ری کنسٹراکٹو Reconstructive یا انسانی اعضاء کی تعمیر نو کی سرجری ایک ایسی سرجری ہے جو کسی بیماری یا طبی حالت کی وجہ سے خراب جسم کے اعضاء میں معمول کی ظاہری شکل اور اسکے کام کو بحال کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔اور بدلے میں اس خراب اور بگڑے ہوئے عضو کی جگہ ایک مصنوعی عضو لگادیا جاتا ہے، جو بالکل اصلی عضو کی طرح کام کرتا ہے۔
تعمیر نو کی سرجری ایک نسبتا نئی اصطلاح ہے جو کہ خاص تربیت، طبی مہارت، اور معاوضے کے مضمرات کے ساتھ کسی مریض کے ساتھ کی جاتی ہے۔ اسے تاریخی طور پر پلاسٹک سرجری کا مترادف کہا جاتا ہے۔ کسی سرجن کی تعمیر نو سرجری کی تربیت کے سلسلے میں، پلاسٹک سرجری ایک تسلیم شدہ طبی خصوصیت ہے اور ایک ایسا سرجن امریکن بورڈ آف پلاسٹک سرجری کی طرف سے “بورڈ سے تصدیق شدہ” پلاسٹک سرجن ہو سکتا ہے۔ دونوں سرجریز میں یعنی تعمیر نو پلاسٹک سرجری اور کاسمیٹک پلاسٹک سرجری میں تھوڑا بہرحال فرق ہوتا ہے۔ تعمیر نو پلاسٹک سرجری جسم کے ان حصوں کا علاج کرتی ہے جو جمالیاتی طور پر یا فنکشنل طور پر انفیکشن، ٹیومر، بیماری، پیدائشی نقائص، کسی عضو یا حصے کی بے ترتیب بڑھوتری، یا کسی حادثے سے متاثر ہوتے ہیں اور انکی از سر نو مرمت کی جاتی ہے ۔ کاسمیٹک پلاسٹک سرجری جسم کے حصوں کو بڑھاتی یا نئی شکل دیتی ہے، اور انکو مزید خوبصورت بناتی ہے۔
تاہم، تعمیر نو کی سرجری کسی سرجن کی علیحدہ سے کوئی خاصیت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی بورڈ سے تصدیق شدہ تعمیر نو کے سرجن نہیں ہوتے ہیں، ایک کاسمیٹک یا پلاسٹک سرجن کے برعکس۔ مطلب یہ یہ سرجری، ایک عام سرجن بھی کرسکتا ہے، جسکے لیے علیحدہ سے ٹریننگ لینے کی ضرورت نہیں۔
عموما تعمیر نو سرجری اس وقت کی جاتی ہے جب:۔
کسی انسانی عضو کے معمول کے کام کو کو بہتر یا بحال کریں، اگر کوئی جیسے پیدائشی نقص ہوگیا ہو یا پھر کسی حادثے کی وجہ متاثر ہو۔
بیماری یا کسی خراب حالت کی وجہ سے “غیر معمولی” یا “خراب” جسم کے اعضاء کو معمول کی شکل میں بحال کرنا
مریض کے معیار زندگی کو بہتر بنائیں، خصوصا جب وہ اپنے ان اعضاء سے کوئی نفسیاتی، جسمانی یا پھر مالی الجھن کا شکار ہو۔
عموما اس طرح کی تمیر نو سرجری کچھ بائیو میٹرئیل کے ساتھ کی جاتی ہے، جو ڈاکٹر اور سرجن کی منظوری سے مریض کے جسم پر اپلائی کیے جاتے ہیں۔
بائیو میٹریلز، اپنی آسان ترین شکل میں، پلاسٹک کے یا کسی دوسرے انسانی عضو کے بنے ہوئے امپلانٹس ہیں جو جسم کے خراب حصوں کو درست کرنے یا تبدیل کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن نئی اور بہتر ٹیکنالوجی کی وجہ سے دوسری جنگ عظیم کے بعد تک حیاتیاتی مواد کو تعمیر نو کے مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا گیا تھا اور جسم کے خراب حصوں کو درست کرنے کی اس وقت زبردست ضرورت تھی جو کہ اصلی انسانی اعضاء کی ٹرانسپلانٹیشن کی جگہ لے سکتے تھے۔
لیکن اس تعمیر نو کی سرجری میں اس عمل کی سائنسی اور طبی تحقیق شامل ہونا ضروری ہوتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ بائیو میٹریلز ، حیاتیاتی طور پر اس انسانی جسم سے مطابقت پذیر ہیں جس پر انکو لگایا جارہا ہو اور یہ کہ وہ ان اجزاء کے مکینیکل اور کام کرنے والے کردار کو سنبھال سکتے ہیں جنہیں وہ تبدیل یا امپرو کر رہے ہیں۔ لہذہ اس طرح کی سرجری سے پہلے اچھی طرح چھان پھٹک کی جاتی ہے کہ یہ امپلانٹس ، میزبان انسانی جسم قبول کر بھی سکتا ہے یا نہیں۔ اور اگر نہیں تو کیسے ان سے بہتر امپلانٹس کا استعمال کیا جائے تاکہ مریض کی جسمانی خامیاں دور کی جائیں۔
ایک کامیاب انسانی یا کسی اور جانور کی مصنوعی اعضاء کی امپلانٹیشن ایک ایسی ٹیم کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے جو نہ صرف اس مسئلے کے عضویاتی، جسمانی، بائیو کیمیکل، اور پیتھولوجیکل پہلوؤں کو سمجھتی ہو بلکہ بائیو انجینیئرنگ کو بھی سمجھتی ہو۔ سیلولر اور ٹشو انجینئرنگ تعمیر نو کے طریقہ کار کے لیے ان تمام فیلڈز کو جاننا بہت ضروری ہے، تاکہ مستقبل میں مزید کسی پیچیدگیوں سے بچا جائے۔
اس طرح کی سرجری کافی عرصے سے امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں جاری ہے، جس میں پیدائشی نقائص کے حامل بچوں کی خرابیوں کو دور کیا جاتا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ شہرت اس وقت اسطرح کی سرجری کو اس وقت حاصل ہوئی جب ایک افغان خاتون، عائشہ بی بی کی کٹی ہوئی ناک اور کان کی تعمیر نو کی کامیاب سرجری کی گئی ، جس سے اسکے عیب چھپ گئے۔عائشہ پر یہ ظلم اسکے سابق شوہر اور چند سسرالی رشتہ داروں نے مل کر کیا تھا۔ اسکی ناک اور کان کاٹ کر ان لوگوں نے عائشہ کو گھر سے باہر نکال دیا تھا، جہاں سے وہ پھرتے پھراتے ایک امریکی میڈیکل کیمپ میں ڈاکٹرز کے ہاتھ لگی، جو اسکو اپنے ساتھ امریکہ لے گئے اور اسکی ری کنسٹرکشن سرجری کی۔ یہ واقعہ 2010 کا ہے، جب افغان جنگ کے دوران امریکہ افغانستان پر قابض تھا۔
عائشہ کی پیشانی کو کئی مہینوں کے دوران کافی حد تک پھیلایا گیا تاکہ اسکی کٹی ہوئی ناک کی ری کنسٹرکشن اور ایک نئی ناک بنانے کے لیے کافی ٹشو مل سکے۔ اس کی نئی ناک اور کان کا ڈھانچہ عائشہ کے اپنے جسم سے کارٹلیج کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا تھا اور اس کے بائیں ہاتھ کے ٹشو کو اندرونی استر کے لیے بھی استعمال کیا گیا تھا۔ عائشہ کی کل 12 سرجری مکمل ہوئیں۔ 2014 میں اے بی سی نیوز نے عائشہ کو دوبارہ دیکھا اور انکشاف کیا کہ کس طرح اس کی نئی ناک نے اس کی شکل بدل دی ہے۔اب وہ اپنے نئے جسمانی اعضاء کے ساتھ بہت خوش ہے۔
اس مضمون کی تیاری ویکی پیڈیا انگریزی کے چند آرٹیکلز سے کی گئی ہے۔
علامہ اقبال يا اکبر علی ايم اے اصل رہبر کون؟
کسی بھی قوم کا اصل رہبر کون ہوتا ہے خواب بیچنے والا شاعر يا حقیقت کو سامنے رکھ کر عملیت...