(Last Updated On: )
سیّد ارشاد احمد عارف (لاہور )
سرائیکی وسیب عہد ِ حاضر کی جن بابغہ ٔ روزگار علمی شخصیات پر فخر کر سکتا ہے ان میں صاحبزادہ سیّد محمد فاروق القادری شامل ہیں ۔ مصنف ، مترجم ، انشا پرداز اور جدید و قدیم علوم کا سنگم ۔ صاحبزادہ سیّد محمد فاروق القادری علم و فضل میں اپنی مثل آپ ہیں ، اُردو ، عربی ، فارسی ، انگریزی پر عالمانہ عبور اور زبان و بیان پر فاضلانہ دسترس ۔ گفتگو اس قدر فصیح و شائستہ کہ وہ کہیں اور سناکرے کوئی ، تحریر کہیں زیادہ شستہ ، سلیس و رواں کہ پڑھتے ہوئے کسی لفظ کی کمی محسوس ہو نہ بیشی کی شکایت ، الفاظ نہیں گویا نگینے جڑے ہوئے ، یادداشت قابلِ رشک ، عشروں بعد بھی واقعات کو درست تناظر میں صحت کے ساتھ بیان کرنے پر قدرت ۔ ’’ یادوں کے خواب ‘‘ اُن حسین ، پُرلطف ، دلآویز مگر غم آگیں یادوں کا مجموعہ ہے جنہیں دل درد مند یاد رکھنا چاہتا ہے نہ بھول پاتا ہے ۔ یہ حسنِ اتفاق ہے یا قدرت کا طے شدہ منصوبہ کہ کانٹے پھول سے جڑے ہوئے ہیں اور رنگ و بو کا ہررَسیا ذو ق گل بوسی میں کانٹوں پہ زباں رکھ دیتا ہے ۔ یادوں کا معاملہ بھی ایسا ہے ، تلخ و شیریں ہوتی ہیں مگر رفتگاں کی یاد؟ تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو زندگی شاید اسی کا نام ہے رفتگاں کی یاد کے ساتھ جینا پڑتا ہے تنہائیوں کا زہر بادل نخواستہ پینا پڑتا ہے اس زندگی میں فکرِ معاش ، عشقِ بُتاں ، یادِ رفتگاں سے ایک ساتھ عہدہ بر آ ہونا کمالِ آدمیت ہے ۔ بقول مبارک صدیقی ؎
خزاں کی رُت میں ، گلاب لہجہ ، بنا کے رکھنا ، کمال یہ ہے
ہوا کی زد پہ ، دیا جلانا ، جلا کے رکھنا ، کمال یہ ہے
آدمی آدمی سے ملتا ہے ، دل مگر کسی سے ملتا ہے اور یہی دل کا ملنا ہی تعلق کا سبب اور یادوں کا سرمایہ بنتا ہے ۔ ’’ یادوں کے خوا ب ‘‘ میں صاحبزادہ سیّد محمد فاروق القادری نے یادوں کے گراں قدر سرمائے کو قارئین کے رُو برو پیش کیا ہے ۔
’’ یادوں کے خواب ‘‘ میں شاہ صاحب نے جن شخصیات کا ذکر ان میں سے بیشتر کے ساتھ ان سطور کے راقم کی نیاز مندی اور شناسائی رہی ، مولانا سیّد ابو اعلیٰ مودودی کی محفلوں میں ایک طالب علم کے طور پر شرکت کا موقع ملا ۔ چار پانچ ملاقاتیں بھی حافظے پرنقش ہیں ۔ وہ ملاقات تو میں کبھی بھلا ہی نہیں پاتا جس میں مولانا گلزار احمد مظاہری مر حوم کے ایک سوال کے جواب میں مولانا نے کہا تھا کہ ’’ اگر ذو الفقار علی بھٹو ( مرحوم ) نے 1977ء کے انتخابا ت میں دھاندلی کی غلطی کی تو صرف اقتدار نہیں زندگی بھی گنوا بیٹھے گا ‘‘ ۔ پورا واقعہ میں نے ہفت روزہ افریشیا کے مودودی نمبر میں بیان کر دیا تھا ۔ حضرت مولانا عبد الستار نیازی ، مولانا شاہ احمد نورانی ، حکیم محمد موسیٰ امرتسری ، احسان دانش ، حافظ محمد اَفضل فقیر ، محمد اَکبر بابر ایڈووکیٹ اور علامہ اِقبال احمد فاروقی سے رابطہ رہا اور ان کے علم و فضل ، اخلاقِ کریمانہ اور تجربات سے زندگی بھر استفادہ کیا ۔ مولانا عبد الستار خان نیازی نے زندگی کے کٹھن مراحل میں قدم قدم پر رہنمائی کی حتیٰ کہ خانگی معاملات میں بھی مشوروں سے نوازا کرتے تھے جس پر بابا وقار انبالوی نے طنز کیا تھا کہ جو شخص زندگی بھر کنوارا رہا ، اس سے خانگی معاملات میں مشورہ ارشاد عارف سا سادہ لوح ہی کر سکتا ہے ۔
سیّد محمد فاروق القادری ؒ نے ’ ’ یادوں کے دیپ ‘‘ جلاتے ہوئے مختلف شخصیات کے صرف علمی فضائل اور انسانی محاسن ہی بیان نہیں کیے ۔ فکری رجحانات اور اپنے شعبے میں خدمات کا بھی احاطہ کیا ہے تاہم بنیادی طور پر باہمی تعلق کی خوشگوار یادیں تازہ کی ہیں ۔ یہ شخصی خاکے اور یادوں کے پہلو ہیں جن سے سیّد صاحب متاثر ہوئے ، ایسے متاثر کہ زندگی بھر بھلا نہ پائے اور یہ سرمایہ اپنے متعلقین احباب اور قارئین کو منتقل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔
سیّد محمد فاروق القادری سے ہمیشہ میں نے وہی گلہ کیا جو انہیں اَکبر بابر ایڈووکیٹ سے رہا کہ گڑھی اختیار خان کو نہ چھوڑ کر انہوں نے اپنے آپ کو اپنے چاہنے والوں کے علاوہ طالبانِ علم سے زیادتی کی ۔ اس قدر جامع الصفات شخص اگر گوشہ نشینی کے بجائے کسی علمی مرکز مثلاً لاہور میں قیام کو ترجیح دیتا تو ایک زمانہ فیض یاب ہوتا ۔ ہجرتِ سِنت نبوی ہے اور سفر وسیلہ ٔ ظفر ، مگر شاہ صاحب نے اجتناب کیا ، وجہ ؟ وہی جانتے ہیں۔
’’ یادوں کے خواب ‘‘ پڑھ کر قارئین میرے تاثر کی تائید کریں گے ۔ مجھے فراخ دلی سے یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ خان پور میں قیام کے دَوران ہم دونوں بھائیوں کو اگر شاہ صاحب کی صحبت سعید میسر نہ آتی تو شاید ہم ابلہ ٔ مسجد ہوتے یا زیادہ سے زیادہ تہذیب کے فرزند ۔ خود بینی و خدا بینی کا سفر طے کر نے میں جن شخصیات نے نمایاں کردار ادا کیا ، ان میں سیّد فاروق القادری سرِ فہرست ہیں ۔ ذہنی ریاضت ، جدید و قدیم کے مطالعہ کا شوق ، آگے بڑھنے کا جذبہ اور خودی نہ بیچ ، غریبی میں نام پیدا کر نے کی لگن ، سعید صحبتوں کا ثمر ہے ۔ اللہ تعالیٰ شاہ صاحب کو صحتِ کاملہ کے ساتھ تادیر سلامت رکھے اور نوجوان نسل ان کے رشحات فکر سے مستفید ہوتی رہے ۔
٭٭٭