یہ چیونٹی کی چال چلنے والا لمحہ لمحہ بیت جانے والا کیا ہے،
اس کے بند ہاتھوں میں انسان کی کہانی ہے۔ کیا کہانی اس کی پیدائش سے پہلے لکھ دی جاتی ہے یا اسے لکھنے کے لیے اس کو اپنے ہاتھوں کچھ تعمیر کرنا ہوتا ہے۔
اباء و اجداد اسے ورثے میں صفات عطا کرتے ہیں یا یہ اور حالات اور عطائی عادات و خصائل کی تکون مل کے ایک کہانی ایک کردار تشکیل دیتے ہیں۔
میں نے پوچھا
ڈاکٹر صاحب آپ دن میں دس مریضوں کی تکلیف دہ کہانی کو سنتے ہیں آپ ان کو حوصلہ دیتے ہیں۔ ان سے جذباتی قریبی تعلق گانٹھتے ہیں۔ پھر ان کے مسائل کی کنگھی پٹی کرتے ہیں جیسے مائیں اپنے بچوں کے گیسو سنوارتی ہیں اور بچیوں کے بالوں سے الجھنیں سلجھاتی ہیں
یہ سب کیسے ہوتا ہے
کہنے لگے
دکھ یا صدمے کی صورت میں یا عموماً افراد سارے معاملات گڈ مڈ کر بیٹھتے ہیں تو مسئلہ بہت الجھ جاتا ہے۔
سب سے پہلے جو میٹیریل ہوتا ہےاسے سامنے لانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ یہ منٹوں کا کام نہیں ایک طویل پراسیس ہے۔ ایک سال سے تین سال تک بھی لگ سکتے ہیں۔
انسانی ذہن مختلف استعداد کے حامل ہوتے ہیں اس میں عمر وقت جینڈر گھر والے سب کا اپنا اپنا کردار ہے۔
جیسے کوئی واقعہ آپ کے لیے وہ محض ایک واقعہ ہے
اخبار کی بےقدر خبر یا کسی پھیکے کالم جیسا سرسری سا
مگر جو اس میں اترا ہوتا ہے جس شخص کے احساسات اس سےجڑے ہوتے ہیں
وہ باریک باریک اعصابی نیورانز سے ان سے جڑا ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہے جیسے گاڑھا محلول ہو جس میں مکھی پھنس جائے۔۔۔۔۔
کہیں غم کے گہرے بادل کہیں توقعات ٹوٹنے کے نتیجے میں پیدا ہو نے والی دھند
میں نے پوچھا یہ توقع کون توڑتا ہے کبھی آئینہ کبھی آئینہ گر
یعنی کبھی فاعل کبھی مفعول اور تیسری خاموش قوت
مل کر بعض اوقات ایسا منظر بنا دیتے ہیں کہ جس پر بیتا ہوتا ہے وہ اوندھے منہ گر جاتا ہے پھر اس کی ساری رکھی ہوئی چیزیں آپس میں گڈ مڈ ہو جاتی ہیں۔
جیسے کسی کے پاس بہت سی کھانے والی چیزیں ہوں لسی آم سالن روٹی وہ گرے اس کا لنچ بکس کھلے اور سب آپس میں مکس ہو جائے کچھ گر جائے کچھ ایک دوسرے میں ضم ہو کر عجیب شکل بنا لے
ہممم
جیسے
جیسے کہ تانے بانے آپس میں الجھ جائیں
تو تکلیف سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ سب چیزوں کو پہلے سامنے رکھا جائے۔ پھر چھانا پھٹکا جائے فالتو گرد ویسے ہی نکل جاتی ہے پھر مختلف برتنوں میں علیحدہ علیحدہ سلیقے سے رکھاجائے۔
جیسے مضمون کو ذیلی عنوانات کے تحت کیا جائے۔
پھر بچوں کے بلاک پہ بنی ہوئی شکل نکل آتی ہے
تھوڑا سا پیار، تھوڑی سی ہمت حوصلہ افزائی اس مرجھائے پودے کو تازہ ہونے میں مدد دیتی ہے۔
جب فرد ریلیکس ہو جاتا ہے ایک اچھی نیند اسے آنے لگتی ہے وہ خوف اور دکھ اور مایوسی کے گہرے گڑھے سے باہر نکل آتا ہے تو کائنات میں پھیلی شفائی توانائی خود بھی اس کی مدد کرتی ہے۔ وہ جس قدر اپنے معاملے اور مسائل کو بہتر طور پر سمجھنے لگتا ہے اس کے اندر کی مسائل سے نبٹنے کی قوت تیزی سے جمع ہونی لگتی ہے۔ اس کا اپنا برین جو اس سے کنیکٹڈ ہوتا ہے وہ روشنیوں کا ماخذ جتنی لائیٹ ضروری ہو فراہم کرنے لگتا ہے اس لیے تکلیف میں مزید پریشان ہونا پریشانی بڑھا دیتا ہے۔۔ حواس قائم ہونا اسے ہی کہتے ہیں۔
یعنی حل کی چٹیا بنانے سے پہلے مسائل کو الگ الگ کرنے کی ہمت کرو، وسائل کی تین لڑیاں بنا لو
پھر انہیں گوندھ لو چاہو تو ان میں موتیے کی کلیاں اٹکا لو ،چاہیے تو بے بی بریتھ کے ننھے سفید پھولوں والی ٹہنی سے آرائش کرو، چاہے تو موتی ٹانک لو باریک پنوں کی مدد سے جن میں بہت لچک ہو۔۔۔۔۔۔۔ گویازندگی میں ایک مدد گار آپ کے الجھے بال بنانے میں مدد کرتا ہے چاہے کوئی بزرگ ہو چاہے دوست چاہے بہن بھائی چاہے رفیق مگر ہمیں ایک دوسرے کے تعاون کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔
میٹھا بول
دھیمی چال والے کردار کہاں ہیں۔ ان کی معاشرے کو زیادہ سے زیادہ ضرورت ہے۔
پر عموماً
نہ گڑ تے نہ گڑاویں جیبھ۔۔۔
“