(Last Updated On: )
منظوم داستانوں کی اہمیت و ضرورت زمانہ قدیم سے مسلمہ ہے۔ داستان نویسی وداستان گوئی کا اپنا ایک مخصوص فن اور ہئیت ہے جس کے ذریعے داستان کونہایت دلکش و دل نشیں انداز میں بیان اور پیش کر کے اہل زوق کی تسکین کے ساتھ ساتھ زبان و ادب کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا جاتا رہا ہے۔ صوفی شعراء اور فقرا کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے پہلے سے مروج داستانوں یا خودتخلیق کردہ مثنویوں سے زبان و ادب میں اضافے،کہانی و کردار نگاری اورمختلف مضامین بیان کرنے کے ساتھ ساتھ داستان گوئی اور مثنوی کے زریعے عامل لوگوں کو سادہ سی مثالوں سے جہاں ایک طرف دین و اخلاقیات کا درس دیا تودوسری طرف اہلِ معرفت و طریقیت کیلئے معرفت و طریقیقت کے لطیف رُموز اسراربیان کی صوفی شعراء نے اپنے کلام کی ثاثیر و دل کشی اور سحر انگیزی کی بادولت ہر انسان یہ سمجھتا ہے کہ یہ داستان گویا اس کی داستان ہے اور اس طرح انسان خودآشنائی سے بتدریج خدا آشنا ہوجاتا ہے ۔
ایسی ہی ایک شہرہ آفاق داستان سیف الملوک ہے۔مثنوی سیف الملوک کی ابتدائی تخلیق کے بارے میں مختلف روایات ہیں ۔ایک روایت کے مطابق یہ داستان علامہ عوفی نے اپنی کتاب’’ جامع الحکایات‘‘ میں لکھی جسے بعد میں مشہور دیومالاتی داستان’’الف لیلی‘‘ میں شامل کیاگیا جبکہ سیف الملوک نسخہ مخدومی ، مخدوم محمد بخش کی تدوین کرنے والے ڈاکٹر مخدوم محمد حسین صاحب بیان کرتے ہیں کہ سلطان محمود غزنوی نے جب اپنے درباری شاعر عنصری سے ایک داستان سنی اوراس پر خوش ہوکر اسے کثیر انعام و اکرام سے نوازا تو سلطان کے ایک وزیرحسن میمنی اس پر معترض ہوا اور اس انعام کو اسراف سے تعبیر کیا جس پر سلطان محمود غزنوی نے صبر و تحمل سے بات سننے کے بعد حسن میمنی کو کہا کہ عنصری نے جو داستان سنائی ہے وہ نامکمل ہے اگر تم اس کابقیہ حصہ ڈھونڈلاؤ تو میں پورا ایک شہر تمھیں بخش دوں گا چنانچہ سلطان کا اشتیاق اورانعام کا سن کر حسن میمندی مکمل داستان کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا تلاش کرتا کرتا آخر کار دمشق پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ سلاطین دمشق کے ہاں یہ روایت چلی آتی ہے کہ ہر ماہ رمضان میں وہ شاہی توشہ خانہ(کتب خانہ) سے ایک کتاب نکال کر اسے تلاوت کی طرح پڑھا جاتا ہے اور پھر اسے بحفاظت سنبھال کے رکھ دیا جاتا ہے۔ حسن میمندی نے یہ سب سن کر مزید جستجو کی تو پتہ چلا کہ اس کتاب کا نام’’زبدتہ الجواب‘‘ ہے چنانچہ اس نے سلطان کی خدمت میں حاضرہوکر اپنا مدعا بیان کیا تو سلطان دمشق نے فورا حکم دیا کہ کتاب لائی جائے جب کتاب پیش کی گئی تو حسن مہندی نے دیکھا کہ اس میں تین داستانیں تھیں”بوستان ارم”، ’’سیف الملوک‘‘ اور شہہ پال تو یہ سب دیکھ کر حسن میمندی نے انہیں نقل کرنے کی اجازت طلب کی جس پر سلطان نے کمال مہربانی سے ماہر کاتب سے نکل کروا کر اسے حسن میمندی کے حوالے کردی اس طرح حسن مہندی نے اس داستان کو سب سے پہلے فارسی میں منتقل کیا۔ فارسی سے پھر یہ داستان 1036ھ میں دکن کے ملا خواصی نے اسے دکنی زبان میں منظوم کیا۔
ملا خواصی دکنی،عبداللہ قطب شاہ کا درباری شاعر تھا اور ملا خواصی نے اسے اپنے نام سے منسوب کیا مگر داستان وہی سیف الملوک تھی سیف الملوک کا ماخذ ہندی بھی بتایا جاتا ہے کہ سلاطین دمشق کی کتاب میں جو تین داستانیں تھی ان میں سے ایک کانام’’شہہ پال‘‘ ہے جو خالصتا ہندوستانی نام ہے دوسرا یہ کہ وادی کاغان موجودہ پاکستان میں ایک نہایت حسین و دلکش جھیل’’سیف الملوک‘‘ واقع ہے روایت میں آتا ہے کہ شہزادہ سیف الملوک نے شہزادی بدیع الجمال سے اسی مقام پر ملاقات کی تھی اور جب دیو کو پتہ چلا تو وہ اس مقام کی طرف لپکا تو جب پریوں کو اس امر کی خبر ہوئی تو انہوں نے قصبہ’’ناران‘‘ کے قریب ایک غار میں شہزادے کو جا چھپایا روایت کہ مطابق یہ غار اب بھی ناران میں موجود ہے ۔
یہ تو تھی وہ سحر انگیز روایات جو اس طلسماتی اور اساطیری داستان کا حصہ معلوم ہوتی ہیں مگر اصل داستان یہ بیان کی جاتی ہے کہ حضرت سلیمان کے دور میں مصر کا بادشاہ شاہ عاصم بہت عرصہ بے اولاد رہا ۔پھر اس نے یمن کی شہزادی سے شادی کی اس کے بطن سے حسین و جمیل لڑکا پیدا ہوا جس کا نام سیف الملوک رکھا گیا سیف الملوک جب جوان ہوا تو ایک روز اس نے ایک تصویر دیکھی تو اس پر دل و جان سے فریفتہ ہو گیا ۔ بہت جستجو کے بعد جب اسے پتہ چلا کہ یہ تصویر شہزادی بدیع الجمال کی ہے جو کہ پرستان کے بادشاہ کی بیٹی ھے تو شہزادے کے دل میں آتش شوق بھڑک اٹھی اور اس نے مصمم ارادہ کیا کہ وہ شہزادی کو ضرور ڈھونڈ نکالے گا آخرکار وہ اپنے ساتھیوں کو ساتھ لے کر نکل پڑا یہ بڑا دشوار گزار اور جان جوکھوں کا سفر تھا ۔ انجان راستے بن دیکھے کی تلاش ہزار ہا مصائب و تکالیف کے باوجود شہزادے کا عزم قائم رہا اس دوران وہ کئی ملکوں سے گزرا،لڑائیاں لڑی، دیو کی مصیبت سے گزرا،گورن وکھ پرندے کے چنگل میں پھنسا،شیدی قوم کی ازیتیں اور تکالیفیں برداشت کی آخرکار شہزادہ ایک طلسماتی محل میں پہنچا وہاں اسے معلوم ہوا کہ ایک دیو نے ایک شہزادی کو قید کر رکھا ہے تو شہزادے نے سلیمانی انگوٹھی کے فیض سے شہزادی کو دیو کی قید سے نجات دلوائی جس پر شہزادی، شہزادہ سیف الملوک کی شکر گزار ہوئی جب شہزادے نے اس کو اپنی داستان اور حصول محبوب کا مدعا بتایا تو شہزادی نے کہا کہ آپ کے احسان کے بدلے آپ کو میں آپکی منزل مقصود پر پہنچاؤں گی چنانچہ شہزادہ سیف الملوک اس شہزادی کی مدد سے شہزادی بدیع الجمال تک پہنچا تو وہاں شہزادے کا عزم مصمم اور جرأت و بہادری کا جزبہ دیکھ کر اسکا زبردست استقبال کیا گیا اور پھر بڑی دھوم دھام سے شہزادہ سیف الملوف اور شہزادی بدیع الجمال کی شادی ہوئی اس طر ح شہزادہ سرخرو ھو کر اپنے وطن واپس لوٹا ۔
سیف الملوک کی یہ داستان جہاں اہلِ دنیا اور بازوق افراد کیلے تفریح طبع کا باعث ہے وہاں اہلِ دل اور اہلِ تصوف کیلئے اس میں بیشمار حقائق و معارف پنہاںہیں ۔
فورٹ ولیم کالج کے قیام کے بعد جب اس کے کتب خانے میں بہت سا ادب محفوظ ہوا تو انہی میں سیف الملوک کا بھی ایک نسخہ تھا ۔1803ء میں سید منصور علی سبزاواری نے اس داستان کو اردو میں ’’بحرعشق ‘‘ کے نام سے منتقل کیا جبکہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ حیدر علی حیدری نے اپنی کتاب ’’توتا کہانی‘‘ سیف الملوک کی داستان سے اخذ کرکے مکمل کی ۔اپنی اثرپزیری اور شہرت کے باعث داستان سیف الملوک نظم اور نثر دونوںصورتوں میں لکھی گئی معروف برطانوی ماہرلسانیات ڈاکٹر کرسٹوفل شیکل کے مطابق انہوں نے اس قصہ کو برصغیر کی بیسیوں زبانوں میں لکھا ہوا بیان کیا جبکہ سرائیکی کے استاد الشعراء جناب محترم قیس فریدی صاحب کے مولوی لطف علی پر ایک مضمون کے مطابق داستان سیف الملوک نظم اور نثر کی صورت میں درج زیل زبانوں اور اَدوار میں لکھی گئی جن کی زبان۔مصنف و مترجم اور سن اشاعت درج ذیل ہے
1۔آسٹرین۔۔۔جاسر 1907ء
2۔اطالوی۔۔۔گبریالی (GABRIELI)1937ء
3۔اررو۔۔۔سید منصور علی سبزواری۔ 1803ء
4۔اردو۔۔۔انجمن ترقی اردو لاہور۔ 1835ء
5 ۔اردو۔۔۔شیخ عبدالرحمن شرقادی-مولوی کبیرالدین احمد بنگالی وغیرہ
6۔اردو۔۔منشی شمس الدین احمد۔ 1836ء
7۔اردو ۔۔۔نسیم دہلوی،منشی شادی لعل چمن۔1862ء
8۔اردو۔۔۔منشی طوطا رام شایان۔ 1868ء
9۔اردو۔۔۔حامد علی۔ 1890ء
10۔اردو۔۔مرزا حیرت دہلوی۔ 1892ء
11۔دکنی۔۔ملا خواصی دکنی۔ 1035ء
12۔دکنی۔۔میرسعادت علی۔ 1873ء
13۔انگریزی۔۔۔ایڈورڈ لین۔ 1835ء
14۔انگریزی۔۔جان پین۔ 1882ء
15۔انگریزی۔۔۔رچرڈ برٹن۔ 1897ء
16۔انگریزی۔۔اسٹین پی-پول۔ 1906ء
17۔بنگلہ۔۔مال محمد۔ 1235ھ
18۔بنگلہ۔۔۔رونا غازی۔ 1550ء
19۔بنگلہ۔۔۔مہا کوی سید علاول۔ 1669ء
20۔بنگلہ۔۔کوی محمد ابراہیم۔ 1669ء
21۔پشتو۔۔۔سید راحت زاخیلی۔ 1669ء
22۔پشتو۔۔محمد نور۔ 1669ء
23۔پشتو۔۔احمد خان۔ 1669ء
24۔پنجابی۔۔میاں محمد بخش۔ 1221ھ
25۔پنجابی۔۔مولوی فتح محمد۔ 1221ھ
26۔پولش۔۔۔نامعلوم۔ 1221ھ
27۔ترکی۔۔عزت کیچاچی زادہ رومی۔ 1553ء
28۔جرمن۔۔ہامر پرگشتال۔ 1823ء
29۔جرمن۔۔ہابخت۔ 1825ء
30۔جرمن۔۔ای ٹسمان۔ 1921ء
31۔ڈینش۔۔ہنینگ۔ 1921ء
32۔ڈینش۔۔راسہو سین۔ 1824ء
33۔ڈنش۔۔اوسترب۔ 1928ء
34۔روسی۔۔سیلیر۔ 1928ء
35۔روسی۔۔کراچکو فسکی۔ 1928ء
36۔سرائیکی۔۔مولوی لطف علی۔ 1195ھ
37۔سرائیکی۔۔۔ مخدوم محمدبخش ہاشمی۔ 1930ء
38۔سرائیکی۔۔سید قاسم علی شاہ خیرپورمیرس سندھ۔1350ھ
39۔سرائیکی۔۔ سلطان محمودسلطان سومرہ۔1357ھ
40۔سرائیکی۔۔خالق محمد بخش پوٹوھاری۔1357ھ
41۔سرائیکی۔۔۔خادم حسین مخفی جو ماشاء اللہ حیات ہیں۔1357ھ
42۔سندھی۔۔برٹش دور۔۔محمد عبدالرحیم وفا عباسی۔
43۔سندھی۔۔۔برٹش دور۔۔۔بہار بپڑ۔
44۔عربی ۔۔۔مبطع شاھی بولاق مصر۔ 1835ء
45۔عربی۔۔۔ شیخ احمد بن محمود یمنی۔ 1814ء
46۔فارسی۔۔مرزا محمد غفران۔ 1314ھ
47۔فارسی۔۔دیوان سنگھ خلیق۔ 1785ء
48۔فارسی ۔۔محمد عثمان جلال آبادی۔ 1910ء
49۔فارسی(یہاں یقینا سن غلط درج ہے یہ دور محمود غزنوی کا تھا)حسن میمندی۔1910ء
50۔فارسی ۔۔ابوالمکارم شہود دکنی۔ 1910ء
51۔فارسی۔۔ابوالبقا دکنی۔ 1910ء
52۔فارسی۔۔۔۔جسونت سنگھ۔ 1910ء
53۔فرنچ۔۔پروفیسر انتھونی گالنڈ۔ 1704ء
54۔فرنچ۔۔ ڈاکٹرجے جی مارڈروس۔ 1899ء
سرائیکی زبان میں پہلی بار قصہ’’سیفل نامہ‘‘ (مولوی لطف علی نے اپنے منظوم قصے کو سیفل نامہ کا نام دیا جو کہ بعد میں سیف الملوک کے نام سے معروف ہوا) نے منظوم لکھا جسکی فصاحت و بلاغت،لفظوں کی بندش و تراکیب،تشبہیات و استعارات میں ندرت،شعری مرصع کاری، غنائیت، سرائیکی محاوروں اور ضرب المثل فقروں کے استعمال کی وجہ سے مولوی لطف علی کو سرائیکی زبان کا ملک الشعراء، اور سرائیکی کا میرحسن کہا گیا۔
مولوی لطف علی ؒ 1129ھ بمطابق 1774ء میں قصبہ بہادرپور میں پیدا ہوئے ۔ضلع رحیم یارخان سے آٹھ کلومیٹر مغرب کی جانب واقع شہرہے ۔ پاکستان پرموجود چوک بہادر پور قصبہ بہادر پور کی وجہ سے معروف ہے۔جبکہ میر حسان الحیدری صاحب آپ کا جنم بستی گڑھی نیجڑہ تحصیل صادق آباد بتاتے ہیں اور آپ کے سسرال کا تعلق قصبہ بہادر پور بتاتے ہیں جہاں آپ نے شادی کے بعد رہائش اختیار کی، معروف محقق مجاہد جتوئی صاحب بھی میرحسان الحیدری کے خیال سے متفق ہیں مگر قیس فریدی نے دلائل سے آپ کی پیدائش بہادرپورثابت کی جبکہ ظامی بہاول پوری نے آپکی پیدائش قصبہ بہادرپور نزدجلال پور پیر والا اور عبدالغفور قریشی نے اپنی کتاب’’پنجابی ادب دی تاریخ‘‘میں مولوی لطف علی کو ملتان کا پیدائشی ظاہر کیا شاید ان کا اشارہ بھی قصبہ بہادر پور،جلال پور پیروالا ہی ہو مگر دیگر تمام محققین نے آپ کی ملتان ، جلال پور پیر والا پیدائش کو دلائل سے رد کیا اور آج تک کوئی بھی قلمی نسخہ جلال پور سے دستیاب نہیںہوا اور نہ ہی وہاں نیجڑہ قوم آباد ہے جو کہ مولوی لطف علی کی ذات ہے۔
مولوی لطف علی ؒکی ولدیت کے بارے میں اختلاف ہے ۔بعض محققین غیاث الدین بتاتے ہیں جبکہ بعض جگہ غلام علی بتایا گیا ہے مگر مزار پر موجود لوح مزار پر آپ کی ولدیت غلام علی درج ہے ۔
مولوی لطف علی ؒنے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی قصبے بہادرپور میں حاصل کی بعد میں مزید اعلی تعلیم اور سیرو سیاحت کیلئے مختلف شہروں میں قیام کے بعد ملتان پہنچے اور کافی عرصہ ملتان قیام پذیر رہے اور اس دوران آپ سلسلہ سہروردیہ کے کسی بزرگ کے مرید بھی ہوئے جبکہ مصنف نورنامہ مولوی نور محمد اور حافظ جمال اللہ ملتانیؒ سے بھی ملاقاتیں تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد آپ نواب مظفرخان والی ملتان کی دربار سے منسلک ہوگئے اور دوران ملازمت نواب مظفرخان کی حسین و جمیل کنیز’’مدن‘‘ پر عاشق ہوگئی اور جب نواب صاحب نے اس کنیز کو نواب بہاول خان ثانی والی ریاست بہاول پور کو تحفے میں بھیجی تو مولوی لطف علی ملتان چھوڑ کر سابق ریاست بہاول پور آگئے اور نواب آف بہاول پور کی دربار کے ساتھ منسلک ہوگئی اور وہیں مثنوی سیفل نامہ لکھی جوکہ وقت گزرنے کے ساتھ مثنوی سیف الملوک کے نام سے معروفہ ہوئی جبکہ دوسری روایت کے مطابق جو معتبر معلوم ہوتی ہے کہ مولوی لطف علی نے اپنے آبائی قصبہ بہادر پورموجودہ ضلع رحیم یارخان میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد تاریخی قصبے گڑھی اختیارخان میں مولوی احمد یار خان کورائی سے تعلیم حاصل کی اور بعد میں ملتان سے عربی و فارسی اور دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملتان ، بہاول پور ریاست میں ملازمت کرنے کے بعد گڑھی اختیارخان کے اسی مدرسے میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا جہاں پر آپ نے کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی تھی اور اسی دور میں معروف روایات کے مطابق مولوی لطف علی ایک سناری’’سندری‘‘ کی زلفوں کے اسیر ہوگئی اور اسی کے عشق میں سیفل نامہ المعروف مثنوی سیف الملوک لکھی۔
مولوی لطف علی ؒ نے سرائیکی زبان کی شہکار شاعری سیفل نامہ کی تکمیل 27رجب المرجب بروز جمعرات 1195ھ بمطابق 1780ء میں مکمل کی جیسا کہ خود فرماتے ہیں ۔
روز خمیس ختم تھیا اتے دفتر سن تاریخ لکھیوسے
بارہویں سخت صدی توں جو ہک پنجک چا گھٹیوسے
مولوی لطف علی نے سیفل نامہ فارسی کے کسی نسخہ سے سرائیکی زبان میں منتقل کرکے منظوم کیا جیسا کہ آپ خود فرماتے ہیں کہ
لطف علی کجھ کوڑ نہ اہدا آندانقل کتابوں
لطف علی لکھ چھوڑی جوکجھ وچ کتاب ڈٹھوسے
سرائیکی کے عظیم شاعر حضرت خواجہ غلام فرید مولوی لطف علی ؒکو شاعری میں اپنا امام مانتے تھے سفر و حضر،خلوت و جلوت میں سیفل نامہ ہمیشہ اپنے ہمراہ رکھتے اور ایک روایت کے مطابق کہ جب خواجہ صاحب سے مولوی لطف علیؒ کی شاعری سے متعلق دریافت کیا گیا تو خواجہ صاحب نے فرمایا کہ ہماری شاعری تو بارش کی ہلکی پھنوار کی مانندہے، اولے تو مولوی لطف علیؒ نے برسائے ۔
محقق پروفیسر نسیم بلوچ صاحب مثنوی سیف الملوک پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس مثنوی کے کردار اگرچہ برصغیر سے باہر کے ہیں لیکن مولوی لطف علی ؒنے اسے کچھ اس انداز سے لکھا جس سے مقامی تہذیب و تمدن کو بھی اُجاگرکیا مثنوی سیف الملوک لطافت و خوبی، روانی و سلاست،لفظوں کی بندش،تشبیہات و استعارات،غنائیت و موسیقی کی خوبیوں سے مالا مال ہے ۔ایک زمانہ تھا کہ مثنوی سیف الملوک کو مخصوص انداز میں پڑھنے والے کثیر افراد تھے جن کو پوری مثنوی حفظ تھی۔ بستی پیراں بلوچ گڑھی اختیارخان کے احسن فقیر مشہور مثنوی خواں تھے جبکہ نواں کوٹ کے صوفی محمد یار بے رنگ مرحوم نے تو کئی قسطوں میں پوری مثنوی ریڈیو پاکستان بہاول پور سے ریکارڈ کروائی۔
مولوی لطف علی کے مثنوی کی علاوہ کافیاں،دوھڑے،وغیرہ بھی ہیں مگر دستیاب کم ہیں۔ البتہ چند دوہڑے معروف ہیں ۔مولوی لطف علیؒ کے70سے 90 سالہ مطبوعہ نسخہ جات بہت سے شائع ہوئی جن میں سندھی رسم الخط میں مولوی محمد صادق رانی پوری کانسخہ جس کامقدمہ ڈاکٹرنبی بخش بلوچ نے لکھا جو 28مئی 1960ء میں طبع ہوا جبکہ سرائیکی میں کسی حد تک آخری کم اغلاط پر مشتمل مطبوطہ نسخہ ظامی بہاول پوری مرحوم نے مدون کیا جسے اُردو اکیڈمی بہاول پور نے1964ء میں شائع کیا۔
مولوی لطف علی کے 70سے 90سالہ چھ قدیم مطبوعہ نسخہ جات اور مبارک اُردو لائبریری صادق آباد، خواجہ فرید لائبریری کوٹ مٹھن شریف،راز تاجدار لائبریری فیض آباد خان پور سے حاصل کردہ تقریباً 50 سے 175 سالہ 30 قدیم غیر مطبوعہ قلمی نسخہ جات کے درمیان باہم تقابل کرکے ایک معیاری متن کے حامل نسخہ پر ممتاز محقق،ماہرِفریدیات جناب مجاہد جتوئی عرصہ تقریباً چھ سال سے تحقیقی کام الحمد للّٰہ مئی 2020 ء میں مکمل ہو گیا ہے اورحال ہی میں شائع ہو کر عوامی پذیرائی حاصل کرچکا ہے ۔سرائیکی زبان کے ملک الشعراء مولوی لطف علیؒ کا انتقال 1209ھ بمطابق 1794ء میںمئو مبارک شریف میںہوا آپ کو حضرت مغل شاہ کے قبرستان مئو مبارک شریف ضلع رحیم یارخان میں دفن کیا گیا۔ آپ کا مزار رحیم یارخان اوور بریج سے بجانب شمال تقریباً بارہ کلومیٹر کے فاصلہ پر تاریخی قصبہ مئومبارک میں واقع ہے ۔ مولوی لطف علیؒ کا پختہ مزار اور کمرے کی تعمیر مخدوم سجاد حسین قریشی مرحوم سابقہ گورنر پنجاب نے معروف محقق،دانشور صدیق طاہر مرحوم کے کہنے پر کروائی۔
مولوی لطف علی ؒنے اپنے قصہ کی شہرت کے بارے میں خود فرمایا کہ
لطف علی دا غوغا رہسی ایں جگ تے جگ توڑی
٭٭٭
صحیح تلفظ
حمید کی بارات پچاس آدمیوں پر مشتمل تھی؟ ۔۔۔۔۔صحیح لفظ ’’برات‘‘ ہے۔
’’بارات‘‘ بالکل غلط ہے۔ ۔۔۔۔۔’’برات‘‘ سنسکرت زبان میں’’بروات‘‘ تھا۔
بر کے معنی شوہر اور وات کے معنی’’آتا‘‘ ہے۔ اُردو میں برات ہوگیا اس لیے صحیح جملہ یوں ہوگا:
’’حمید کی برات پچاس آدمیوں پر مشتمل تھی‘‘۔
(حوالہ کتاب: اِصلاحِ تَلَفُّظ و اِملا،از: طالب الہاشمی،ص: 116)
***
***
مرزا حبیب الرحمن (خان پور)