رفیع رضا، عہد حاضر کے اہم غزل گو شاعر
اور الحادی ادب کے سرخیل
تبصرہ و تنقید مع انتخاب اشعار
جگانے والے نے میرا کہاں خیال کیا
مَیں اپنے خواب سے آگے نکلنے والا تھا
میں سامنے سے اٹھا اور لو لرزنے لگی
چراغ مجھ سے کوئی بات کرنیوالا تھا
جوڑتا رہتا ہوں ٹوٹی ہوئی آوازوں کو
شور اتنا ہے سنائی نہیں دیتا سائیں
خانداں سے مِرے حالات نہیں ملتے ہیں
خون ملتا ہے، خیالات نہیں ملتے ہیں
بتا کے ناگ کو حیران کردیا میں نے
ہمارا زہر ہمارے دِلوں میں ہوتا ہے
میں شاخِ عمر پہ بس سوکھنے ہی والا تھا
لپٹ گیا کوئی آکر ہرا بھرا مجھ سے
شعرکہنا بھی ضروری ھے کہ زندہ تو رہیں
سانس لینےکی بھی ہوتی ہےضرورت سائیں
بہت دنوں کی خموشی تھی چیخ کر ٹوٹی
جو خوف تھا مِرے اندر سے دھاڑ کر نکلا
رفیع رضا
رفیع رضا بی شک ملحد ہوسکتا ہے منکرِ دین اور شاتمِ رسول مقبول علیہ السلام بھی . یہ نہایت افسوس کا مقام ہےع
سمندر سے ملے پیاسے کوقطرہ
مگر بطور جدید تر غزل گو، شاعر رفیع رضا کی حیثیت مسلّم ہے اور اسکی شعری عظمت کا اعتراف نہ کرنا بھی ستم ظریفی ہے اور نا انصافی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا…
میرا ماننا ہے کہ اگر
رفیع رضا کی ملحدانہ شاعری کو نظر انداز بھی کردیا جائے اور کرنا بھی چاہئے کیونکہ اس میں کوئی زیادہ دم خم ہے ہی نہیں اس کا بیشتر حصہ محض ترقی پسندوں کی نعرہ بازی ہی جیسا ہے. خاطر نشان رہے اردو زبان کا تعلق ہماری تہزیب سے جڑا ہوا ہے یہاں اخلاقی پھوٹ Breach ناگوار سمجھی جاتی ہے اور رہے گی بھی. تشکیک و انکار کی صورت میں اسلاف اور بڑے شعرا کا طرز عمل، برہنہ گوئی کے بجائے پرپیچ اور استعاراتی یا علامتی رہا ہے.مثلاً غالب کا شعر…
کیا کیا خضرنے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی
"کیا کِیا" کے ابہام و استفہام نے شاعر کو برہنہ گوئی کے ارتکاب سے بچا لیا ہے…جہاں جہاں رفیع رضا نے یہ ٹیکنیک استعمال کی ہے وہاں اسکے اشعار تاثیر سے خالی نہیں ..
رفیع رضا کا ایک شعر
تری مٹی مری مٹی یہ ہماری مٹی
ایک بیکار سے بیکار کا اونچا ہونا
یہاں مٹی کے لفظ …اور اسکا اونچا ہونا خوبصورت استعارہ بندی ہے اس کے مقابلے میں توقیر عباس کا نیچے دیا گیا شعر روایتی مگر ہےعمدہ ہے
میری یہ ذات بھی مٹی، میری اوقات بھی مٹی
میں مٹی تھا،میں مٹی ہوں، مجھے مٹی ہی رہنے دو۔
توقیر عباس
چراغ پر رفیع رضا کا یہ شعر جس میں لو کا لزرنا عمدہ استعارہ ہے.
میں سامنے سے اٹھا اور لو لرزنے لگی
چراغ مجھ سے کوئی بات کرنیوالا تھا
نہایت خوبصورت شعر ہے.. خیال کے اختلاف کے ساتھ توقیر عباس کا "چراغ" والا شعر بھی نہایت خوبصورت ہے..چراغوں سے دھواں اٹھنا زبردست استعارہ ہے …
تم نے تو بچھڑنے میں ذرا دیر نہیں کی
کچھ دیر تو اٹھتا ہے چراغوں سے دھواں بھی
استعارہ و علامت اس عصر کے لئے ایسے شعری محاسن ہیں جن میں مقابلہ آرائی (Competition) کی گنجائش نکلتی ہے اور اسکوپ ہے …اور سادہ بیانی کا دائرہ محدود ہوتا جا رہا ہے. نئے مضانین پیدا کرنا اب ہر کسی کے بس کی بات نہیں رہی.لہذا آییندہ استعارہ سازی پر ہی معیار شاعری بھی طے ہوگا. یہاں محض خیال آرائی سے بڑی شاعری ممکن ہی نہیں یاد رہے سب کے لئے معیار غالب ہے نہ کہ کوئی اور….
رفیع رضاکے ایک شعر پر کہیں پہلے تبصرہ کرچکا ہوں …شعر
انسان کی ھر موت پہ مرتا ھے خدا بھی
اچھا نہیں کرتا ھے خود اپنے سے خدا بھی
توضیح:
اگر انسان کو خدا کا شہکار اور اشرف المخلوقات مانا جائے یا پھر بائبل کی کمانڈ کے مطابق God created man on his imgeیا قرآنی نظریہ
نفخۂ روح، اقربیت (نحن اقرب الیہ…) معیت (ھو معکم …)اور احسن تقویم کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو انسان محض انسان نہیں بلکہ نور مطلق کے ظہور کا برج بلند ہے اور امانت خداوندی کا حامل خاص….یقیناً انسان کا مرنا یعنی شہکار کی موت ایک طرح سے اسکے خالق کی نفی کی دلیل شعری ہوسکتی ہے. شعر کی طرفیں مزید کھولی جاسکتی ہیں . پر مغز،پر لطف اور تہہ دار شعر ہوا ہے…
انسان کی ھر موت پہ مرتا ھے خدا بھی
اچھا نہیں کرتا ھے خود اپنے سے خدا بھی
مزید اشعار
میں نے گزارنی تھی محبت میں زندگی
میرا تو سارا وقت ہی مرنے میں لگ گیا
خطا معاف اندھیرا تو پھر اندھیرا ہے
ٹپک رہا ہے لہو آپ کے اجالوں سے
جن کو دعوی تھا شعاعوں کی پرستاری کا
ان کی دہلیز پہ سورج کو مرا پاتا ہوں
وُہی مِنبر، وُہی الفاظ وُہی فتویءِ کُفر
وُہی داڑھی ، وہی جُبے ھیں
مثالیں تیسویں پارے کی کیا کافی نہیں ہیں
خدا بھی قافیوں سے لطف اٹھانے لگ گیا تھا
یا علی کہنے سے پہلے میں بہت مشکل میں تھا
اور مشکل بڑھ گئی ہے یا علی کہنے کے بعد
صاف و شفاف آسماں کو دیکھ کر
گندی گندی گالیاں بکتا ہوں میں
بعض اوقات نہیں ہوتا جدائی کا سبب
پھول ٹہنی کو ہلائے بنا جھڑ جاتا ہے
اٹھا لے گئے وہ جو اٹھا رہے تھے سوال
مگر سوال تو اب تک وہیں پڑا ہوا ہے
حضور تھوڑا ہٹیں زندگی کو رستہ دیں
ادھر سے آتی ہوئی روشنی کو رستہ دیںا
ملنے کو سارا شہر بڑےاحترام سے ملا
پر جو بھی جس جگہ بھی ملا اپنے کام سے ملا
خمار اُس کی مُلاقات کا نہیں جاتا
ضرور اس میں وُہ کوئی نشہ ملا تا ہے
وہ سامنے ہے مگر اس کو چھو نہیں سکتے
بہت عجیب کہانی ہے نارسائی کی
سخت الفاظ، عداوت میں نکل جاتے ہیں
پھر کئی صفحے وضاحت میں نکل جاتے ھیں
بات کرنے نہیں دیتا ھے کوئی خوف ہمیں
سال ھا سال تو لُکنت میں نکل جاتے ہیں
تُو خُود کو باندھ رہا ہے عجیب جدت سے
رضآ تُجھے کوئی اہلِ زُبان کھولے گا
بچا نہیں ھے کنارہ کوئی جُگالی سے
اسی طرف نہیں، اُس پار بھی کلیشے ہے
خدا بناتا ھُوں، پھر اُس کا ڈر بناتا ھُوں
مَیں جتنا نیک ھُؤں ، اُتنا ھی شر بناتا ہوں
تمھارے حق میں کوئی فیصلہ ہُوا ہوگا
جو یہ نظام تمھیں منصفانہ لگتا ہے
تلوار تو ہٹا مجھے کچھ سوچنے تو دے
ایمان لاؤں تجھ پہ کہ جزیہ ادا کروں
میرے اندر تُو فروزاں نہ، ہُوا کر اِتنا
تیرا سایہ میرے باھر نظر آنے لگا ہے
وہیں سے زھر کی شیشی بھی گھورتی ہے مُجھے
دوا نکال کے کھاتا ھُوں جس دراز سے میں
خمار اُس کی مُلاقات کا نہیں جاتا
ضرور اس میں وُہ کوئی نشہ ملا تا ہے
وہ سب نمائشِ ظاھر پہ فخر کرتے تھے
میں جان بوجھ کے حلیہ بگاڑ کر نکلا
ہوا بھی کھیلتی رہتی ھے مجھ سے
سو میں بھی ٹمٹمتاتا ھوں زیادہ
جن کو دعوی تھا شعاعوں کی پرستاری کا
ان کی دہلیز پہ سورج کو مَرا پاتا ہوں
گھنے درخت بزرگوں نے کیوں لگائے نہیں
کہ انکی چھاوں نہیں اور ہمارے سائے نہیں
کربلا ایک طرف ۔ ایک طرف سارا جہان
باقی لاشوں کی بھی کرنی ھے عزاداری مجھے
میں ایک بوڑھی کنواری سے مل کر آیا ہوں
وہ کہہ رہی تھی وہ رشتے کرایا کرتی تھی
ابھی کُچھ روز مَیں سمتوں کا تعین کر لُوں
کون کِس سمت بُلاتا ھُوا لگتا ھے مُجھے
میں اگر زندہ رھا تو میں چلا جاوں گا
میں یہاں سے کبھی مر کر نہیں جانے والا
اپنی سُستی میں یہ ھُشیاری کئے جاتا ھُوں
ھُوں نہیں، جس کی، اداکاری کئے جاتا ھُوں
رفیع رضا