(Last Updated On: )
صادق جاوید ( گڑھی اختیار خان )
(اس مضمون کا پہلا نصف تصرف شیخ کامل سے قرطاس قلب پر القا ہوا )
جس دن خوش بختوں کو آپ کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل ہونے والی تھی
الموت جسر یوصل الحبیب اِلی الحبیب
جہانِ روحانیت میں ایک عظیم مقام رکھنے والے مقبولِ خاص و عام ہر دل عزیز شخصیت ،مصنف ، محقق ، مقرر ، خطیب ، امام ، عالم اور بے بدل روحانی طبیب جن کی تشخیص کو بڑے بڑے جید ڈاکٹر مشعلِ راہ مانتے تھے ۔ اپنی ظاہری ضعیفیکا بہانہ بناتے ہوئے ۔ اپنے ان گنت مُحِبین کے لیے اس جہان کو کُنجِ تنہائی کی صورت میں عشق کے آزمائشی صعوبت خانے کی نذر کرتے ہوئے اپنے تئیں محبوبِ حقیقی سے جا واصل ہوئے ۔
اس حقیقت سے بھی کسی کو مفر نہیں کہ موتُ العَالِم، موتُ العَالَم مگر چارہ گرِ ازل سے اس کا بھی انتظام رکھا ہے ۔ علم ، اَدب اور روحانیت میں فخرِ سادات حضرت پیر سیّد محمد فاروق القادری ؒ کے صدقہ ٔ جاریہ کے بہت سے روپ ہیں ۔
آپ ؒ تو لا خوف اور لا حُزن کے حامل عالَمِ اعلیٰ میں ابدی عافیت کو اپنے نام کر چکے ہیں لیکن اپنے پرستاروں کے لامتناہی طبقے کو داغِ مفارقت غالباً سوزِ دَروں کو بڑھا وا دیتے ہوئے ، خوئے جستجو کو وسیلہ بنا کر مقصودِ حقیقی کے حصول کو تیز گام اور ایقانی وصل سے ہمکنار کرنے کی ایک کڑی ہوگی ۔ الحُب کے بٹھ تک وارد ہوئے سونے کو کندن کرنے کی سبیلِ اختیاری ہوگی کیوں کہ
یہ مقبولانِ خدا یارو وصالِ یار کی دُھن میں
زماں پوروں پہ گنتے ہیں عجب سی لو لگاتے ہیں
القصّہ یہ چنیدہ ہستیاں منتظربھی رہتی ہیں اور منتظَر بھی رہتی ہیں ۔
لیکن مقامی ملکی اور عالمی سطح پر نورِ ظاہر و باطن کے حوالے سے اپنی نوعیت کی اس شمعِ یکتا کے پروانوں کو گڑھی اختیار خان ، شاہ آباد شریف کی ۔ بدرجہ اُتم سوگوار فضائیں کیسے اور کیونکر مرہمِ متاعِ مطلوبہ دان کریں گی ؟
جواب تلاشنے کی سعی کرتا ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔
آج علم ہوا ہے کہ اس انسان نے کتنی بڑی حقیقت بیان کی ہے جس نے کہا تھا
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
یہ عظیم المرتبت ہستیاں کہ جن کا وجودِ مسعود ہی بندے کو بندہ پرور کی طرف راغب کرنے کا وسیلہ ہوا کر تا ہے ۔ طالبانِ علم و معرفت
راہ نوردانِ شوق اور عازمِ تحقیق بندگانِ خدا کے لیے
یکساں ویکتا پیر مغاں کی حیثیت سے قدرت خداوندی کی کرشمہ سازی کو منوانے والے سیّد محمد فاروق القادری نے ریاست بہاول پور تحصیل خان پور کے تاریخی قصبہ گڑھی اختیار خان کے مغرب میں واقع بستی شاہ آبادشریف میں علم و فضل ، حکمت و دانش ، سلوک و معرفت ، فقر و تفکر ، قیادت و سیادت ، تحقیق و تحریرمیں قابلِ فخر اور قابلِ تقلید مقام پید اکر کے اس شرف کو آتی نسلوں تک سپردگی کو اپنے تصرف روحانی سے ممکن بنانے والے صاحب اسرار و رُموز ، ولی ٔ کامل حضرت پیر سیّد سیف الدینؒ شاہِ مغفور القادری کے ہاں مکمل روحانی ماحول میں آنکھ کھولی ۔ تحصیل و ترسیلِ علمِ روحانی کے لیے سعود ی عرب اوچ شریف شکار پور سے گڑھی اختیار خاں میں شاہ آباد شریف کوبعینہِٰ وہ مقام حاصل ہے ۔ جو پروانوں میں شمع، عنادل میں پھول یا صحرا میں زم زم کا ہوسکتا ہے ۔ تحقیق کے بغیر علم تجاہل ہمہ قسم کا سہولت کا رثابت ہوتا ہے لیکن شاہ آباد شریف نے وقت کو محقق العصر پیرِ طریقت حضرت سیّد فاروقؒ القادری اَیسے جید عالم فاضل سے نوازا کہ عصری علوم میں اس وقت گولڈ میڈل حاصل کیا خصوصاً جب اس کا خواب دیکھنا بھی سماجی پستی کا سبب ناممکن تھا ۔ حکومت کی طرف سے نہایت پرکشش جاب آفر کو ٹھکرا کر دینِ متین کی خدمت کے لیے بھی اہلِ علاقہ کے استحقاق کو اَوّلیت عطا کی ۔ گڑھی اختیار خاں کے حِصّے میں یہ خوش بختی نہایت قدیمی ہے ۔ حضرت پیر سیّد فاروقؒ القادری کے آبائو اَجداد ، زمانہ قدیم سے اس خطے میں رشد و ھدی کے چراغ جلاتے آرہے تھے ۔
جب ہم مشائخِ شاہ آباد شریف کے تاریخ پر نظرڈالتے ہیں ۔ یہ بھی روحانی فیض کے اسی سلسلے کی کڑی ہے جس کے تحت اکابر صوفیا مشائخ اور خصوصاً سادات کرام نے اسلام کی ترویج کے لیے نہ صرف وطن چھوڑا بلکہ دور دراز کے ممالک کے سفر سے بھی دریغ نہ فرمایا ۔ جنیدِ زماں سیّد العارفین حضرت مخدوم سیّد جلال الدین سر خ پوش بخاری ؒ خانوادۂ سادات بخاری میں سے وہ پہلی شخصیت ہیں ۔ جنہوں نے بخارہ کو خیر باد کہہ کر اوچ شریف اسے لق و دق صحرا میں دینِ متین کی ۔ تبلیغ و اشاعت کے لیے قدم انجا فرمایا ۔ حضرت سیّد جلال الدین سرخ پوش بخاریؒ آپ کے فرزند مخدوم سیّد احمد کبیر بخاری ؒ اور آپ کے دونوں پوتے مخدوم سیّد جلال جہانیاں جہاں گشت اور مخدوم سیّد صد ر الدین راجو قتّال تاریخ صوفیا کے وہ روشن نام اور کردار ہیں ۔ جن کی محنت اور خدمتِ خلق سے جلی شمع قیامت تک ماند نہیں پڑ سکتی ۔ انہوں نے دینِ متین کی تبلیغ کے لیے خود بھی کارہائے نمایاں سر انجام دیے اور ان کی آل اطہر بھی اپنے اجدا کے نقشِ قدم پر عمل پیرا رہی ۔ ان حضرات کی اولاد میں سے اکثر نے مختلف علاقوں اور شہروں کا رُخ کیا ۔ گجرات ، لاہور ، ملتان ، ہندوستان کے بعض علاقے اور شکار پور نہایت قابلِ ذکر ہیں ۔
آپ ؒ کی اولاد میں سے جن حضرات نے شکار پور کو اپنا مسکن بنایا ۔ ان میں سے حضرت سیّد محی الدین عبد القادری ؒ ایک بہت بڑا نام ہے ۔ جنہوں نے تیرہوویں صدی کے آخر میں شکار پور کو خیر باد کہہ کر خان پور کے نزدیکی بستی ڈیرہ گبولہ کو اپنی زیارت و قیادت سے مشرف فرمایا ۔ اس وقت یہ پستی علمی پستی و اخلاقی کج روی کا شکار تھی لیکن آپ ؒ کی آمد نے اس جنگل میں منگل کا سماں باندھ دیا ۔ تائید ایزدی سے آپ ؒ نے بڑی دل چپسی سے نہایت عز م و استقلال کے ساتھ وہاں دین کا کام شروع کیا اور ساداتی روایات کے عین مطابق اس زمانے کے لحاظ سے بڑ ی خوب صورت مسجد بنوائی اور شب و روز دینی اُمو ر کی ادائیگی کے لیے کوشاں رہے ۔
آپ ؒ نے اپنی عمرِ عزیز کے تقریباً چالیس برس وہاں بِتائے ۔ ۱۳۱۹ہجری میں داعی ٔ اجل کو لبیک کہہ دیا آپ کا مزار مبارک ڈیرہ گبولا میں ہی مرجع خلائق ہے ۔
آپ ؒ کے بعد آپ کے فرزندِ ارجمند قدوۃ الاولیا حضرت سیّد جعفر شاہ بخاری سہروردی قادری نے کچھ عرصہ ڈیرہ گبولا میں قیام فرمایا ۔ اس بابر کت ذکر اس حصہ پر میں انتہائی مُسرّت سے یہ اعتراف کرنا چاہتا ہوں میرے نانا صاحب جمعہ خان کرمانی کے سُسر ، محمد نواز خاںشیخانہکے مطابق ان کے والد کی ساداتِ شاہ آباد شریف سے حضرت سیّد جعفر شاہ بخاری کے حوالے سے عقیدت محبت اور ارادت کا ربط ثابت ہے ۔ میں نے یہ بات اپنی نانی اماں مسماۃ لعل مائی سے سن رکھی تھی ۔ جن کا ساداتِ شاہ آباد شریف سے ربط قدیمی اور پروانی رہا ہے ۔ وہ اب ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کی حقیقی بہن حال حیات ہیں ۔ میں ان سے ملا اور اس بابت جاننا چاہا تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے والد محمد نواز خاں شیخانہ بتا یا کر تے تھے کہ میرے والد ہر میٹھی عید ، بکر ا عید اور بارہ ربیع الاوّل کو نہایت خوشی تیار ی کر تے اور کہتے ’’ میں اپنے مرشد کے ڈیرے پر جا رہا ہوں ‘‘۔
بعد میں سادات سے والہانہ محبت چلتی چلتی ہم بہن بھائیوں تک پہنچی ہے اور شرفِ ارادت بھی حاصل ہو رہے ۔ اس طرح میں غلامانِ سادات کی پانچویں نہیں بلکہ ساتویں پشت میں مرید ہونے کا اعزاز رکھتا ہوں ۔
تو میں عرض کررہا تھا کہ آپؒ کے بعد آپ کے فرزند ارجمند ندوہ الاوّلیا حضرت سیّد جعفر شاہ بخاری ؒ نے کچھ عرصہ ڈیرہ گبولا قیام فرمایا اور بعد میں کچھ معزز و معتبر حضرات کی استدعا کو شرفِ قبولیت بخشتے ہوئے تشریف لے آئے ۔ آپؒ بڑے عالم ، متقی اور پرہیز گار تھے ۔ آپؒ کے حوالے سے کتابوں میں بہت کچھ تفصیل سے لکھا جا چکا ہے ۔ آپؒ نے بھی ساری زندگی گڑھی اختیار خان میں رہ کر رُشد و ہدایت کا فریضہ سر انجام دیا ۔ آپؒ کے بعد آپ کے فرزند نامور عالمِ دین برہان الدین حضرت سیّد سردار احمد القادری اور گڑھی اختیار خان میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد قصبے سے مغرب کی طرف ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلہ پر بالکل جنگل کی جگہ پر اپنی دوکانِ عشق و محبت کا آغاز کیا ۔ اس وقت بھی آپ اس جنگل نما جگہ کے بارے میں فرماتے تھے کہ میں نے اس جگہ پر دو بار خواب میں جلوہ افروز دیکھا ہے ۔ اس جنگل نما جگہ سے آپ کی محبت کی وجہ محض یہی تھی ۔اور پھر وقت نے دیکھا کہ وہ جگہ علم و روحانیت کے فیوض و برکات سے اور کیف و سرور سے معطر ہوگئی ۔ جس کی روحانی عطاروں میں صوفی شاعر اور عالمِ دین حضرت پیر الحاج سیّد محمد سیف الدین مغفور القادری ؒ ، حضرت پیر سیّد بہار علی شاہ القادری ، حضرت علامہ پیر سیّد مظفر علی شاہ القادری کے ساتھ ساتھ ایک ایسی علمی روحانی و ادبی شخصیت کو کسی تعارف کی محتاج نہیں بلکہ ایک لحاظ سے یہ پورا خانوادہ ہمیشہ کے لیے اسی شخصیت کے نام اور کام سے پہچانا جائے گا ۔ اس کارِ سعادت میں پیش پیش ہیں ۔ مری مراد آبروئے قلم ، موقر المحققین اور جانبازِ سادات حضرت علامہ پیر سیّد محمد فارو ق القادری ؒ ہیں ۔
نیز خان دانِ کوریجہ کے مقبول بارگاہ بزرگوں کا مسکن ہونے کا شرف بھی گڑھی اختیا رخان کو حاصل رہا ہے ۔ حضرت خواجہ دُر محمد کوریجہ جنہیں عوام ’’ حضرت دُر پاک ؒ ‘‘ کے نامِ نامی سے یاد کر تی ہے ۔ حضرت خواجہ گُل محمد سئیں المعروف بدھن سئیں کوریجہ کے علاوہ ہم نے بزرگوں سے دیگر بہت سے بزرگوں کے دم قدم سے مقبولانِ بارگاہ اَولیائے کرام کے بارے میں سُنا ہے جن کے دم قدم سے رونما ہونے والے فیو ض و برکات کے تذکرے زبانِ زدِ عام ملتے ہیں ۔ حضرت خواجہ دُر محمد کوریجہ ، حضرت خواجہ محمد یار فریدی ، حضرت خواجہ غلام نازک کریم نے جس فیضان کرم کی ترسیل کا حق اَدا کیا ہے ۔ اس کی تاریخ بہت قدیم ہے جب کہ بہارِ چشت کے فاضل مصنف نے حضرت خواجہ محمد یار فریدی ؒ کی آمد سے پہلے اس سرزمین کو بے آب و گیاہ کیوں لکھا ؟ جواب تو شاید و باید مگر بہت سے سوال جنم لینے کو بے تاب نظر آتے ہیں ۔ بہر حال گڑھی اختیار خان کی فضائیں جن شخصیات کے احسانات کو اُتارنا تو درکنا شمار کرنا بھی ناممکن پائیں گی ان ہی میں سے ایک سیّد محمد فاروق القادری ؒ بھی ہے اور نام بھی کافی ہے ۔
آپ نے علوم کو حق الیقین سے ہمکنار کر کے تحقیق کی کسوٹی پر پَرکھنا شروع کیا تو محققینِ عالم نے اپنی راہیں متعین کرنے کا جواز تلاش لیا ۔تقر یر و تحریر کا میدان ہو یا فکری مباحث کی محافل آپ کی رائے ہمیشہ حکم کا درجہ رکھتی تھی ۔ آپ نہایت حلیم الطبع مگر جلالی کیفیات سے وقار سادات کے امین نظر آتے تھے ۔ باتوں سے دل موہ لینے میں بھی ماہر اور ضروری تبخر میں بھی تیزگا م رہتے تھے ۔
مگر تبلیغی مقاصد کے لیے بندگانِ خدا کو کشش کر نے میں بھی لاثانی صلاحیتیوں کے مالک تھے ۔ ہاں مگرتصرف ِروحانی سے سیکنڈ سے بھی قبل فیصلہ فرمالیتے تھے کہ جوہرِ مطلوبہ سے محروم اَفراد جاتے نہ دِکھتے تھے ۔
سیرت و اَخلاق آپ کا من پسند موضوع رہا ہے اور مقالہ نویسی میں جو مقام آپ نے حاصل کیا اس کو بڑے بڑے فکری ڈاکٹر بھی ترستے رَہ جاتے ہیں ۔
اس کریم گھرانے سے محبت کرنے والوں کی بے شمار تعداد میں راقم الحروف کے دادا دادی ، نانا نانی ، والد اور والدہ کی والہانہ محبت بھی دیدنی رہی ہے اور قابلِ ذکر ہے یہ ناچیز گلزارِ محمد ی کے اس وردہ یگانہ کی اُلفت کا اَسیر بھی ہے اور شرف ِ ارادت سے امیر بھی ہے ۔
سادگی میں کمال رکھنے والے اس فخرِ سادات مرشدِ کریم کی عوام الناس سے مثالی شفقت دیکھ کر اندازہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ مردِ درویش فتوحاتِ مکیہ ایسی اَدق علمی سلطنت کو طشتِ ازبام کرنے پہ تلے گا تو شارحینِ اَسلاف کو ورطہ ٔ حیرت میں ڈال دے گا ۔ ملک عزیزکی زبوں حالی کو ’’ اَصل مسئلہ معاشی ہے ‘‘ کا نادر نمونہ دان کر دے گا ۔
معرفت کے تار چھیڑے گا تو انفاس العارفین کو دامانِ عافیت نصیب ہو جائے گا ۔
چمن میں دیدہ ور کا تصورّ کرے گا تو ایسے علمی جواہر پارے قرطا س و قلم کی جادوگری کے پلڑے میں ڈال دے گا کہ جس پر مقامی ملکی اور بین الاقوامی اداروں کی ھل من مزید کو قرار ملے گا حتیٰ کہ جامعتہ الازہر مِصر کو بھی آپ کی کتابوں کو شامل نصاب کر تے ہوئے فخر و انبساط کا اَحسا س ہوگا ۔ عالمی شہر ت یا فتہ صوفی اسکالر حضرت خواجہ غلام قطب الدین فریدی فرماتے ہیں کہ میں جب جامعتہ الازہر مِصر میں لیکچر کی غرض سے پہنچا تو دل میں ایک مُسرّت محسوس کر رہا تھا اور یہ مسّرت اس وقت مزید بڑھ گئی جب سیّد محمد فاروقؒ القادری کی کتابیں اور عقید ت مند مجھ سے پہلے وہاں موجود ملے اور میری توقیر میں بھی اضافہ ہوا کہ میں آپ کے قصّبے سے آیا تھا ۔
ذرا دل پہ ہاتھ رکھ کے السوق التحقیق کی سیاحت فر مائیے ۔ اشہبِ خیال کو مہمیظ لگائیے اور اس خام خیالی کو جواب دہی میں معاون ثابت ہوئیے کہ ان چنیدہ ہستیوں کے مسکن گڑھی اختیار خاں کو کیونکر غیر آباد ، کہا جا سکتاہے جن کے وجود مسعود کو رجال الخیر کے سوا کچھ اور کہا ہی نہیں جا سکتا ۔
تحدیث نعمت کے لیے عرض ہے کہ گڑھی اختیار خان کی سرزمین جن مبارک قدموں کے لمس سے رشک اقالیم بنی ہوئی ہے ۔ ان میں حضرت حاجی محمد کبیر ؒ، حضرت پیر سیّد محی الدین شاہ بخاری سہروردیؒ ، حضرت پیر سیّد حضرت جعفر شاہ القادری بخاری ، بُر ہان الدین حضرت پیر سیّد سردار احمد القادری ، حضرت مولانا محمد حیات صاحب ، حضرت پیر سیّد مظفر علی شاہ بخاری ۔
لیکن’’ الصّوفی باالجسد و الروح ‘‘کو پیکر تمثیل سے نوازنے والی زبدۃ المحقیقین ، فخرِ اَسلاف شخصیت ، قمر العارفین ، شمس الکاملین ، مرشدِ جہانِ ھل منمزّید حضرت علامہ پیر سیّد محمد فاروق القادری نے اس آفاقی شعر سے مبالغہ کے شائبہ کو بھی دُور فرمادیا ہے کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ وَر پیدا
اِمسال 18مارچ 2021ء بروز جمعرات آپ کا عرس مبارک نہایت عقیدت و احترام سے منایا گیا جس میں ملک عزیز کے نامور مشائخ محرم راز مقررین صاحب کمال دانش وروں اور منجھے ہوئے اسکالرز نے درہائے بے بہا لٹائے ، مریدین ، متوسلین اور عقیدت مندوں کی بسملی کو یک گو نا قرار عطا فرمانے والوں میں نمایاں اَسمائے گرامی جگر گوشہ ٔ غزالی زماں حضرت علامہ سیّد حامد سعید کاظمی ، علامہ مفتی محمد عرفان الحق نقشبندی صاحب، علامہ پروفیسر عون محمد صاحب ، علامہ پروفیسر ڈاکٹر مفتی محمد اَکبر صاحب اور علامہ محمد عارف سعیدی صاحب ہیں ۔ جنہوں نے دوائے در د بانٹی اور خوب تر بانٹی ۔ ادیب شہیر جناب خواجہ محمد اَدریس نے اپنے مخصوص انداز میں ذکرِ کاملین کے تمام تر تقاضے نبھائے ۔ الحمد للہ ہم کاملین کے درودِ ثانی کے قائل ہیں ۔ دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کی شہادت اس اَمر پر دال بھی ہے قائم بھی ۔
کہ جس اَنداز سے حضرت سیّد علی رضا القادری ، سجادہ نشین درگاہِ عالیہ شاہ آباد شریف مکمل وقت مخصوص درگاہی انداز سے جس طرح جلوہ اَفروز رہے اور حضرت پیر سیّد صبغت اللہ سہروردی نے جب ڈائس پر آکر مختصر مگر جامع خطاب فرمایا تو حرف حرف حکایت کا تسلسل ثابت ہوا ۔
چشمِ تصور نے بھی اور چشمِ دل نے بھی بیک وقت شیخِ کامل کے ورودِ ثانی کے خوش بخت خیال پر گویا مہرِ تحقیق ثبت فر مادی ۔ جسے ہر صاحب ذوق نے نہ صرف محسوس کیا بلکہ استحضار کی سعی بھی حتی الوسعیٰ کی ۔
اس اَمر کی ایک اور دلیل جسے عوام و خواص دونوں نے اخبار کی سرخی کی طرح دیکھا مانا اور عش عش کر اُٹھے ۔
وہ تھا اتنے عالی شان پروگرام کا قابلِ رشک انتظام جس کا سہرا گلشنِ سیادت کے گل منفرد اور حضرت قبلہ و مرشد کریم کے سپر خورد حضرت پیر سیّد رشد اللہ بخاری المعروف سیّد جعفر بخاری کے سر سجتا ہے ۔
اس یادگار روحانی انجمن کی ایک بین انفرادیت ملک عزیز کے طول وعرض سے تشریف لانے والے مشائخ عظام ، مرشدین کرام اور کرم فرمائوںکی اسٹیج پر جلوہ اَفروزی تھی ۔ جن میں نمایاں اَسمائے گرامی پیر میاں عبد النبی ، سیّد قدیر اعجاز بخاری ، پیر میاں رضا رحیم ( بھرچونڈی شریف ) خواجہ محمد عالم کوریجہ فاروقی ، اُستاذ العلما مولانا محمد بخش سعیدی ، مولانا محمد عارف سعیدی ، مفتی طاہر ذیشان قادری ، چودھری ظفر عطا ء ، رئیس مظہر کمال ، حاجی ریاض احمد زرگر اور دیگر احباب شامل ہیں ۔
قیل قال کا اوّل و آخر مقصد منظوری ابلاغ اور ترسیل ہوا کرتا ہے ۔ جس پر دوسری رائے ہے ہی نہیں ۔ سب پر کرم کی نظر ہوئی اور خو ب ہوئی ۔ مگر استقبالِ اظہر کاقرعہ بلاشبہ علامہ پروفیسر عون محمدمُصطفٰوی کے نام نکلا جن کا حرف حرف پباں پار اَعلان فرما رہا تھا ۔
میں نئیں بولدی او لوکو میں نئیں بولدی
میرے وچوں میرا یار بولدا
محترم پروفیسر کی قبولیت پر ایک مقالہ ذہن میں سمویا ہوا محسوس کر رہا ہوں ۔ مرشدِ کریم کا تصرف روحانی اسے منظرِ عام پر آنے کی توفیق عطا فرما دے ۔پروفیسر صاحب کے فرمودات کو اس شعر میں نمایاں پا رہا ہوں ۔
تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا
اِن سب باتو ں کے ساتھ ساتھ شاہ آباد شریف کے پروگرامز کی اِنتظامیہ سے بھی ہر گز صَرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا ۔ جس شائستہ اَنداز میں اور جس اَدب و خاموشی سے اُنہوں نے فرائض سر اَنجام دیے وہ قابلِ رشک ہی نہیں بلکہ قابلِ تقلید ہے اور یقینا اس کے پیچھے تربیّت اور نگاہ کار فرماہوتی ہے ۔ آج کے نفاست پسند اور تعُیش پَرست صاحب زادانہ ماحو ل میں شہزادگانِ حضرت پیر سیّد فاروق القادری ؒ کی اِنسان دوستی اور مہمان نوازی کا پروگرام کے بعد یہ خُوب صورت منظر آنکھوں نے پہلی بار دیکھاکہ مرکزی دروازے کے قریب کھڑے ہو کر ماو شما کا فَرق رکھے بغیر ہر ایک کو مُعانقے کے ساتھ رُخصت کرنا سب ہی پُر کیف ماحول تھا ۔ حالاں کہ کئی روز کی تھکاوٹ بالخصوص دو دن سے مسلسل تقاریب کی تھکاوٹ کی آڑ بھی لی جا سکتی تھی مگر اِس انداز نے شیشہ کی طرح خانقاہ شاہ آباد شریف کے صوفیانہ روحانی ماحول کو ممتاز و منفرد کر دیا ۔ پھر مریدین و مُحبّین کا شہزادگان کے گِرد دیوانہ وار ہجوم ، عقیدت ، دُعائیں لینے کا اَنداز اور اپنے پروگرامز میں قدم رَنجہ فرمانے کا اِصرار اور شہزادگان کا انتہائی عمانیت و خُوش اُسلوبی سے جواب دینا یقینا حقیقی خانقاہی ماحول کی واضح جھلک تھی ۔
عقل کے داند کہ این رمز کجا اَست
کایں جماعت را نشا نے دیگر اَست
٭٭٭