آج کل پاکستان کے شہر کراچی میں ’ Concepts 2016 ‘ نامی سامانِ حرب کی نمائش لگی ہوئی ہے جس میں دیگر ملکوں کی اسلحہ ساز کمپنیوں کے سٹالوں کے علاوہ پاکستان کی اپنی کمپنیوں نے بھی اپنا بنایا اسلحہ رکھا ہوا ہے ۔ پاکستان میں سب سے بڑی ’ اسلحہ ساز ‘ ایسٹبلشمنٹ (Establishment) پاکستان آرڈینس فیکڑیز (POF) ہے ۔ * یہ نہ صرف پاکستانی افواج کی ضروریات کا ایک حصہ پورا کرتی ہے بلکہ دنیا کے چالیس ممالک کو بھی اپنی مصنوعات برآمد کرتی ہے ۔ اگر آپ اس نمائش میں جائیں اورایسے مختلف سٹالوں پر جائیں جو اُن کمپنیوں کے ہیں جنہیں بندوقیں بنانے میں مہارت ہے تو تھوڑے سے استفسار کے بعد آپ یہ جان جائیں گے کہ ان سب کی پرائم (Prime) پروڈکٹ ’ Sniper Rifles ‘ ہے اور وہ نت نئی ’ سنائپر رائفلز‘ بنانے میں مشغول ہیں گو یہ نیوکلیائی ہتھیاروں کا دور ہے ۔
نیوکلیائی ہتھیار
نیوکلیائی ہتھیاروں کی تاریخ سات دہائیوں پر مشتمل ہے ۔ جوہری ہتھیار کا پہلا کامیاب تجربہ ' ٹرینیٹی‘ ( Trinity ) کے نام سے امریکہ نے نیو میکسیکو کے صحرا میں 16 جولائی 1945 ء کو کیا تھا جو مینہٹن پروجیکٹ (Manhattan Project.) کا ایک حصہ تھا ۔ جس کے بعد اس نے 6 اگست 1945 ء کو ہیروشیما پر ’ لٹل بوائے ‘ (Little Boy) نامی اور تین دن بعد ہی ناگا ساکی پر ’فیٹ مین‘ (Fat Man) نامی ایٹم بم پھینک کر لاکھوں افراد کو فوری طور پر لقمہ اجل بنا دیا تھا ۔ ان دونوں بموں سے پھیلی تابکاری نے بعد میں انسانوں سمیت حیاتیات ، ماحولیات اور اوزون تہہ پر کیا اثرات مرتب کئے ، وہ داستان الگ ہے ۔ اس وقت دنیا میں جوہری ہتھیار رکھنے والے ملکوں میں پاکستان ، انڈیا اور شمالی کوریا سمیت امریکہ ، موجودہ روس ( سابقہ سوویت یونین) ، برطانیہ ، فرانس اور چین شامل ہیں جبکہ جرمنی ، اٹلی ، ہالینڈ اور ترکی جیسے وہ ممالک جو نیٹو (NATO) میں شامل ہیں , میں بھی جوہری ہتھیاروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے ۔ یہ جوہری ہتھیار دو طرح کے ہیں ؛ ایک جو ’ فِشن ہتھیار‘ (Fission weapons ) کہلاتے ہیں جبکہ دوسری قسم ’ فیوژن ہتھیار‘ (Fusion weapons ) کہلاتی ہے ۔
’ فِشن ہتھیار‘ (Fission weapons) عام طور پر ایٹم بم کہلاتے ہیں ، انہیں ’ اے ۔ بم ‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ عام طور پر یورینیم ۔ 235 یا پلوٹونیم ۔ 239 کو استعمال کرکے بنائے جاتے ہیں ۔ ویسے انہیں بنانے کے لئے یورینیم ۔ 233 ، نیپٹونیم ۔ 237 اور امرسیّم کے کچھ آئیسوٹپس بھی برتے جا سکتے ہیں ۔ یہ ہتھیار ایک ٹن ڈائنامائٹ (TNT) سے لے کر پانچ سو کلو ٹن (500,000 ٹن) باردو کے برابر تباہی پھیلا سکتے ہیں ۔ ان سے پیدا ہونے والی تابکاری (Radioactivity ) جس کی آگے مزید دو قسمیں ہیں ، مختصر مدت والی اور دیر تک اثر انداز رہنے والی تابکاری ، اس کے علاوہ ہے جس سے ہونے والی تباہی اُس سے الگ ہے جو جوہری دھماکہ کرتا ہے ۔
’ فیوژن ہتھیار ' (Fusion weapons) جنہیں ’ تھرمو نیوکلیائی ‘ (thermonuclear) ہتھیار بھی کہا جاتا ہے ۔ عام زبان میں یہ ہائیڈروجن بم کہلاتا ہے ۔ یہ ہتھیار ’ فشن ہتھیاروں ‘ کے مقابلے میں سائز میں چھوٹے ہوتے ہیں لیکن زیادہ تباہی پھیلاتے ہیں ۔ اکتوبر 1961ء میں سوویت یونین ( موجودہ روس) نے’ زار بم ‘ (Tsar Bomba) تھرمو نیوکلیائی بم کا جو تجربہ کیا تھا اس کی طاقت 50 میگا ٹن ٹی این ٹی (TNT) کے برابر تھی ، سائنس دانوں کے مطابق اس کی صلاحیت 100 میگا ٹن تک بڑھائی جا سکتی تھی اگر اس میں یورینیم ۔ 238 کا بھی استعمال کیا جاتا ۔ اس طرح کے ہتھیار بنانے کی صلاحیت صرف پانچ ملکوں کے پاس ہے جن میں امریکہ ، برطانیہ ، فرانس ،چین اور انڈیا شامل ہیں ۔ شمالی کوریا نے جنوری 2016 ء میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ بھی ’ تھرمو نیوکلیائی‘ ہتھیار بنانے کا کامیاب تجربہ کر چکا ہے لیکن اس کا یہ دعویٰ ابھی مصدقہ نہیں ہے ۔
جوہری ہتھیاروں کی اور بھی اقسام ہیں جن میں ’ بوسٹڈ فشن ‘ (boosted fission) ہتھیار، نیوٹرون بم (neutron bomb) اور ریڈیولوجیکل بم (radiological bomb) اہم ہیں ۔ عرف عام میں ان کو ’ ڈبلیو ایم ڈی‘ ( Weapon of Mass Destruction ) کہا جاتا ہے ۔
جوہری ہتھیاروں کی دوڑ اِن ملکوں کو اس مقام پر بھی لا چکی ہے جہاں یہ چھوٹے سائز کے جوہری ہتھیار ، جنہیں عرف عام میں ’ مِنی اور مائیکرو نیوکس‘ (Mini & Micro – Nukes ) کہا جاتا ہے بھی بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ یہ ’ منی و مائیکرو نیوکس‘ کیا ہیں ؟ اس بارے میں اتنا جاننا ہی کافی ہو گا کہ ان کا ہدف چھوٹا ہوتا ہے۔ اس کے دھماکے اور تابکاری کا قطر زیادہ علاقے کو متاثر نہیں کرتا ۔ مختلف النوع ’ مِنی و مائیکرونیوکس‘ اب ان تمام ملکوں کے پاس ہیں جو بڑے جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ ان کا دوسرا نام’ ٹیکٹیکل نیوکلئیر ہتھیار‘ (Tactical nuclear weapon) بھی ہے ۔ ان چھوٹے نیوکلیائی ہتھیاروں کی اولین مثالوں میں ایک امریکی ہتھیار W54 نامی بھی تھا جو اس نے 1958ء میں بنایا تھا اور اسے امریکی کانگریس کے ممبر ’ ڈیوی کروکٹ ‘ کے نام سے منسوب کیا تھا ۔ یہ لگ بھگ بیس کلو وزنی تھا جس کی صلاحیت بیس کلو ’ ٹی این ٹی‘ کے برابر تھی ۔ ’ مِنی اور مائیکرو نیوکس ‘ کو’ سوٹ کیس نیوکلیائی ہتھیار ‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ نیوکلیائی ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھنے والے ملک مانیں یا نہ مانیں لیکن ان سب نے ’ منی و مائیکرو نیوکس‘ بنا رکھے ہیں یہاں تک کہ اسرائیل جیسے ملک بھی ایسے ہتھیاروں سے لیس ہیں ۔
جنگ کی صور ت میں کیا برطانیہ یا فرانس ، جن کے درمیان صرف رودباد انگلستان موجود ہے جو’ ڈوور‘ اور ’ کیلی‘ کے مقام پر صرف 35 کلو میٹر کے لگ بھگ چوڑی رہ جاتی ہے ، ایک دوسرے پر بڑے جوہری ہتھیار استعمال کر پائیں گے ؟ کیا پاکستان اور انڈیا ، جن کے شہر جالندھر اور لاہور لگ بھگ 120 کلومیٹر کی فضائی مار پر ہیں ، جنگ کی صورت میں ایسا کر پائیں گے؟ شاید نہیں ۔
سنائپر شوٹنگ’ Sniper Shooting ‘
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ جدید وار فیئر میں ’ Sniper Rifles ' کی کیا اہمیت ہے ؟ لفظ سنائپر ’Sniper‘ برصغیر ہند و پاک میں پائے جانے والے ایک پرندے ’ ٹٹیری‘ ( Snipe) سے نکلا ہے ۔ یہ عام طور پر دریاﺅں اوردلدلی علاقوں میں پایا جانے والا لمبی چونچ رکھنے والا تیتر یا بٹیرکے سائز کا پرندہ ہے اور اس نوع کے پرندے دنیا بھر میں ایسے ہی علاقوں میں پائے جاتے ہیں ۔ 1770 کی دہائی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے سپاہی رائفل سے اپنا نشانہ پکا کرنے کے لئے ’ ٹٹیریوں ‘ کو ہدف بنایا کرتے تھے اور یوں ان پختہ نشانہ رکھنے والے سپاہیوں کو ’ سنائپر‘ (Sniper) کہا جانے لگا اور 1820 کی دہائی کے آغاز میں یہ اُس طرح بطور اصطلاح استعمال ہونے لگا جس طرح جرمن ’Scharfschütze‘ استعمال کرتے تھے جس کا مطلب ’ پکا نشانے باز‘ (Sharp Shooter) بنتا ہے ۔ فوج میں پیدل دستے (Infantry) تو ہمیشہ سے رہے ہیں جن میں تیروں اور تلواروں کی جگہ رائفل اور سنگین نے اس وقت لینا شروع کر دی جب 15 صدی میں جرمنوں کی بدولت رائفل ایجاد ہو چکی تھی۔ اس کے بعد اس میں دیگر چھوٹے ہتھیاروں ، جیسے پستول و ریوالور، کے ساتھ بتدریج تبدیلیاں ہوتی گئیں ۔ اس کی جدید شکلوں کی ترویج میں پہلی و دوسری جنگ عظیم کا بہت ہاتھ ہے ۔ بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں ہونے والی روسیوں اور جاپانیوں کے درمیان ہونے والی جنگ ( فروری 1904 ء تا ستمبر 1905ء ) وہ پہلی جنگ تھی جس میں ایسی رائفلیں استعمال ہوئی تھیں جن سے داغی جانے والی گولی دور تک جاتی تھی ، تیزی سے ہدف پر پہنچتی تھی اور داغتے وقت اس میں سے دھواں بھی نہیں نکلتا تھا لیکن ان روسی و جاپانی رائفلوں کا بھی ایک مسئلہ تھا ۔ یہ اس ہتھیار کی لمبائی تھا جو سنگین کے ساتھ چھ فٹ بنتا تھا ۔ پہلی جنگ عظیم شروع ہونے تک چھوٹی بیرل والی رائفل ( کاربین) ، مشین گن ، سب مشین گن وجود میں آ چکی تھیں ۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمنوں نے MKb-42 رائفل استعمال کرنا شروع کر دی تھی اور اس کے بعد سے اب دنیا بھر میں اسی طرح کی مزید ترقی یافتہ رائفلیں پیدل فوج کے سپاہیوں کے پاس موجود ہیں جو عام طور پر تین سو میٹر کی دوری تک ایک گولی یا گولیوں کی بوچھاڑ کے ذریعے مناسب نشانہ لگانے کی صلاحیت رکھتیں ہیں ۔ یہ استعمال کے اعتبار سے لگ بھگ دس اقسام کی ہیں جبکہ ’سنائپر‘ رائفلزکی اقسام ان کے علاوہ ہیں ۔
’سنائپر‘ رائفلیں ان کے برعکس زیادہ بہتر ہوتی ہیں اور اس نوع کی جدید بندوقوں کے ساتھ دوربینی صلاحیت اب ایک لازم جزو ہے ۔ ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات بھی لگایا جا سکتا ہے کہ خود امریکیوں کے اعداد و شمار کے مطابق انہیں ویت نام میں جنگ کے دوران ایک ' دشمن‘ کو ختم کرنے کے لئے M-16 ہتھیار کے ذریعے اوسطاً پچاس ہزار گولیاں چلانی پڑی تھیں جبکہ ’سنائپر‘ شوٹنگ کے ذریعے ہلاکت کا ہدف حاصل کرنے کے لئے 1.3کی اوسط سامنے آئی تھی ۔
’سنائپر‘ شوٹنگ کی فوجی اہمیت اپنی جگہ یہ غیر فوجی معاملات میں بھی اہم ہے ۔ سیاسی شخصیات کو اہداف بنانے میں ’سنائپرز‘ کا کردار انتہائی اہم رہا ہے ۔ جس کی سب سے اہم مثال امریکی صدر جان ایف کینیڈی ( مئی 1917ء تا نومبر1963ء ) تھا ۔ وہ امریکہ کا واحد رومن کیتھولک صدر تھا ۔ 1960ء کے انتخابات میں منتخب ہو کر اس نے ، سب سے عمر میں کم ، صدر ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا ۔ اس نے اپنے حریف نکسن ، جسے 219 ایلیکٹورل ووٹ ملے تھے ، کے مقابلے میں 303 ووٹ حاصل کئے تھے ۔ بطور صدر اس کا زمانہ کمیونسٹ ممالک کے ساتھ کشیدگی بڑھانے سے منسوب ہے ۔ اسے 22 نومبر 1963 ء کو ڈیلس ، ٹیکساس میں اس وقت ’سنائپر‘ شوٹنگ کے ذریعے قتل کر دیا گیا تھا جب وہ اس شہر کے مرکزی حصے میں واقع ایک سڑک پر اپنی کھلی چھت والی کار میں پوری حفاظتی دستے کے حصار میں جا رہا تھا ۔ ایف بی آئی اور وارن کمیشن کی تحقیقات کے مطابق اسے ایک سنائپر شوٹر ’ لی ہاروے اوس والڈ ‘ نے ’ Texas School Book Depository‘ کی عمارت کی چھٹی منزل سے دو گولیاں مار کر ہلاک کیا تھا ۔ ایک گولی اس کی پشت پر لگی جو اس کے گلے کر چیرتی باہر نکل گئی ۔ دوسری گولی اس کے سر میں لگی تھی ۔ ’ لی ہاروے اوس والڈ ‘ نے خود پر لگے الزام سے انکار کیا تھا ۔ اسے دو روز بعد جیک روبی نامی ایک نائٹ کلب کے مالک نے جیل کی راہداری میں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا ۔ ان دونوں تحقیقات پر خاصی تنقید ہوئی اور یہ کہا گیا کہ کینیڈی کی ہلاکت ایک سنائپر شوٹر کی کاروائی نہیں تھی بلکہ وہ ایک بڑی سازش کے تحت قتل کیا گیا تھا ۔ 1976ء میں بنی HSCA نامی کمیٹی نے کینیڈی کی موت کا ذمہ دار تو ’ اوس والڈ ‘ کو ہی ٹہرایا لیکن ساتھ یہ بھی شامل کر دیا کہ یہ ایک سازش تھی ۔ 1988ء میں امریکہ کے محکمہ انصاف نے البتہ اپنی ایک یادداشت میں اسے سازش کے زمرے سے خارج کر دیا ۔ جان ایف کینیڈی پر 1991 ء میں بنی ’ JFK‘ نامی فلم نے ایک بار پھر بہت سے سوال کھڑے کر دئیے تھے لیکن کینیڈی کی موت کا معمہ آج تک حل نہیں ہو سکا ویسے ہی جیسے اپریل 1968ء میں سنائپر شوٹنگ میں ہلاک ہوئے ’ مارٹن لوتھر کنگ ، جونیئر ‘ اور دسمبر 2007ء میں بے نظیر بھٹو کی اموات کے معمے حل نہیں ہو سکے ۔
آئیے یہ دیکھیں کہ سنائپرز کیوں اورکیسے اہم ہیں ؟
’ سیمو ہےہا‘ (Simo Häyhä) فن لینڈ کا ایک سنائپر شوٹر تھا جس نے سوویت یونین اور فن لینڈ کی ’ موسم سرما کی جنگ ' ( نومبر1939 ءتا مارچ 1940ء ) میں اپنی بِنا دوربین والی رائفل سے 505 سرخ فوجیوں کو ہلاک کیا تھا ۔ اس نے اپنی سب مشین گن سے دو سو کے قریب جو ہلاکتیں کیں وہ اس کے علاوہ تھیں ۔ ’سفید موت‘ کے نام سے مشہور یہ شوٹر 2002 ء میں 96 برس کی عمر میں فوت ہوا ۔ امریکی میرین سارجنٹ ’ کارلوس نارمن ہیتھ کوک ‘ نے ویت نام جنگ میں نوے سے زائد ویت نامیوں کو سنائپر شوٹنگ سے ہلاک کیا تھا ۔ وہ اپنی ٹیلی سکوپ والی مشین گن سے 2400 میٹردور دشمن کو مار گرانے کے لئے بھی مشہور ہے ۔ امریکی نیوی کا ’ کرسِ کائل ‘ اپنی 160 ہلاکتوں کے لئے مشہور ہے ۔ اس نے اپنی سوانح ’ American Sniper‘ بھی لکھی جو چھپنے پربیسٹ سیلر رہی ۔ اس کتاب پر بنی فلم بھی 2014 ء کی ایک کامیاب فلم تھی ۔ اگر آپ اس کی ’ آپ بیتی ‘ پڑھیں یا اس پر بنی فلم دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اسلامی انتہا پسند جو اس وقت افغانستان میں اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے تھے ان کے پاس بھی سنائپر شوٹنگ کی عمدہ صلاحیت موجود تھی ۔ کنیڈین کارپورل ’ روب فرلونگ ‘ اپنی 2,430 میٹر دوری پر موجود ہدف کو سنائپر شوٹنگ سے مار گرانے کے لئے مشہور ہے ۔ اس نے یہ ریکارڈ افغانستان میں جاری آپریشن ایناکونڈا میں مارچ 2002 ء میں قائم کیا تھا ۔ امریکی سارجنٹ ’ ایڈلبرڈ والڈرن ‘ ویت نام جنگ میں اپنی 109 ہلاکتوں کی وجہ سے مشہور ہے ۔ سنائپر شوٹنگ میں سوویت یونین کے نشانے باز بھی پیچھے نہیں رہے ۔ سینئر سارجنٹ ’روزا شانینا ‘ سب سے نوعمر سنائپر شوٹر مانی جاتی ہے جس نے دوسری جنگ عظیم میں 59 جرمنوں کو ہلاک کیا تھا اور خود بھی بیس برس کی عمر میں ان کی ہی گولیوں کا نشانہ بن گئی تھی ۔ وہ فرنٹ لائن پر اپنے ٹارگٹ پر دو لگاتار فائر کرکے اسے ڈھیر کرنے کے لئے مشہور تھی ۔ سوویت سارجنٹ ’ فیودور اوخلوپوف ‘ اپنی 429 ہلاکتوں کے لئے مشہور ہے ۔ ’Liudmyla Mykhailivna Pavlychenko ‘ ایک اور سوویت سنائپر شوٹر تھی ۔ یوکرائن کی یہ شوٹر 309 ہلاکتوں کے لئے مشہور ہے ۔ کیپٹن’ ویزلی زےسیو‘ سٹالن گراڈ کے معرکے میں 225 جبکہ مجموعی طور پر 400 سے زائد جرمنوں کو مار گرانے کے لئے مشہور ہے ۔ ان میں سے اس کے بیشتر اہداف 1000 میٹرسے زائد دوری پر موجود تھے ۔
میں اس تحریر میں کوئی حتمی رائے نہیں دے رہا کہ آج اور مستقبل قریب کے زمانے میں ہونے والی جنگوں میں بڑے نیوکلیائی ہتھیار استعمال ہوں گے یا نہیں ، فوجیں اس طرح ایک دوسرے کے سامنے صف آراء ہوں گی یا نہیں جس طرح بیسویں صدی میں ہونے والی جنگوں میں ہوتی تھیں ، لیکن میرا خیال ہے کہ اب جنگوں کا فیصلہ چھوٹے نیوکلیائی ہتھیاروں (Mini & Micro-Nukes) اور سنائپر شوٹنگ سے ہونے والی ہلاکتوں سے ہو گا جیسے امریکہ نے عراق اور افغانستان میں انہی دو کے استعمال سے اپنی کامیابی کو ممکن بنانا چاہا تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ دو متحارب ملکوں کے سربراہان ’ سر پھرے‘ نکل آئیں اور وہ بڑے نیوکلیائی ہتھیار استعمال کر بیٹھیں ۔ رہا سوال بڑی طاقتوں کا تو وہ ’ معاشی ہتھیاروں ‘ (Economic Weapons) کا استعمال بھی جانتے ہیں جس کے ذریعے پاکستان جیسے چھوٹے ملکوں کو فتح کرنا ان کے لئے بہت آسان ہے اور وہ ان کے استعمال میں خاصے طاق بھی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* یہ بات POF کے سٹال پر موجود اس ادارے کا نمائندہ ہر ایک کو بتاتا ہے ۔
https://www.facebook.com/qaisar.khawar/posts/10153844343656895