(Last Updated On: دسمبر 20, 2021)
صفدر بلوچ ( گڑھی اختیار خان )
رازدارانِ حقائق تو بجا بالآخر مجھ ایسے سطحی طبقے کو ماننا پڑتا ہے کہ اس جہانِ خواب و خیال میں ثباتِ مستعار بشر اور انسان کے مابین حدِ فاصل کے لیے اسے دی گئی ’’مہلت ِ عمل ‘‘ کے سوا کچھ بھی نہیں جسے عرفِ عام میں آزمائش کہتے ہیں اسی کا خلاصہ ربِّ کائنات نے قرآنِ پاک میں فرمایا جس کا مفہومی ترجمہ یوں ہے کہ ’’ میں دے کر بھی آزمائوں گا اور لے کر بھی آزمائوں گا ‘‘۔
میں خدائے لم یزل کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے کہ میں روحانی طور پر آفتابِ سیادت اور ماہتابِ ولایت سے براہِ کڑی در کڑی اور لمحہ بہ لمحہ متصل فیضانِ کرم کے ساقیوں یعنی مشائخِ شاہ آباد شریف کے دریوزہ گروں کی پانچویں پشت سے ہوں اور الحمدللہ کوثرِ روحانی کے اس پیرِ مغاں سے شرف ِ زیادت ، ربطِ مودت اور کسبِ عنایت سے سرشار ہوچکا ہوں جسے علامہ پیر سیّد محمد فاروق القادریؒ کے نامِ نامی ، اسمِ گرامی سے ایک زمانہ جانتا اورمانتا ہے جس کے تباحرِ علمی نے چار دانگِ عالم میں ’’ حق اور صداقت ‘‘ درسِ تصوف ، ذکرِ الہٰی اور عشقِ الہٰی کا ڈنکا بجانے کے لیے قرطاس و قلم کو نہ صرف مجسم کرامت بنایا بلکہ تاثیر سرایت اور اذنِ سفر دے کر صبہائے ولایت اور اسرارِ سیادت کا بھی فریضہ اد ا کر دیا۔
واضح کرتا چلوں کہ خودی کے اس داعیِ اعظم نے درگاہی حوالے کو پروانِ ذات کے لیے روایتی انداز میں استعمال کرنا ہرگز مناسب نہیں سمجھا بلکہ ’’ اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے ‘‘۔
میں یہاں روحِ اقبال کی تڑپ کو نہ صرف تجسم عطا کر دی بلکہ جامعتہ الازہر کے حوالے سے گویا عزیزانِ دہر کو گویا مجبور کر دیا کہ وہ گڑھی اختیار خان شاہ آباد شریف کو انتہائی اکرام اور قدر کی نگاہ سے دیکھیں ۔ بات یہیں پر رُکی نہیں بلکہ گلزارِ سیادت سے حفیظ نسبِ نسبت کے طفیل کسی عارف کے اِ س شعر کو بطریقِ اَحسن پیکرِ تقویم میں ڈھال دیا کہ
’’تری زباں سے جو نکلی وہ بات ہو کے رہی
کیا نہی کو جوکن کائنات ہو کے رہی‘‘
ادبی ، عمرانی ، معاشی ، روحانی اور خصوصاً تصوف کے موضوعات پر کتبِ کثیر مرے اِس دعوے کو جہاں سندِ اثبات سے نوازتی ہیں وہاں نہایت شرحِ صدر سے اِس مسرتِ قلبی کی بھی آپ سے سانجھ کر رہا ہوں کہ حرف کو حرمت عطا کر نے اور استدلالِ اظہر و ابطن کے ماہرِ اعظم اور جامِ مصطفویٰ ، علوی، رضائی ، قادری اور شاہ آبادی کے پیرِ مغاں فاروقِ حجت و حقیقت حضرت علامہ پیر سیّد محمد فاروق القادریؒ کا اقدام دار الہٰی دار جسے سطحی افکار کے لوگ رحلت کہتے ہیں جسے مجھ ایسے مربوطِ دامن لوگ مانتے ہی نہیں ، جن کے سامنے ماضی و مستقبل سرے سے ہے ہی نہیں اور اس کے پسِ پردہ بھی’’ یار می گوید بگو ‘‘ کی قوت اصلیہ کار فرما ہے ، بہر حال حضرت قبلہ پیر صاحب اس جہاں سے اُس جہاں تک سلسلہ ٔ فیض دو سِمتہ فرمانے کا عمل میری نظر میں بالکل وہی آزمائش ہے جس کا ذکر مندرجہ بالا سطور میں ہو چکا ہے ۔ آئیے ذرہ اِس حقیقت کا اجمالی جائزہ لیتے ہیں ۔
٭ وہ خوش بخت گھڑیاں جن میں جمعتہ المبارک ، عیدین ، محافلِ میلاد النبیؐ ، تقریباتِ عدائس ، ملکی و عالمی سطح کے سیمینارز کے دوران آپؒ کی زیارت و فرمودات سے نینوں کے قاصے بھرنے والوں کو کیا ورادب کا مسئلہ نہیں ہوا کر تا تھا ۔
٭ کیا حسبی نسبی سیّد ہونے کے سبب قبلہ پیر صاحب حکم ’’ لاترفنن ‘‘کے تسلسل سے اپنے ظاہر ین کے لیے امتحانِ تربیت کا سامان نہیں کیے گئے تھے ۔
٭ وہ جو فرمایا گیا کہ جب کسی عالم کے سامنے جائو تو اپنی زبان کو قابو میں رکھو اور جب کسی عارف کی بارگاہ میں جائو تو اپنے دل پر قابو رکھو تو کیا پیر صاحب کے حضور حاضریں کے لیے امتحانِ دم بدم کی کیفیت نہیں ہوا کر تی تھی ۔
٭کیا یہ سچ نہیں کہ ایک صحیح النسب سیّد جب اِس جہانِ فانی کی فضائوں کو اپنے پیکرِ روحانی کی نگہت عطا کر تے ہوئے اسے اپنے مقامِ مولود ہونے کا شرف عطا کر تا ہے تو وہ ولایت کے چالیس درجات میں سے بیس درجات قبول کر چکا ہوتا ہے تو کیا ظاہر میں خود ساختہ ولیوں ، صوفیوں بلکہ ڈھو نگیوں کی مینجڈ کرامتوں کے باوجود حضرت پیر صاحب کا تسلسل ضبط اور کئی دفعہ جلال و جمال کی امتزاجی کیفیت میں محض یہ فرما دینا کہ ولایتِ عارفین نے حیض الرجال کہا ہے جب کہ ہماری پہچان پاکدامنی ہے اور یہ اللہ کا وعدہ بھی ہے اور کرم بھی ہے کہ اس نے ہم سے رجس کو دور کر دیا ہے ۔ کیا اتنی صفائی اور کارکردگی سے ٹال دینا ہے ہم ایسے ظاہر پر مرمٹنے والوں کے لیے امتحان نہ تھا ؟
٭٭٭