اقبال کہتے ہیں
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہو بے داغ ضرب ہو کاری
یہ سچ ہے کہ جوانوں کی قوت پر بوڑھوں کی رائے کو فوقیت حاصل ہے ۔ لیکن بات جب ارتقاء کی ہو گی۔ جوش و جذبے سے کام کو جلد نمٹانے کی تو اس کے لیے جوانوں کی قوت بازو ہی کلیدی کردار کی حامل ہوتی ہے ۔
پاکستان دنیا کے ان چند خوش نصیب ترین ملکوں میں سے ایک ہے جس کی آدھی سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ یہ دیگر بات کہ ہم انہیں وہ ماحول فراہم کرنے میں بہت طور ناکام رہے ہیں کہ ان کو اپنی مثبت سرگرمیاں دکھانے اور قومی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع ہاتھ آ سکے ۔
سیرت نبویہ کے مطالعے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ زمہ داری کا کام اکثر نوجوانوں ہی کے سپرد کیا جاتا تھا ۔ اس کی متعدد مثالیں تاریخ نے صراحت سے مہیا کی ہیں ۔ چنانچہ جب کوئی قبیلہ اسلام قبول کرتا تو آپ کسی ذہین فطین نوجوان کو اس کا سردار مقرر فرما دیتے ۔
اصل میں معیار یہ تھا کہ اسلامی اصول و شریعت سے زیادہ واقف کون ہے؟
نماز پڑھانے کے لیے قرآن کی سورتیں کس کو زیادہ یاد ہیں۔
کون اپنے نئے دین سے زیادہ جوش اور دلچسپی کا اظہار کرتا ہے ۔
یہ صفتیں عموماً نوجوانوں میں زیادہ پائی جاتی ہیں ۔
ایک صحابی عمرو بن سلمہ الجرمی کا بیان ہے کہ ان کے والد سلمہ الجرمی اور ان کے قبیلے کے کچھ لوگ بنی پاک کے پاس آئے اور اسلام قبول کیا اور قرآن کی بھی تعلیم حاصل کرنے لگے ۔تب انھوں نے کہا " یا رسول اللہ ہمی نماز کون پڑھائے گا " آپ نے فرمایا جس نے سب سے زیادہ قرآن یاد کیا ہو وہ نماز پڑھائے گا " ۔ جب سارے لوگ واپس آئے تو انھیں مجھ سے زیادہ قرآن یاد کرنے والا نہیں ملا ۔چنانچہ میں نے نماز پڑھنی شروع کر دی ۔
ایک بہت چھوٹی (ناف سے گھٹنوں تک جانے والی )تہمد کے سوا میرے پاس بھی کچھ نہ تھا ۔اخر ایک دن قبیلے کی ایک عورت نے ہمارے مج۔ع سے مخاطب ہو کے کہا " اجی اس لڑکے کو کچھ کپڑے بنا کر دو خوامخواہ ہماری نماز خراب ہوتی ہے ۔ اس پر قبیلے والوں نے چندہ کر کے مجھے ایک جوڑا بنا دیا اور مجھے اس سے اس وقت اتنی خوشی ہوئی کی بیان سے باہر ہے ۔
مدنیہ ہجرت کرکے آتے ہی آنحضرت نے اپنے گھر کے سامنے ایک چبوترہ بنا دیا تھا جس پر سائبان بھی تھا جسے صفہ کا نام ملا ۔ دن کو یہ جگہ جامعہ بن جاتی اور رات کو بورڈنگ ۔
یہاں انتہائی تعلیم کی زمہ داری نوجوانوں کے سپرد تھی ۔
نوجوانوں میں ممتاز مقام حضرت مولا علی علیہ السلام کو حاصل تھا ۔ انہیں اکثر غزوات و سرایا کی قیادت سونپی جاتی تھی ۔ گورنر اور قاضی جیسے بڑے عہدے بھی آپ کو دیے گئے تھے ۔
حضرت زید بن ثابت نے اسی طرح لکھنا لکھانا سیکھا ۔ ان کی ذہانت کو اندازہ کیجیے کہ چند روز میں فارسی حبشی یونانی اور عبرانی زبان سیکھ گئے ۔
حضرت اسامہ بن زید کو بارہا کم عمری میں فوج کا سپہ سالار بنایا جاتا رہا ۔ کتابت کی زمہ داری بھی نوجوانوں کے سپرد تھی ۔
حضرت عمرو بن حزم اور حضرت معاذ بن جبل بھی بہت نوعمر صحابی تھے جنہیں اہم زمہ داریاں سونپ دی گئیں ۔
آپ کے مشیران خاص ( جس میں خاص طور پر مولا علی شامل ہیں ۔اکثر نوجوان تھے ۔ حوصلہ افزائی کے لیے نوجوانوں کو شاباشی اور انعام و اکرام کی بھی کمی نہ تھی ۔ نوجوانوں کی تربیت پر توجہ کرنا ہی وہ راز تھاا کہ وہ قوم جس نے ابتدائے آفرینش سے کبھی حکومت کا نام ہ سنا تھا وہ پندرہ بیس سال ہی میں تین براعظموں کی مالک بن جاتی ہے تو ایسے اچھے مدبر سپہ سالار اور منتظم بھی مہیا کرنے کے قابل ہو گئے جن پر تاریخ انسانیت بجا طور پر قابل کر سکتی ہے ۔
مردانگی اور چستی پیدا کرنے کے لیے جہاں ذہنی تربیت درکار ہوتی ہے وہیں جسمانی ریاضت بھی ناگزیر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شہ سواری تیر اندازی تیراکی کشتی آدمیوں گھوڑوں گدھوں اور اونٹوں کی دوڑ سب سے زیادہ مقبول تھے ۔
آپ جیتنے والوں کو خود انعامات دیا کرتے تھے ۔ عہد نبوی میں پتھر اٹھانے کے بھی مقابلے ہوا کرتے تھے ۔
بچوں کے ہمراہ عورتوں کا بھی یہ معاملہ تھا کہ جنگی زخمیوں کی خدمت میں پیش پیش ہوتیں ۔
موجودہ حکومت ریاست مدینہ کو اپنا آئیڈیل قرار دیتی ہے تو اسے ایسے مواقع بھی پیدا کرنے چاہیے کہ نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ہاتھ آ سکے اور وہ قومی ترقی میں اپنا حصہ بھرپور طریقے سے ڈال سکیں ۔ آج ہی کی خبر ہے کہ نوجوانوں کو بلاسود قرضے بطور قرض حسنہ دینے کا پروگرام ہے ۔ اگر یہ اطلاع درست ہے تو اس فیصلے کی بے اختیار تحسین کو دل چاہتا ہے ۔