ثقافت ، ردِ ثقافت ، اداکاری اور' بِگڑا بچہ '
( اداکار مارلن برانڈو پر ایک نوٹ )
قیصر نذیر خاورؔ
بیسویں صدی کی چھٹی و ساتویں دہائی کا نصف جہاں میرے لئے فارمیٹِو (formative) تھا وہیں یہ زمانہ برطانیہ اور امریکہ میں ’ رد ِ ثقافت‘ (Counterculture) کی تحریک کو نہ صرف جنم دے چکا تھا اور اس نے دیکھتے ہی دیکھتے تمام مغربی دنیا پر غلبہ پا لیا تھا ۔ یہ تحریک ساتویں دہائی کے وسط تک مختلف شکلوں میں اپنا اظہار کرتی رہی تھی جن میں شخصی آزادی ، جنسی آزادی ، عورتوں کے حقوق ، ’ اتھارٹی ‘ کے روایتی انداز کی نفی ، مختلف النوع منشیات کا استعمال اور ’ امریکی خواب ‘ (American Dream) کی نئی تاویلیں شامل تھیں ۔ اس ’ رد ِ ثقافت‘ کی تحریک کی جڑیں دوسری جنگ عظیم کے بعد کے حالات سے پھوٹی تھیں اور اس میں جنگ میں ہلاکتوں کی وجہ سے آبادی میں اضافے کے لئے ’ بے بی بوم‘ (Baby Boom) ، عوام کے بنیادی حقوق ، عورتوں کی جدوجہد برائے مساوات ، امریکہ میں میکارتھی ازم اور ویت نام کی جنگ میں امریکہ کی بے جا اور بھاری فوجی مداخلت جیسے عوامل بھی کارفرما تھے ۔
اس رد ِثقافت کی تحریک کا اثرفنون لطیفہ پر بھی ہوا اور فلم کا میڈیم چونکہ عام آدمی تک پہنچتا ہے اس پر اثر بہت نمایاں تھا ۔ اداکار بھی اس سے متاثر ہوئے جن میں پال نیومن اور جین فونڈا جیسے اداکاروں / اداکارﺅں کی طرح مارلن برانڈو بھی تھا ۔ میں مارلن برانڈو کو 1952 ء کی فلم ’ ویوا زپاٹا! ‘ (!Viva Zapata) میں بطور ہیرو’ ایملیانو زپاٹا ‘ دیکھ چکا تھا جس میں انتھونی کوئن نے اس کے بھائی ’ ایوفیمیو‘ کا کردار ادا کیا تھا ۔ میں نے اس کی فلم 1954 ء کی’ آن دی واٹر فرنٹ ‘ (On the Waterfront) بھی دیکھی جس میں اس نے بندرگاہ پر کام کرنے والے ’ ٹیری میلائے‘ کا کردار ادا کیا تھا اور بہترین اداکار کے لئے آسکر کا حقدار ٹہرا تھا ۔ اس ’کرائم ڈرامے‘ کا ہدایتکار یونانی نژاد امریکی ’ ایلیا کازان ‘ ہی تھا جس کے بارے میں ، میں انتھونی کوئین پر لکھے اپنے نوٹ میں بات کر چکا ہوں ۔ اسے بھی اس فلم کی بہترین ہدایتکاری پر دوسرا آسکر ملا تھا ( پہلا آسکراسے 1947 کی فلم ’ Gentleman's Agreement ‘ پر ملا تھا ) ۔’ ایوا میری سینٹ ‘ نے اس فلم میں ’ ایڈی ڈوئل‘ کا کردارادا کیا تھا جس پر اسے بھی بہترین معاون اداکارہ کا آسکر ملا تھا ۔ ( یہ اس کی پہلی فلم تھی ۔ وہ اس وقت 92 برس کی ہے اور ٹیلی ویژن و فلموں میں ابھی بھی سرگرم عمل ہے ۔ اس کی آخری فلم ’ Winter's Tale ‘۔ 2014 ء میں سامنے آئی تھی ) ۔پُلزر انعام یافتہ صحافی میلکم جانسن کے 1948 ء کے بندرگاہوں پر ہونے والے’ ڈوک ورکرز‘ ( Dock workers ) یونین کے جرائم پر 24 مضامین ” Crime on the Waterfront '' سے ماخوذ اور ’ بڈ سوچل برگ ‘ کی کہانی و سکرین پلے پر بنی یہ فلم بارہ آسکرز کے لئے نامزد ہوئی تھی جس میں سے اس نے آٹھ جیتے تھے ۔ دیگر پانچ ؛’ آرٹ ڈائریکشن ، عکاسی ، تدوین ، سکرین پلے اور بہترین فلم کی مد میں تھے ۔ یونین کے بدعنوان رہنما کے جرائم اور وفاداری سے پھرنا یا مخالف کارکنوں کے قتل کے خلاف ’ گواہی‘ دینا کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے ، ’ ٹیری میلائے‘ اور یہ فلم اس کی بہترین عکاس ہے ۔ یہ اس بےروزگاری کی بھی عکاسی کرتی ہے جس نے دوسری جنگ عظیم جیتنے کے چکر میں سرمایہ دار اور سامراجی امریکہ کو کنگال کر دیا تھا ۔ البتہ اس میں پادری کے کردار کو ’ اوور سٹریچ ‘ ( over stretch) کیا گیا ہے ۔
پھر مجھے مارلن برانڈو کی فلم ’ سایونارا ' ( Sayonaraa ) دیکھنے کا موقع ملا ۔ یہ امریکی ائیرفورس کے ایک ہوابازمیجر’ لائلڈ گروور ‘ جو ’ ایس‘ (Ace) کے نام سے مشہور ہے، کی کہانی ہے ۔ وہ کورین جنگ میں جاپان میں امریکہ کے ائیر بیس پر اپنے قیام کے دوران امریکی فوجیوں کا دل بہلانے والی ایک لڑکی ’ ہانا اوگی ‘ کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے ۔ یہ وہ زمانہ ہے جب نہ تو امریکی فوجیوں کو جاپانی لڑکیوں سے شادی کی اجازت تھی اور نہ ہی جاپانی اسے احسن گردانتے تھے ۔ ’ ایس ‘ کا ایک ساتھی ائیرمین ’ جو کیلی ‘ بھی ایک جاپانی لڑکی ’ کت سومی‘ سے محبت کرتا ہے لیکن امریکی فوجی قیادت انہیں شادی کی اجازت نہیں دیتی جس پر وہ خودکشی کر لیتے ہیں ۔ اس واقعے کا اثر ’ ایس‘ پر یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے فوجی کیرئیر کو ’ خداحافظ ‘ (Sayonara) کہتا ہوا وہ ’ ہانا اوگی ‘ سے شادی کا تہیہ کر لیتا ہے ۔ یہ فلم دوسری جنگ عظیم کے بعد کے زمانے کی نسل پرستی اور جاپانی ۔ امریکی کراس (cross) کلچر کی نمائندہ ہے ۔ یہ رنگین فلم ڈھائی گھنٹے سے زائد ایک طویل دورانیے کی فلم تھی ( 1957ء کی یہ فلم پُلزر انعام یافتہ امریکی ادیب جیمز اے مچنر’ James A. Michener ' کے اسی نام کے ناول پر مبنی ہے ۔ یہ فلم دس آسکرز کے لئے نامزد ہوئی تھی لیکن بہترین معاون اداکار اور اداکارہ کے علاوہ آرٹ ڈائریکشن اور صوتی اثرات کے لئے چار ہی جیت پائی تھی ) ۔
مارلن برانڈو کی فلم ’ میوٹنی آن دی باﺅنٹی ‘ ( Mutiny on the Bountyy ) جب لاہور میں لگی تو اس کے روزانہ دو شو ہوا کرتے تھے جبکہ اتوار کو تین ۔ یہ تین گھنٹے دورانیے کی فلم تھی ۔ یہ فلم کئی ہفتے تک لگی رہی اور اس نے خوب رش لیا تھا ۔ میں نے یہ فلم بہت بعد میں اس وقت دیکھی تھی جب یہ پہلی بار لگ کر اتر چکی تھی اور پھر ’ ریگل ‘ سینما میں دوبارہ لگی تھی ۔ اس 70 ایم ایم کی پاناویژن رنگین فلم میں اداکار ٹریور ہوورڈ اور رچرڈ ہیریسن بھی کپتان ’ولیم بلیغ‘ ( William Bligh ) اور ملاح جان ملز( John Mills ) جیسے اہم کردارادا کر رہے تھے جبکہ مارلن برانڈو کپتان کا نائب ' فلیچر کرسچین ' بنا ہوا ہے اور بحری جہاز ’ باﺅنٹی ‘ کے کپتان ولیم بلیغ کے ظالمانہ رویے کے خلاف بغاوت کرکے جہاز کی کمان خود سنبھال لیتا ہے ۔ بلیغ اور اس کے وفاداروں کو ایک کشتی میں سوار کروا کر جہاز سے الگ کر دیتا ہے ۔ وہ برطانیہ پہنچتا ہے جہاں فوجی عدالت اسے معاف کر دیتی ہے اور باغیوں کو گرفتار کرنے کے لئے جہاز روانہ کرتی ہے ۔ کرسچین اپنے ساتھیوں کو قائل کرتا ہے کہ انہیں برطانیہ جا کر بلیغ کے غیر انسانی رویے کے بارے میں بیان دینا چاہئیے لیکن وہ جہاز کو آگ لگا دیتے ہیں جس میں کرسچین بری طرح جل جاتا ہے ۔ انہیں گرفتار کرکے برطانیہ واپس لا کر پہلے سزا دی جاتی ہے لیکن بعد ازاں کرسچین اور اس کے ساتھیوں کو بری کر دیا جاتا ہے۔ اس فلم میں تیہتی کے بادشاہ کی بیٹی ’ مایامتی ‘ کا کردار ’تاریتا ‘ (Tarita) نے ادا کیا تھا جو اس فلم کے بعد مالن برانڈو کی تیسری بیوی بنی تھی ۔ (1962 ء کی یہ فلم اسی نام کے ناول جسے چارلس نورڈہوف اور جیمز نارمن ہال نے 1932ء میں لکھا تھا اور یہ 1789ء میں باﺅنٹی نامی بحری جہاز پر ہوئی بغاوت پر مبنی ایک فکشن ہے ۔ یہ ناول اس سے پہلے بھی تین بار فلمایا گیا تھا ، 1935 ء والی فلم میں کرسچین کا کردار کلارک گیبل نے ادا کیا تھا اور1980ء کی دہائی میں اس پر ایک غنائیہ بھی بن چکا ہے ۔ باﺅنٹی نامی بحری جہاز پر ہوئی بغاوت پر ایک کتاب ’ کیپٹن بلیغ اور مسٹر کرسچین ‘ برطانوی مورخ ’ رچررڈ ہوگ نے بھی 1972 ء میں لکھی تھی جس کے مواد کو سامنے رکھ کر 1984 ء میں بھی ایک فلم ہدایتکار راجر ڈونلڈسن نے انتھونی ہوپکنز اور میل گپسن کو کاسٹ کرکے فلم بنائی تھی ۔ اس فلم کا سکرپٹ رابرٹ بولٹ نے لکھا تھا ۔ یہ فلم باکس آفس پر ناکام رہی تھی اور لوگوں نے میل گپسن کی اداکاری کو پسند نہیں کیا تھا ۔ )
اس کے بعد مارلن برانڈو کی کچھ اور فلمیں بھی لاہور میں لگی ہوں گی اور شاید میں نے دیکھی بھی ہوں لیکن مجھے وہ یاد نہیں ہیں ۔ اس کی فلم ' گاڈ فادر‘ (Godfather) میں نے غالباً 1973 ء میں دیکھی تھی جس میں اس نے ’ویٹو کارلیون ‘ ( Vito Corleone ) کا کردار ادا کیا تھا ۔ یہ 1972 ء کی فلم امریکی فرانسس فورڈ کپولا (Francis Ford Coppola) کی ہدایتکاری میں امریکہ میں اطالوی مافیا پر ایک عمدہ فلم ہے ۔ یہ اطالوی نژاد امریکی ادیب ماریو پوزو (Mario Puzo) کے سکرین پلے پرمبنی تھی جو اس کے اپنے ہی ، اسی نام کے ، ناول کی فلمی تشکیل تھی ۔ ’ گاڈ فادر‘ میں اطالوی مافیا سردار ’ویٹو کارلیون ‘ اور اس کے بیٹوں کی کہانی ہے جو سن چالیس کی دہائی کے وسط کے نیویارک میں شروع ہوتی ہے اور ’ ویٹو کارلیون ‘ کے مرنے اور اس کے سب سے چھوٹے بیٹے ’ مائیکل‘ ( Al Pacino) کے ’ ڈان بننے پر ختم ہوتی ہے ۔ میں یہ ناول پہلے پڑھ چکا تھا اور فلم دیکھتے ہی مجھے احساس ہو گیا تھا کہ اس کے کم از کم دو حصے مزید سامنے آئیں گے ۔ بعد میں ایسا ہی ہوا تھا ۔ دوسرا حصہ 1974ء اور تیسرا 1990ء میں سامنے آیا ۔ یہ دونوں فلمیں بھی ماریو پوزو نے کپولا کے ساتھ مل کرخود ہی لکھی تھیں اور ان کا ہدایتکار بھی کپولا تھا ۔ گاڈ فادر نے جہاں تین آسکر جیتے وہاں اس نے اپنے زمانے کا ریکارڈ بزنس کیا تھا ۔ لگ بھگ سات ملین ڈالر سے بنی اس فلم نے 245 ملین ڈالر کمائے تھے ۔ اس فلم میں مارلن برانڈو کام کرتے وقت 45 + تھا جبکہ ’ویٹو کارلیون‘ کردار ایک بوڑھے مافیا ڈان کا تھا ۔ میں اس کا میک اپ اور گیٹ اپ دیکھ کرمیک اپ آرٹسٹوں کے کام پر حیران ہوا تھا لیکن مجھے بعد میں فرانسس کپولا کے ایک انٹرویو سے پتہ چلا تھا کہ مارلن برانڈو نے چہرے کو بھاری اور ادھیڑ عمر دکھانے کے لئے ’ کلوں‘ میں روئی کی پیکنگ خود کی تھی ۔
انہی دنوں مارلن برانڈو کی فلم ' لاسٹ ٹینگو ان پیرس ' ( Last Tango in Paris ) بھی انگریزی اخبارات میں متنازع رہی تھی ؛ کچھ اسے ہدایتکاربرنارڈو برٹولوسی (Bernardo Bertolucci ) کی ایک عمدہ فلم قرار دیتے تھے جبکہ دیگر اسے اسے ایک فحش فلم کہتے تھے اور مارلن برانڈو پر یہ سوال اٹھاتے تھے کہ اس نے اس فلم میں کام ہی کیوں کیا تھا ۔ اس فلم میں مکھن کے استعمال کے ساتھ ’ اینل سیکس‘ کے ایک منظر نے برنارڈو برٹولوسی کو اٹلی میں سزا بھی دلوائی تھی ۔ یاد رہے کہ وہ ایک اطالوی فلم میکر ہے ۔ یہ فلم پاکستان میں کبھی ریلیز نہیں ہوئی اور میں اسے وی سی آر کے آنے کے بعد ہی وی ایچ ایس ٹیپ پر ہی دیکھ پایا تھا ۔ یہ فلم فرانسیسی و انگریزی زبان میںب رنارڈو برٹولوسی کی پہلی فلم تھی ۔ اس سے قبل وہ اطالوی میں کئی فلمیں بنا چکا تھا ۔ جن میں ’ دی کنفارمسٹ‘ (Il conformista ) ایک اہم فلم تھی جو اطالوی ، فرانسیسی اور انگریزی زبانوں میں ریلیز ہوئی تھی ۔ 1972 ء کی’ لاسٹ ٹینگو ان پیرس ‘ کو لوگ بطور ایک ’ اِروٹک ڈرامہ ‘ ( erotic drama ) فلم دیکھتے ہیں لیکن یہ شاید فلمی دنیا کا ’ لیڈی چیٹرلیز لوور‘ ہے جو فحاشی سے کہیں آگے بڑھ کرادب کا ایک شاہکار ناول ہے
´۔ یہ فلم بھی دیکھتے ہوئے اس کے آغاز میں دکھائی گئی دو پینٹنگز کو جاننے کی ضرورت ہے کہ برنارڈو برٹولوسی نے انہیں فلم کے آغاز میں دکھا کرایک ادھیڑ عمر رونڈوے اور ایک نوخیز دوشیزہ کے جنسی تعلق پر مبنی کہانی سے کس فلسفے کو جوڑا ہے ۔ یاد رہے کہ یہ دونوں پینٹنگز آئرش مصور فرانسس بیکن کی ہیں جس کی مصوری میں ’ چیختا منہ‘ (crying face ) بار بار استعمال ہوا ہے ۔ اور ، اور ، منہ سے نکلتی چیخ اندر کہیں بہت گہرائی سے نکلتی ہے اور چہرے کو بگاڑ کر رکھ دیتی ہے ۔ اگر فرانسس بیکن کی مصوری اور اس فلم کو جوڑ کر دیکھا جائے تو بہت سی باتیں ایک نئے انداز میں سمجھ میں آتی ہیں اور یہ بھی سمجھ آ جاتا ہے کہ مرضی کے خلاف کیا کام ’ جینی ‘ کے رول میں 19 سالہ ماریا شنائڈر ( Maria Schneider ) کو ریپ ہوتے ہوئے کیونکر سچ میں رُلا دیتا ہے ۔ ’ ماریا شنائڈر ‘ پر اس فلم کا اثراتنا بُرا پڑا تھا کہ بقول اس کے اپنے؛ برنارڈو برٹولوسی اور مارلن برانڈو نے اس سے وہ کام کروا لیا تھا جو سکرپٹ میں نہیں تھا اور جس کی وجہ سے وہ منشیات کی عادی ہونے کے علاوہ کئی بار خودکشی کرنے کا بھی سوچ چکی تھی ۔
’ لاسٹ ٹینگو اِن پیرس‘ دیکھنے سے پہلے میں فرانسس کپولا کی فلم ’ ایپوکلپس ناﺅ ' ( Apocalypse Now ) الفلاح سینما میں دیکھ چکا تھا جس میں مارلن برانڈو نے امریکی سپیشل فوج کے بھگوڑے کرنل والٹر ای کرٹز( Walter E. Kurtz ) کا کردار ادا کیا ہوا ہے جو کمبوڈیا کے ایک پہاڑی علاقے میں ’ ڈیگر‘ (Degar) لوگوں کا دیوتا بنا بیٹھا ہے ۔ یہ فلم ویت نام میں امریکی فوجی بربریت اور ویت نامی جدوجہد کی عمدہ عکاس ہے گو کہانی کا تانا بانا کیپٹن بنجمن ایل ویلارڈ کے جنگ زدہ ویت نام میں اس سفرکے گرد بُنا گیا ہے جو وہ سی آئی اے کے اس مشن ، جس میں اسے کرنل کرٹز کو قتل کرنا ہے، کو پورا کرنے کے لئے 1969ء میں کرتا ہے ۔ گاڈ فادر کی طرح یہ فلم بھی کپولا کی ایک اہم فلم ہے ۔ ( یہ فلم لگ بھگ تیس ملین ڈالر کی لاگت سے بنی تھی اور اس نے سوا سو ملین ڈالر سے زائد کا بزنس کیا تھا ۔ اس فلم کو بنانے کے دوران کپولا کو خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اسے کئی ہزار فٹ سلولائیڈ ’ ٹیک اور ری۔ٹیک ‘ میں برتنا پڑا تھا ۔ تب کہیں جا کر سینماﺅں کے لئے ریلیز ہوئی 153 منٹ کی فلم کی تدوین ممکن ہوئی تھی ۔ کپولا نے یہ ساری کتھا اپنی پچانوے منٹ سے زائد کی دستاویزی فلم میں بیان کی ہے جو ’ ہارٹ آف ڈارک نیس ‘ کے نام سے 1991ء میں سامنے آئی تھی ۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا بے معانی نہ ہو گا کہ کپولا نے کرنل کرٹز کا کردار جوزف کونارڈ کے ناول ’ ہارٹ آف ڈارک نیس،1899ء‘ کے کردار’ کرٹز ‘سے مستعار لیا تھا جو ہاتھی دانت کا ایک سوداگرہے ۔ کپولا نے اپنی فلم کی عکاسی کراتے وقت اپنے ہم عصرجرمن ہدایتکار’ورنر ہرگزوگ‘(Werner Herzog.) کی جرمن تاریخی فلم ’ Aguirre, der Zorn Gottes‘ 1972 ء سے بھی خاصا اثر لیا تھا اورمائیکل ہرز کی 1977ء کی شائع شدہ کتاب ’ Dispatches‘ مراسلوں کا مجموعہ ، جو اس نے ویت نام سے اسکوائر نامی رسالے کے لئے بھیجے تھے ، سے بھی استفادہ کیا تھا ۔ مجھے لگتا ہے کہ کپولا نے اپنی فلم کے اطالوی عکاس ’ ویٹوریو ستورورو ‘ کو پہلے ’ورنر ہرگزوگ کی فلم دکھائی ہو گی کہ وہ ’ تھامس ماچ ‘ ، جو ’ Aguirre, the Wrath of God‘ کا سینماٹوگرافر تھا ، کے سٹائل کو ہی اپناتے ہوئے ’ ایپوکلپس ناﺅ‘ کی فلم بندی کرے ۔ اس فلم کا سکرپٹ کپولا نے ’ جان میلیئس‘ کے ساتھ مل کر لکھا تھا ۔ کپولا کی یہ فلم کوئی آسکر تو نہ جیت سکی لیکن اس نے فرانس کا ’ Palme d'Or ' ایوارڈ ضرور جیتا تھا ۔ )
ویت نام کی جنگ پر بنی اس فلم اور اس میں مارلن برانڈو کی اداکاری کا ذکر کرتے ہوئے مجھے اس اداکار کے سیاسی خیالات کا یہاں ذکر کرنا بھی بے محل نہیں لگتا ؛ برانڈو ایک ’ بگڑا بچہ‘ ( bad boy ) تو تھا ہی اور ہالی ووڈ میں ایسے اداکار کے طور پر مشہور تھا جس نے اپنے مکالمے کبھی یاد نہیں کئے تھے لیکن نظریاتی طور پر وہ یہودیوں اور اسرائیل کا حمایتی تھا ، وہ ڈیموکریٹ بھی تھا اور 1960ء میں جان ایف کینیڈی کی صدارتی مہم میں اس کے لئے مالی وسائل اکٹھے کرنے والوں میں شامل تھا ۔ وہ چارلٹن ہیسٹن ، برٹ لنکاسٹر اور سڈنی پوئیٹر جیسے اداکاروں کے ہمراہ ، 1963 ء میں ’نوکریوں اور آزادی ‘کے لئے کی جانے والی مشہور ’ مارچ آن واشنگٹن ‘جس کے اجتماع کے سامنے مارٹن لوتھر کنگ جونئیر نے اپنی مشہور تقریر ’ I have a dream ‘ کی تھی ، میں بھی شامل تھا اور پال نیومن کے ہمراہ افریقی امریکنوں کی حمایت میں جلسوں اور جلوسوں میں بھی شرکت کرتا تھا ۔ وہ اصلی امریکی باشندوں کا بھی کٹر حمایتی تھا ۔ 1968ء میں مارٹن لوتھر کنگ جونئیرکے قتل کے بعد اس کی سیاہ فام امریکیوں کی حمایت میں اس حد تک شدت آ گئی تھی کہ اس نے کئی ایسی فلموں میں کام کرنے سے انکار کیا جن میں اسے مرکزی کردار آفر کئے گئے تھے اور وہ امریکہ میں سیاہ فام امریکیوں کی حمایت میں بستی بستی پھرتا رہا تھا ۔ وہ ’ رد ِ ثقافت‘ کی تحریک کا ایک اہم داعی ہوتے ہوئے ویت نام میں امریکی فوج کشی کا بھی سخت مخالف تھا ۔ جب اسے فلم ’ گاڈ فادر‘ میں بہترین اداکار کی مَد میں آسکر دیا گیا تو اس نے آسکرز کی تقریب میں ’ نیٹِو امریکنوں ‘(Native Americans) کی حمایت میں تقریب میں جانے سے انکار کر دیا تھا اور اپنی جگہ ’ نیٹِو امریکی ’ سماجی کارکن ’ Sacheen Littlefeather ' کو بھیجا تھا جو’ اپاچی لباس‘ میں تقریب میں گئی تھی اور اس نے فلموں اور ٹی وی پر امریکی انڈینز کی کردار کشی کی مخالفت میں تقریر کرتے ہوئے ایوارڈ وصول کیا تھا ۔ برانڈو نے اسی طرح ’ لاسٹ ٹینگو اِن پیرس‘ کے لئے ملے ’ نیویارک فلمز کریٹکس سرکل ایوارڈ ‘ کو بھی خود وصول نہیں کیا تھا ۔
اس کی ذاتی زندگی بھی کچھ کم حیران کن نہ ہے ۔ تین شادیوں کے علاوہ اس کے کئی رومان تھے ۔ ان سب عورتوں سے اس کے چودہ بچے بھی پیدا ہوئے ۔ اس کے علاوہ اس نے تین بچوں کو گود بھی لیا تھا ۔ وہ بائی ۔ سیکسوئل بھی تھا اور اداکار جیک نکلسن کے ساتھ اس کی دوستی عرصے تک متنازع بنی رہی تھی ۔
میں نے بعد ازاں اس کی’ Désirée‘ 1954ء ، ’ دی چیز(The Chase) ‘ 19666 ء ، ’ Reflections in a Golden Eye‘ 1967 ء ، ’ سپرمین‘ 1978ء ، ’ سپرمین II ، رچرڈ ڈونرکٹ‘ 2006 ء ، ’ دی فارمولا ‘1980ء ، ’ اے ڈرائی وائٹ سیزن‘ 1989 ء ، ’ دی فریش مین ‘ 1990ء ، ’ڈان جوآن ڈیمارکو ‘ 1995ء ، ’ دی بریو‘ (The Brave) 1997 ء اور ’ دی سکور‘ 2001ء ڈی وی ڈی پر دیکھیں لیکن ان میں سے صرف چار ہی متاثر کر سکیں ؛” ریفلیکشنز اِن اے گولڈن آئی‘ میں اس کا ہم جنس پرست کردار ’ میجر ویلڈن‘ عمدہ ہے ۔ اس نبے ’ ڈان جوآن ڈیمارکو‘ میں ریٹائرنگ ماہر نفسیات ’ جیک مِکلر‘ کا کردارخوبی سے ادا کیا تھا ، ’ دی بریو‘ میں اس کا کردار ’ میکارتھی‘ مختصر ہے لیکن موضوع بڑا ہے ۔ یہ ایک ایسے امریکی نیٹو (Native American) رافیل کی کہانی ہے جو اپنے خاندان کے لئے روزی روٹی کا بندوبست صحیح طور پر نہ کر پانے پر ایک ’ snuff ‘ ( ایسی فلمیں جن میں اصلی خودکشی یا قتل دکھایا گیا ہو ) فلم میں بھاری معاوضہ پر کام کرتا ہے اور فلم کے کیمرے کے سامنے پُر تشدد موت کا شکار ہو جاتا ہے ۔ یہ فلم یوں تو ساری دنیا میں سینماﺅں اور ڈی وی ڈی پر ریلیز ہوئی لیکن تاحال امریکہ میں اس پر پابندی ہے ۔ ’ اے ڈرائی وائٹ سیزن ‘ ساﺅتھ افریقہ میں نسل پرستی کے موضوع پر ہے جس میں مارلن برانڈو نے وکیل آئن مکینزی کا کردار ادا کیا ہے ۔ اس کا یہ کردار بھی مختصر ہے لیکن فلم کا موضوع اپنے زمانے کے حساب سے اہم ہے جب اس نسل پرست ملک میں سیاہ فاموں کے لئے انسانی حقوق کا حصول ناممکن تھا ۔ کچھ فلموں میں اس کی اداکاری بہت کمزور بھی تھی جیسے کہ’ Désirée‘ میں نپولین کا کردار یا ’ کرسٹوفر کولمبس؛ دی ڈسکوری ‘ میں تومَس کا کردار ۔ ’ دی سکور‘ میں بھی اس کا کردار’ میکس‘ قدرے کمزور تھا جبکہ رابرٹ ڈی نیرو ’ نِک ویلز‘ کے کردار میں اس پر بھاری تھا ۔ اس نے 1961ء میں فلم ’ One-Eyed Jacks ' میں’ ریو‘ کا کردار ادا کرنے کے علاوہ اس فلم کی ہدایتکاری کے فرائض بھی انجام دئیے تھے ۔
مارلن برانڈو عمر کے آخری حصے میں نہ صرف انتہائی موٹا ہو گیا تھا بلکہ ذیابطیس کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ دمہ کا مریض بھی بن چکا تھا اور اسے اکثر آکسیجن کی ضرورت پیش آتی تھی ۔ ان سالوں میں اگر کوئی اس کے قریب تھا تو وہ گلوکارمائیکل جیکسن تھا جو اسے گاف گاڑی میں آکسیجن سلنڈر کے ساتھ لادے سیر کراتا تھا ۔ مارلن برانڈو قدرتی حسن کا دلدادہ تھا ۔ ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں ' میوٹنی آن دی باﺅنٹی‘ کی فلم بندی کے دوران اسے تیہیتی کے قدرتی حسن نے متاثر کیا تھا جہاں اس نے گول مرجانی چٹانوں (coral reefs ) والا ایک’ Teti'aroa‘ جزیرہ خریدا تھا اور اس کا نام ' FO5GJ ‘ رکھ کر وہاں ایسے گھر بنوایا تھا کہ جزیرے کا قدرتی حسن خراب نہ ہو ۔ اس نے وہاں کچھوﺅں اور آبی پرندوں کی افزائش کے لئے ایک تحقیق گاہ بھی بنوائی تھی اور عمر کے آخری حصے میں اس کا ’ نیچر ‘ سے لگاﺅ (obsession) اُس پرکچھ زیادہ ہی حاوی ہو گیا تھا ۔
3 ،اپریل 1924 ء کو پیدا ہونے کے بعد سے بھرپور زندگی جینے والا یہ من موجی اداکار اپنے آخری دنوں میں حوصلہ ہار گیا تھا اور اس نے ڈاکٹروں کو منع کر دیا تھا کہ وہ اس کے پھیپھڑوں میں نالیاں ڈال کر اس کا نظام تنفس بحال نہ رکھیں ۔ وہ یکم جولائی 2004ء کو سانس کے عارضے اور حرکت قلب بند ہو جانے سے فوت ہوا ۔ وہ 80 برس کا تھا ۔ اس کے جسد خاکی کو سپرد آگ کیا گیا تھا اور پھر اس کی راکھ تیہیتی اور مشرقی کیلیفورنیا کے نیشنل پارک ’ وادی موت ‘ میں بکھیر دی گئی تھی ۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔