(Last Updated On: )
سید عارف محمود مہجورؔ رضوی ( گجرات)
’’ فخر گلستانِ فصاحت ‘‘۔۔۔۔۔۔’’ آہ آہ دستار علم و تحقیق ‘‘
۲۰۲۰ء ۔۔۔۔۔۔ ۱۴۴۱ھ
’’ وائے اہل خرد صاحبزادہ علامہ سید محمد فاروق القادری ؒ‘‘
حسرتا و احسرتا صد حسرتا
موت کے ہاتھوں ہواجینا محال
چل بسا ہے آبروئے دین حق
غم ملا وہ جس کا ہو نہ اندمال
دے گیا داغ ِ جدائی مرد حق
اٹھ گیا دنیا سے مرد باکمال
الوداع سید فاروق القادریؒ
الوداع فہم و بصیرت کے جلال
دائرہ تھا وہ معارف کا بجا
بانٹتا تھا وہ حقائق کے نوال
ہے سراسر بر محل اور برملا
علم کا اس کو اگر کہیے جمال
وہ محقق، وہ مدقق، عبقری
دانش و حکمت میں تھا وہ بے مثال
ترجمانی کا ادا حق کر دیا
تھی دلائل سے عبارت، مالا مال
اس کے لہجے سے ٹپکتا تھا وقار
محفل تحقیق تھی اس سے نہال
تھی گرفت اس کی جہاں کی نبض پر اس کو کھاتا تھا غریبوں کا زوال
لخت دل تھا اُس عظیم انسان کا
نقش جس کی عظمتوں کے ہیں بحال
تھا حکیم اہل ِ سنت کا رفیق
اعلیٰ حضرت کی رہا بن کر وہ ڈھال
کر دئیے سب داغ دھبے بے نشاں
بدعتوں کو کر دیا بے سر بے تال
ایک دو کب کوئی، لاکھوں لوگ ہیں
مستفید اس سے رہے جو حسب حال
اس کا ثانی دور تک کب ہے کوئی اس کا پیدا ہو گا کوئی خال، خال
لیں سبق اس سے سبھی گدی نشیں
کھایا جس نے پیری میں رزق حلال
بن گیا یادوں کا اک وہ خواب خود
اپنی یادوں کا ہمیں دے کر ملال
برمحل مہجورؔ کہہ دو وصل کا
’’عالیہ رتبہ دانش و بینش‘‘ ہے سال
٭…٭…٭
۱۴۴۱ھ
٭…٭…٭