(Last Updated On: )
پروفیسر سراج قریشی ( خان پور )
۲۰۰۰ء کی بات ہے جب پہلی دفعہ سیّد السادات جناب محمد فاروق القادری کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ۔ موصوف سادات کالونی خان پور میں اُستادِ محترم جناب خالد محمود ہاشمی ڈپٹی ڈائریکٹر اوقا ف کے والدِ گرامی منظوراحمد بزمی مر حوم کے چہلم میں مہمان مقررکے طور پر تشریف لائے تھے ۔ میں بھی اس پروگرام میں مدعوتھا ۔ ہر چند کہ علمی حلقوں میں قبلہ سید محمد فاروق القادریؒ کے علمی مقام و مرتبہ کے بارے میں بہت کچھ سُن رکھا تھا ۔ نیز ان کی تصانیف اور مختلف جرائد میں شائع ہونے والے مضامین کے مطالعے سے میں ان کی شخصیت سے بہت متاثر تھا ۔ لیکن ملاقات اور گفتگو کا موقع پہلی دفعہ مل رہا تھا ۔ اس لئے عقیدت و محبت کے ساتھ پروگرام میں حاضر ہوا ۔
اُن کے علمی و ادبی مرتبے کے مطابق میرے ذہن میں ان کی شخصیت کا تصور بھی پُرجلال تھا کہ وہ عمدہ و نفیس لباس زیب تن کئے ہوں گے ۔ جبہ ودستار اور کلاہ و عصا اُن کی فضیلت کا مظہر ہوں گے ۔ خدام و عقیدت مندوں کی جماعت اُن کے دائیں بائیں صف بستہ کھڑی ہوگی ۔ مگر جب اُنہیں دیکھا تو بالکل اس کے برعکس پایا ۔ سادہ و سفید لباس ، تصنع و بناوٹ سے مُبّرا ، حشم و خرم سے بے نیاز ، متشرع صورت ، الغرض سادگی و شرافت سے مالا مال شخصیتکو مسندِ اعزاز پر جلوہ افروز دیکھا ، دریافت کرنے پر پتا چلا کہ یہی وہ سیدھا سادھا شخص ہے جس کے علم وفضل کا چرچا پاکستان کے علمی حلقوں سے نکل کر برصغیر کی مشہور جامعات اور خانقاہوں میں بھی ہو رہا ہے ۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ ان کی خطابت شاہد حسبِ توقع نہ ہو ۔ مگر
’’ تا مردِ سخن نگفتہ باشد ، عیب و ہنر نہفتہ باشد‘‘
جب انہوں نے اظہارِ خیال فرمایا تو پتہ چلا کہ واقعی ’’ گدڑی میں لعل ‘‘ چھپے ہیں ۔ نہایت مد لل گفتگو فرمائی ۔ موقع محل کے عین مطابق ، سبق آموز، علمی جلال سے معمور ، ادبی حظ سے بھر پور ، لفظ لفظ سانچے میں ڈھلا ، ایک ایک جملہ دلوں کو گرمانے والا ، جی چاہتا تھا کہ موصوف دیر تک علمی گُلوں کی بارش برساتے رہیں اور سامعین کے دلوں کی دنیا معطر ہوتی رہے ۔ مگر وہ روایتی مقرر نہیں تھے ۔ مبلغ و داعی اور حکیم و دانا تھے ۔ جب دیکھا کہ مناسب حد تک پیغام پہنچ گیا ہے تو ’’ خیر الکلام مَاقَل وَدَل ‘‘ کے تحت اَسپِ خطابت کی باگ کھینچی اور ۔۔۔۔۔۔الا البلاغ کہہ کر گفت گو ختم کر دی ۔ پروگرام کے اختتام پر آپ سے مختصر ملاقات ہوئی ۔ اس طر ح یہ ملاقات ان سے عقیدت و محبت میں مزید اضافے کاسبب بنی ۔
آستانہ عالیہ قادریہ شاہ آ باد شریف نزد قصبہ گڑھی اختیار خان شہر خان پور سے زیادہ دور نہیں ۔ مگر محرومی ٔ قسمت کہ ان سے براہِ راست استفادے کیلئے وقت نہ نکال سکا ۔ البتہ اس دوران اُن کی تصانیف ’’جامِ عرفان ، مقدمہ اکابرِ تحریکِ پاکستان‘‘ وغیرہ زیرِمطالعہ رہیں ۔ اس طرح ان سے غائبانہ قلبی تعلق قائم رہا ۔ یہاں تک کہ حضرت کے بڑے صاحب زادے سید علی رضا قادری نے ۲۰۰۳ء میں ہمارے کالج میں داخلہ لیا ۔ دیگر مضامین کے ساتھ میری کلاس میں عربی پڑھنے لگے ، مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس عظیم گھرانے کا لختِ جگر میرے پاس زیرِ تعلیم ہے ۔ ایک دن شہزادے نے خود ہی تعارف کرایا کہ میں سیّد محمد فارو ق القادری ؒ کا بیٹا ہوں ۔ میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا کہ مجھے اتنے عظیم باپ کے چشم و چراغ کی اتالیقی کا شرف حاصل ہورہاہے ۔
’’ ایں سعادت بزورِ بازو نیست‘‘
چند سال بعد سیّد محمد فارو ق القادری ؒ کے دوسرے صاحب زادے سیّد صبغت اللہ نے بھی کالج میں داخلہ لیا ۔ کالج میں میری پوسٹ تو عربی کی ہے مگر چونکہ میں نے انگریزی میں بھی ایم اے کیا ہے ۔ اس لئے ان دنوں انگریزی کے اساتذہ کمی کے باعث میں عربی کلاسز کے ساتھ انگریزی بھی پڑھایا کرتا تھا ۔ چنانچہ دونوں شہزادے میرے پاس کوئی تین چار سال تک عربی و انگریزی پڑھتے رہے ۔ میں ان کے والدِ گرامی کے ساتھ عقیدت و محبت کے زیرِ اثر انہیں کالج کے علاوہ اپنے گھر بھی اضافی ٹائم دیا کر تا تھا ۔ اسی سبب سیّد محمد فارو ق القادری ؒ سے تعلق مضبوط تر ہوگیا ۔ گاہے گاہے ملاقات بھی ہوجاتی ورنہ فون پر تبادلہ خیال ہوتا رہتا ۔
سیّد محمد فارو ق القادری ؒ نے میری عقیدت و محبت کا جواب ہمیشہ شفقت و احسان کے ساتھ دیا ۔ دو تین دفعہ مجھے اپنے والدِ گرامی شیخ مغفور القادری ؒ کے سالانہ عرس پر تقریر کیلئے دعوت دی اور بے پایاںداد اور دُعائوں سے نوازا ۔ ۲۰۱۱ء میں میری والدہ کے انتقال پر میرے گھر تشریف لائے ۔ میری کتاب ’’ قرآن کتابِ بے مثال ‘‘ پر ’’ آئینہ جمال ‘‘ کے عنوان سے بڑی جامع و مدّلل تقریظ قلم بند فرمائی اور اُردو لٹریچر میں ایک نئی کوشش قرار دیا ۔ عزیزم سیّد علی رضا کے بقول بعض نجی محفلوں میں میرے بارے میں ایسے تعریفی کلمات ارشاد فرمائے جو میری حیثیت سے بڑھ کر ہیں ۔ بہر کیف ان کی شفقت و مہربانی بتانا مطلوب ہے نہ کہ اپنی خود سرائی ۔اللہ اُن کے حسنِ ظن کا بہترین اجر عطا فرمائے اور مجھے اُن کلمات پر پورا اُترنے کی سعادت نصیب فرمائے۔
اور پھر ۱۳ جون ۲۰۲۰ء کا سورج یہ افسوس ناک خبر سُنانے کیلئے طلوع ہوا کہ ’’ مَو تُ العالِم مَوتُ العالَم ‘‘
فیس بک پر یہ خبر پڑھی کہ سیّد محمد فارو ق القادری ؒ اس دارِفانی سے کوچ کر گئے ہیں۔ خبر پڑھتے ہی دیر تک طبیعت اداس رہی اور پھر اسی کیفیت میں ایک قطعہ موزوں ہوا ۔
ہے نوحہ خواں آج میرا ذوقِ شاعری اور اشک بار تجھ پہ ہے علمی برادری
علم و ادب کا بادشاہ دُنیا سے ہے چلا رحمت ہو ربّ کی تجھ پہ اے فاروق قادری
سیّد محمد فارو ق القادری ؒ کے رحلت فرما جانے سے علم و تحقیق کی دنیا کو شدید نقصان پہنچا ہے ۔ ہمارے ہاں ایسے علما ء انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جو علم ِ دین پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ تاریخ ، ادب ، سیاست ، معاشرت ، تمدن ،فلسفہ ،معاشیات اور تصوف جیسے علوم و فنون پر گہر ی نظر رکھتے ہوں ۔ سیّد محمد فارو ق القادری ؒ ان معدودے چند علما میں نمایاں حیثیت رکھتے تھے ۔ بالخصوص قدیم اسلامی تصوف کے اسرار و رُموز پر اتھارٹی سمجھے جاتے تھے ۔ اسی طرح فلسفہ ، فارسی زبان و ادب اور اُردو انشاپردازی پر اُنہیں کمال درجہ دسترس حاصل تھی ۔ میں ان کے علمی مقام و مرتبہ کے بارے میں جو کچھ لکھ رہا ہوںشاید وہ کم ہے ۔ اگر آپ ان کی کتابوںکابغور مطالعہ فرمائیں تو اس سے زیادہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے ۔ اُن کا علمی کام زبانِ حال سے یوں کہہ رہا ہے ۔
میں اپنے فن کی بلندی سے کام لے لوں گا مجھے مقام نہ دو ، خود مقام لے لوں گا
سیّد محمد فارو ق القادری ؒ کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کا تفصیلی ذکر کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے ۔ میں طوالت سے بچتے ہوئے ان کی چند امتیازی خصوصیات پر روشنی ڈال کے اپنی بات کو سمیٹنا چاہوں گا ۔
میرے خیال میں ان کی سب سے نمایاں خصوصیت انصاف پسندی اور حق گوئی تھی ۔ اُن کی زندگی کے احوال اور ان کی اپنی تحریریں اس بات پر شاہد ہیں کہ وہ عمر بھر حق و صداقت کے متلاشی رہے اور جو بات حق دکھائی دی اُسے بے باکی کے ساتھ بیا ن کر دیا ۔ مسلکانہ عصبیت سے بالا تر ہو کر انہوں نے سیّد ابو الا اعلیٰ مودودی ، مولانا ظفر عثمانی ، شورش کاشمیری اور علامہ شمس الحق افغانی جیسے عظیم مشاہیر سے اکتساب ِ فیض کیا ۔
سیّد محمد فارو ق القادری ؒ خود سجادہ نشین اور ایک خاص مسلک و مشرب پر گامزن ہونے کے باوجود اپنی تحریروں اور تقریروں میں جاہل صوفیوں اور بے عمل مولویوں کی خبر لیتے ہیں ۔
فروری ۲۰۰۹ء میں تحریکِ منہاج القرآن خان پور کی طر ف سے بلدیہ ہال خان پور میں ایک پروگرام منعقد ہوا ۔ جس میں سجادہ نشین دربار خواجہ غلام فرید ؒ کوٹ مٹھن خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ کی صدارت تھی اور سیّد محمد فارو ق القادری ؒ مہمانِ خصوصی تھے ۔ مقررین کی فہرست میں عاجز کا نام بھی تھا ۔ میرے بعد سیّد محمد فارو ق القادری ؒ کا خطاب ہوا ۔ آپ نے مروجہ خانقاہی نظام کی خرابیوں اور نام نہاد پیروں اور گدی نشینوں کے خلاف بے باک گفت گو فرمائی ۔ ہال کھچا کھچ بھر اتھا ۔ ماحول پر سناٹا طاری تھا ۔ میں اور میرے جیسے بہت سے لوگ ڈرے سہمے بیٹھے تھے کہ پیروں کے عاشق او ردیوانوں میں سے کوئی فساد نہ برپا کر دے ۔ کہیں صدرِ محفل ہی محسوس نہ کرلیں کہ ہم پیروں کو کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ مگر اُسوۂ شبیری پر یقین رکھنے والے سیّد محمد فارو ق القادری ؒ کو کون روکے آپ ؒ کافی دیر تک پیروں اور گدی نشینوں کی بد عملیوں اور خلافِ شرع رسومات کے خلاف بولتے چلے گئے ۔
’’اللہ کے شیروں کو آتی نہیں رُوباہی ‘‘
میں نے اس سے پہلے اپنے ہی ہم خیالوں کے اجتماع میں کسی کو یوں کھلے عام اپنوں کے خلاف شدید تنقید و مذمت کرتے نہیں سُنا تھا ۔ حق یہ ہے کہ اس وقت سیّد محمد فارو ق القادری ؒ اقبال کے اس شعر کی سچی تصویر اور عملی تفسیر نظر آرہے تھے کہ
ہزار خوف ہو لیکن زبان ہو دل کی رفیق۔۔۔۔یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
آفرین ہے خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ پر بھی کہ انہوں نے محفل کے اختتام پر سیّد محمد فارو ق القادری ؒ کو سراہا اور ان کی حق گوئی پر اُنہیں داد دی ۔
سیّد محمد فارو ق القادری ؒ کی دوسری خصوصیت آپ کی سادگی تھی ۔ آپ کروفر اور تصنّع و بناوٹ کو پسند نہیں فرماتے تھے ۔ سادگی مومن کی شان ہے ۔ حدیث میں ہے: ’’ سادہ طرزِ زندگی ایمان کی علامت ہے ‘‘۔
( ابو دائود )
ایک اور حدیث میں ہے ’’ مومن مسیدھا سادہ اور بھولا بھالا ہوتا ہے ‘‘۔ (مشکوٰۃ : ۱۰۱۴)
میں نے جب بھی سیّد محمد فارو ق القادری ؒ کو دیکھا سادہ لباس میں ملبوس پایا ۔ ایک مرتبہ بنگلہ انہارخان پور میں ایک تقریب میں تشریف لائے ۔ آپؒ اسٹیج پر جلوہ افروز تھے ۔ عام طور پر لوگ رومال یا پگڑی سر پر باندھتے ہیں تو اپسے سلیقے اور اہتمام کے ساتھ باندھتے ہیں تاکہ وہ اُسے باندھ کر اچھا لگیں ۔ مگر سیّد محمد فارو ق القادری ؒ نے اس اہتمام سے بھی بے نیاز ہو کر سر پر رومال لپیٹا ہوا تھا کہ نو وارد اور ناواقف کویوں لگے کہ یہ کوئی نامور شخصیت نہیں بلکہ کوئی عام دیہاتی انسان بیٹھا ہے ۔ سبحان اللہ
عظیم لوگوں کی باتیں بھی عظیم ہوتی ہیں ۔ ان کی نظر میں عظمت لباس اور جسم کی خوبصورتی میں نہیں ، اخلاق و کردار کی بلندی میں ہوتی ہے ۔ بقول شاعر
سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط خوشبو اُڑی تو پھول فقط رنگ رھ گیا
مذکورہ حدیث میں مومن کی سادگی اور بھولپن کا مطلب یہ نہیں کہ وہ معاملہ فہمی اور شعورو ادراک سے محروم ہوتا ہے ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ عیّاری ومکّاری سے پاک ہوتا ہے ۔جہاں تک تعلق ہے عقل و فہم اور فکر ونظر کا تو یہ مومن مکی شخصیت کا خاصہ و لازمہ ہے ۔ چنانچہ حدیث میں ہے ۔
’ ’ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا ‘‘۔ ( مسلم:۷۴۹۸)
ایک اور حدیث میں ہے ’’ مومن کی فراست سے ڈرو ، بے شک وہ اللہ کے نور سے دیکھ لیتا ہے ‘‘۔
( ترمذی ۳۱۲۷)
سیّد محمد فارو ق القادری ؒ اگرچہ سادہ مزاج تھے مگر ان سادگی و شرافت میں بھی رُعب اور جلال تھا ۔ اللہ نے اُنہیں بلا کی معاملہ فہمی سے نوازا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ علاقے کے لوگ اپنے باہمی تنازعات کا حل آپ سے لیا کرتے تھے ۔ آپ کے پنچائتی فیصلوں کو مانا اور سراہا جاتا تھا ۔ اس سے آپ کی شخصیت کا یہ پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے کہ آپ خلقِ خدا سے الگ تھلگ رہ کر محض تالیف و تصنیف اور ذکر فکر کے مشاغل کو اپنے لئے کافی نہ سمجھتے تھے بلکہ سنتِ نبویؐ کے تحت احباب و عوام کے دکھ درد میں بھی شریک ہوا کرتے تھے اور مشکل گھڑیوں میں ان کی رہنمائی فرماتے تھے ۔
ایک مرتبہ خان پور کی ایک قدیم اور معروف جامع مسجد کی تولّیت کیلئے اہلسنت ہی کے دو طبقوں میں ٹھن گئی ۔ اہلسنت جماعت کے ضلعی رہنمائوںنے معاملے کے حل کیلئے ایک ثالثی کمیٹی بنائی اور سیّد محمد فارو ق القادری ؒ کو اس کا امیر مقرر کیا ۔ سیّد محمد فارو ق القادری ؒ نے نہایت خوش اُسلوبی سے اس معاملے کونمٹایا ۔
سیّد محمد فاروق القادریؒ حُبّ ِمال و جاہ سے بَری تھے ۔ آپؒ کے معاصر مقرروں نے فنِ خطابت کے ذریعے کروڑوں روپیہ کمایا ۔ آپؒ اگر چاہتے تو صرف فنِ خطابت کے زور پر اُن سے زیادہ دولت کما لیتے اور خطیبِ اعظم پاکستان اور خطیبِ ایشیا جیسے ٹائیٹل آپ کی جھولی میں آنے کیلئے مچلتے مگر وہ دو نمبر سودا بیچ کر دولت و شہرت کمانے والے نہیں تھے ۔ وہ اس بات کے قائل تھے
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے۔۔۔۔۔خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
سیّد محمد فارو ق القادری ؒ بے جا شہرت کو بھی پسند نہیں فرماتے تھے ۔ درس نظامی سے فارغ ہوکر پنجاب یونیورسٹی سے علومِ اسلامیہ اور عربی میںایم اے کرنے کے بعد وہ چاہتے تو وطنِ عزیز کی ہر معروف یونیورسٹی اُنہیں بطوراُستاد بخوشی قبول کر لیتی ۔ مگر چونکہ نوکری انسان کے حقِ اظہارِ رائے پر کچھ نہ کچھ قدغن ضرور لگاتی ہے ۔ سیّد محمد فارو ق القادری ؒ جیسے میدانِ تحقیق کے آزاد پنچھی اس کو کیسے گوارا کرتے ۔ چنانچہ ایک متجر عالمِ دین اور مختلف علوم و فنون پر مہارتِ تامہ رکھنے کے باوجود آپ ؒ نے لاہور ، اسلام آباد جیسے گنجان آباد شہروں پر اپنے آبائی گائوں کو ترجیح دی اور گوشۂ گم نامی میں بیٹھ کر علم و فن کے وہ چراغ روشن کیے کہ بڑے بڑے شہروں والے یہاں آکر ا ن کیعلم کے خوشہ چیں بن گئے ۔
سیّد محمد فارو ق القادری ؒ اِقبال کے حقیقی شاہیں تھے ۔ بقول اِقبال ؒ
کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ
بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو
از ل سے ہے فطرت میری زاہدانہ
ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری
جوانمرد کی ضربتِ غازیانہ
یہ پورب ۔ یہ پچھم چکوروں کی دُنیا
میرا نیلگوں آسماں بیکرانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بنا تا نہیں آشیانہ
سیّد محمد فارو ق القادری ؒ علوم و فنون کے ساتھ فقر و استغنا کی نعمت سے بھی مالا مال تھے ۔ انہو ں نے اپنے علم کو کسبِ دولت کا ذریعہ نہیں بنایا ۔ اس لئے کہ وہ اپنے اسلاف کے تتبع میں اللہ و رسولؐ کی محبت ہی کو اصل سرمایہ سمجھتے تھے ۔ بقول احمد رضا بریلوی
کروں مد ح اہلِ دوں رضا پڑے اس بلا میں مِری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا میرا دین پارۂ ناں نہیں
سیّد محمد فارو ق القادری ؒ کا تعلق سادات و مشائخ کے اس عظیم خانوادے سے تھا ۔ جہاں انسان کو انسان کے آئینے میں دیکھا جاتا ہے مذہب کے آئینے میں نہیں ۔ یہی روحِ تصوف ہے کہ اللہ کی مخلوق سے پیار کیاجائے ۔
تصوف بجز خدمتِ خلق نیست ۔۔۔۔۔۔نہ تسبیح نہ سجادہ نہ دلق نیست
اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ہے کہ بلاتفریقِ مذہب و ملت ساری مخلوق سے اچھا سلوک کیا جائے ۔ سیّد محمد فارو ق القادری ؒ نے اپنے اسلاف کے طرزِ عمل کو برقرار رکھا اور فکری و عملی طور پر مسلکانہ تنگ نظری کو بالائے طاق رکھا ۔
المختصر ہمارے ممدوح سیّد محمد فارو ق القادری ؒ جامع الصّفات حیثیت کے مالک تھے ۔ اُن کی چالیس سے زیادہ کتابوں اور سینکڑوں مقالات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ اپنی ذات میں ایک فرد نہیں ، بلکہ ایک انجمن تھے ۔ ایسی انجمن جس کے ایک گوشے میں باکمال ادیب بیٹھا ہے تو کسی اورگوشے میں عظیم فلسفی ،کہیں شیخِ اکبر کے تصوف کا دانا جلوہ افروز ہے ۔ تو کہیں حافظ و سعدی کے بحرزخار کا شناور تو کہیں ایک متبحر عالمِ دین جلوہ گر ہے ۔ کہیں فقر و استغنا کی دولت سے معمور درویش تو کہیں قادر الکلام خطیب اور مؤرخ ومحقق ۔ الغرض ایک ہی شخص میں بہت سی شخصتیں مجتمع تھیں ۔
آج ہماری خانقاہوں کو ’’ شاہینوں کے نشیمن ‘‘ کو ایسے ہی مردانِ ذی علم و عمل کی ضرورت ہے ۔ وہ صرف اس لئے پیر نہیں بنے کہ پیر کے بیٹے تھے بلکہ اُنہو ں نے خود کو اس لائق بنایا تھا ۔ میں نے اقبالؒ کے مذکورہ اشعار ہی بحر میں سیّد محمد فارو ق القادری ؒ کیلئے چند اشعار کہے ہیں ۔ ؎
گزری مجاہدوں میں تیری عُمر پُر کٹھن
قطرے کو گوہر کرنے میں سَو سَو کئے جتن
فاروق تو نے پائی ہے پھر مسندِ ارشاد
موزوں رہا ہے تجھ کو مشائخ کا پیرہن
دُعا ہے کہ اللہ کریم اُنہیں اپنی جوارِرحمت میں جگہ نصیب فرمائے ۔ اُن کے علمی سرمائے کو قبولِ عام عطا فرمائے اور اُن کے بیٹوں کو اپنے والد کا وارث و جانشین بننے کی تو فیق سے نوازے ۔ آمین ٭٭٭