مجھے یاد ہے ۱۴؍مارچ ۱۹۷۴ء کا وہ دن، جب میں فلمساز، ہدایتکار اور مصنف کمال امروہوی سے اُن کے آبائی وطن امروہہ کے اُن کے ذاتی مکان کے آنگن میں انٹرویو کر رہا تھا اور میں نے اُن سے ایک غیرفلمی سا سوال کیا تھا۔ میں نے اُن سے پوچھا تھا… ’’اُردو میں آپ کا پسندیدہ ادیب کون ہے؟‘‘ کمال صاحب نے کہا تھا… ’’میرے نقطہ نظر سے موضوع کے لحاظ سے سب سے اچھا لکھنے والے راجندر سنگھ بیدی ہیں اور ان کی کہانی ’’ایک چادر میلی سی‘‘ ایک غیرمعمولی کہانی ہے۔‘‘ یہ اتفاق ہی ہے کہ میں نے اس وقت تک بیدی صاحب کی طویل کہانی ’’ایک چادر میلی سی‘‘ پڑھی نہیں تھی۔ لہٰذا میںنے اگلے ہی دن پہلی فرصت میں ’’ایک چادر میلی سی‘‘ تلاش کرکے پڑھی اور مجھے لگا کہ میں نے اب تک بیدی کو پڑھا ہی نہیں تھا۔ یوں بھی کسی فنکار کو پڑھ لینا اتنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ مگر ’’ایک چادر میلی سی‘‘ ایک ایسی کہانی ہے کہ اگر بیدی اس کے علاوہ اور کچھ نہ بھی لکھتے تو صرف اسی طویل کہانی سے ادب میں زندہ رہتے۔
راجندر سنگھ بیدی یکم ستمبر ۱۹۱۵ء میں لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد شری ہیرا سنگھ بیدی کھتری سِکھ خاندان کے اور والدہ سیتا دیوی براہمن خاندان کی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیدی کے یہاں رنگ، مذہب، نسل وغیرہ کا کوئی امتیاز نہیں تھا۔ ان کے دوستوں کا ایک وسیع حلقہ تھا جس میں ہر طبقہ، فکر، نسل، رنگ اور مذہب کے لوگ موجود تھے۔ بیدی انتہائی خوش اخلاق اور زندہ دل انسان کا نام تھا۔
۱۹۳۱ء میں انہوںنے ایس۔ جی۔ بی۔ اے خالصہ اسکول، لاہور سے میٹرک اور ۱۹۳۳ء میں ڈی۔ اے۔ وی کالج، لاہور سے انٹر کا امتحان پاس کیا۔ مگر چند ناگزیر وجوہات کی بناپر تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ اُن کے والد کا جلد ہی انتقال ہو گیا اور پورے گھر کی ذمہ داری اُن کے جوان ہو رہے کاندھوں پر آگئی۔ لہٰذا انہوںنے وہیں پوسٹ آفس میں ملازمت اختیار کر لی۔ ۱۹۳۴ء میں ۱۹؍برس کی عمر میں راجندر سنگھ بیدی کی شادی ستونت کور عرف سوماوتی سے ہو گئی۔ اُسی زمانے میں بیدی صاحب نے کہانیاں لکھنی شروع کر دی تھیں۔ ۱۹۴۳ء میں انہوںنے اپنی اس ملازمت سے سبکدوشی اختیار کی اور دہلی میں مرکزی حکومت میں پبلسٹی کے شعبہ میں کچھ دن کام کرنے کے بعد آل انڈیا ریڈیو لاہور میں ملازمت اختیار کرلی۔ تقسیم ہندکے بعد ان کی منتقلی دہلی میں ہو گئی اور ۱۹۴۸ء میں وہ اردو ادیبوں کے ایک وفد میں شریک ہوکر کشمیر گئے۔ شیخ محمد عبداللہ نے راجندر سنگھ بیدی کو جموں وکشمیر ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر کا عہدہ سونپ دیا اور وہاں ان کی کوششوں سے سری نگر ریڈیو اسٹیشن کا قیام عمل میں آیا۔ مگر وہاں بیدی زیادہ عرصہ تک ٹھہر نہ سکے اور ایک سال کے قلیل عرصہ تک کام کرنے کے بعد ۱۹۴۹ء میں انہوںنے کشمیر کو خیرآباد کہا اور دہلی ہوتے ہوئے بمبئی پہنچ گئے۔ اس کے بعد ان کامستقل قیام بمبئی میں ہی رہا۔ ۱۹۶۵ء میں انہیں ناولٹ ’’ایک چادر میلی سی‘‘ کے لئے ساہتیہ اکادمی کے انعام سے نوازا گیا اور ۱۹۷۳ء میں ’’پدم شری‘‘ کے اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔ ۱۹۷۸ء میں انہیں غالب ایوارڈ دیاگیا۔
راجندر سنگھ بیدی کی ادبی زندگی کا آغاز ان کی شادی سے قبل ۱۹۳۲ء میں ہی ہو گیا تھا، ابتداء میں انہوںنے محسن لاہوری کے قلمی نام سے لکھنا شروع کیا اور بعد میں اپنے اصلی نام راجندر سنگھ بیدی کے نام سے باقاعدہ کہانیاں لکھنے لگے۔ اُن کا پہلا افسانہ ’’مہارانی کا تحفہ‘‘ ایک رومانی افسانہ تھا جو ماہنامہ ’’ادبی دنیا‘‘ (لاہور) میں شائع ہوا تھا۔ ۱۹۳۳ء کے بعد بیدی کی کہانیوں میں رومانیت کے بجائے حقیقت نگاری کا رنگ اُبھرکر سامنے آیا اوران کی کہانی فکر کی گہرائیوں میں سنجیدگی کے ساتھ اُترتی چلی گئی۔ بیدی کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’دانہ ودام‘‘ ۱۹۳۶ء میں ’’مکتبہ اردو، لاہور‘‘ سے شائع ہوا۔ اس میں کل چودہ افسانے شامل تھے۔ ’’گرہن‘‘ ان کی کہانیوں کا دوسرا مجموعہ تھا جو ۱۹۴۶ء میں شائع ہوا تھا۔ اسی سال ان کے ڈراموں کا مجموعہ ’’سات کھیل‘‘ بھی شائع ہوکر مقبول ہوا۔ ۱۹۴۹ء میں کہانیوں کا تیسرا مجموعہ ’’کوکھ جلی‘‘ شائع ہوا۔ ۱۹۶۴ء میں ’’ہاتھ ہمارے قلم ہوئے‘‘ اور ۱۹۸۲ء میں ’’مکتی بودھ‘‘ بھی ان کی کہانیوں کے مجموعے تھے۔ بیدی کی مشہور تخلیق ناولٹ ’’ایک چادر میلی سی‘‘ مکتبہ جامعہ، نئی دہلی سے ۱۹۶۲ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کے علاوہ کہانیوں کا ایک مجموعہ ’’اپنے دُکھ مجھے دے دو‘‘ بھی مکتبہ جامعہ، نئی دہلی شائع ہوا۔ انہوںنے کئی یک بابی ڈرامے بھی لکھے جو ۱۹۴۶ء میں ’’سات کھیل‘‘ اور ۱۹۴۳ء میں ’’بے جان چیزیں‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں منظر عام پرآئے۔
۱۹۷۷ء میں راجندر سنگھ بیدی کی بیوی ستونت کور کا انتقال ہو گیا اور محفلوں کی رونق، پُرمزاح راجندر سنگھ بیدی بجھ سے گئے۔ دو سال بعد ہی ۱۹۷۹ء میں اُن پر فالج کا حملہ ہوا اور کافی لمبے عرصے تک وہ چلنے پھرنے سے بھی معذور ہو گئے۔
بیدی صاحب نے کئی فلمیں بھی تخلیق کیں جن میں ’’پھاگن، گرم کوٹ، دستک‘‘ اور ’’رنگولی‘‘ مشہور اور بے مثال ہیں۔ مگر انہوںنے کبھی بھی کمرشیل بننے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی کبھی کاروباری فلموں کے چکر میں پڑکر اپنے اندر کے ادیب کو مرنے دیا۔
۱۹۸۱ء کے فروری ماہ میں جب بمبئی کے بنکنگ روڈ واقع نریندر بیدی کے مکان پر میری ان سے پہلی ملاقات باقر مہدی کے توسط سے ہوئی تو اس وقت بیدی صاحب کافی بیمار تھے۔ مگر اس حالت میں بھی انہوںنے اپنی روایت کے مطابق خاصی خاطر تواضع کی۔ جب میں نے ان سے نئے افسانے کے مستقبل کے بارے میں سوال کیا تو انہوںنے نہایت اطمینان سے جواب دیا تھا… ’’میں افسانے کے مستقبل سے قطعی نااُمید نہیں ہوں۔ ادب میں تجربے ہوتے رہے ہیں اور یہ ایک اچھی علامت ہے۔‘‘
راجندر سنگھ بیدی بے حد زندہ دل انسان تھے۔ ان کی زندگی میں بہت سے نشیب وفراز آئے مگر بیدی نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کیا۔ ایک بار ایک ضرورتمند ان کے گھر گیا اور ڈاکٹر کا نسخہ دکھاتے ہوئے بیدی سے کہا کہ آپ روپے پیسے سے میری مدد نہ کریں بلکہ میرے شدید بیمار بیٹے کے لیے دوائیں دلوا دیں۔ بیدی نے اپنی کار میں اس کو بٹھایا اور کئی دُکانوں پر دوا تلاش کرنے کے بعد نسخے میں لکھی ساری دوائیں خریدکر اس کو دلوا دیں اور بعد میں گاڑی ایک کنارے لگاکر رونے لگے اور اتنا روئے کہ ان کی ہچکی بندھ گئی۔ بعد میں انہوںنے اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے والد کی موت بھی اسی مرض میں ہوئی تھی جس کی دوائیں انہوںنے اُس ضرورتمند کو دلائی تھیں۔ اس طرح بیدی کی پُرمزاح شخصیت کے اندر ایک نہایت دردمند دل بھی دھڑکتا تھا۔
کشمیر سے آل انڈیاریڈیو کی ملازمت ترک کرکے راجندر سنگھ بیدی جب بمبئی کی فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے تو وہاں کا ہر شخص اُن کی انسان دوستی سے متاثر ہوکر اُن کا گرویدہ ہوتا گیا۔ کافی عرصہ تک وہ ملک راج آنند کے یہاں ٹھہرے اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے زیادہ تر ان لوگوں سے رسم وراہ استوار ہوئی جو کمیونسٹ تحریک سے بھی عملی طور پر وابستہ تھے۔ بعد میں جب ان کا اپنا گھر ہو گیا تو وہاں کئی روپوش کمیونسٹوں کو پناہ بھی ملی۔ کیفیؔ اعظمی اور مجروحؔ سلطانپوری ان کے یہاں مہینوں قیام پذیر رہے۔ پھر اُن پر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان کے اپنے ہی بڑے بیٹے نے گھر چھوڑ دیا اور ان کے اپنے گھر کی دیواریں بھی ان کے لیے اونچی ہوتی چلی گئیں۔ وہ اکثر دوستوں کو ملنے اور دعوت وغیرہ پر بھی گھر بلانے کے بجائے ہوٹلوں میں ملنے لگے اور اپنی زندگی کی اس صورت حال پر خود ہی حسرت زدہ رہتے۔ اس درمیان اُن کو بدنامی بھی اُٹھانی پڑی اور فلم ’’دستک‘‘ (۱۹۷۰ء) کی تکمیل کے دوران اداکارہ ریحانہ سلطانہ کے ساتھ اُن کے تعلقات کو لے کر کافی چرچے ہوئے۔ فلم بڑی خوبصورت بنی، کامیاب بھی ہوئی مگر چند دنیاوی آسائشوں کے علاوہ بیدی کے ہاتھ کچھ نہ لگا۔ بیدی نے سوچا کہ ایک آخری فلم مارکیٹ کے حساب سے عام روش کے مطابق بنائیں اور سب کچھ سمیٹ کر پنجاب کی طرف نکل جائیں۔ مگر بیدی اپنی آخری سانسوں تک ایسا نہ کر سکے۔ وہ راجندر سنگھ بیدی جو صرف پانچ روپے اپنی جیب میں لے کر بمبئی آئے تھے اور آہستہ آہستہ فلمی رائیٹر کے طور پر اپنی حیثیت منوائی تھی اور اُس کے بعد خود فلمساز بھی بن گئے تھے، مگرکچھ جذباتی فیصلوں کی وجہ سے اور اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر انہوںنے خود کو برباد بھی کیا۔ اُن کی ملٹی اسٹارر فلم ’’پھاگن‘‘ فلاپ ہو چکی تھی۔اس لیے اب کوئی بھی اُن کی فلم پر پیسہ لگانے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔ حالانکہ اُن کا بڑا بیٹا نریندر بیدی مصالحہ فلمیں بنانے والے ہدایتکار کے طور پر کامیاب ہو چکا تھا، مگر اپنے باپ کی مدد کرنے کے لیے وہ بھی آگے نہیں آیا۔ تب بیدی اپنی جوہو والی معمولی جھونپڑی میں ہی رہتے تھے۔ ان کی بیوی سے بھی ان کے اختلافات منظر عام پر آچکے تھے اور کئی بار گھر سے باہردفتر میں بھی جھگڑے ہو چکے تھے۔ حالانکہ بعد میں ان کا بیٹا نریندر بیدی ان کے پاس واپس لوٹ آیا۔ مگر ان کا تعلق ایک فلم رائیٹر کے طور پر ہی بنا رہا۔ نریندر بیدی دولت کمانے کے چکر میں کمرشیل سنیما کی طرف زیادہ متوجہ تھا اور فارمولہ فلموں کے ذریعہ کامیابی بھی حاصل کر چکا تھا۔ مگر کم عمری میںہی کینسر کے موذی مرض سے ۱۹۸۲ء میں نریندر بیدی کا انتقال ہو گیا اور اس طرح راجندرسنگھ بیدی اس صدمے سے ٹوٹ کر رہ گئے تھے۔
راجندرسنگھ بیدی کی فلمی زندگی کا آغاز لاہور میں ہی ہو گیا تھا جب ایک فلم رائٹر کے طور پر مہیشوری فلمز کی ’’کہاں گئے‘‘لاہور میں بنی۔ اس کے بعد بیدی بمبئی آگئے تو انہوںنے تقریباً چالیس فلموں میں ڈائیلاگ لکھے۔ ان میں ’’بڑی بہن، داغ، مرزا غالب،دیوداس، ابھیمان، مدھومتی،انورادھا‘‘ اور ’’انوپما‘‘ کے نام قابل ذکر ہیں۔ فلم’’ساز، انورادھا، انوپما، میم دیدی، ستیہ کام‘‘ اور ’’ابھیمان‘‘ جیسی عمدہ فلمیں بیدی کے ہی زور قلم کا نتیجہ ہیں۔ فلم ’’مسافر،انورادھا‘‘ اور ’’انوپما کے لئے بیدی کو صدرِ جمہوریہ کا گولڈ اور سلور میڈل بھی عطا کیا گیا۔ اُن کی ہدایت میں بنی پہلی فلم ’’دستک‘‘ کو بھی صدر جمہوریہ کا ایوارڈ ملا۔
راجندر سنگھ بیدی بلا شبہ اردو افسانے اور ہندوستانی سنیما کے سلسلے میں ایک قدرآور شخصیت کا نام ہے۔ انہوںنے جس طرح اپنے کرداروں کو افسانے کے ذریعے برتا ہے، ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ چاہے وہ لاجونتی ہو، یا ’’رحمن کے جوتے‘‘ والا رحمن ہو۔ ان کا ہر کردار اپنے آپ میں مکمل ہے، اپنی تمام تر نفسیات کے ساتھ گہرائی اور گیرائی کے ساتھ۔ فلموں سے وابستہ ہوتے ہوئے بھی انہوںنے اردو ادب کی چادر کو میلا نہیںہونے دیا۔
راجندر سنگھ بیدی علم نجوم میں بھی یقین رکھتے تھے اور انہوںنے اپنی جنم کنڈلی بھی بنوائی ہوئی تھی۔ ان کی زندگی میں کئی باتیں اتفاقیہ طور پر جنم کنڈلی میں درج باتوں کے مطابق ہوئیں۔ جیسے ان کی زندگی میں بیٹے کی موت، مگر ان کی کنڈلی کے مطابق ان کو ۷۷؍برس تک جینا تھا۔ جبکہ اُن کے انتقال کے وقت اُن کی عمرصرف ۶۹؍برس کی تھی۔ ۱۱؍نومبر ۱۹۸۴ء کوبمبئی میں راجندر سنگھ بیدی کا انتقال ہوا۔
آج جسمانی طور پر بیدی ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں مگر ان کی روح آج بھی ان کے افسانوں کے کرداروں کے روپ میں ہمارے سامنے موجود ہے اور اب مجھے ایسا لگتا ہے کہ بیدی ایک نہیں، کئی تھے۔صرف جسم والا بیدی ہم سے بچھڑا ہے اور وہ بیدی جو اُن کی کہانیوں کے کرداروں میں موجود ہے، وہ بیدی کی آتماہے اور آتما کبھی نہیں مرتی، آتما امر ہوتی ہے۔
“