(Last Updated On: )
علامہ اسلم طاہر القادری
رَسمی اظہار بالکل نہیں ہے بلکہ واقعتا سید فاروق القادری ’’ہنداسلامی تہذیب‘‘ کے گل سر سبد تھے، کچھ برس نہ سہی آزادی کے بہت بعد تک، زوال پذیر یا خستگی سے دو چار ثقافت کا ایک گہوارہ یا دبستان سابق ریاست بہاولپور رہی ہے۔ میرے اس تعزیتی اظہاریے کا موقع اسی مردم خیز خطہ کے مکین سید فاروق القادری ہیں جو گڑھی اختیار خاں تحصیل خان پور ضلع رحیم یار خان کے معروف سید خانوادہ کے چشم و چراغ تھے۔آپ ۱۳جون ۲۰۲۰ء کو اس جہانِ فانی سے دائم آباد پہنائیوں میں جا بسے۔ سندھ عالم اسلام میں ہسپانیہ سے کم اہم نہیں ہے۔ سید فاروق القادری کے اجداد کا تعلق تھا جو پیرانِ پیر سید القادر گیلانی البغدادی کے خلفاء میں سے تھے۔
امیر بہاول پور کی مردم شناسی کے سبب دو صدیوں سے زائد عرصہ ہوا، آ کر روہی کی ثقافت اور تمدن کا حصہ بن گئے۔ سرائیکی وسیب اصلاً معارف بروری کے لیے ایک uncleus کا درجہ رکھتا ہے۔ یوں اس نواح میں کتاب و سنت کے دامن میں پوشیدہ معارف و اقدار کی اشاعت اور نگہداشت خانقاہی ادارتی سلسلے کے ساتھ کرتے چلے آئے اور یہ سلسلہ بھی پوری آب و تاب سے قائم ہے۔ ستر(۷۰)کی دہائی میں جامعہ عباسیہ جو درس نظامی کے نصاب کی اساس پر قائم تھا، کو مغربی پاکستان اسمبلی کے ایکٹ کی روشنی میں ایک چارٹر یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ اس اقدام سے اس جامعہ کو، جامعہ ازہر مصر کے سے اداراتی ڈھانچے میں متشکل کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔ اتر پردیش کے علمی سادات خانوادے کے مفسر قرآن ڈاکٹر حامد حسن بلگرامی پہلے وائس چانسلر ہوئے اور حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی اس عہد کی بے حد ممتاز علمی شخصیت تھے اور ان کے ساتھ ساتھ مولانا شمس الحق افغانی بھی نظام نو میں جامعہ اسلامیہ میں تدریسی خدمات سر انجام دینے کے لیے بہاولپور لائے گئے جن سے براہ ِ راست سید فاروق القادری مرحوم اور دیگر ممتاز طلباء نے علمی استفادہ کیا۔ ملک بھر سے دین اور ملی آورشوں سے یک گونہ شیفتگی رکھنے والے ممتاز گھرانوں نے اپنے بچوں کو ندوہ اور ازہر کے سے نصابی نظام کی توقعات حصول تعلیم کے لیے جامعہ اسلامیہ بہاولپور بھیجا۔
سید فاروق القادری کے والد سید مغفور شاہ صاحب ہم عصر علماء اور مشائخ میں ایک امتیازی حیثیت کے حامل تھے۔ یوں انہوں نے اپنے جامع صفات خلف الرشید کو جدید و قدیم کے اشتراک کی حامل درسگاہوں میں زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے اس زمانے کے مواصلاتی ذرائع کے حوالے سے دور کی درسگاہوں کا انتخاب کیا۔ ممتاز کالم نگار سید اسرار بخاری اور ڈاکٹر طاہر القادری اور ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد کے فاضل پروفیسر ڈاکٹر محمد طفیل اور ان دنوں جامعہ اشرفیہ لاہور کے رئیس الجامعہ بھی ان اکابرین کے ممتاز تلامذہ میں سے تھے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ سید فاروق القادری نے علاوہ جملہ علوم جو درس نظامی کا ناگزیر حصہ ہیں۔ فارسی اور عربی زبان و ادب کے تمام متعلقات یا ان زبانوں کے اساسی لٹریچر جسے منابع کا درجہ حاصل ہے، سے لاہور جامعہ پنجاب میں داخلے سے پہلے ہی شاہ صاحب نے ایک گونہ مہارت اور عبور حاصل کر لیا تھا۔یہ امر قابل ِ ذکر ہے کہ سید فاروق القادری عصری علوم سے ہرگز ہرگز نابلد نہیں رہنا چاہتے تھے۔ یہی ان کے جامعہ اسلامیہ میں داخلہ کا سبب تھا اور ما بعد قصد لاہور اور جامعہ پنجاب سے پوسٹ گریجوایٹ ڈگری لی، جو انہوں نے امتیازی طور پر علامہ علائو الدین صدیقی سے حاصل کی جو وائس چانسلر ہوتے ہوئے بھی سید فاروق القادری کے منفرد و موضوع پر مقالے کے نگران بھی رہے اور ان کے ممتاز شاگرد ہونے کا شرف حاصل کیا۔
برکت علی اسلامیہ ہال میں دو جون ۱۹۸۶ء کو صدارتی تقریر کے بعد علامہ صدیقی نے اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور علامہ صدیقی نے اپنے شاگرد سے دوستانہ شکوہ کیا کہ وہ بھی اعلیٰ حضرت کے ساتھ اتنی ہی عقیدت رکھتے ہیں جتنی ان کے متوسلین و متبعین کہ شق مصطفی ہمارے دین کی اساس ہے۔ برکت علی اسلامیہ ہال کی یہ تقریب جناب قاضی عبدالنبی کوکب، حکیم موسیٰ امر تسری اور سید فاروق القادری، سید اسراربخاری، جسٹس نذیراحمد غازی اور مولانا عبدالستار نیازی کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ یہ امر قابل ِ ذکر ہے کہ اس تقریب کے موضوعات جن میں دو قومی نظریہ اور علمائے اہل ِسنت کا تحریک پاکستان میں کردار شامل ہیں، بعد ازاں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی تصنیف ’’علماء ان پولیٹیکس ‘‘ بزبان انگریزی میں حوالہ بنے اور قاضی عبدالنبی جو بعد میں یونیورسٹی اوریمنٹل کالج میں شعبہ عربی کے استاد مقرر ہوئے۔ ماقبل لائبریری پنجاب یونیورسٹی کے برسوں عربی مخطوطات کے کیٹلاگر رہے۔۱۹۸۷ء میں ٹریفک کے حادثہ میں جاں بحق ہو گئے۔ وہ اپنی ذات میں انجمن تھے۔ سید فاروق القادری کوسارے لاہور کے علمی حلقوں میں متعارف کرانے میں اس تاریخی یوم رضا کا کردار ہے۔ اب سید فاروق القادری اہل ِ سنت کی قیادت کے ساتھ وابستہ تھے اور سندھ اور جنوبی پنجاب کے امور میں ان کی مشاورت بھی لی جا رہی تھی۔ اس پس منظر میں ہی پیر آف بھرچونڈی شریف نے لاہور میں یوم محمد بن قاسم منایا جس کو اردو اخبارات نے پبلسٹی دی۔ ان دنوں وطن عزیز دائیں اور بائیں بازو کی گرفت میں بری طرح الجھا ہوا تھا۔
ہمارے قدیمی طریق تعلیم جسے درس نظامی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جس سے نئے اسالیب کو ایک گونہ اعراض ہے، میں مطالعہ و مباحثہ کے علاوہ اعادہ تکرار کی خصوصیت بھی پیدا کی جاتی تھی۔ سید فاروق القادری اس تکرار و اعادہ اور مباحث کی تعبیر کے فن میں اگلے وقتوں کے اہل ِ علم کی صدائے بازگشت تھے۔ ان کا کئی جلدوں میں قدیم سپین کے شیخ کبیر ابوبکر محی الدین محمد علی عربی کی شہرہ آفاق تصنیف کا ترجمہ ہے جس کا آپ نے سات جلدوں میں ترجمہ کیا او ر اہل ِ علم اردو دانوں کے لیے مسئلہ وحدت الوجود کو جو تمام کائنات اور مافیہا ذات خداوندی کے موضوع پر اساسی تصصنیف ہے شائع کر کے مرسیہ دمشق کے جبل قاسیون میں موفون صوفی اور فلسفی کو بے مثال ہدیہ پیش کیا کہ برصغیر کے اہل ِ علم بوجوہ ہندوستان کے قدیمی سری فلسفوں کے تناظر میں فلسفہ وحدت الوجود سے ایک گونہ شغف رکھتے ہیں۔
اسی طرح سید فاروق القادری مرحوم نے شاہ ولی اللہ کی متعدد تصانیف اور کشف المحجوب کو اپنے منفرد اردو نثر کے اسلوب میں ڈھال کر شائع فرمایا۔ ان کے ان کاموں میں پروفیسر سید اسرار بخاری جو حضرت پیر صاحب گوہاٹی کے صاحبزادے اور سید فاروق القادری کی جامعہ اسلامیہ اور جامعہ پنجاب کے دنوں کے رفیق اور ان کے تالیفی اور اداراتی معاون تھے۔ سید فاروق القادری صوفی اور عالم دین کے ساتھ ساتھ ایک منفرد اسلوب کے ادیب تھے اور یہ فن اور مہارت ان کو اپنے والد سید مغفور القادری سے ورثے میں عطا ہوا کہ ان کے بہار ِ آفریں قلم سے سندھ کے قادریہ سلسلہ کے صوفی پیر صاحب بھرچونڈی شریف کی سوانح حیات وجودمی آئی جسے سید اسرار بخاری نے مرتب کیا۔ ادھر کچھ عرصہ سے جسٹس ریٹائرڈ نذیر احمد غازی صاحب سید فاروق القادری صاحب کو اپنے ٹی وی پروگراموں کے لیے دو چار بار لاہور بلایا مگر پیرانہ سالہ کے سبب مرکز علم و دانش سے دوبارہ مربوط ہونا ممکن نہ ہوا۔ ان کے نامور خلف الرشید سید صبغت اللہ القادری سے از بسگہ توقعات بجا طور پر وابستہ کی جاسکتی ہیں کہ وہ سید صاحب کے ہر لحاظ سے نقش ثانی ثابت ہونے کی خصوصیتوں کے حامل ہیں جو متعدد اخباری مضامین اور کئی کتابوں کے مؤلف و مصنف ہیں اور سید مرحوم کے سعادت مند شاگرد بھی ہیں۔
٭٭٭