ثاقب نثار سے جاوید چوہدری کی ملاقات !
مجھے امریکہ میں آئے پہلی دفعہ پاکستان میں کسی اتنی بڑی حماقت پر اتنی بے اختیار ہنسی آئ ۔ اس میں کوئ شک نہیں کہ پاکستان سرکس کے فنکاروں سے بھرا پڑا ہے ۔
کل میں نے Rachel Maddow کو ای میل کی کہ فورا امریکہ کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس John Roberts سے ملاقات کرے ۔ ٹرمپ کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر احتجاج کرے ۔ Rachel Maddows چونکہ ڈیکلیڑڈ Lesbian ہے اس لیے چیف جسٹس پر کوئ sexual harassment کا الزام بھی نہیں لگے گا ۔ Roberts کوئ پچھلے ۱۳ سال سے امریکہ کے چیف جسٹس ہیں ۔ بہت خاموش طبعیت ۔ کبھی بھی عوام یا کسی سرکس میں نہیں دیکھے گئے ۔ دیکھیں وہ Maddow کو ملتے ہیں یا نہیں ۔
ثاقب نثار کی نوکری میں تقریباً ۹ مہینے رہ گئے ہیں ۔ بچہ یا بچی کچھ تو پیدا ہو کر کے ہی ملک کی جان چھوڑیں گے ۔ ثاقب صاحب نے کہا میں Cornelius بننا چاہتا ہوں ، نہ جانتے ہوئے کہ سلمی بٹ جیسے بدمعاش وکیلوں نے ان کے نام پر لاء فرم بنا کر Cornelius کے نام کا بھی بھٹہ بٹھا دیا ۔ ۲۰۰۴ میں ایک کیس میں میں اس وقت کے مہا نالائق اور راشی چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ (گورنر الطاف کے بھائ) چوہدری افتخار کے سامنے پیش ہوا ، سپریم کورٹ کے جسٹس کارنیلیس کے بینچ کے ایک فیصلے کی نظیر دی فرمانے لگے وہ وقت اور تھے ۔ چھوڑیں ۔
ہاہا ، ثاقب صاحب آپ بھی اگر کچھ کرنا ہے تو ڈٹرٹے بنو ۔ آج وقت اور ہیں ۔ انسانوں کے کام یاد رہتے ہیں نام نہیں جناب ۔ شہباز شریف نے بھی تو نواز شریف کو قائد اعظم کہ دیا ۔ بن گیا وہ قائد اعظم ؟ جی ٹی روڈ یادہے ، قائم ہے ، موجود ہے ، شیر شاہ سُوری نہیں ۔
کل اسپین سے میری تحریروں کے ایک مداح نے فون کیا ۔ فرمانے لگے تحریروں میں کیا واقعی ہی میں سچ بھی لکھا جاتا ہے ؟ میں نے کہا کہ جی بلاگز کی صورت میں ۔ پھر پوچھا آپ کیسے لکھتے ہیں ؟۔ میں نے پھر جواب دیا کہ روح ، دماغ اور دل میں جو محسوس کرتا ہوں وہ خود بخود لفظوں کی صورت اختیار کر جاتا ہے ۔ بلکل ایک مصور کی طرح ۔ جن لوگوں کو پہاڑ کی painting پسند آتی ہے وہ اسے خرید لیتے ہں یا پسند کرتے ہیں ، جس کو پھول پسند آتے ہیں وہ اس کا دیوانہ وار شیدائی ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح جن لوگوں کو کڑوا سچ پسند ہے ، شاید وہ مجھے پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں ۔ میرا تو اس میں بلکل کوئ کمال نہیں ۔ مجھے تو fiction پسند ہی نہیں گو کہ اس میں بھی ۷۰% اس کی اپنی کہانی ہوتی ہے ۔
میں تو کچھ بھی سوچتا نہیں ۔ جب بھی دل چاہتا ہے جو بھی دل کرتا ہے لکھ دیتا ہوں بغیر پرواہ کیے پیمرا یا سائبر لاءز کی ۔ آسانجے کی طرح ایک چھوٹا سا کھڑکی والا کمرہ ہی بہت ہے باقی زندگی بسر کرنے کے لیے ۔
جاوید چوہدری بھی جیت گیا ، ثاقب نثار بھی جیت گیا ، البتہ پاکستان یقیناً ہار گیا ۔ سرکس کے فنکار سرکس میں ہی اچھے لگتے ہیں ۔ وہاں لوگ ان کی بڑکیں، کرتب اور جادو سے بہت محزوز ہوتے ہیں ۔
اصل زندگی یکسر مختلف ہے ، بہت تلخ اور تکلیف دے ہے ۔ کل حیدرآباد سے ایک نوجوان کے دُکھ سُن کر میں اتنا رویا کہ ساری رات سو نہ سکا ۔ کاش خدا ثاقب نثار اور جاوید چوہدری کو اس لڑکے جتنے دکھ دے ، آ سمجھ جائے گی کارنیلیس اور اور ایک ٹھیکہ دار اور تماشبین کے درمیان فرق کی ۔
تماشا دیکھیں جو اس وقت پاکستان میں رچا ہوا ہے ۔ آرمی چیف ، وزیراعظم کو ڈنڈا دے کر پریڈ کے لیے کھڑا کرتا ہے اور راؤ انوار جیسا درندہ ہزاروں لوگ قتل کر کے red carpet reception لے جاتا ہے ۔ یہ تماشا اپنے اہتتام کو ہے ، اتنا مجھے یقین ہے ۔ ۲۲ کروڑ روحیں تڑپ رہیں ہیں ، نہ زندہ ہیں نہ مردہ ۔ ایک کرب میں ، بے چینی میں ، اضطراب میں ۔ دیکھتے رہیے آگے آگے ہوتا ہے کیا؟ فلحال تو کچھ بھی ٹھیک نہیں ۔
پاکستان پائیندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔