6 مئی کاروشن دن طلوع ہوا توکرنوں میں کسی ’نسرینِ ناز آفریں‘ کی چوم لیےجانےکی شرماہٹ تھی۔ 1973 کا ایسا ہی محبوب کےرنگ میں رنگا دن ہوگاجب ہمارےشوکمار بٹالوی نےرختِ سفر باندھا۔ آج 6 مئی 2022 ہے اور میں سینٹ الزبتھ کی تنگ گلی کےدہانے پرکھڑاہوں مونٹریال جزیرے کااونچاقدرتی مقام مانٹ رویَل نامی پہاڑی ہےجہاں لوگ شہرکانظارہ اورپہاڑی روشوں پرچہل قدمی کرنےآتےہیں۔
مانٹ رویَل کی مغربی ڈھلان دوقدیم اوربڑےقبرستانوں پرمشتمل ہےجہاں مونٹریالرزاپنے چاہنےوالوں کودفناتے آرہےہیں
اس مغربی ڈھلان کےجنوبی حصےمیں نوٹرےڈیم ڈی نیژ کاگورستان ہے نوٹرے ڈیم ڈی نیژ کے گورستان کے قطعے TR کی پانچویں قطار میں پلاٹ نمبر 00535 پر یہ کتبہ پروایٹی خاندان کے دس لوگوں کی آخری آرام گاہ کے سرہانے نصب ہے۔
کتبے پر کندہ واحد نام جیوآنی پروایٹی کاہے جو 1934 میں یہاں دفن ہونے والے پروایٹی خاندان کے پہلے فرد تھے
ستم زارِ ہستی نے چند سالوں بعد اسی قطعے کوچار نوخیز کلیوں کوایک دُکھی دل کےساتھ خوش آمدید کہتے دیکھا جنہوں نے ابھی اپنی بہارِ جاں فزا دکھلانی تھی۔ یہ مونیکا پروایٹی کے کمسن بہن بھائی تھے جو 1662 سینٹ الزبتھ پر واقع بلدیاتی رہائش میں ہوئی آتشزدگی میں جان کی بازی ہار گئے تھے۔
بہت بعدکےسالوں میں مونیکاپروایٹی نےبھی انجام کار TR00535 کواپناآخری مسکن بناناتھامگرابھی جرم وسزا کی ہیجان انگیزیوں سےعبارت ایک ہنگام ہستی ہماری مونیکا کی راہ تکتا تھا۔
صاحبواسیرانِ سب رنگ کےنبض شناس شکیل عادل زادہ ہنری سلیسر کی جرمیات سےمرصع ایک کہانی کاتعارف کرواتےہوئےلکھتے ہیں
’کسی یاوہ گو کاکہناہےکہ جرم توکسی مستندسماجی قدرکی پامالی سےشروع ہوجاتاہے۔ محلےکےباہم پیوستہ گھروں کےدروبام، چلمنوں اوردریچوں کی اوٹ سےکسی عزت دارخاندان کی ناموسِ لالہ فام، گل اندام کودعوتِ شوق سےجرم کی ابتداہوجاتی ہےاورسوھنی کی کہانی وجود میں آتی ہے لیلیٰ کا فسانہ عام ہوتا ہے۔‘
شو کمار بٹالوی کی برسی کےگورےدن جبکہ کرنوں میں ایک آشنابوسے کی شرماہٹ گھلی ہوئی تھی میں سینٹ الزبتھ کی اس تنگ گلی کےدہانےپرکھڑا تھا جو انٹاریو سٹریٹ کو جاتی کچھ رہائشی کانڈوز سے گزرتی تھی
کہنے والے کہتے ہیں کہ یہیں مکان نمبر 1662 کی آتشزدگی میں چار کمسن بہن بھائیوں کی ہلاکت نے ایک جوانِ رعنا’سلمائے سمن اندام‘ کوجرم وسزا کی دنیاکےراستے کامسافرکردیا۔
(دیکھیےشکیل عادل زادہ کی عطاکردہ دو دلکش ترکیبیں کب سےہمارےذہن میں کلبلا رہی تھیں سو ایک کوتحریر کےآغازاوردوسری کویہاں قرطاس کےحوالےکردیا)
گئےوقتوں میں ڈاؤن ٹاؤن مونٹریال کایہ نیبرہوڈاس سرخ روشنی سےمنسوب تھا جسکاعلاقہ کراچی کےنیپیئر روڈاورلاہور کی اس منڈی سےلگتاہےجہاں ایک زمانےمیں بقول مرزا کوئلوں کی دلالی سےمنہ کالاکرنےکاانتظام تھا۔
اپنی سادہ طبیعت اور ماضی کی روایت کی پیروی ہم نےجب یہاں قدم دھرےتو صبح کابےضرر وقت تھا، ابھی بوہنی نہیں ہوئی تھی اور ہونی بھی نہیں تھی کہ سُرخ روشنی اور زردروچہروں کے بیوپاری یہاں سےاپنی دکان بڑھاگئےتھے
مونٹریال کےقدیم ریڈلائٹ ڈسٹرکٹ کےانہی باہم پیوستہ گھروں، انکےدریچوں اورچوباروں میں ایک لالہ فام، گل اندام سوہنی کودعوتِ شوق کی رنگین بیانی نےمونیکا پروایٹی سےجرم کی دنیا کی مشین گن مَولی بنادیا
اب یہ قضیہ پرانا اور قصہ طولانی ہے عید سعید پر گزری ایک سیر حاصل رخصت اور والدین کی صحبت سے روزمرہ کو پلٹتی زندگی کارِجہاں کے دائمی چکر کے مَدِرا سے (انگریز بھی تو ورکوحولک کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں) کچھ گھڑیاں ہوش کی پائے تو اس کہانی کو کہنے کا کچھ سامان ہو فی الوقت تو گئے دنوں سے لاہور کے شاہی محلے کہ یہ داستان حاضر ہے۔ پڑھیے اور مونٹریال کے شاہی محلے کی کہانی کا انتظار فرمائیے۔
نوٹ: ادارہ کہانی کے عین وسط میں اپنے قارئین کو ڈولتا چھوڑ دینے پر بالکل بھی معذرت خواہ نہیں ہے کہ انتظار کا اپنا مزہ ہے۔