جولین آسانجے نے کہا تھا کہ اگر انٹرنیٹ رابطہ پرسنل انٹرفیس پر آ جائے اور one to one پلیٹ فارم بن جائیں ، تو سماجی رابطے ہائیڈروجن بم سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں ۔ فی الحال امریکہ ایسا نہیں ہونے دے گا جہاں سے انٹرنیٹ گیٹ وے کنٹرول ہو رہا ہے اور نہ ہی چین ، روس اور عرب ممالک جنہوں نے اس امریکی گیٹ وے پر بھی فلٹرز لگائے ہوئے ہیں ۔ چین نے تو dark side of the moon پر سیٹلائیٹ صرف اس لیے لانچ کیا کہ کسی طرح jammers لگا کر سارا انٹرنیٹ کا نظام ہی disrupt کر دیا جائے ۔ معاملات انتہائ خطرناک حد تک گبھمبیر ہو گئے ہیں اور سائبر وار فیر کا خطرہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے ۔ ایک فیصد طبقہ جو ہزاروں سالوں سے ، اسلحہ ، استحصال اور پیسہ سے ۹۹ % لوگوں کی زندگیاں کنٹرول کر رہا تھا اب شدید پریشان ہے ۔ ابھی بھی چین میں پر وکسی کے زریعہ ماؤ کے خلاف اور جرمنی میں یہودیوں کے خلاف لٹریچر پڑھا جا سکتا ہے ۔ پیوٹن کے jammers کے خلاف بھی طبلسی میں امریکہ نے خطرناک تابکاری waves والے آلات نسب کیے ہیں ۔
ففتھ جنریشن وار کوئ ایک سال سے شروع ہے اور اس کا پہلا ہدف میرے جیسے لوگ بنے ، جس پر میں کسی اور بلاگ میں تزکرہ کروں گا کہ ہوا کیا اور مزید کیا ہونے جا رہا ہے ۔ لیکن حوصلہ نہ ہاریں ابھی بھی سب کچھ قدرت کے ہاتھ میں ہے ، ماں کے الفاظ میں “کُج نئیں گیا گواچا”۔
ایک امریکی لکھاری اور سائبر سائینس کے ماہر کلنٹ واٹس نے بھی اپنی پچھلے سال کتاب میں اس طرف واضح اشارہ کیا کہ اب پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی تو بلکل چھٹی ہو گئ ہے سوشل میڈیا آزاد تو ہے لیکن کیسے اور کب تک ؟ روپٹ مردوخ جیسے تو مر گئے اب ۔ امریکہ میں تو اب یہ بحث بھی چِھڑ گئ ہے کے سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم فیس بک اور ٹویٹر سے کیسے جان چُھڑوائ جائے ؟ میرے نزدیک اس کا واحد حل اپنی ویب سائیٹس ہیں یا اپنے ایپ کے زریعے گفتگو ۔
اس کی مثال اینگلن ہے ، امریکی ریڈ نیک گورا ، جو یہودیوں ، المناٹی اور بینکاروں کے شدید خلاف ہے اور اپنی ہی ویب اخبار The Stormer کے زریعے سب کا بینڈ بجا رہا ہے ۔ یہ اخبار اس کے ویب سائیٹ سے پبلش ہوتی ہے جس کا ایڈریس بھی خُفیا ہے ۔ Andrew Anglin نے holocaust سے لے کر کالوں ، چینیوں اور ایشینز کے خلاف بلکل نازیوں کے طرز کی تحریک چلائ ۔ اسی لیے اسے نیو نازی وائٹ سپریمسٹ بھی کہا جاتا ہے ۔ میں اینگلن کے نظریات سے تو شدید اختلاف رکھتا ہوں لیکن اس کی بہادری اور منفرد سوچ پر صدقہ جاؤں ، میرا ہیرو ۔
میرے وکیل اقبال جعفری کا فرخ عرفان کے کیس میں آج بھری عدالت میں آخر کار ثاقب نثار سے بحث مباحثہ ہو ہی گیا ۔ ثاقب نثار آجکل آخری دنوں میں بہت سارے کیس پیسہ اور بھاری مفاد کی خاطر اوپر نیچے نمٹا رہا ہے ، مال و دولت کے خزانے لُوٹنے میں مصروف ۔ افتخار چوہدری نے بھی آخری دنوں میں یہی کیا تھا اور انور ظہر جمالی نے بھی ۔ یہاں امریکہ میں جب کوئ دوسرا شخص آپ کی سیٹ کے لیے الیکشن جیت جاتا ہے یا آپ کے successor کا نوٹیفیکیشن ہو جاتا ہے تو آپ فورا کام بند کر دیتے ہیں سوائے ضروری ایمرجنسی کے کاموں کے ۔ ٹرمپ نے الیکشن نومبر ۸ ، ۲۰۱۶ کو جیتا تھا اور حالانکہ حلف ۲۰ جنوری کو لینا تھا لیکن اوباما نے سوائے ایمرجنسی کاموں کے معاملات ٹھپ کر دیے تھے ۔ ۹ نومبر ۲۰۱۶ کو دبئ ائرپورٹ پر ۹۰ فیصد لوگوں کو امریکی ویزا ہونے کے باوجود امریکہ سفر نہیں کرنے دیا گیا تھا ۔ اسے انگریزی میں کہتے ہیں propriety demand ۔ ثاقب ویسے تو مشنری اسکول جہاں سے میں پڑھا وہیں سے پڑھا لیکن یہ اور فرخ ماشا ء اللہ سوائے استادیوں اور بے ایمانیوں کے کچھ نہ سیکھ پائے ۔ نہ ہی اچھی انگریزی ، نہ ہی اردو ، صرف ہیرا پھیری ۔ کل ثاقب نثار نے بھری عدالت میں میرے وکیل کی یہ درخواست منظور کی کہ وہ جانبدار ہونے کی وجہ سے فرخ عرفان کے کیس سے الگ ہو جائے گا ۔ اس نے مزید کہا کہ یہ درخواست امریکہ سے نزر چوہان کی طرف سے آنی چاہیے تھی ۔ ثاقب کو قانون کی بھی الف ب نہیں آتی ۔ میرا وکیل میرا اٹارنی ہے ۔ وہ میرے سے پوچھے بغیر کیس concede بھی کر سکتا ہے یہ سادہ سی بات جانبدار ثاقب کہ بھیجہ میں نہیں پڑتی ۔ اور یہ تب کیوں نہیں کہا گیا جب میرے وکیل نے یہ درخواست جنوری ۲۰۱۷ میں ثاقب کے چیف جسٹس بننے پر داخل کروائ کہ آپ جانبدار ہیں لہٰزا کیس سے الگ ہو جائیں ۔ مزید میرے وکیل نے ثاقب کو ایک اور معاملہ میں چاروں شانے چت کیا ۔ اقبال جعفری صاحب نے فرمایا کہ آج سے تین مہینے پہلے انہوں نے التجا کی تھی کہ چونکہ میکسیکو کے ججوں نے اوبراڈور کے آنے کے بعد اپنی تنخواہوں میں ۲۵% کٹوتی کا فیصلہ کیا تو آپ کیوں نہیں کرتے ؟ تب ثاقب نثار صاحب آپ مانے تھے ، کیا ہوا پھر ، کوئ عمل درآمد نہیں ؟ اقبال جعفری نے سرکار کا ایک جج پر اُٹھنے والا ٹوٹل خرچہ بھی ورک آؤٹ کر کے دیا تھا جو ماہانہ سوا کروڑ پاکستانی روپیہ سے زیادہ بنتا تھا ۔
سوشل میڈیا ہی کی وساطت سے ہمیں یہ کامیابیاں ہوئیں ہیں وگرنہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر تو فرعون ثاقب نے پابندیاں لگائ ہوئ ہیں ۔ میری آپ سے درخواست ہے اس کو زیادہ سے زیادہ ملک ، معاشرہ اور سماج کی بہتری پر لگائیں ۔
مجھے دو تین ٹی وی چینلز سے کینیڈا اور امریکہ سے آفرز ہیں لیکن سوائے بغیر کانٹ چھانٹ کے اپنی رائے دینے تک ہی محدود رہوں گا اگر ہاں بھی کی تو ۔ میرے جیسے فقیر منش شخص کا کاروباری لوگوں سے کوئ واسطہ نہیں ۔ میں آپ کے ساتھ سوشل میڈیا پر ہی رہوں گا اور بہت خوش ہوں ۔ وہیں ہم ایک دوسرے کے لیے مشعل راہ ہوں گے ۔ پاکستان میں انقلاب لائیں گے انشاءاللہ ۔ کوئ لیڈر نہیں ہو گا ، نہ گورو نہ پیر بلکہ سب روحانی روشنی کو چار سُو پھیلائیں گے اور ماشاء اللہ اندھیروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ احمد فراز صاحب یاد آ گئے ۔
“شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
کہ اپنے حصے کی کوئ شمع جلائے جاتے “
بہت خوش رہیں ۔ جو شمع روشن پاکستان کے لیے میں نے آپ کے پیار محبت اور خلوص کو دیکھتے ہوئے جلائ ہے ، اسے کبھی بجھنے نہ دینا ۔ میرا وعدہ ہے آپ سے کہ اپنے وطن پاکستان کے لیے میری جان کا نظرانہ بھی بہت کم ہے جو اس پاک دھرتی نے مجھے دیا ۔ پاکستان پائیندہ باد ۔
نظم نزول ِقرآن
نظم : ۔۔۔۔ ۔ نزول ِقرآن ۔۔۔۔۔۔۔ نظم نگار : سید فخرالدین بَلّے چار سو جلوۂ لَولَاکَ لَما رقص میں...