علامتی افسانہ….تخلیقی مضمرات
لغوی اعتبار سے علامت کے معنی نشان‘ مارک‘ سراغ‘ کھوج‘اشارہ‘کنایہ وغیرہ ہیں۔اصطلاحی مفہوم میں علامت نمائندگی کا ایک ایسا وسیلہ ہے جو کسی لفظ ‘ شئے ‘کرداریا تصّورکوکسی خاص معنی ‘مقصدیا مفہوم میں پیش کرتا ہے ۔مثلاَپھول ایک شئے ہے ۔یہ محبت کی علامت بھی ہے اور ماتم کی نشانی بھی۔ اب یہاں پر پھول کے حقیقی معنی کے برعکس جودوسرے مفہوم سامنے آتے ہیں ‘اس کی نمائندگی علامت کرتی ہے۔ علامت سازی کی اہمیت پر چارلس بودلئیر (Charles Baudelaire) روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’تاثرات کی تہہ میں جو ایک اساسی عالم چھپا ہوا ہے ‘اس کے رموز کا اظہار صرف علامتوں کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے ۔‘‘
کسی بھی لفظ یا شئے کے علامتی اظہار کا مدار ماحول کی کیفیت میں مضمر ہوتاہے۔اب شعر و ادب میں علامت نگاری کی بات کریں تو شعر وادب میں علامت کا استعمال تخلیقی اظہارکا ایک معنی خیز وسیلہ ہے ‘اسی بنیاد پرعلامت کو ’’تخیلی تجربات کی گاڑی‘‘ (Vehical for imagnative experience ) بھی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ علامتی اسلوب ‘کسی بھی تخلیق کی امکان خیز معنویت میں توانا کردار ادا کرتا ہے اورتخلیق کی معنوی جہات میں وسعت پیداکرنے کا تخلیقی وسیلہ بنتا ہے۔افسانے میں علامتوں کے استعمال اور معنوی تہہ داری پر بات کرتے ہوئے پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:
’’علامتیں ایک طرح کے وسیع استعارے ہیں جن کے شعوری اور نیم شعوری رشتوں کو ابھارکر افسانہ نگار معنوی تہہ داری پیدا کردیتا ہے۔علامتوں کے حسی پیکر ہوتے ہیں‘لیکن بعض علامتوں سے افسانہ نگار فضا آفرینی کا یا محض خاص طرح کے تاثر ابھارنے کا کام لیتاہے. ایسے افسانے کاکمال یہ ہے کہ وہ لغوی اور علامتی دونوں سطحوں پر پڑھا جاسکے. افسانوں میں خاص خاص لفظوں کا استعمال ایسی معنوی وسعت اختیار کرلیتا ہے کہ ان میں علامتی افسانہ کی شان از خود پیدا ہوجاتی ہے۔‘‘
(فکشن کی شعریات‘تشکیل و تنقید ..ص .۲۵۱)
علامت کو’ تخلیق کا حسن‘ بھی قراردیا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک علامتی افسانہ یا شعر کی قرات میں جو فنی حسن اور معنی خیزی کالطف موجودہوتا ہے وہی اس کی تخلیقیت کاموثر فنی جواز فراہم کرتا ہے۔علامتی اظہار میں جو مثبت معنوی ابہام پوشیدہ رہتاہے وہ تخلیق کی تنقیدو تفہیم کے لئے بڑاکار�آمد ثابت ہوتا ہے۔اسی بنیاد پر کوئی بھی باخبر ناقد اور باشعور قاری علامتی تخلیق کی معنوی جہات کی تفہیم اپنی اپنی علمی بصیرت کے مطابق کرتا رہتاہے۔ تفہیم کا یہ تصوراتی اظہارہی ایک علامتی تخلیق کی کامیابی ہوتی ہے۔اس کے برعکس ایک معمولی شعر یا افسانے میں جو عام سے خیالات پیش کئے جاتے ہیں وہ معنی کے اکہرے پن کی عکاسی کرتے ہیں۔اس تعلق سے پروفیسر مجید مضمر اپنی تصنیف’’اردو کا علامتی افسانہ‘‘میں لکھتے ہیں:
’’ادب میں علامتوں کا استعمال کئی طرح سے ہوتا ہے۔کہیں الفاظ یا زبان سے‘کہیں تصورات سے‘کہیں پیکروں سے اور کہیں پرکردار یہ کام انجام دیتے ہیں۔اور کہیں واقعات علامتی روپ اختیار کرلیتے ہیں۔اس لئے یہ مفروضہ بے بنیاد ہے کہ ادب میں صرف زبان یا الفاظ کے ایک خاص استعمال سے ہی علامتوں کی تشکیل ہوتی ہے۔اگرچہ علامت کی ترسیل زبان کے ذریعہ ہی سے ممکن ہے کیونکہ ’’زبان سے آگے جانے کا راستہ بھی زبان ہی سے گزرتا ہے‘‘لیکن زبان کا علامتی استعمال علامتی فکر سے الگ کوئی معانی نہیں رکھتا۔دراصل علامتی لفظ اور علامتی فکر۔۔ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اس کے علاوہ علامتوں کی ایک اور سطح بھی ہے یعنی کبھی کسی ادبی تخلیق میں لفظ‘کردار یا کوئی واقعہ بطور علامت استعمال ہوتا ہے‘جس سے پوری تخلیق کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور کبھی پوری تخلیق علامتی روپ اختیار کرلیتی ہے۔ادبی علامت اور علامتی ادب میں اس طرح یہی فرق ہے کہ آخرالذکر ایک علامتی کل ہوتی ہے جبکہ اولالذکر اسی کل کے جز کا کام دے دیتی ہے۔علامتی تخلیق کے عناصر تخلیق سے الگ کوئی وجود نہیں رکھتے بلکہ پوری تخلیق کے اجزاء بن کر اس کی مکمل ساخت کو تشکیل دیتے ہیں۔‘‘
(اردو کا علامتی افسانہ۔ص۲۵)
علامتی اسلوب کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس اسلوب کی ضرورت ماحول کے تابع ہے یعنی اگر کہیں پر حالات اتنے سنگین ہیں کہ کوئی قلمکار اپنی بات عام فہم انداز سے نہیں کرسکتا ہے تو وہاں پر علامتی اظہار کی ضرورت پڑتی ہے لیکن علمی و فنی نقطہ نگاہ سے یہ رائے صحیح نہیں ہے کیونکہ علامتی اسلوب ‘فنی اظہار کاایک تکنیکی اسلوب Technical Style)) ہے جو بقول ڈبلو.بی. یے ٹس’’ تمام اسلوب کا جوہر ہے.‘‘ (The substance of all style) ۔ فنی طورپر کسی بھی ادیب یاشاعر کی تخلیق میں الفاظ وخیال کاعلامتی برتاؤ معنوی جہات کی تفہیمی راہیں استوار کرنے میں اہم کردار ادا کرتاہے۔بطور مثال پروفیسر حامدی کاشمیری ؔ کے درجہ ذیل شعر دیکھیں توعلامتی اسلوب کی معنوی جہات کا تصور واضح ہوسکتا ہے ۔
جتنے بھی اہل گلستاں تھے ‘ہوا کی زد میں تھے
طائران صبح کس کو حوصلہ دیتے رہے
ان کا شوقِ کوہ پیمائی جنوں انگیز تھا
اہلِ وادی دیر تک ان کو صدا دیتے رہے (خواب رواں)
اب افسانے میں علامتی اسلوب کی بات کریں تو اس مناسبت سے کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اختصاراََ درجہ ذیل اقتباسات بھی مناسب رہیں گے :
’’شیخ ابوالعباس اشقاقی ایک روز گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا ایک زرد کتا ان کے بسترمیں سو رہا ہے۔انہوں نے قیاس کیا کہ شاید محلے کا کوئی کتا اندر گھس آیا ہے۔ انہوں نے اسے نکالنے کاارادہ کیا مگر وہ ان کے دامن میں گھس کر غائب ہوگیا۔میں یہ سن کر عرض پرداز ہوا:
’’یا شیخ ‘یہ زرد کتا کیا ہے؟‘‘
’’فرمایا ‘زرد کتا تیرا نفس ہے۔‘ ‘
(افسانہ:زردکتا۔انتظار حسین)
’’لیکن عجیب بات تھی۔بے حسی میں صدیاں بیت گئی تھیں مگر احساس کی بیداری کے بعدایک لمحہ بھی اس کیفیت میں نہیں گزارا جارہا تھا۔میں نے اٹھنے کی کوشش کی ۔مکمل کوشش اور وہ کوشش ناکام رہی۔پھر کوشش کی اور….اور پھر میں اٹھنے میں کامیاب ہوگیا۔‘‘
(افسانہ:سرنگ ۔سریندر پرکاش)
’’ہوا آئی تو وہ بھی یہی خبر لائی۔پھر تو جو بھی آیا‘یہی خبر لایا۔ایک ہی خبر….اور پھر….خوف اور مایوسی نے جسم کے خوبصورت حصوں پر تعمیر شدہ مسرت‘آزادی اور امنگ کی خوبصورت عمارتوں کو منٹوں میں ڈھا دیا اور اپنی جڑیں مضبوط کرلیں۔ ہواؤں کی دیواروں پر لکھی تحریر سے آنکھیں موندی جاسکتی ہیں لیکن پلکوں کی دیواروں پر لکھی تحریریں!
تمام دروازے ‘کھڑکیاں‘روزن اور ہر وہ گوشہ بند کردیا گیا جس سے باہر کے ذرے کے آنے کی امید بھی کی جاسکتی تھی ۔
لوگ گھروں میں بند ہو کر بیٹھ گئے لیکن سکون سڑکوں پر آزادانہ گھوم رہا تھا۔بہت دنوں کے بعد اس بند کمروں سے نجات ملی تھی…یعنی بات الٹی ہوگئی تھی‘لوگ گھروں میں اور سکون سڑکوں پر۔
میں نے اپنے بچے کھچے دل سے کہا…یہ بہت برا ہوا۔
زبان نے فوراََاس کی تائید کی …بہت برا ہوا۔‘‘
(افسانہ :اندھیرے میں چلنے والے…عبدالصمد)
’’اجنبی سائے چیخ چیخ کر رونے لگے اور بین کر کے موسیٰ سے پوچھنے لگے۔ کیا خوف ہی سب کچھ ہے؟ نہیں…. وہ تو محض ابتداء ہے۔خون گاڑھا ہوکر جمنے لگا۔ پانی جو سورج کی گرمی سے اڑا تو جمتا خون بساند بھی دینے لگا۔ مہاویاء شکلیں بدل کر ڈرانے لگا مگر اجنبی سائے یونہی ایک دوسرے کا گوشت کھا کھا کر پلنے لگے۔ وہ اپنی دستار پر ستارے سجائے میلے پر قبضہ جمانے لگے…ہتھیار آگ برسانے لگے۔ چرند پرند بھاگنے لگے۔ بستیاں لاشوں سے پٹنے لگیں…. محابا، محابا، اجنبی سایوں میں مسیحا ڈھونڈنے لگا….. محبت کرو اپنے جیسوں سے کہ تمہیں اس نے محبتوں سے پیدا کیا اجنبی سائے چیخ چیخ کر ہنسنے لگے اور بے حیائی سے عیسیٰ سے پوچھنے لگے۔ کیا محبت ہی سب کچھ ہے؟‘‘
(افسانہ’’ ستیہ کے بکھرے ہوئے بال ‘‘….ڈاکٹر بلند اقبال)
تخلیق کی کامیابی کاانحصار تخلیقیت (Creativity) پر ہوتا ہے۔جو ذہن تخلیقی طور پرجتنا زرخیز ہوگا تو اس کی تخلیق میں بھی اتنی ہی تخلیقیت درآئے گی۔علامتی اظہار کا تعلق بھی تخلیقی زرخیزی سے جڑا ہوا ہے ۔ اب یہ تخلیق کار کے تخلیقی روّیہCreative Attitude) ) پر منحصر ہے کہ وہ تخلیق میں اپنے خیالات کو راست بیانیہ میں پیش کرتاہے یا علامتی اسلوب اپناتا ہے۔ علامتی اسلوب کے لئے علامتوں کا صحیح اور واضح شعورہونا ضروری ہے تاکہ تخلیق کار صحیح تصور کے ساتھ کسی علامت کا استعمال کرسکے اور یہ حد سے زیادہ تجریدیت کا شکار ہوکرمہمل تصور نہ بن جائے۔تخلیق میں علامت کا استعمال پہلودار معنویت کا غماز ہوتا ہے اور سود مند بھی ‘لیکن اس میں یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ جو علامت استعمال کی جارہی ہے یا تو اس کا تصورتخلیق کار اور قاری کے ذہن میں بھی واضح ہو یا تخلیق میں وہ اس طرح سے مستعمل ہو کہ موضوع کے ماحول کے مطابق وہ اپنی مخصوص معنوی جہت بنا سکے۔ مثلاََ‘ کبوتر امن کی علامت ہے۔ اب اگر یہ بطور علامت کسی تخلیق میں مستعمل ہوگا تو قاری کے ذہن میں پہلے ہی اس کا علامتی تصور یا جواز موجود ہے ‘اسلئے سمجھنے میں آسانی ہوگی۔اسی طرح اگر کسی افسانے میں کالا دیو کی علامت لائی جائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ یاتو دیو کے اصلی تصور کا فنی اظہار ہونا چاہئے یا پھریہ علامت کسی مخصوص تصور مثلاََکسی ظالم و جابر قوت‘انسان‘حکمران‘نظام‘یا سیاسی وسماجی ظلم وستم کا تخلیقی اظہار ہونا چاہئے ۔اس قسم کے فنی اظہار کی صراحت درجہ ذیل اقتباسات سے بھی ہوسکتی ہے :
’’خیال آتا ہے کہ ایک پنجرہ یہ ہے جس میں وہ ہے اور جس کی دیوار پر لٹکے کلینڈر پر ہر روز تاریخ بدلتی ہے اور ایک دن مرجھا کر نیچے جا گرتا ہے۔وقت کے کوڑے دان میں گرا یہ دن‘نئے دن کے لئے جگہ خالی کردیتا ہے‘یہ اس کا پنجرہ ہے۔کھڑکی ‘کھڑکی سے دکھائی دیتا برآمدہ اور برآمدے میں دوسرا پنجرہ‘جس میں طوطوں کا جوڑا…بلی کے موڈ کے مطابق اپنا رویہ بدلتا رہتا ہے۔خوشی کے چند لمحے بل پر منحصر ہیں۔‘‘ (پنجرہ..رشید امجد)
’’پولیس والا ہاتھ میں ڈنڈا گھماتے ہوئے چپ چاپ اپنے قدم آگے بڑھانے لگا۔وہ دوبارہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ دھند میں اضافہ ہورہا تھا۔ پھیلتی دھند میں لپٹے سرسبز درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹھے کبوتروں کی سانسیں اْکھڑ رہی تھیں اوروہ بکھرتے گھونسلوں کوکوؤں کی یلغار سے بچانے کے لئے اپنے پر پھڑ پھڑا رہے تھے۔ کبوتروں کی بدحواسی دیکھ کر وہ سرد اہ بھرتے ہوئے سوچنے لگا کہ دہائیوں سے ان کبوتروں کی روح زخمی ہورہی ہے ‘کب انہیں کوؤں کی یورش سے نجات ملے گی ۔‘‘ (سفید کبوتر..ڈاکٹر ریاض توحیدیؔ )
’’کالے دیوؤں کا یہ منحوس سایہ کئی دہائیوں سے بستی کے اوپر چھایا ہوا تھا۔ اس جنت نُما بستی کے روح پر ورمشک بار ماحول کو ان بدصورت کالے دیوؤں کی بد بودار سانسوں نے پلیگ زدہ بنائے رکھا تھا اور ان خبیث روحوں کی جابرانہ موجودگی کی وجہ سے بستی کے عنبر آگیں چمن زاروں ‘ چَھر چَھر کرتے آبشاروں ‘ پُر فریب کہساروں اورحُسن خیز سبزہ زاروں پر منحوسیت کے سیاہ سائے چھائے ہوئے تھے۔ پتہ نہیں یہ چنڈال فطرت بدصورت مخلوق کن بدتہذیب ویرانوں سے نکل کر ہاتھی کے دانت دکھائے بستی کے ریشم مزاج انسانوں کے سروں پر موت بن کر سوار ہوچکی تھی …………یہ بدفطرت کالے دیوبستی کے کسی بھی گھر میں بے دھڑک گھس جاتے اور اپنی خون خوار آنکھوں کا رعب جماتے ہوئے بستی کے مکینوں کی بے بسی اور بے کسی کے ساتھ جس طرح سے چاہتے کھلی اڑاتے رہتے۔ اگرکوئی انسان اپنی آن بچانے کے لئے ان درندوں سے اُلجھ پڑتا تو ان وحشیوں کے خونخوار پنجے اس مظلوم کو نوچ نوچ کرلہولہان کرجاتے اور ان معصوموں کو پلک چھپکتے ہی جھپٹ کرلے جاتے۔بستی کے لوگ ان آدم خوروں کے بجائے ان بے زبان کتوں کی وفاداری اور انسان دوستی کے شکر گزار نظر آتے تھے. جورات کے گھنے سائے میں اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر بستی کے لوگوں کو بھونکتے بھونکتے ان ظالموں کی آمد کا اشارہ کرتے رہتے۔پھاٹک کے سامنے مارے گئے کتوں کی بدبو سے جب کالے دیو تنگ آگئے تو انہوں نے بستی کے لوگوں کو حکم جابری سنایا کہ وہ ان خون آلودہ کتوں کو اپنے اپنے کاندھوں پر اُٹھا کر دور کسی نالے میں پھینک دیں ۔ بے بس لوگ حکم جابری کی تعمیل کرتے ہوئے کتوں کو کاندھوں پراُٹھائے جارہے تھے ۔‘‘
(افسانہ:کالے دیوؤ ں کا سایہ۔ڈاکٹر ریاض توحیدی )
افسانے میں علامتی اظہار عنوان‘ کردار‘ موضوع ‘چند جملوں اور کبھی کبھی پورے متن میں بھی چھایا رہتا ہے لیکن اس کے لئے اہم بات یہ ہے کہ تخلیق کا رعلامتی اسلوب اپناتے ہوئے تخیل کے سیال تصور کو معنی خیزتصور کی ترسیل کرنے پر قادر ہو‘نہیں تو وہ تخلیق ایک بے معنی پہیلی کے سوا کچھ بھی نہ ہوگی۔تخلیق کی کامیابی کا انحصار فنی رموز کی شناسائی اورپہلودارمعنویت پر ہے ۔فنی اور معنوی طور پر افسانے کے متن میں تخلیقی رچاؤ ہونا چاہئے نہ کہ کسی واقع یا خیال کو صحافتی انداز سے روداد نما بنایا جائے۔ تخلیقی رچاؤ کے لئے علامتی اسلوب بڑا کار آمد ثابت ہوتا ہے ۔کیونکہ یہ متن میں امکان خیزمعنویت پیدا کرتا ہے اور قرات کے دوارن قاری کا ذہن متن میں پوشیدہ معنی و مفہوم اور کیفیت و تاثر کے کئی تفہیمی جہات انگیزکرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کسی بھی علامتی شعر یا افسانے کی تفہیم باشعورقارئین مختلف زاویوں سے کرتے رہتے ہیں کیونکہ علامتی تخلیق کے متن میں معنی سے زیاد ہ مفہوم کو انگیز کرنا پڑتاہے‘ اس لئے علامتی تخلیق میں لفظ کے لغوی مفاہیم کے علاوہ وسعت پذیر معنوی انسلاکیت مضمر ہوتی ہے۔ علامتی اسلوب کی یہ وسعت پذیر معنوی انسلاکیت درجہ ذیل اقتباس سے بھی ظاہر ہوتی ہے :
’’ریوڑ کی حفاظت کی خاطر دائیں بائیں ‘آگے پیچھے چند خوانخوار کتے لمبی لمبی زبانیں نکالے رال ٹپکاتے دوڑ رہے ہیں‘بھیڑوں کی معمولی حرکت پر بھی ان کی کڑی نظر ہے ۔دفعتاََ اس نے دیکھا کہ ایک بھیڑریوڑ سے کٹ کر دوسری سمت مڑگئی ہے۔ابھی وہ چند قدم ہی چلی ہوگی کہ ایک محافظ کتے کی نگاہ اس پر پڑجاتیہے اور وہ غرا کر اس پر جست لگا دیتا ہے.کتے کے تیز اور نکیلے دانت بھیڑ کی گردن میں پیوست ہوجاتے ہیں۔دوسرے کتے بھی غراتے ہوئے اس گمراہ بھیڑ پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اس طرحجھنجھوڑ کررکھ دیتے ہیں کہ چند لمحوں بعد وہاں ادھ چھچھوڑی ہڈیوں‘ریت میں جذب لہو کے بڑے بڑے دھبوں اور بھیڑ کی بھوری کھال کے خون آلودچھچھڑوں کے سوا کھ باقی نہیں رہتا۔دیگر بھیڑیں سہمی ہوئی نظروں سے اس منظرکو دیکھتی ہیں اور خوف و دہشت سے ایک دوسرے میں یوں سمٹ سکڑ جاتی ہیں کہہ دور سے پورا ریوڑزمین میں رینگتے ایک بھورے بادل کی مانند دکھائی دیتا ہے۔‘‘
(افسانہ :معبر…سلام بن رزاق )
’’تم آسمان کی بلندیوں میں تب بھی اڑتے تھے اور اب بھی اڑ رہے ہو اور ہم……..ہم نے جب تمہاری طرح بلندیوں کو چھونے کی کوشش کی‘آزاد فضاؤں کو چھونے کی آرزو کی۔تہذیبی قدروں کی آبیاری اورانسانی عظمت کی بلندیوں کے لئے اپنی آواز بلند کی تو ہم سے ہماری دنیا چھین لی گئی۔ہمارے پاؤں میں بیڑیاں ڈالی ئیں۔ ہمارے لئے دوقدم چلنا مشکل ہوگیا اور جب ہم نے اپنے پاؤں کو اپنے وجود کوان بیڑیوں سے آزاد کرنے کی کوشش کی تو ہماری بے بس بے حرکت اور بے آوازجسموں کوان قبروں ک گہرائیوں میں دھکیل دیا گیا۔‘‘ (نورشاہ۔افسانہ‘اڑان)
افسانے میں علامتوں کا تخلیقی استعمال اسی وقت مفید ثابت ہوتا ہے جب افسانے کی علامتی فضا بامعنی افسانوی اظہار کی حامل ہواوراس کے متن میں کہانی پن کے ساتھ ساتھ خیالات کا ٹھوس پن بھی موجود ہو‘ تاکہ افسانے کے علامتی ماحول کی تفہیم میں کوئی بے معنویت یا بے مقصد ابہام موجود نہ رہے ۔زبان و بیان کے اعتبار سے بھی علامتی افسانے میں مستعمل تراکیب اور جملوں کی ساخت کا صحیح ادراک ہونا لازمی ہے تاکہ تخلیق کار کسی بے معنی ترکیب یا جملے کو علامت سمجھ کر خود بھی دھوکے میں نہ رہے اور قاری کوبھی ذہنی الجھن میں نہ ڈال سکے ۔ تنقیدی نقطہ نگاہ سے ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ کسی بھی علامتی تخلیق کی تفہیم وتوضیح کے دوران صرف متنی ماحول سے سروکار رکھنا ضروری ہے اور اسی ماحول کے دائرے میں تشریح و توضیح کرنا صحیح طریقہ تجزیہ ثابت ہوسکتاہے ‘نہیں تو معاملہ سوال از آسماں جواب از ریسماں کے مثل بن جائیگا۔اردومیں کافی تعداد میں علامتی افسانے تخلیق ہوئے ہیں اور آج بھی لکھے جارہے ہیں ۔موضوع کی مناسبت سے چند افسانوں کا ذکر(جو اس وقت یادآرہے ہیں) کرنا مفید رہے گا۔
’’سلطان‘وحشی ‘‘(احمد ندیم قاسمی )‘غالیچہ (کرشن چندر)‘آخری آدمی'کایا کلپ ‘وہ جو کھوئے گئے(انتظار حسین ) ‘ ماچس'کمپوزیشن دو(بلراج منرا)‘ دوسرے آدمی کا ڈرائینگ روم‘بجوکا(سریندر پرکاش)‘ لمحے کی موت(غلام الثقلین)‘پرندے'چوراہا(انور سجاد)‘میگھ ملہار(ممتاز شیریں)‘ معبر(سلام بن رزاق )‘اندھیرے میں چلنے والے (عبدالصمد )‘سرنگ (سریندر پرکاش )‘اندھے پرندے کا سفر‘پرندہ پکڑنے والی گاڑی (غیاث احمد گدی)‘ جلاوطن(عبداللہ حسین ) ‘اپنا گوشت ‘تفتیش (شوکت حیات )‘اور ٹائم (منشا یاد)ہارا ہوا پرندہ (مظہرالزماں)آسمان ‘پھول اور لہو(نورشاہ)‘شہر کا اغوا(عمر مجید)‘پنجرہ (رشید امجد)ڈاکو پھر وآپس آگئے (نورالحسنین )بھوکا ایتھوپیا(مشرف عالم ذوقی) ارسطو کی وآپسی (وحشی سعید)گھونسلہ (دیپک بدکی ) پہلا چہرہ (ذاہد مختار) ‘ہاوس ہوسٹس ‘عمارت (پروفیسر غضنفر)رنگ‘سوچ بورڈ کے نمبر‘جنگل کے قیدی(مشتاق مہدی)‘ ستیہ کے بکھرے بال(ڈاکٹر بلند اقبال)‘بابل کا مینار(ڈاکٹر اختر آزاد).’’سمندر جہاز اور میں(ڈاکٹر افشاں ملک)‘نقش فریادی (راجہ یوسف)‘ .لا’شے‘اماوس نگری (سید تحسین گیلانی)‘ بد دعا کرنے والے(سلیم سرفراز) ‘مرگھٹ (شأوئل احمد )‘کالے دیوؤ ں کا سایہ ‘سفید کبوتر‘سفید نور کا راز(ریاض توحیدیؔ ) وغیرہ
*** Wadipora Handwara Kashmir 193221 [email protected]
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔