(Last Updated On: )
ڈاکٹر حمیرا حیات (دہلی یونیورسٹی)
تنقید ایک مخصوص شعبہ علم ہے۔ ایک ایسافن ہے جس سے ادب یا کسی فن پارے کی قدرو قیمت کا تعین کیا جاتا ہے۔ ہر عہد میں ادب کی تفہیم کے لیے مختلف نظریات سے کام لیا جاتا رہا ہے۔ادبی تخلیقات کے مختلف گوشوں کی طرح طرح سے وضاحت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔جس کی وجہ سے مختلف رجحانات پیدا ہوتے ہیں۔ زندگی کی قدریں جس تیزی سے تبدیل ہوتی ہیں اسی تیزی سے تہذیبی،سماجی اور ادبی رویے تبدیل ہوتے ہیںاور سائنسی تجربات کے تحت پرانی قدروں میں بدلائوآتا ہے ۔اردو ادب بھی ان تبدیلیوں سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ ان ہی تبدیلیوں اور رجحانات کے زیر اثراردو میں ترقی پسند نظریہ سامنے آیا ۔جس نے اردو تنقید کو ایک نیا رخ دیا۔
یوں تواردو تنقید کے ابتدائی نقوش اردو تذکروں میں جابجا مل جاتے ہیں لیکن یہ تنقیدکم رائے زنی،لفاظی،اور نکتہ چینی زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔کیونکہ اس میں ادبی تجزیے کی کوئی سائنسی اور منطقی بنیاد نہیں ملتی اور ان کا انحصار ذاتی پسند یا ناپسندپر ہوتا تھا۔تنقید کی باقاعدہ ابتداء انیسویں صدی میں مولانا الطاف حسین حالی کے ۱۸۹۳ء میں شائع دیوان کے طویل مقدمے سے ہوتی ہے ۔ جس میںحالی نے شاعری کے اصول وضوابط بیان کیے ۔اسے بعد میں مقدمہ شعرو شاعری کے نام سے شائع کیا گیا۔اس کے علاوہ حالی کے ہمعصر محمد حسین آزاد کی کتاب آبِ حیات ،مولانا شبلی نعمانی کی موازنہ انیس و دبیراور شعرالعجم نے بھی اردو تنقیدکو جلا بخشی۔لیکن جہاں تک جدیداردو تنقیدکی بات ہے تواس کا بیشتر حصہ ترقی پسند تحریک کا مرہون منت ہے۔اس تحریک نے ادب کے ہر گوشے کو متاثر کیا،اد ب میں تجربات کی نئی راہیں کھولیںاور انھیں اعتبار بخشا۔ ادب میں حقیقت،واقعیت،داخلیت وخارجیت،مواد ،ہیئت کے مباحث کی ابتداء کی جس سے ذہن و فکر کے نئے دریچے کھلے۔ادب و شاعری کو زندگی کی حقیقت سے آشنا کیا ۔اردو کی تقریبا تمام اصناف کو اس تحریک نے متاثر کیا لیکن اس کا سب سے اہم کارنامہ ادبی تنقید ہے۔
بقول خلیل الرحمن اعظمی:
’’ترقی پسند تحریک کے زیر اثر ادبی تنقید اردو زبان کی ایک فعال اور کارآمد صنف قرارپائی اورادب رسالوں کی ترتیب میں اسے ایک ترجیحی منصب دیا گیا۔اسی دور میں ایسے ادیب پیدا ہوئے جن کے ادبی کارناموں میں تنقید ذیلی یا ضمنی نہیں بلکہ بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ان ادیبوں نے جنھیں اس دور میں نقاد کہا گیافن تنقید کی ایک پیشہ وارانہ انہماک کے ساتھ برتنے کی کوشش کی اور صرف اپنی تنقیدی تحریروں کی بدولت انہیں صف اول کے ادیبوں میں جگہ ملی۔‘‘ (اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک،ص۶۵)
ترقی پسند تنقید نے دراصل اردو میں تنقیدی بصیرت کو عام کیا۔ادبی قدروں کے تعین کے سلسلے میں مباحث ومکالمے کے دروازے کھولے ۔ان ہی مباحث نے مواد و ہییت اور اظہار واسلوب کے نئے تجربات کی ہمت افزائی کرکے ادب کے افق کو بے پناہ وسعتوںسے آشنا کیا۔
ترقی پسند تنقید اس بات پر اصرار کرتی ہے کہ ادب محض تصوراتی اور خیال آرائی نہیں بلکہ زندگی کا ترجمان ہے۔ا س لیے زندگی کو اس کے تمام حسن رعنائی اور دلکشی کے ساتھ پیش کرنا چاہیے۔ادب کو زندگی ،سماج، ماحول اور زمانے کے پس منظر میںدیکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے داخلیت و خارجیت کے مابین گہرے ربط کی نشاندہی کرکے ادب کے سماجی اور اجتماعی پہلوئوں کی وضاحت کرنا ترقی پسند تنقید کا مقصد ہے۔ادب کی تعریف و تفہیم ،مواد ہیئت کے رشتے رمزیت و اشاریت ،حقیقت نگاری،ادب و سماج، اجتماعیت وانفرادیت اور اظہار و اسلوب کے مسائل پر ترقی پسند تنقید نے ایک نئی بحث کا آغاز کیا اور یہ بحث اس بنا پر بہت اہم تھی کہ ادب کے مسائل پر اس طرح اس سے پہلے گفتگو نہیںہوئی تھی۔اس تحریک نے ادیب ،قاری،نقاد سب کو شریک کرکے تنقیدی شعور اور بصیرت پر جلا کی اور فکری وادبی مسائل پر غور وخوص کی ابتداء کی جن سے ادب میں نئے تجربات کی راہ ہموار ہوئی۔ترقی پسند تنقید میں مواد و اسلوب اور ہیئت و مواد میں ایک صحت مندافادی رشتہ نظر آتا ہے۔ ادب کے افادی اور سماجی تصورات اس کی خاصیت ہے۔ماحول،سماج اور تاریخ سے متعلق معاشی،سماجی،معاشرتی،اقتصادی وطبقاتی کشمکش ترقی پسند تنقید کا محور ہے۔
دراصل ترقی پسندوں کے نزدیک ادب اس جماعت کا ترجمان ہے۔جو کسی سماج کے اقتصادی و پیداواری قوتوں کے تحت وجود میںآتا ہے۔کیونکہ اشتراکیت ترقی پسند تحریک کی بنیاد تھی۔اس لیے ترقی پسندوں نے اس بات پر زور دیا کہ سرمایادارانہ جمہوریت کی اقتصادی نابرابری کے خلاف مزدوروں ،کسانوں اور مظلوم متوسط طبقے کی ترجمانی اور اس کی حمایت ادب کا سماجی یا اجتماعی فریضہ قرار دیا جائے۔ترقی پسندوں کا یہ ماننا تھا کہ اشتراکی نظریہ ہی ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کرتا ہے کہ سرمایا داری کا غلبہ ختم کرنے کے لیے دنیا کی مزدور جماعت دوسرے مظلوم طبقوں کے اشتراک سے سیاسی طاقت کو سرمایا داروں کے ہاتھ سے چھین لے گی۔
ترقی پسندوں کاماننا ہے کہ ادب عوام کے لیے ہے اس لیے جتنا ممکن ہو ادب کو انفرادی نہیں اجتماعی طور پر پھیلانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔لہٰذاادب کو اجتماعی زندگی کا ترجمان بنانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں ادب محض امیروں کی کوٹھیوں تک محدود نہ تھابلکہ وہاں سے نکل کر ایک غریب مزدور کی جھونپڑی تک بھی اس کی رسائی ممکن ہوئی۔کیونکہ ادب سماج کے بغیر اور سماج ادب کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا لہذا ترقی پسند ناقدین نے بھی فن پارے کی قدرو قیمت کے تعین میں خارجی عوامل یعنی سیاسی،سماجی،معاشرتی ،معاشی واقتصادی اور داخلی عوامل یعنی خود ادیب کے خیالات وافکار ،احساسات وجذبات اور نجی تجربات دونوں کو کارفرما تصور کرتے ہیں۔
بقول ڈاکٹر انور پاشا:
کسی فنکار کی تخلیقات کی تفہیم وتنقید اس فنکار کی شخصیت ،اس کی وراثت ،اس کی ذہنی تربیت ،اس کے مزاج،اس کی بصیرت وادراک،اس کے عہداور عہد کی طبقاتی وابستگیوں کے باہمی تصادم کی تفہیم و تجزیے کہ بغیر ممکن نہیںہوسکتی۔
(ترقی پسند تنقید کی فکری بنیادیںاور اس کے اثرات،ص۱۷)
یہ بات واضح ہے کہ ترقی پسند نقاد ادب کو مقصد کی صورت دیکھتے ہیںاور ادب میں افادی پہلو کے قائل ہیں۔ان کے خیال میں ادب کا ایک مقصد ہوتا ہے۔یہ مقصد سماج کے کمزور طبقے مزدو ،کسان، اور مظلوم ہیںجو بھوک،غربت اور مصیبت میںرہتے ہیںان کو انصاف دلانا ہے۔ادیب غیر جانبدار نہیں بن سکتا کیونکہ وہ ایک خاص طبقے کی فلاح چاہتا ہے۔
بقول پروفیسر احتشام حسین:
’’جب ہم موجودہ دور کے عالمی ادب پر نگاہ ڈالتے ہیں تو یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ عوام
دوست ادیب کی جانبداری کا اعلان کرتے ہیںاور جو کچھ لکھتے ہیںشعوری طور پر عوام کے
مفاد کے لیے لکھتے ہیں‘‘۔(ذوق ادب وشعور،ص۱۴)
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ترقی پسند تنقید ی تصورات تاریخی ،سماجی،سیاسی اور اشتراکی نظریات کے زیر اثر پروان چڑھے۔جس کے سبب ترقی پسند تنقید نے ان نظریات کے ذریعہ ادب کو پہلے کے برعکس نہایت وسیع خیالات اور رجحانات سے ہمکنار کیا۔جس کے نتیجے میں اردو ادب کے سرمائے میں بیش بہا اضافہ ہوا۔جس نے اردو ادب کو ادبیت کے محدود دائرے سے نکال کر دیگر زبانوں کے ادبی سرمایے سے استفادہ کی طرف مائل کیا۔
ترقی پسند ناقدین کے اصول ونظریات کے حوالے سے کئی پہلو سامنے آتے ہیں۔ ان پہلو کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ان ناقدین کی کاوشوں پر نظر ثانی کی جائے۔ ترقی پسند ناقدین کی اچھی خاصی تعداد ہے جس کو ہم تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔پہلی صف میںاختر حسین رائے پوری،سجاد ظہیر،ڈاکٹر عبدالعلیم اور فیض احمد فیض کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ان ناقدین نے ترقی پسند کے مفہوم کو متعین کرنے اور ترقی پسند ادب و تنقید کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی۔اختر حسین رائے پوری کا ۱۹۳۵ میں شائع مضمون ’ادب اور زندگی ‘اپنے زمانے کا بوطیقا سمجھا جاتا ہے۔انھوں نے بہت سے مضامین لکھے جس میں ادب اور زندگی کے رشتے اور ترقی پسندی کے مفہوم کی وضاحت کی ۔اپنی تحریروں کے ذریعے ادب وتنقید کے ترقی پسند نقطہ نظر کو عام کرنے میں اہم نام سجاد ظہیر کا ہے۔وہ ایک ادیب ،افسانہ نگار اور نقاد تھے۔نقاد کی حیثیت سے ان کی کتاب ’ذکر حافظ‘ اور نظریاتی تنقید کے سلسلے میںان کے مضامین ترقی پسند تنقید کا بہترین سرمایہ ہے۔ان کے یہاں ادب،جدلیت،انقلاب،اور سماج کا جو تصور ملتا ہے اسے بلاشبہ ترقی پسند تنقید کی اساس قراردیا جاسکتا ہے۔ان کے علاوہ مجنوں گورکھپوری،ڈاکٹر اعجاز حسین،عبدالعلیم کی تحریریں ترقی پسند تنقیدکا اہم سرمایہ ہیں۔ترقی پسند تنقید کے دوسرادورعبوری دور ہے ۔کیونکہ اس میں عقلیت ،عمرانیات،اور سماجی ومعاشرتی حقیقت نگاری کو کافی فروغ حاصل ہوا۔ا س دور میں ناقدین کی ایک بڑی تعداد سامنے آئی جن میں سید احتشام حسین،عزیز احمد،آل احمد سرور،اختر انصاری، ممتاز حسین ، علی سردار جعفری،سبط حسین،احمد ندیم قاسمی،مجتبی حسین ،ظ۔انصاری،ظہیر کاشمیری،وقار عظیم کے نام اہم ہیں۔سید احتشام حسین نے اپنی تصانیف تنقیدی جائزے،روایت اوربغاوت،ادب اور سماج،تنقید اور عملی تنقید،ذوق ادب و شعور،عکس اور آئینے،افکار و مسائل،اعتبار نظرلکھ کر نظریاتی تنقیدی اصولوںکو مرتب کر قدامت پسندی،اور انتہا پسندی،جدلیاتی مادیت کے مباحث میں ترقی پسند تنقید اور ادب کو واضح بنیادوں پر پیش کرکے سائنٹفک تنقید کی بنیادڈالی۔آل احمد سرورنے اردو تنقید کوگیرائی،معنویت،تہہ داری،اور توازن وقارعطا کیااورتنقیدی اشارے،نئے پرانے چراغ،ادب اور نظریہ،تنقید کیا ہے،نظر اور نظریے ، مسرت سے بصیرت تک،جیسی اہم تنقیدی تصانیف قلم بند کیں۔
اس کے علاوہ دیگر ناقدین اور ان کی تصانیف مثلاعزیزاحمدکی کتاب’ترقی پسند ادب‘’اقبال ایک نئی تشکیل ‘علی سردار جعفری کی ’ترقی پسند ادب ’پیغمبران سخن‘،اختر انصاری کی ’افادی ادب‘’ادبی ڈائری ‘’حالی اور نیاتنقیدی شعور‘،ممتاز حسین کی’ نقد حیات‘’ادبی مسائل‘’نئی قدریں‘’نئے تنقیدی گوشے‘’ادب اور شعور‘’حالی کے شعری نظریات‘’امیر خسرو دہلوی حیات اور شاعری‘،علی جواد زیدی اور اختر اورینوی کی تنقیدی کاوشیں قابل قدر ہیں جس کے سبب ترقی پسند تنقید نے لگاتارعروج کی منزلیں طے کرتی گئی ۔ترقی پسند کا تیسرا دورتنقید نگاروں کی تعداد کے لحاظ سے سب سے بڑا دور ہے۔کیونکہ اس دور میں جو ترقی پسند ادبی نقاد منظر عام پر آئے وہ ناقدین جدید ترقی پسندی کے معمارہیں۔اس دور میں ہی ترقی پسندی کی بازیافت اور اس کی نئی تفہیم و تعبیرکاکام ہوا۔ان اہم نقادوں میں محمد حسن نے ادبی تنقید،شعر نو،جدید اردو ادب،ادبی سماجیات،معاصر ادب کے پیش رو،،عبادت بریلوی نے تنقیدی زاویے،غالب کا فن،جدید اردو ادب،تنقیدی تجربے،شاعری اور شاعری کی تنقید،جدید شاعری،غزل او رمطالعہ غزل،محمد عقیل رضوی نے ’نئی فکریں،نئی علامت نگاری،تنقید اور عصری آگہی،سماجی تنقید اور تنقیدی عمل،عملی انتقادیات،اصول تنقید اور ردعمل، وحید اخترنے تخلیق و تنقید،غالب کا فکری پس منظر،اقبالیات،فلسفہ اور ادبی تنقید، شارب ردولوی نے جدید اردو تنقید، آزادی کے بعد دہلی میں اردو تنقید،مطالعہ ولی،معاصر اردو تنقید:مسائل و میلانات،اردو مرثیہ وغیرہ جیسے اہم تنقید نگاروںنے اپنی تنقیدی کاوشوں سے ترقی پسند تنقید کو بام عروج تک پہچانے میں اہم رول اداکیا ہے۔مذکورہ ناقدین کے علاوہ اسلوب احمد انصاری،احمد علی فاطمی،خورشید اسلام،اصغر علی انجینر، علی جاویدوغیرہ کے نام اہم ہیں۔
اگر ان تینوں ادوار کے ترقی پسند نقادوں کی تنقیدی کاوشوں پر نظر ڈالیں تو خیال و نظرکے کئی پہلو سامنے آتے ہیں۔ان میں کسی کی تنقید ی تحریروں میں تاریخی آگہی اور روح عصر کا عنصر نمایاں ہے تو کسی کے یہاں طبقاتی روابط، معاشرتی کشمکش اور مادی پہلو کا،کسی نے نفسیاتی معلومات کو زیادہ اہمیت دی تو کسی کے یہاں افادیت ومقصدیت کا رجحان حاوی ہوگیا ہے۔غرض کہ متنوع نقطہ نظر مختلف خیالات ونظریات کی ہم آہنگی ہے جو مرکب ہو کر فن تنقید کا معیار بنی ہے۔اس میں تاریخی، سماجی،مارکسی،عمرانی،نفسیاتی اور سائنٹی فک سبھی قسم کے تنقیدی رجحانات باہم متصل ہیں۔مختصر یہ کہ ترقی پسند تنقید نے تنقید کی نئی راہیںہموار کیں اور نئے تجربات،فکرو خیالات ،تنقید کے نئے معیار قائم کیے جس سے تنقید کو باقاعدہ ایک صنف کی حیثیت حاصل ہوئی اور لوگوں میں ا س کو پڑھنے کا شوق بھی پیدا ہوا۔مجموی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ترقی پسند تنقید اور ناقدین نے ادبی تنقید کو سائنسی اور معروضی انداز بخشنے میں کامیابی حاصل کی۔تنقید میں ذوق و وجدان کے بجائے سماجی شعوراور زندگی سے اس کے رشتے رہنما بنے۔ساتھ ہی تحسین اور سخن فہمی کا وہ معیارعطا کیا جس سے ادبی تنقیداردو زبان کی ایک فعال اور کارآمد صنف بن گئی۔٭
اُردو کے تمام حروفِ تہجی
٭۔۔۔نامور شاعرہ اور ادیبہ آمنہ عالم کا بنایا گیا جملہ، جس میں اُردو کے تمام حروف تہجی موجود ہیں۔
’’صاحب ذرا ژولیدہ سر سفید ڈاڑھی والے ضعیف شخص کا ظرف دیکھئے۔ جج کے غلط فیصلے کے باعث قید کاٹ کر نکلا تو بگڑنے کے بجائے زمین چوم کر بولا:پاکستان زندہ باد۔۔۔۔‘‘
٭۔۔۔ممتاز مزاح نگار علی رضا احمد کا تحریر کردہ ایک جملہ، اس جملے میں بھی اُردو کے تمام حروف تہجی موجود ہیں۔’’ایک ٹیلے پر واقع مزار خواجہ فریدالدین گنج شکرؒ کے احاطہء صحن میں ذرا سی ژالہ باری چاندی کے ڈھیروں کی مثل بڑے غضب کا نظارہ دیتی ہے‘‘۔
اس جملے کی تخلیق کے بارے علی رضا احمد لکھتے ہیں کہ ’’جب میں نے انگریزی کے لکھاری کا لکھا ہوا ایک چھوٹا مگر عظیم جملہ The quick brown fox jumps over the lazy dog
دیکھا تھا تو خواہش تھی کہ ایک ایسا جملہ اُردو کا بھی ہونا چاہئے جس میں اُردو کے تمام حروفِ تہجی سما سکیں ’’ چنانچہ تھوڑی محنت کے بعد میں نے اس منزل کو پا لیا‘‘۔اُردُو کا ایسا قطعہ جس میں اُردُو کے تمام حروفِ تہجی شامل ہیں۔
نہ ژالہ باری نہ دھوپ پڑتی نہ ٹمٹماتی ہے چاندنی اب
نہ کوئی ساغر نہ آگ برکھا، عجیب طرز فنا چلی اب
جدا حلاوت، خفا ظرافت، ضعیف ہر شوق، ڈر نہ صدمہ
ثمر جو ذکرِ حبیب کا ہے، یہ تجھ کو عرفی ملا سبھی اب