سیسے کا سمبل Pb کیوں ہے؟
اس کا تعلق لاطینی لفظ پلمبم سے ہے جس کا مطلب پانی کا نظام ہے۔ لفظ پلمبر بھی اسی وجہ سے ہے۔ قدیم روم میں پانی کے پائپ اسی سے بنائے جاتے تھے کیونکہ اسے زنگ نہیں لگتا اور یہ لیک نہیں ہوتا۔ بیسویں صدی تک اس کو پٹرول، رنگ، کاسمیٹکس میں استعمال کیا جاتا تھا۔
آج اس کا استعمال کیوں بند ہو گیا؟
کیونکہ کسی کے ذہن میں زمین کی عمر معلوم کرنے کا جنون سوار ہوا تھا۔
یہ عمر معلوم کیسے کی گئی؟
زمین میں لگی گھڑی سے، سیسے سے، خلا کے پتھروں سے، بڑی باریک بینی اور محنت سے اور ہاں، اس نے عالمی آبادی کی اوسط عمر بھی بڑھا دی۔
یہ کہانی شکاگو کے کلئیر پیٹرسن کی 1950s میں حیران کن حد تک احتیاط سے کئے جانے والے تجربات کی ہے۔ زمین کی عمر کیا ہے؟ آج تو یہ عام معلومات ہے لیکن یہ ہمیشہ نہیں تھی۔ اس کی عمر کا اندازہ سب سے پہلی بار 1862 میں درجہ حرارت کو دیکھ کی کوشش کی گئی۔ لیکن اس کہانی کے ہیرو کلئیر پیٹرسن نے اس کو معلوم کرنے کے لئے زمین میں لگی گھڑی یعنی ریڈیو ایکٹیویٹی کی مدد سے اسے معلوم کرنے کی ٹھانی۔
اگر آپ پیریوڈک ٹیبل دیکھیں تو اس میں ہر عنصر کے نیچے اس کا ایٹمک وزن نظر آئے گا جو whole number نہیں ہو گا۔ مثال کے طور پر کاربن کا وزن 12.011 ہے۔ ایسا کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ کاربن کے دوسرے آئسوٹوپ بھی ہیں۔ کاربن 12 کے علاوہ کاربن 13 اور 14 بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ ان کی مقدار کے حساب سے ان کی اوسط ہے۔ جب بھی کاربن کسی جگہ سے ملتی ہے تو اس تناسب سے۔ یہ تناسب اتنا ہی کیوں؟ اس کا تعلق اس سپرنووا سے ہے جس کی باقیات سے نظامِ شمسی وجود میں آیا۔ (کسی اور ستارے کے سسٹم میں یہ تناسب مختلف ہو گا)۔ کچھ عناصر ریڈیوایکٹو ہیں اور ایک خاص رفتار سے ڈیکے کر رہے ہیں۔ یورینیم ڈیکے ہو کر سیسے میں بدل جاتا ہے۔ یہ 206 یا 207 میں بدلتا ہے لیکن 204 اتنا ہی رہتا ہے۔ اگر ہمیں یہ پتہ لگ جائے کہ زمین کے آغاز پر یہ تناسب کیا تھا اور آج یہ کیا ہے تو زمین کی عمر کا پتہ لگ جائے گا۔ آج یہ کیا ہے تو آسان سوال ہے لیکن زمین کے بنتے وقت یہ کیا تھا؟ اس وقت تو کسی نے یہ ریکارڈ نہیں کیا تھا۔ اس کا جواب آسمان سے ملا۔ پورا نظامِ شمسی ایک ہی سپرنووا کی باقیات ہے تو پھر جو شہابیے زمین کے گرد ہیں، ان کے عناصر بھی مختلف نہیں۔ نیوکلیوسنتھیسز میں لوہا بھاری مقدار میں بنتا ہے تو کئی شہابیے خالص لوہا ہوتے ہیں۔ لوہے کے ساتھ یورینیم نہیں مل پاتا لیکن سیسہ مل جاتا ہے۔ اس وجہ سے شہابیے پر پایا جانے والا سیسہ اس تناسب سے ہے جو زمین کی پیدائش کے وقت تھا۔ پیٹرسن نے ایریزونا سے شہابیے کے ٹکڑے حاصل کئے لیکن اب ایک اور مسئلہ درپیش تھا۔ صنعتی انقلاب۔
پٹرول سے لے کر رنگوں میں استعمال ہونے کی وجہ سے سیسے کا لیول بڑھ رہا تھا۔ جس طرح آج کاربن ڈائی آکسائیڈ کا مسئلہ درپیش ہے۔ اس دور میں سیسے کا مسئلہ تھا۔ ان شہابیوں کی سطح پر انسانی سیسے کے استعمال کی وجہ سے ایک باریک تہہ چڑھ چکی تھی۔ یہ اس قدر نازک تجربات تھے اور اس قدر صاف لیبارٹری کہ انسانی بال کا سیسہ بھی ان کی ریڈنگز پر اثر ڈال سکتا تھا۔ کلئیر پیٹرسن نے اس کے حل ڈھونڈے۔ سلفیورک ایسڈ میں ابال کر انسانی سیسے کی بیرونی تہہ کو الگ کیا۔ کئی برسوں تک کئے جانے والے تجربات سے آخر کار کلئیر پیٹرسن نے اپنی نتیجہ شائع کر دیا۔ زمین میں لگی گھڑی یہ بتاتی تھی کہ زمین کی عمر چار ارب پچپن کروڑ سال تھی۔
اس تمام تجربے کے دوران کلئیر پیٹرسن نے مشاہدہ کیا کہ ماحول میں سیسے کا لیول کس قدر بڑھ چکا تھا جس نے انہیں اس کا استعمال روکنے کا ایکٹیوسٹ بنا دیا۔ سیسے کی زہرخوانی کے کئی طرح کے مضر اثرات ہیں اور قدیم رومی سلطنت کے زوال کے اسباب میں سے ایک اس کو بھی سمجھا جاتا ہے۔ سیسے کے استعمال پر بیسویں صدی کے آخر میں پابندی لگنا شروع ہوئی۔ 80 کی دہائی تک اس پر تقریبا ہر گھریلو استعمال کی چیز اور پٹرول پر پابندی لگ چکی تھی۔ پٹرول پمپ پر ملنے والے unleaded پٹرول اور ہمارے اس کے مضر اثرات سے محفوظ رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کسی کے سر پر زمین کی عمر جاننے کا جنون سوار ہوا تھا۔