دلدل صحرائی
Quicksand
صحرا میں بعض جگہیں ایسی ہوتی ہیں جہاں ریت پانی سے ملی ہوتی ہے۔ یہ جگہیں بھولے بھٹکے مسافر وں کے لئے بہت خطرناک ہوتی ہیں۔ کیونکہ ان پر چلنے والا دھنس جاتا ہے۔ نیچے بیان کی ہوئی کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ یہ کیسے ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ پہلے تو مسافر آگے بڑھنے میں رکاوٹ محسوس کرتا ہے اور اس کے قدم بھاری ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ ریت اس کے جوتوں کے تلوں سے چپک جاتی ہے اور گوند کی طرح ان سے لگ جاتی ہے ،ریت سوکھی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن جونہی وہ اپنا پاؤں اس پر سے اٹھاتاہے وہ جگہ پانی سے بھر جاتی ہے ۔ ریت بڑی نفیس ،ملائم اور ایک رنگ کی ہوتی ہے ۔ اس لئے کسی کو بھی سوکھی ریت جوچلنے کے لئے محفوظ ہوتی ہے ،اور گیلی ریت میں جو محفوظ نہیں ہوتی فرق دکھائی نہیں دیتا۔
جب مسافر کو ایسا لگتا ہے کہ اس کا پاؤں ریت میں دھنسا جارہا ہے تو وہ چاروں طرف اس امید سے دیکھتا ہے کہ شاید وہ سوکھی زمین کی طرف واپس جاسکے ۔ لیکن اس کی بجائے جتنا وہ اپنے پاؤں باہر نکالنے کی کوشش کرتا ہے اتنا ہی وہ اور نیچے دھسنے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ ریت میں چھپ جاتے ہیں ۔ تب اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ راستے سے بھٹک گیا ہے اور وہ پریشانی کی حالت میں اسی جگہ کھڑا رہ جاتا ہے ۔کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اب کیا کرے اور اس کے پاؤں آہستہ آہستہ نیچے ہی نیچے دھنسے چلے جاتے ہیں۔
تب وہ چاہتا ہے کہ جس راہ سے وہ آیا تھا اسی پر واپس لوٹ جائے اور بچ جائے ۔لیکن وہ واپس نہیں جاسکتا اور اس کی حالت او ربھی بری ہوجاتی ہے اور رہائی اوروہ بھی مشکل دکھائی دینے لگتی ہے ۔ تب ریت اس کی ایڑیوں کو چھپا لیتی ہے اور وہ دائیں طرف مڑتا ہے لیکن اور بھی نیچے دھنس جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے ٹخنے بھی ریت میں چھپ جاتے ہیں ۔پھر وہ بائیں کی طرف مڑتا ہے اور ریت اس کے گھٹنوں تک پہنچ جاتی ہے ۔ تب اسے یقین ہوجاتاہے کہ وہ ڈوب جانے والا ہے ۔
اگر وہ کچھ اٹھائے ہوئے ہوتا ہے تو اسے دور پھینک دیتا ہے تاکہ اس کا بوجھ ہلکا ہوجائے لیکن بات پھر بھی نہیں بنتی وہ مدد کے لئے پکارتا ہے او راپنے خطرے کی علامت کے طور پر اپنا رومال ہلاتاہے۔ لیکن مدد نہیں پہنچتی اور ریت اس پر غالب آجاتی ہے ۔ جب تک اتفاق خدا ئی مدد نہ پہنچے اور کوئی طاقتور اور بہادر آدمی جو اس قسم کی زمین کو پہنچاتا ہو آکر اسے ریت سے باہر نہ نکال لے تو وہ بلاشک غرق ہوجائے گا۔ کیونکہ ریت اونچی ہوتی جائے گی اور اس کا سارا بدن چھپ جائے گا۔
اسے کہیں دور درخت ،گھر اور باغ دکھائی دیتے ہیں لیکن ان تک جانے کاراستہ نہیں ملتا ۔ اسے سورج کی روشنی میں چمکتا ہواآسمان اپنے سر پر دکھائی دیتا ہے لیکن وہ ان پیاری چیزوں کو دیکھ کر افسوس کرتا ہے ۔ کیونکہ اسے معلوم ہے کہ وہ چند منٹوں میں ڈوبنے والا ہے اور یہ سب کچھ اسے پیچھے چھوڑنا پڑے گا۔
تب وہ اس خیال سے ریت پر بیٹھنے کی کوشش کرتا ہے کہ شاید یوں زیادہ نیچے جانے سے بچ جائے ۔ پس وہ بیٹھ جاتا ہے او رپھر اپنی پیٹھ کے سہارے یا منہ کے بل لیٹ جاتا ہے۔ لیکن یہ سب باتیں اس کی مشکلوں اور مصیبتوں کو بڑھادیتی ہیں۔ تب اسے محسوس ہوتا ہے کہ ریت کے سینے تک پہنچ گئی ہے اور وہ جتنی بلند آواز سے چلا سکتا ہے چلاتا ہے ۔
"کوئی میری مدد کرے ،میں ڈوب رہا ہوں "
وہ اپنی کہنی کے سہارے جھکتا ہے کہ کہیں ڈو ب نہ جائے ۔لیکن ریت اس کے کندھوں تک پہنچ جاتی ہے اور پھر گردن تک ۔ صرف اس کا چہرہ ریت سے باہررہ جاتا ہے۔ وہ چلانے کے لئے اپنا منہ کھولتا ہے اور ریت اس کے منہ میں گھس جاتی ہے ۔تب وہ چلا بھی نہیں سکتا ۔ اب وہ صرف اپنی آنکھوں سے موت کو اپنی طرف آتا ہوا دیکھ سکتا ہے۔ اگر چہ وہ مضبوط اور تندرست ہے لیکن کوئی چال اسے نہیں بچاسکتی ۔ تب ریت اس کی آنکھوں میں گھس جاتی ہے اور اس کی پلکیں اور اس کا سر ریت میں چھپ جاتے ہیں۔ اس کے ہاتھ اوپر اٹھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ جیسے وہ مدد کی بھیک مانگ رہا ہو۔ آخر کار وہ ریت میں پوری طرح چھپ کر نظر سے غائب ہوجاتاہے ۔
(انگریزی سےترجمہ شدہ)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔