(Last Updated On: )
ظفراقبال جتوئی (خان پور)
گڑھی اختیار خان کل حریت کا مرکز تھا آج تصوف کا مرکز ہے۔تحصیل خان پور میںقصبہ گڑھی اختیار خان کو جو مقام حاصل ہے اس کی طویل تاریخ ہے ۔حاکموں نے ہمیشہ تاریخ کو اپنے ملازموں سے لکھوایا جس کی وجہ سے حقائق ہمیشہ پوشیدہ رہے ۔لکھی تاریخ حاکم کی تعریف پر مبنی ہوتی اور حقائق کی بجائے تخیل اور قصیدے پھیلائے جاتے رہے ۔تحصیل خان پور میں گڑھی اختیار خان وہ علاقہ ہے جس میں تصوف سے پہلے حُریت کا راج تھا۔ یہاں پر بسنے والی قوموں نے بادشاہت کو ماننے سے انکار کیا ۔انہوں بادشاہت کی ثناء خوانی سے انکار کیا تو ان کے لئے ہر وہ راستہ اپنایا گیا جو تشدد کی انتہا کا تھا ۔رزق کے دروازے بند کرنے کے بعد ان کے ہاں ایسے پیر بنا کر بھیجے گئے جنہوں نے اپنے’’ آستان،‘‘سے لنگر کے علاوہ افیون کی خیرات بہت زیادہ کی۔ اپنے ہر ملنے والے کو افیون کا عطیہ بھی عطا فرماتے ۔اس کاوش کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ قبائل جو بادشاہت کو چیلنج کرتے تھے منشیات کے عادی ہونے کی وجہ سے سرنگوں ہو گئے۔ یوں بادشاہت جیت گئی’’ حریت‘‘ہار گئی ۔اس جانباز خطے میں صوفیوں کی موجودگی نے مذہب سے لگاؤ کی اس طرح آبیاری کہ آج لاکھوں میلوں تک لوگ اپنی تسکین کے لئے گڑھی اختیار خان کھینچے چلے آتے ہیں۔
ہم نے اپنی شعوری عمر کے ابتدا میں خواجہ درمحمدؒ جنہیں’’ دُرپاک‘‘ کہا جاتا تھا ا‘نہیں دیکھا اور ایک وسیع حلقہ مریدین اور ارادت مندوں کا دیکھا ۔جن کا پیر سے لگاؤ اور اعتماد کا جنون کمال کی حد تک تھا۔ اس نسبت کو ان کے بیٹے خواجہ گل محمد المعروف بدھن سئیں نے اس کمال سے نبھایا کہ دنیا حیران ہے۔ وہ بہت کم اپنے گھر سے باہر نکلتے ہیں ۔ اس کے باوجود مریدین سے جڑت کا یہ عالم ہے کہ وہ تمام گھرانے اب بھی جڑے ہوئے ہیں۔ جو اِن کے والدِ محترم سے ارادت رکھتے تھے۔ ہماری کچھ عمر مزید بڑھی اور علم سے رغبت پیدا ہوئی تو معلوم ہوا کہ گڑھی اختیار خان کے قریب شاہ آباد شریف ایک قصبہ ہے جس میں علمی اور سماجی مرتبے کے لحاظ سے طاقتور لوگ مدفون ہیں۔ اسی تعارف کی حقیقت کے قریب پہنچے تو وہاں اس وقت علامہ سید فاروق القادری ؒ کو موجود پایا ۔ جو علومِ اسلامیہ میں گولڈ میڈ لسٹ تھے۔ کئی اسلامی کتب لکھیں ۔ جن کے تراجم دنیا کی متعدد زبانوں میں ہو چکے ہیں ۔اس ایک بات کا جادو یوں چلا کہ ہمارا آنا جانا بڑھ گیا ۔ اُن کی محافل سے تشنگی سے سیرابی ہونے لگی۔ وہ تقاریب جو مختلف عنوانات سے عام پبلک کے لئے منعقد کی جاتیں وہ کھچا کھچ بھری دیکھیں ۔خطاب میں عجیب منظر دیکھا کہ کہیں بھی پُرجوشی نہ آتی مگر موضوع پر گرفت کا یہ عالم ہوتا کہ اَن پڑھ تسکین پاتا اور صاحب ِعلم مزید مزید کی پکار کرتے۔ یہی منظر میں نے ایک دو یا دس محافل میں نہیں بیسیوں میں یہی حالت ہوتی۔ ایک موقع پر مجھے یاد ہے کہعلامہ سیّد محمد فاروق القادری نے اپنی ایک کتاب ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی اور اُسے پڑھ رہے تھے۔ سامعین کا عالم یہ تھا کہ وہ سبحان للہ کہنے کے بعد سانس روک لیتے اور آپ کے منہ سے نکلنے والے لفظ کا انتظار کرتے ۔علامہ سیّد محمد فاروق القادری تقریر نہ کرتے بلکہ کتاب کو پڑھنا شروع کر دیتے، سامعین کے آنسو بہہ رہے تھے اور یارسول ا للہ کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔ یہ واقعہ میرے لئے پہلا تھا کہ کتاب کی تحریر اتنی پُر تاثیر کہ سب کی خواہش تھی اسی ایک نشست میں اسے مکمل سنا دیا جائے مگر آپ نے اسے وہیں تک پڑھا جہاں لوگوں پر بہت گریہ طاری تھی۔ اس واقعہ کے بعد ہم بھی تسلسل سے ملنے والے ملاقاتی بن گئے اور آپؒ کی شفقت کا یہ عالم تھا کہ ہر نشست کو ادبی بنا دیتے۔ جس سے ہم تسکین پاتے ۔
چند سال پہلے گڑھی اختیار خان میں شراب نوشی سے دو یا تین نوجوانوں کی موت واقع ہو گئی اور پولیس اس افسوس ناک واقعے کی ایف آئی آر درج نہیں کر رہی تو علامہ سیّد محمد فاروق القادری کا پیغام آیا کی آپ صحافی ہیں، انٹی نارکوٹیکس فورس پنجاب سے رابطے میں بھی ہیں ،خبروں اور دیگر ذرائع سے ہماری مدد کریں اور آمدہ جمعہ کے روز نماز ِجمعہ سے پہلے مسجد میں آ کر مذمتی خطاب بھی کریں۔ آپؒ کے پیغام کے بعد پریس کانفرنس کی ۔جس میں گڑھی اختیار خان میں شراب نوشی سے اَموات کے واقعہ کی مذمت کی جس کی خبر پاکستان کے تمام بڑے اخبارات میں شائع ہوئی ۔جس میں یہ اعلان کیا کہ اگر جمعہ تک پرچہدرج نہ ہوا تو پاکستان یوتھ لیگ خان پور نماز ِجمعہ کے بعد’’ کالے کفن‘‘پہن کر گڑھی اختیار خان سے خان پور تھانہ صدر تک پیدل مارچ کرے گی ۔یوں تیسرے دن جمعہ آنا تھا ہم گروپ کے ہمراہ مسجد شریف پہنچ گئے ۔ آپؒ نے خطبہ جمعہ سے پہلے ہمیں خطاب کی دعوت دی۔ خود منبر پر موجود رہے ،میں جوں ہی تقریر ختم کر کے بیٹھا تو ایک صاحب میرے قریب آ کر بیٹھے اور کان میں کہا کہ شراب فروشوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہو گئی ہے۔ آپ ورثا کو بھیج کر ایف آئی آر کی کاپی منگوا لیں۔ اس پر میں نے علامہ سیّد محمد فاروق القادری کو دورانِ خطبہ کان میں بتایا تو آپ نے فورا پبلک کو بتا دیا کہ اس واقعہ کی شنوائی ہو گئی ہے ۔یوں میرا یہ یقین پختہ ہوا کہ منبر سے نکلی آواز کتنا اَثر رکھتی ہے اورعلامہ سیّد محمد فاروق القادری اگر درگاہ کے سجادہ نشین ہیں تو اس سے آپ میں سماج سے محبت بڑھتی ہے ۔آپ کا دل دُکھتا ہے عوام کی تکلیف پر ۔یہ وہ منظر تھا جو میں نے اس سے پہلے کسی مولوی پیر یا گدی نشین میںنہیں دیکھا تھا۔معاشرے سے اتنی جڑت نہیں دیکھی ۔علامہ سیّد محمد فاروق القادری صاحب ِعلم ،صاحبِ درد اور تبلیغ دین کا مرکز تھے۔ سید محمد فاروق القادری کئی اسلامی کتب کے مصنف، صاحبِ علم پیر ،خطیب اور سماجی رہنما تھے۔آپ ؒ کی درجنوں کتب کے تراجم دنیا کی کئی زبانوں میں ہوئے، جو مختلف یونیورسٹیوں کے نصاب کا حِصہ بھی ہیں ۔
٭٭٭