظام دے نمائندہ نیں
ہندوستان میں فارسی زبان و ادب کا مستقبل تابناک بھی ہے اور محفوظ بھی
تنویر بخاری۔۔۔ پاکستان وچ سب توں پہلاں چھپن والے پنجابی غزل پراگے دے شاعر
وجودیت، اسلام اور وحدت الوجود
پنجابی زبان کے مایہ ناز قلمکار اور عہد حاضر کے وارث شاہ ثانی سید تنویر بخاری
پنجابی زبان کے مایہ ناز قلمکار اور عہد حاضر کے وارث شاہ ثانی سید تنویر بخاری
تار بار بلّے نارا ہورے پالار نار انتخابی نشان سائیکل سب پانی دا بلبلہ
Dr Qamar Siddiqi