عالمی ڈایضسٹ بند ہوا۔ اک دور تھا کہ اپنی یادٰیں چھوڑ گیا اس افس کے ساتھ ولاے گھر میں خالد اسحاق جیسے قانون داں تھے جن کی لایبریری قابل دید تھی کجھے از راہ محبت اجازت دے رکھی تھی کہ اپنی پسند کی کتاب لے لیا کروں۔ پیچھے مشہور گایک حبیب ولی محمد رہتے تھے جو "شالیمار سلک مل" کے مالک تھے بالکل سامنے والی کوٹھی پاکستان مسلم لیگ کے پہلے صدر اور گورنر مشرقی پاکستان نواب چھوہدری خلیق الزماں کی تھی۔ 1975 میں ان کی بیگم زاہدہ سے میں نے اپنی پہلی کار "فاکس ویگن" خریدی۔اس کار کے 17000 لگ چکے تھے لیکن میری ضرورت جان کے انہوں نے 13000 میں مجھے دیدی یاد رہے کہ اس دور میں پٹرول ایک روپیہ لٹر (ساڑھے چار روپے گیلن) تھا تو 4000 کتنی بڑی رقم تھی مگر وہ حقیقی نواب لوگ گ حقوق ہمسایگی کو پیسے سے زیادہ اہم سمجھتے تھے۔یہ سب میں پہلے بھی لکھ چکا ہوَ۔آج میری تیسری نسل سر اکرا کے کہتی ہے کہ معلعم ہے میڑے دادا/ نانا نے ہیلی گاڑی کس سے لی تھی؟ سابق گورنر مشرقی پاکستان سے
آج میں خود سخی حسن کی اسی چورنگی کے دوسری طرف ہون جس کے ایک طرف بہزاد لکھنوی کے مزار کا سفید گنبد ہے ۔چوک سے گذرتا ہوں تو مجھے بے ساختہ ان کی یاد آتی ہے کیا خوش مزاج یار باش انسان تھے۔لباس میں سادگی طبیعت میں بے ساختگی
۔گارڈن ایسٹ سے گذرتا ہون تو یاد آےا ہے کہ کیا کچھ تاریخ کا حصہ ہوا۔ابراہیم علی بھایؑ اسکول جس میں میرے پہلے تیں بچوں نے پانچویں تک تعلیم حاصل کی شہر کے نیک نام ترین اسکولوں میں شمار ہوتا تھا۔میں نے جب داخلے کی کوشش کی تو پتا چلا کی یہ جوۓؑ شیر لانے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ ہیڈ مسٹریس مسز فیروزہ عطیم تھیں ان کے پاس کویؑ شخص وزیر تعلیم پیارعلی الانا کی سفارش والا خط لایا۔مسز عظیم نے کہاکہ" یہ فایل دیکھۓ"۔ اس میں شاید سو ڈیڑھ سوایسے فارم تھے جن پر وزیر تعلیم نے لکھا تھا "پلیز ایڈمٹ" اور دستخط فرمادےؑ تھے۔۔یہ سیاسی وزرا کاٹالنے سیاسی حربہ تھا۔ میں سخت مایوس ہوا کہ اب وزیر سے بڑی کس کی سفارش لاوں۔
پھرکسی نے مجھے ایک راستہ دکھایا اور "اےجی سندھ" کے دفتر میں پہنچا دیا جہاں تمام شہر کے ہر قسم کے بل پاس ہوتے تھے۔ محکمہؑ تعلیم کاسیکشن "جی فاییؑو" مجھے آج تک یاد ہے جس کے اکاونٹ آفیسر ایک عسکری صاحب تھے۔ان کوبہزاد لکھنوی کا فون جا چکا تھا' انہوں نے مجھے عزت سے بٹھایا اور مسز فیروزہ عظیم کو فون کیا کہ میرے بچوں کو داخلہ دیا جاۓ ۔بچے ابراہیم علی بھایؑ میں داخل ہو گۓ تو میں شکریہ ادا کرنے عسکری صاحب کے پاس مٹھایؑ کا ڈبہ لے کر گیا۔وہ مجھے نہیں پہچانے اور جب میں نےبتایا کہ مہینہ بھر پہلے ان کے فون سے میرے بچوں کا داخلہ ہوگیا تھا۔تو وہ کچھ حیران ہوۓ اور بولےکہ"فون تو نہ جانے میں کس کس کے لۓ کرتا ہوں۔پلٹ کے شکریہ ادا کرنے پہلے کویؑ نہیں آیا"اور ڈبہ رکھ لیا
اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ ہو۔۔ شاید 4 سال بعد میرا واسطہ پھر ان سے پڑا۔میرے پھوپا معروف شاعر اور سندھی زبان کے اسکالر مرحوم آفاق صدیقی نشان امتیاز۔۔ میر پور خاص میں لیکچرر تھےجب کراچی پوسٹ ہوۓ تو "لاسٹ پے سرٹیفیکیٹ" کے چکر میں ان کی تنخواہ کا بل کیؑ ماہ پھنسا رہا۔ایک لیکچرر کی آمدنی کیا کب تک سختی جھیلتے۔ایک دن مجھ سے ذکر کیا تو میں ان کے ساتھ اے جی آفس گیا،پتا چلا کہ چیک بنا ہوا عسکری صاحب کی میز پر صرف دستخط کا منتظر ہے۔ان سے بات کی تو نظر اٹھاۓ بغیر بولے "اچھا۔۔دو گھنٹے بعد آنا"
میں نے کہا"اپ کا ویٹنگ روم کہاں ہے؟؟"
ان کا تو پارہ چرھ گیا" یہ آپ کس بدتمیزانہ لہجے میں بات کر رہے ہیں۔یہ سرکاری دفتر ہے"
میں کھڑا رہا"عسکری صاحب یہ کرسیاں حکومت نے آپہ کے رشتے دارون کیلۓ دی ہیں یا صرف سرکاری ٹھیکے دار اس پر بیٹھ سکتے ہیں؟ جو رشوت دے کر بلپاس کراتے ہیں؟"
انھوں نے کہا "شٹ اپ اینڈ گیٹ آوٹ"
میں نے بھی چلا کے کہا"یہ جس کی تنخواہ کا بل اپ روکے بیٹھے ہیں،یہ آپ کے بچوں کا روحانی باپ ہے اور بھوکا مر رہا ہے اور آپ کہتے ہیں جاو دو گھنٹے بعد سڑکوں پر جھک مار کے آو،،"
اس سے پہلے کہ ان کا چپراسی مجھے کھینچ کر باہر نکالتا میں خود نکل آیا۔پھوپھا کا حال خراب کہ تنخواہ کے چکر میں نوکری گیؑ آج۔۔ میں ان کو تسلی دے کر اوپر مرغوب احمد اکاونٹنٹ جنرل سندھ کے پاس لے گیا جس سے میری پرانی شناسایؑ تھی۔وہ ایوب دورکے شیخ خورشید احمد وزیر قانون اور چییؑر میں ایٹمک انرجی کمیشن ڈاکٹر منیر احمد کا بھاٰی تھا اور ان کے والد ہایؑ کورٹ کے جج رہ چکے تھے۔مرغوب اعلیؑ تعلیم یافتہ مگر زبان کا بڑا پھکڑ تھا۔اس نے ایک عام گالی سے میرا استقبال کیا "اوۓ۔۔۔۔ اکبال توں؟ بیٹھ۔۔۔ کی لیں آیا ایں میرے کول؟"
میں نے کہا"پروفیسر آفاق صدیقی میرے پھوپھا کی تنخواۃ کا چیک"
اس نے مجھے دو ہایؑ فاٰیؑ گالیاں دیں اور بولا"کدھر اے چیک؟ میری۔۔۔۔۔۔ وچ"
میںنے بتایا کہ یوں عسکری صاحب اسے دباےؑ بیٹھے ہیں۔ مرغوب احمد نے فون اٹھا کے پہلے پوچھا اور پھر عسکری صاحب کو ایسی شاندار گالیاں دیں کہ مزا اگیا۔۔دو منٹ بعد عسکری صاحب ساری فرعونیت بھول کے بھیگی بلی بنے دستخط شدہ چیک لے کر نمودار ہوۓ اور زیادہ دل خوش کن گالیاں کھا کے کان لپیٹے رخصت ہوۓ
یہ تھا بیوروکریسی کا حال اس وقت بھی جب آتش جواں تھا
ایک دلخراش یاد کی رودادپھر سہی۔۔یاد زندہ صحبت باقی
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/1048025458612805