(Last Updated On: )
2 اپریل 1972 ۔۔۔ ویتنام جنگ اپنی تمام تر شدتوں کے ساتھ جاری تھی کہ جب ا°مر°یکی فضائیہ کا ایک “ڈگلس بی-66” بمبار طیارہ جنوبی ویتنام کی فضاؤں میں ایک معمول کے مشن پر محوِ پرواز تھا کہ اچانک جہاز کے ریڈار وارننگ سسٹم نے جہاز کی طرف تیزی سے بڑھ رہے خطرے کی نشاندہی کی ۔۔۔ اور یہ خطرہ تھا شمال ویتنامی فوجی کی طرف سے داغا گیا ایک S-75 طیارہ شکن گائیڈڈ میزائل تھا ۔۔۔ حسبِ سابق ڈگلس طیارے نے میزائل کو ڈاج کرنے کے لیے تیزی سے اپنا رخ بدلا۔۔۔لیکن۔۔۔ یہ عملہ اس بات سے بےخبر تھا کہ اب کی مرتبہ یہ میزائل نزدیک سے داغا گیا ہے اور اسے ریڈار گائیڈنس کے بجائے وژیولی فائر کرکے ریڈار گائیڈنس کو بعد میں متحرک کیا گیا ہے۔۔۔ چنانچہ جب تک وارننگ ملی تب تک میزائل طیارے کے انتہائی نزدیک پہنچ چکا تھا ۔۔۔ چند سیکنڈ بعد جہاز ایک زوردار دھماکے سے لرز اٹھا اور جہاز کا ٹیل سیکشن زیرہ ریزہ ہوگیا ، لڑکھڑاتے جہاز نے آگ پکڑ لی۔۔۔کمانڈر نے عملے کے تینوں افراد کو ایجکٹ کرنے کا حکم دیا تاہم پہلے شخص کے ایجکٹ کرتے ہی ایک اور طیارہ شکن میزائل جہاز سے ٹکرایا اور فضا میں ہی جہاز کے پرخچے اڑ گئے۔۔۔ زندہ بچنے والا واحد ہواباز پیراشوٹ کے زریعے زمین کی طرف بڑھا ۔۔۔ اور نیچے کی زمین باضابطہ طور پر ایک محاذِ جنگ تھی۔
اور یہ ہواباز کوئی معمولی شخص نہ تھا ۔۔۔
۔
زندہ ہواباز :
یہ تھے 53 سالہ ” لیفٹننٹ کرنل آئیسل ہمبلٹن ” جوکہ ا°مر°یکی فضائیہ کے سینئر ترین ائیر آفیسرز میں سے ایک ہونے کے ساتھ ساتھ ویتنام جنگ میں ٹیکٹیکل اور الیکٹرانک وارفیئر کے سینئیر ترین ایکسپرٹ تھے ۔۔۔ دوسری جنگ عظیم میں حصہ لے چکے ہمبلٹن ا°مر°یکی جوہری ہتھیاروں کے شعبہ میں بھی کام کرچکے تھے ان دنوں 42ویں ٹیکٹیکل وارفیئر سکوارڈن کے چیف نیوی گیٹر کے طور پر تعینات تھے ۔
ہمبلٹن اپنی ریٹائرمنٹ سے محض چند ماہ دور تھے جب ان کے جہاز کو مارگرایا گیا ۔
اس قدر سینئیر افسر جو بڑی تعداد میں حساس ترین معلومات سے بھی آگاہ ہو اس کا دشمن کے ہاتھ لگ جانا نہ صرف ا°مر°یکہ کے لیے بہت بڑا دھچکا ثابت ہوتا ، بلکہ اس بات کے غالب امکانات تھے کہ گرفتاری کے بعد انہیں روس یا چین کے حوالے کر دیا جاتا ۔۔۔ اتنا ہی نہیں ان کی رہائی کے عوض شمالی ویتنامی حکومت ا°مر°یکہ سے کوئی بھی مطالبہ منوا لینے کی پوزیشن میں آ جاتی ۔
اب ا°مر°یکہ کے لیے ہمبلٹن کو ریسکیو کرنا اور بحفاظت واپس پہنچا دینا ازحد ضروری تھا۔۔۔
۔
نو فائر زون :
طیارہ تباہ ہوتے اور پیراشوٹ کی مدد سے کودتے ہی ہمبلٹن نے وائرلیس کے زریعے اپنے بچ جانے کی اطلاع کردی اور ان فی الفور کے ریسکیو پر کام شروع کردیا گیا ۔
سب سے پہلے ہمبلٹن کے اترنے کے مقام جوکہ ” کام لو ” Cam Lộ تھا میں کئی مربع میل کے رقبے کو 24 گھنٹے کے لیے نو فائر زون قرار دے دیا یعنی اس پیرامیٹر میں کوئی فضائی حملہ یا آرٹلری شیلنگ کی ممانعت کر دی گئی تاکہ غلطی سے ہمبلٹن ہی نشانہ نہ ںن جائیں۔
لیکن۔۔۔۔ہائی کمان کے اس فیصلہ بےانتہا بھیانک اثرات کا حامل ثابت ہوا۔
ہوا کچھ یوں کہ ٹھیک انہی دنوں میں شمالی ویتنام کی فوج نے جنوبی ویتنام پر جنگ کا اب تک کا سب سے بڑا حملہ بنام ” ٹیٹ اوفینسو” شروع کررکھا تھا اور اس روز شمال ویتنامی فوج یعنی NVA کے 30 ہزار سپاہی ” کام لو پل” پر قبضہ کرنے کے لیے زبردست پیش قدمی کررہے تھے اور ہمبلٹن ٹھیک محاذِ جنگ کے اندر اترے تھے ۔۔۔۔
جنگ میں ایک ایک لمحہ اور ایک ایک منٹ بیحد قیمتی ہوتا ہے اور ایک غلطی پوری جنگ کا پانسہ بھی پلٹ سکتی ہے اور ایسی ہی غلطی ا°مر°یکی ہائی کمان نے ‘کام لو’ “نو فائر زون” قائم کر کے کی کیونکہ اب 30 ہزار کی شمال ویتنامی فوج جو اس مقام پر متحارب تھی اسے 24 گھنٹے کے لیے ہر طرح کے فضائی حملوں اور آرٹلری شیلنگ سے ریلیف مل چکی تھی اور ان 24 گھنٹوں کو انہوں نے ناصرف بیسیوں اہم سٹرٹیجک مقامات پر قبضے اور کئی ہزار جنوب ویتنامی فوجیوں کو قتل کرنے میں صَرف کیا بلکہ ساتھ ہی موقعے کا فایدہ اٹھاتے ہوئے پورے علاقے میں جا بجا طیارہ شکن گنوں اور توپخانے کا جال بچھا دیا ۔۔۔ آنے والے دنوں میں یہ 24 گھنٹے ا°مر°یکی و جنوب ویتنامی افواج کے لیے نہ ختم ہونے والا سردرد بن جانے کو تھے ۔
ہمبلٹن کے اترنے کی اطلاع ملتے ہی فی الفور ا°مر°یکی فضائیہ کا 1 کوبرا گن شپ ہیلی کاپٹر اور 1 عدد UH-1 ہیلی کاپٹر کو ان کے ریسکیو کے لیے روانہ کردیا گیا ۔۔۔ لیکن جیسے ہی ہر دو ہیلی کاپٹرز جائے وقوعہ کے نزدیک پہنچے تو زمین کی طرف سے ان پر طیارہ شکن گنز کی گولیوں کی بارش ہوگئی ، دونوں ہیلی کاپٹرز کو کئی گولیاں لگیں ۔۔۔ کوبرا ہیلی کاپٹر کے پائلٹ نے مخدوش حالات میں اپنے ہیلی کاپٹر کو جنگی زون سے دور لے جانا چاہا تاہم چند کلو میٹر دور لے جاکر اسے ہنگامی حالت میں لینڈ کرنا پڑ گیا ۔۔۔ لیکن UH-1 ہیلی کاپٹر موقعے پر زمین بوس ہوگیا اس کے عملے میں سے 3 افراد موقعے پر مارے گئے جبکہ چوتھے کو شمال ویتنامی فوج نے گرفتار کرلیا۔
صاف ظاہر تھا کہ عام نوعیت کے ہیلی کاپٹرز کے زریعے یہ ریسکیو آپریشن نہیں سرانجام دیا جاسکتا ۔۔۔ چنانچہ اب کی بار 2 عدد خصوصی نوعیت کے Sikorsky MH-53 ہیلی کاپٹرز کو بھیجنے کا قصد کیا گیا ۔۔۔ موٹے اور مظبوط آرمر سے لیس یہ 88 فٹ لمبا اور 25 فٹ بلند ہیلی کاپٹر طیارہ شکن گولیاں لگنے کے باوجود پرواز برقرار رکھنے کی صلاحیت کا حامل ہونے کے علاؤہ طاقتور M2 براوننگ گن اور M134 مشین گنوں سے بھی لیس تھے۔۔۔
دونوں ہیلی کاپٹرز کو 4 جنگی طیاروں کے ساتھ روانہ کردیا گیا۔
ہر دو ہیلی کاپٹرز جب ہمبلٹن کے روپوش مقام کے نزدیک پہنچے تو ۔۔۔ کچھ نہ ہوا ۔
لیکن جیسے ہی پہلا ہیلی کاپٹر ہمبلٹن کو اٹھانے کے لیے زمین کے نزدیک ہونے لگا تو جنگل کی فضا شدید نوعیت کی تڑتڑاہٹوں سے گونج اٹھی ۔۔۔ ہیلی کاپٹرز فوری طور پر طیارہ شکن گنز کا نشانہ بن گیا اور ڈیمج اتنا شدید تھا کہ پائلٹ نے فوراً ہیلی کاپٹر کو جنگی زون سے واپس موڑ لیا ۔۔۔ دوسرا ہیلی کاپٹر ہمبلٹن کی موجودگی کے مقام سے صرف 100 میٹرکے فاصلے پر تھا کہ جب اسے طیارہ شکن گن کی ایک زبردست باڑ لگی ۔۔۔ ڈیمج کی شدت کے پیش نظر دوسرے ہیلی کاپٹر کے پائلٹ نے بھی اپنے ہیلی کاپٹر کا رخ جنگی زون سے دور کی طرف موڑ لیا۔
لیکن۔۔۔۔
اسی وقت زمین سے ایک طیارہ شکن میزائل فضا میں بلند ہوا اور ایک خوفناک دھماکے نے ویتنام کی فضاؤں کو کانپنے پر مجبور کردیا ۔
اس طیارہ شکن میزائل نے ایک V-10 طیارے کو چاٹ لیا تھا جو ان ہیلی کاپٹرز کے ساتھ آیا تھا ۔۔۔ تباہ شدہ طیارے کے دونوں پائلٹس پیراشوٹ کی مدد سے کود گئے ۔۔۔ تاہم زمین پر اترتے ہی ایک پائلٹ کو NVA نے گرفتار کر لیا جبکہ دوسرا پائلٹ ” لیفٹننٹ کلارک” جنگل میں روپوش ہو جانے میں کامیاب ہوگیا۔۔۔۔
اب ا°مر°یکیو°ں کے سامنے 1 کے بجائے 2 پائلٹس کو ریسکیو کرنے کا ٹاسک تھا اور دونوں پائلٹس ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر تھے ۔۔۔۔
۔
اب تک سب سے بڑا مسئلہ جنگل کے چپے چپے پر نصب شمال ویتنامی فوج کی طیارہ شکن گنیں اور توپیں تھیں جو کسی بھی ہیلی کاپٹر کو نزدیک نہیں جانے دے رہی تھیں ۔
چنانچہ اگلے روز یعنی 4 اپریل کو ا°مر°یکی فضائیہ نے ان طیارہ شکن گن پوزیشنز کے خاتمے کے لیے ایک بڑا فضائی حملہ ترتیب دیا جس میں 10 عدد “A-10 سکائی ریڈر” طیارے شامل تھے ۔۔۔ ویتنامی طیارہ شکن گنرز نے 10 میں سے 8 طیاروں سکائی ریڈر طیاروں کو کامیابی سے نشانہ بنا کر ڈیمج کردیا اور وہ طیارے اگلے کئی ماہ کے لیے جنگ سے باہر ہوگئے ۔
۔
5 اپریل کو موسم سخت ناسازگار اور ابرآلود تھا اس لیے مزید کوئی ریسکیو مشن نہیں روانہ کیا جاسکا ۔
6 اپریل کو ویتنامی پوزیشنز پر کئی گھنٹے کی تباہ کن بمباری کے بعد شام 3 بجے ا°مر°یکی فورسز نے ہمبلٹن کو ریسکیو کرنے کے لیے 2 عدد “سرکوسکی MH-53” ہیلی کاپٹرز پر مشتمل ایک اور ریسکیو ٹیم کو مقررہ مقام کی طرف روانہ کیا ۔
جس وقت ہیلی کاپٹرز مقررہ پوائنٹ کی طرف محوِ سفر تھے اس وقت فضا میں 4 عدد سکائی ریڈر طیارے کئی گھنٹے سے وہاں منڈلا رہے تھے اس نیت سے کہ اول تو اس مقام پر ویتنامی طیارہ شکن مشین گنزر کی طاقت اور پوزیشنز کو جانچ لیا جائے ، انہیں اندھادھند ایمونیشن ضائع کرنے پر مجبور کیا جائے اور موقع دیکھ کر ان کا صفایا کردیا جائے۔۔۔۔لیکن۔۔۔ کافی دیر تک جنگل سے ان طیاروں پر کوئی قابلِ ذکر حملہ نہ کیا گیا تو ان کی طرف سے ہیلی کاپٹرز کو ” آل کلیئر” کا سگنل مل گیا ۔۔۔ پہلا ہیلی کاپٹر جسے ایک سینئر ترین پائلٹ ” کیپٹن پیٹر چیپمین” اڑا رہے تھے ہمبلٹن کے روپوشی کے مقام کے نزدیک ترین پہنچا اور اس نے وائرلیس پر ہمبلٹن کو دھویں کا سگنل دینے کو کہا اور بتدریج اپنی بلندی کم کرنے لگا۔۔۔۔ لیکن وہی لمحات تھے کہ اب تک خاموش جنگل طیارہ شکن گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونجنے لگا ، نچلی پرواز کررہے ہیلی کاپٹر کو بھاری تعداد میں گولیاں لگیں ، ہیلی کاپٹر نے سیکنڈوں میں آگ پکڑ لی اور چند لمحے بعد ایک بھیانک نوعیت کے دھماکے نے جنگل کے طول و عرض کو ہلا کے رکھ دیا۔۔۔۔ چیپمین کا ہیلی کاپٹر فضا میں ہی ریزہ ریزہ ہوگیا تھا ۔۔۔۔ چیپمین سمیت 6 کے 6 افراد مارے گئے۔
ا°مر°یکی تاریخ کے سب سے تباہ کن اور مہنگے ریسکیو آپریشن کا نتیجہ کیا نکلا۔۔۔۔ جانیے اگلے حصے میں ۔
شیئر کرنا مت بھولیے۔۔۔۔
#ستی
https://web.facebook.com/photo/?fbid=643984076855626&set=a.111144573472915