تاج محل کی شہرت پوری دنیا میں ہے پہلے صرف مغل بادشاہ، شاہجہان اپنی محبوبہ کی یاد میں اس کا مقبرہ تعمیر کر کے مشہور ہوا اور بعد میں ایک شاعر جس کو دنیا ساحر لدھیانوی کے نام سے جانتی ہے وہ نظم تاج محل لکھنے کے بعد دنیا بھر میں مشہور ہو گیا ۔ شاہجہان تاج محل بنا کر مشہور ہوا تو ساحر تاج محل کے خلاف نظم لکھ کر مشہور ہوا ۔ ساحر لدھیانوی اس شہرہ آفاق نظم کے علاوہ بھی کئی لازوال گیتوں ، نظموں اور غزلوں کا خالق ہے جس کی شاعری ہر دور میں مقبول رہی ہے ۔ وہ عوام اور خواص سے لے کر ڈاکوؤں اور طوائفوں تک بھی مقبولیت حاصل کر چکا ۔ ساحر جس دور میں شاعری کی دنیا میں شہرت کی بلندیوں کو سر کرنے لگا اس دور میں زلف اور لب و رخسار اور ہونٹ یا آنکھ وغیرہ کی تعریف کے ساتھ ساتھ انقلابی اور باغیانہ اشعار بھی کہے جا رہے تھے یعنی ایک طرح سے وہ اردو میں رومانی اور باغیانہ خیالات کی شاعری کا سنہرا دور تھا ۔ اس دور میں فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، ،اسرار الحق مجاز، ،کیفی اعظمی، جاں نثار اختر، علی سردار جعفری، معین احسن جذبی، اختر شیرانی، مخدوم محی الدین اور اختر الایمان جیسے بڑے بڑے شعرا شاعری کے افق پر پوری آب و تاب کے ساتھ موجود تھے ۔ ایسے ادبی ماحول میں ساحر لدھیانوی کا نمودار ہونا اور اپنے آپ کو منوانا ہمالیہ کے ہہاڑ کی چوٹی سر کرنے کے مترادف تھا ۔
مسابقت کے اس دور میں مجاز کا یہ شعر
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
اور فیض احمد فیض فیض کا یہ شعر
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
یہ دونوں اشعار سارے ہندوستان میں گونج رہے تھے اور اس طرح ترقی پسند اور مزاحمتی شعر و ادب کی فضا بنی ہوئی تھی ۔ ایسے دور میں ساحر نے اپنی مشہور زمانہ نظم " تاج محل " تخلیق کر کے ہندوستان بھر میں دھوم مچا دی ۔ اس سے پہلے شعراء تاج محل کی تعریف و توصیف اور اس کی خوبصورتی پر گیت اور نظمیں وغیرہ لکھ کر شہرت حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے مگر ساحر نے اس کے بالکل الٹ میں ایک انوکھا نظریہ پیش کیا جب انہوں نے کہا کہ
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
تو ساحر کی اس نظم پر لوگوں کے کان کھڑے ہو گئے کہ کیا اس طرح بھی کوئی سوچ سکتا ہے ۔ تاج محل کے بارے میں ساحر کا یہ انداز فکر بالکل انوکھا اور نیا تھا ۔ غریب، بے روزگار، محروم اور باغی و مایوس نوجوانوں نے اسے اپنے دل کی آواز سمجھا ۔ مزدور اور کسان وغیرہ نے بھی ساحر کو اپنا آئیڈیل بنا لیا مگر اس نظم کے بارے میں ایک ایسی آواز بھی ابھری جو عوام یا وسیع حلقے تک نہیں پہچ سکی مگر یہ بات ضرور ہے کہ جس طرح اس نظم نے سارے ہندوستان کو چونکا دیا اسی طرح اس بات نے بھی ایک مخصوص علمی اور ادبی حلقے کو چونکا دیا تھا ۔
ساحر لدھیانوی کی شہرہ آفاق نظم تاج محل کے بارے میں کچھ لوگوں نے دعوی کیا ہے کہ یہ خیال ساحر کا اپنا نہیں بلکہ کسی اور کا تصور ہے جس کو ساحر نے اپنا کر یہ لافانی نظم تخلیق کر ڈالی ۔ اس مخصوص حلقہ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ خیال تاج محل کی تخلیق سے 2 سال پہلے اردو کے ایک مشہور کہانی نویس کمانڈر سید انور اپنی ایک کہانی میں پیش کر چکا تھا ۔ کمانڈر سید انور کی اس کہانی کا عنوان "افق کے زینے " پر تھا ۔ کہانی نویس کمانڈر سید انور کو اس دور کے کہانی نویسوں اور افسانہ نگاروں میں بڑی اہمیت حاصل تھی ۔ وہ بھی ساحر کی طرح لدھیانہ شہر کا ہی باشندہ تھا وہ انڈین نیوی میں کمانڈر کے عہدے پر فائز تھا اور اسی وجہ سے ان کی کہانیاں کمانڈر انور کے نام سے مشہور ہو چکی تھیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ساحر اور کمانڈر ایک دوسرے کے لنگوٹیا یار بھی تھے ۔ سید انور ایک جرئت مند اور بے باک انسان تھے ۔ سرکاری آفیسر ہوتے ہوئے بھی اپنے جذبات اور خیالات کا برملا اظہار کیا کرتے تھے ۔ انہوں نے ہی اپنی کہانی میں پہلی بار یہ یہ زاویہ نظر پیش کیا تھا کہ " تاج محل شاہجہان کی عظمت کی دلیل نہیں بلکہ ان غریبوں اور مجبور لوگوں کے ساتھ سنگین مذاق کے مترادف ہے جو غربت کے باعث اپنی محبوبہ کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔"
کہتے ہیں شہرت بھی قسمت سے ہی ملتی ہے ورنہ کوشش تو ہر انسان کرتا ہے لیکن کوئی بہت کچھ کرنے کے باوجود بھی گمنام رہ جاتا ہے اور کوئی معمولی سی کوشش اور خلاف توقع شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے ۔کمانڈر انور کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اس کی اس کی کہانی میں شامل اس خیال پر کسی نے توجہ ہی نہیں دی یا توجہ کے قابل ہی نہیں سمجھا مگر جب ساحر لدھیانوی نے کمانڈر سید انور کے اسی خیال کو اپنی نظم کا موضوع بنایا تو اس نے ملک گیر شہرت حاصل کرلی اور ساحر لدھیانوی ایک ترقی پسند، روشن خیال اور انقلابی شاعر کے طور پر مشہور ہو گیا ۔ سید انور نے قریبی دوستوں کے حلقے میں اس بات کا اظہار کیا مگر کسی نے توجہ ہی نہیں دی ۔ کمانڈر سید انور کے ساتھ وہی کچھ ہوا جسے اردو کے عظیم مزاحیہ شاعر اکبر الہ آبادی نے اپنے شعر میں کچھ اس طرح بیان کیا تھا ۔
بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے اک مضموں لکھا
میرا مضموں رہ گیا ڈاسن کا جوتا چل گیا
بے چارے انور کے ساتھ بھی اسی طرح کی واردات ہوئی کہ انہوں نے جس قسم کا انوکھا خیال پہلی بار کاغذ پر الفاظ کی صورت میں پیش کیا مگر وہ شہرت اور کریڈٹ حاصل نہیں کر سکا جبکہ ساحر نے اسی خیال کو اپنی نظم کی صورت دے کر تمام تر کریڈٹ حاصل کر لیا اور سید انور ہاتھ مل کر رہ گیا ۔ تاہم میرے خیال میں خیال سے خیال لینا کوئی جرم نہیں ہے اور شہرت کے لیے بھی کہانیوں، افسانوں اور ناولوں کی کئی کئی موٹی کتابوں پر کبھی شاعری کا ایک شعر ہی بھاری ہوتا ہے کیوں کہ کہانیوں اور قصوں اور افسانوں کے لیے طویل وقت اور خصوصی توجہ چاہیے جبکہ اس کے برعکس ایک شعر ہی توجہ حاصل کرنے اور جذبات کے شعلوں کو ہوا دینے یا بھڑکانے کے لیے کافی ہوتا ہے ۔