اردو کے مشہور شاعر مصطفے زیدی( تیخ الہ آبادی) کے خاندان کا شمار الہ آبار کے معروف شعیہ خاندانوں میں ہوتا تھا۔ مصطفے زیدی کے والد صاحب سید لخت حسنین خفیہ پولیس ( سی آئی ڈی) میں انسپکٹر تعینات تھے۔ اس حوالے سے تحریک آزادی کے زمانے میں ایک واقعہ بہت مشہور ہوا تھا۔ جو اب لوگوں کو کم یاد ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ تحریک آزاری ہند کے عروج کے زمانے میں ہندوستان کے قومی رہنماؤں کی باغیانہ تقاریر کے سبب ان پر بغاوت کا مقدمہ قائم ہوا۔ کیونکہ کراچی میں 8۔10 جولائی 1921 کو آل انڈیا خلافت کانفرس میں مسلمانوں کو فوج سے دور رہنے کی ترغیب دی تھی ۔ جس کے سبب علی برادارن، مولانا محمد حسین مدنی، جگت گور شنکر اچاریہ ( سوامی کرشن تیرتھ) پیر غلام مجدد سندھی، مولانا ثنا اللہ کان پوری ، ڈاکٹر سیف الدین کچلو ، پر کراچی کے خالقدینا ہال، بندر روڈ ( حال ایم اے جناح روڈ) پر مقدمہ چلا اور انھیں دو سال سے زائد نظر بند کردیا گیا۔اور محمد علی جوہر کراچی کے سنٹرل جیل میں پاند سلاسل بھی رہے۔ اب باغیانہ تقاریر کی رپورٹ مصطفے زیدی کے والد انسپکٹرسید لخت حسنین نے لکھ کر برطانوی حکومت کے افسران اعلی تک پنچائی تھی۔ وہ خود بھی 22 دسمبر 1921 کو عدالت کے پہلے دن بطور استغاثہ بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ اس کے علاوہ محمد علی جوہر اور بھی مقدمے بھی دائر کئے گئے۔ ان سب مقدموں کے مخبر انسپکٹر سید لخت حسنین ہی تھے۔ محمد علی جوہری اپنی بذلہ سنجی کے لیے مشہور ہیں۔ مقدمہ کی کاروائی شروع ہوتے ہی سید لخت حسنین کا نام سنتے ہی مولانا محمد علی کی رگ ظرافت پھڑکی انھوں نے سید لخت حسنین کو مخاطب کرتے ہوئے یہ فی البدیہ شعر کہا۔
۔۔۔ محمد ﷺ کا دشمن، علی (رض) کا عدو
نہ کر اپنے کو لخت حسنین تو
سید لخت حسنین شاعر تو نہ تھے، انھوں نے شعر کا جواب یوں دیا۔
۔۔۔علی (رض) اور محمدﷺ سےکیا تجھ کوکلام
تو کرے ہے اپنے گاندھی کی حجت تمام
سید لخت حسنین 1950 میں اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔
اردو لسانیات
زبان اصل میں انسان کے تعینات یا اداروں میں سے ہے۔ وہ ان کی معمول ہے جن کی کار بر...